Home I Download Font I News Archive I Contact Us I Career I Feedback
  • پی آئی اے کےانجینئرنےنجی ایئرلائن کولاہورایئرپورٹ کےرن وےسےہٹادیا
  • نجی ایئرلائن کوٹھیک کرنےکےلئےکراچی سےماہرین کی ٹیم لاہوربھیجی گئی تھی
  • نجی ایئرلائن کوٹھیک کرنےکےلئےکراچی سےماہرین کی ٹیم لاہوربھیجی گئی تھی
  • نجی ایئرلائن کوٹھیک کرنےکےلئےکراچی سےماہرین کی ٹیم لاہوربھیجی گئی تھی
اہم خبریں

دہشت گردی اور پڑوسی ملک کا ہاتھ

اکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے توجہ ہٹانے کی کوششیں‘ بالواسطہ دہشت گردی کو فروغ دینے اور شدت پسندوں کی سرپرستی کرنے کے مترادف ہیں۔ پاکستان‘ خطے کے ملکوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت پاکستان میں بدامنی پھیلانے اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے میں مصروف ہے۔ تعجب یہ ہے کہ امریکہ بالواسطہ طور پر اس ’’کارِ خیر‘‘ میں بھارت کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ ایسے معاہدے کر رہا ہے کہ جن سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے‘ یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اثر پڑ رہا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان جنگ میں ہزاروں جانی قربانیوں کے علاوہ کھربوں ڈالر جھونک دیئے۔ لیکن اس مرحلے پر بھارت کا کردار اُس کی (امریکہ) تیرہ‘ چودہ سالہ جدوجہد اور کوششوں کو رائگاں کرنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ اگر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں کمزور پڑیں یا جدوجہد نے طوالت اختیار کی تو خطے کے تمام ملکوں کے امن و امان‘ استحکام اور ترقی و خوشحالی پر منفی اثرات پڑیں گے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ان دنوں سہ روزہ 60 ملکی وہائٹ ہائوس کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ میں ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں پریس کانفرنس کے دوران امریکہ اور عالمی برادری کو یہی نکات ذہن نشین کی کوشش کی کہ اگر خدانخواستہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ متاثر ہوئی تو اس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے صاف صاف بتا دیا کہ اس جنگ کو ناکام بنانے کی کوشش کس جانب سے ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا عالمی برادری کے اراکین کے ساتھ تعلقات امریکہ کا استحقاق ہے لیکن بھارت کے ساتھ بعض معاہدوں سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے۔ خطے کے ملکوں کے بارے میں امریکی پالیسی دوغلی ہے۔ وہ چوروں اور تعاقب کرنے والوں کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اگر اُس نے یہی پالیسی جاری رکھی تو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کی مشکلات بھی بڑھ جائیں گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ عالمی برادری بھی لمبے عرصے تک سکھ کا سانس نہیں لے سکے گی۔ صدر اوباما نے کانفرنس سے خطاب کے دوران بڑی پتے کی بات کہی کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں‘ بلاشبہ یہ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ پاکستان کا شروع سے ہی نقطہ نظر رہا ہے کہ دہشت گردوں کو ان کی مذہبی وابستگی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے برے کاموں کی وجہ سے یاد کیا جانا چاہیے۔ لیکن بھارت کا رویہ اس بارے میں بھی مختلف ہے‘ اسے پاکستان کو کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت کی ہر صورت سزا دینا ہے۔ خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ستر سال ہونے کو ہیں۔ وہ نہتے ہونے کے باوجود برسوں سے سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے مؤقف کی حمایت میں عالمی اداروں کی کئی قراردادیں ابھی تک عملدرآمد کی راہ تک رہی ہیں۔ کشمیری اپنے طور پر جنگ آزادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پاکستان نے بین الاقوامی قوانین اور تقاضوں کے پیش نظر انہیں مادی کے بجائے صرف اخلاقی و سیاسی مدد ہی فراہم کی ہے۔ جبکہ بھارت نے 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے باقاعدہ کئی ڈویژن فوج سے چڑھائی کردی تھی۔ تقسیم ہند سے لے کر اب تک بھارت کا پاکستان کے خلاف رویہ‘ معاندانہ چلا آ رہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات‘ علیحدگی پسندوں کے ذریعے ریلوے ٹریک اور گیس کی پائپ لائنیں تباہ کرنا‘ مساجد اور امام بارگاہوں میں دھماکے کرانا اور اس قسم کی دیگر تخریبی سرگرمیوں کے پیچھے ہمیشہ بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ جب سے پاک افواج نے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے۔ بھارت کی طرف سے تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی امداد میں تیزی آ گئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ضرب عضب آپریشن کی کامیابی پر صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ بہرحال امریکہ اور عالمی برادری کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی سے دنیا بھر میں شدت پسندی کے خاتمے کی جدوجہد پر مثبت اثر پڑے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت امریکہ‘ مغربی اور اسلامی ملکوں کے سامنے پیش کردے۔ جب تک عالمی برادری‘ بھارت کو حدود میں رہنے کا پابند نہیں کرے گی پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری جاری رہے گی اور افغانستان میں بھی امن قائم نہیں ہو سکے گا۔

Rate This Adariya

دہشت گردی اور پڑوسی ملک کا ہاتھ

اکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے توجہ ہٹانے کی کوششیں‘ بالواسطہ دہشت گردی کو فروغ دینے اور شدت پسندوں کی سرپرستی کرنے کے مترادف ہیں۔ پاکستان‘ خطے کے ملکوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت پاکستان میں بدامنی پھیلانے اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے میں مصروف ہے۔ تعجب یہ ہے کہ امریکہ بالواسطہ طور پر اس ’’کارِ خیر‘‘ میں بھارت کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ ایسے معاہدے کر رہا ہے کہ جن سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے‘ یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اثر پڑ رہا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان جنگ میں ہزاروں جانی قربانیوں کے علاوہ کھربوں ڈالر جھونک دیئے۔ لیکن اس مرحلے پر بھارت کا کردار اُس کی (امریکہ) تیرہ‘ چودہ سالہ جدوجہد اور کوششوں کو رائگاں کرنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ اگر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں کمزور پڑیں یا جدوجہد نے طوالت اختیار کی تو خطے کے تمام ملکوں کے امن و امان‘ استحکام اور ترقی و خوشحالی پر منفی اثرات پڑیں گے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ان دنوں سہ روزہ 60 ملکی وہائٹ ہائوس کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ میں ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں پریس کانفرنس کے دوران امریکہ اور عالمی برادری کو یہی نکات ذہن نشین کی کوشش کی کہ اگر خدانخواستہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ متاثر ہوئی تو اس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے صاف صاف بتا دیا کہ اس جنگ کو ناکام بنانے کی کوشش کس جانب سے ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا عالمی برادری کے اراکین کے ساتھ تعلقات امریکہ کا استحقاق ہے لیکن بھارت کے ساتھ بعض معاہدوں سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے۔ خطے کے ملکوں کے بارے میں امریکی پالیسی دوغلی ہے۔ وہ چوروں اور تعاقب کرنے والوں کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اگر اُس نے یہی پالیسی جاری رکھی تو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کی مشکلات بھی بڑھ جائیں گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ عالمی برادری بھی لمبے عرصے تک سکھ کا سانس نہیں لے سکے گی۔ صدر اوباما نے کانفرنس سے خطاب کے دوران بڑی پتے کی بات کہی کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں‘ بلاشبہ یہ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ پاکستان کا شروع سے ہی نقطہ نظر رہا ہے کہ دہشت گردوں کو ان کی مذہبی وابستگی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے برے کاموں کی وجہ سے یاد کیا جانا چاہیے۔ لیکن بھارت کا رویہ اس بارے میں بھی مختلف ہے‘ اسے پاکستان کو کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت کی ہر صورت سزا دینا ہے۔ خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ستر سال ہونے کو ہیں۔ وہ نہتے ہونے کے باوجود برسوں سے سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے مؤقف کی حمایت میں عالمی اداروں کی کئی قراردادیں ابھی تک عملدرآمد کی راہ تک رہی ہیں۔ کشمیری اپنے طور پر جنگ آزادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پاکستان نے بین الاقوامی قوانین اور تقاضوں کے پیش نظر انہیں مادی کے بجائے صرف اخلاقی و سیاسی مدد ہی فراہم کی ہے۔ جبکہ بھارت نے 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے باقاعدہ کئی ڈویژن فوج سے چڑھائی کردی تھی۔ تقسیم ہند سے لے کر اب تک بھارت کا پاکستان کے خلاف رویہ‘ معاندانہ چلا آ رہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات‘ علیحدگی پسندوں کے ذریعے ریلوے ٹریک اور گیس کی پائپ لائنیں تباہ کرنا‘ مساجد اور امام بارگاہوں میں دھماکے کرانا اور اس قسم کی دیگر تخریبی سرگرمیوں کے پیچھے ہمیشہ بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ جب سے پاک افواج نے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے۔ بھارت کی طرف سے تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی امداد میں تیزی آ گئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ضرب عضب آپریشن کی کامیابی پر صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ بہرحال امریکہ اور عالمی برادری کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی سے دنیا بھر میں شدت پسندی کے خاتمے کی جدوجہد پر مثبت اثر پڑے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت امریکہ‘ مغربی اور اسلامی ملکوں کے سامنے پیش کردے۔ جب تک عالمی برادری‘ بھارت کو حدود میں رہنے کا پابند نہیں کرے گی پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری جاری رہے گی اور افغانستان میں بھی امن قائم نہیں ہو سکے گا۔

Rate This Adariya

آج کے کالم اور مضامین

تیاریاں ہی تیاریاں
نذیر ناجی (سویرے سویرے)

تیاریاں ہی تیاریاں
نذیر ناجی (سویرے سویرے)

تیاریاں ہی تیاریاں
نذیر ناجی (سویرے سویرے)

تیاریاں ہی تیاریاں
نذیر ناجی (سویرے سویرے)


اسپیشل فیچرز

مائی ہیرکامسکن

نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...

مائی ہیرکامسکن

نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...

مائی ہیرکامسکن

نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...

مائی ہیرکامسکن

نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...

مائی ہیرکامسکن

نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...

Roznama Dunya Gallery
  • 16-01-2015

  • 17-01-2015