اسد سلیم شیخ
اب ہم مال روڈ کے کلب چوک پر کھڑے تھے۔ ہمارے دائیںجانب یعنی مال روڈ کے جنوبی طرف کلب روڈتھی اور بائیںجانب یعنی مال روڈ کے شمالی طرف سر آغا خاں روڈ تھی جو آج بھی اپنے پرانے ڈیوس روڈ کے نام سے مشہور ہے۔ کلب روڈ پر پولیس کا سخت پہرہ تھا اور ہر آنے جانے والے سے پوچھ گچھ کی جارہی تھی۔ اس سڑک کا نام اس وجہ سے ’’کلب روڈ‘‘ ہے کہ یہاں پنجاب کلب قائم ہوا جو کسی زمانے میں گورنر ہائوس اور ایچی سن کالج کے درمیان موجودہ ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج کی عمارت میں ہوا کرتا تھا، مگر یہاں پولیس کی کڑی نگرانی کی وجہ یہ ہے کہ اس سڑک کے ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفاتر ہیں جو ایک سے لے کر آٹھ کلب روڈ پر واقع ہیں۔ اور اسی جانب لاہور ہائی کورٹ کے ججوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کا رہایشی علاقہ ’’جی او آر‘‘ ہے۔ یہ خوب صورت رہائشی علاقہ انگریزی عہد میں افسران کی رہائش کے لیے تعمیر ہواتھا۔ یہیں چمبہ ہائوس بھی ہے ،جو پنجاب اسمبلی کے ممبران کا ہوسٹل ہے۔ چمبہ ہائوس کے عقب سے جانے والی ایک سڑک چمبالین ہے۔ جہاں قیامِ پاکستان سے بہت پہلے سے لے کر2008ء تک ذخیرہ درختاں اور نرسریاں موجود تھیں۔ چمبالین میں داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت شاہ شمس کاری کا صدیوں پرانا مزار واقع ہے۔ پاکستان بننے کے بعد مزار کے اطراف ایک وسیع و عریض کچی آبادی قائم ہو چکی ہے۔ کلب روڈ پر مشہور نرسنگھ داس بلڈنگ ہے جس میں ادارئہ ثقافت ِ اسلامیہ، مجلسِ ترقی ادب، پنجابی ادبی بورڈ اور بزمِ اقبال قائم ہیں۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1849ء میں لاہور پر قبضہ کیا، تو کمپنی نے سول آفیسرز کے لیے سب سے پہلے ریٹی گن روڈ پر رہایش گاہیں تعمیر کیں۔ جب کچھ برسوں بعد میاں میر چھائونی قائم ہوئی اور فوجی افسران یہاں منتقل ہو گئے تو سول افسران بھی ریٹی گن کے علاقے سے منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے گزیٹڈ آفیسرز کی رہائشیں جیل روڈ اور ریس کورس روڈ کے درمیانی علاقے میں وجود میں آئیں۔ یہ جگہ اس لیے پسندکی گئی کہ انگریز افسران کی بیگمات پارک میں جا کر سیروتفریح کے لیے جا سکیں اور پھر پنجاب کلب بھی قریب تھا۔1914ء میں گورنمنٹ آفیسرز کی رہایشوں کے لیے موجودہ ’’جی او آر‘‘ کی جگہ کا انتخاب ہوا۔ پہلے یہاں میو گارڈن تھا۔1918ء تک چھ گھر تعمیر ہوئے۔ درخت لگائے گئے۔ ٹیلی گراف آفس بنا، مارکیٹیں قائم ہوئیں۔1919ء میں مزید تین گھر بنائے گئے۔ بعدازاں چیف سیکرٹری پنجاب کا خوب صورت گھر تعمیر ہوا۔1936ء میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی رہائش گاہ مکمل ہوئی، پھر پنجاب کے وزیر خزانہ کے لیے گھر تعمیر ہوا۔ یہی گھر اب وزیر اعلیٰ پنجاب کی سرکاری رہایش گاہ ہے۔اس کے بعد سیکرٹریوں کے لیے اے ٹائپ گھر تعمیر ہوئے۔ رفتہ رفتہ جی او آر میں توسیع ہوتی رہی اور یہ پھیل کر جی او آر6تک پھیل چکی ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر اور تحریک ِ پاکستان کے رہنما سر آغا خاں کے نام سے موسوم سر آغا خاں روڈ کا پرانا اور عوامی نام ڈیوس روڈ ہے۔ سر ہنری ڈیوس1871ء سے لے کر1877ء تک پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر رہے تھے۔ ان ہی کے نام سے انگریزی عہد میں یہ سڑک موسوم کی گئی تھی۔ یہاں تجارتی مراکز کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ کا مرکزی دفتر، سکوایش کورٹ اور جنگ اخبار کے دفاتر ہیں۔ کسی زمانے میں یہ بڑی خاموش اور پُرسکون سڑک ہوتی تھی۔ شور کی لہروں نے اس سڑک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور گزرتے ہوئے یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی سڑک ہے۔ بقول اے حمید ڈیوس روڈ جو شملہ پہاڑی سے قائد اعظم روڈتک آتی ہے، اس کے دونوں اطراف ایک ہی قسم کے درخت ساتھ ساتھ اُگے ہوئے تھے اور وہ مال روڈ تک آتے تھے۔ ان درختوں پر مارچ اپریل کے دنوں میں اس قدر سُرخ پھول نکلتے تھے کہ سارے کے سارے سُرخ ہو جاتے۔ ان لال پھولوں کو ’’چڑی پُھل‘‘ کہا جاتا۔ سڑک کے دونوں طرف سُرخ اینٹوں کے چھوٹے فٹ پاتھ تھے۔ بہار کے دنوں میں یہ سارے فٹ پاتھ چڑی پھولوں سے بھر جاتے تھے۔ ذرا سی ہوا چلتی تو درختوں کی ٹہنیوں سے پھول گرنے لگتے۔ یہ سڑک گرمیوں، سردیوں میںسُنسان رہتی۔ کبھی کبھی تانگا گذرتا۔یہ تانگا شملہ پہاڑی سے مال روڈ کے چوک تک جاتا نظر آتا تھا۔ ٹاواں ٹاواں آدمی بھی کبھی کبھی فٹ پاتھ پر چلتا نظر آجاتا۔ پھر جب لاہور نے بڑھنا شروع کیا تو ٹریفک کا سیلاب دُور سے ہی اک لہر کی شکل میں شہر لاہور میںداخل ہوا تو اس نے آہستہ آہستہ سارے لاہور شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دیکھتے دیکھتے سڑکوں کی شکلیں بدل گئیں۔ ڈیوس روڈ کس طرح محفوظ رہ سکتی تھی۔ پہلے اس سڑک کے اردگرد کے درخت کاٹ دیئے گئے اور فٹ پاتھ کو ہٹا کر سڑک چوڑی کر دی گئی۔ ٹریفک کا شور پھر بھی کم نہ ہوا تو دوسری طرف کا فٹ پاتھ بھی اس کی زد میں آ گیا۔ اس طرف کے چڑی پھولوں کے درختوں پر بھی آری چل گئی۔ درخت کٹ گئے، سڑک چوڑی ہو گئی۔ آج یہ سڑک پہچانی نہیںجاتی۔ صبح سے شام تک اس سڑک پر سوائے شور مچاتی ،مٹی اڑاتی ویگنوں، کاروں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ پیدل چلنے والے تیز رفتار ہارن دیتی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور ویگنوں سے اِدھر اُدھر جان بچاتے پھرتے ہیں۔ دونوں اطراف سے عمارتیں ہی عمارتیں نکل آئی ہیں۔ جن فٹ پاتھوں پر کبھی سُرخ پھول گرتے رہتے تھے وہ اب ’’تار کول‘‘ کی سڑک کے نیچے دفن ہیں۔ کچھ سرخ پھولوں کے درخت نشانی کے طور پر آج بھی سڑک سے ذرا ہٹ کر کھڑے ہیں۔ گرداور مٹی سے بھرے ہوئے یہ درخت حیران اور پریشان کھڑے ہیں۔ نہ یہ پہچانے جاتے ہیں نہ ان سے یہ ڈیوس روڈ پہچانی جاتی ہے۔ ہم ڈیوس روڈ کی طرف منھ کر کے سوچنے لگے کہ اگر قومیں درخت کاٹنے، سڑکیں ۔چوڑی کرنے اور لمبی لمبی گاڑیاں لے آنے سے ترقی کرتی ہیں تو پھر ہم نے بھی بڑی ترقی کی ہے۔ ( کتاب’’ٹھنڈی سڑک:مال روڈ لاہور کا تاریخی ، ثقافتی اور ادبی منظر نامہ‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭


نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...
نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...
نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...
نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...
نیا شہر، نئے رنگ، رسم و رواج اور مزے مزے کے انداز…...