تازہ اسپیشل فیچر

پاک روس تعلقات! تعاون کا نیا دور

اسلام آباد: (مریم الہٰی) پاکستان اور روس کے مابین حالیہ پیش رفت اس بات کی عکاس ہے کہ روس اور پاکستان کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں جو عملی اور باہمی ضروریات پر مبنی ہیں۔

تاریخی طور پر ان دونوں ممالک کے تعلقات سرد جنگ کے زمانے میں سرد مہری کا شکار رہے جب دونوں ممالک اپنے اپنے اتحادوں کے ساتھ وابستہ تھے، تاہم اب عالمی جغرافیائی حالات میں تبدیلی آئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کی اسٹریٹجک اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔

روس کے وزیراعظم کی اسلام آباد میں حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس میں شرکت اس تبدیلی کی ایک بڑی علامت تھی، اس کے علاوہ روسی فیڈریشن کونسل کی سپیکر ویلین ٹینا میٹویئنکو کا پاکستان کا دورہ اور پاکستان کے سینیٹ میں ان کا خطاب اس تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا ہے۔

میٹویئنکو نے اپنے خطاب میں توانائی، تعلیم اور پارلیمانی تبادلوں سمیت کئی اہم شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا جو دونوں ممالک کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گا، یہ بات واضح ہے کہ روس عام طور پر ایسے ممالک یا علاقائی معاملات میں دلچسپی نہیں لیتا جہاں ان کے مفادات شامل نہ ہوں۔

ان کی حالیہ بین الاقوامی شمولیت اور پاکستان کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون یہ ظاہر کرتا ہے کہ روس اس خطے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں واقعی دلچسپی رکھتا ہے، روس کا عمومی مزاج کم میل جول کا ہے اور اگر ان کی کوئی اسٹریٹجک یا اقتصادی دلچسپی نہ ہو تو وہ زیادہ روابط نہیں بڑھاتے، روس اور پاکستان کے درمیان حالیہ تعمیری شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ روس اس خطے میں اپنا مقام مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔

اگر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی معاملات کامیابی سے آگے بڑھتے ہیں تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان آنے والے سالوں میں ایس سی او کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے دوران صدر پیوٹن کی میزبانی کرے، روس اور پاکستان کے تعلقات کا مرکز ان کے باہمی اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات ہیں۔

یوکرین جنگ کے بعد روس کی مغرب سے تعلقات میں خرابی اور اقتصادی پابندیوں نے ماسکو کو نئے تجارتی اور سیاسی اتحادیوں کی تلاش پر مجبور کیا، دوسری طرف پاکستان جو اپنی توانائی کی کمی اور اقتصادی چیلنجز سے دوچار ہے روس کے ساتھ تعاون میں دلچسپی رکھتا ہے، حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے اور روس نے جون 2023 میں پاکستان کو رعایتی تیل کی پہلی کھیپ بھیجی جس سے اقتصادی تعلقات میں مزید وسعت دیکھنے میں آئی۔

تاہم کچھ چیلنجز اب بھی موجود ہیں، جیسے کہ پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ جو 2015 میں طے پایا تھا لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا، اس کی وجہ روس پر عائد پابندیاں بھی ہو سکتیں ہیں، اس کے باوجود دونوں ممالک توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے پرعزم ہیں اور اس معاملے پر بات چیت جاری ہے، پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات اور روس کے پاس موجود قدرتی وسائل کے پیش نظر دونوں ممالک کے مفادات میں ہم آہنگی واضح ہے۔

روس کا پاکستان کی جانب بڑھتا ہوا رجحان وسیع تر اسٹریٹجک مقاصد کی عکاسی کرتا ہے، روس نے جنوبی ایشیا میں پاکستان کو ایک اہم شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا ہے، خاص طور پر اپنے "گلوبل ساؤتھ" کی پالیسی کے تناظر میں پاکستان کو اہم سمجھتا ہے۔

حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات کا دائرہ تجارت سے بڑھ کر دفاع، تعلیم اور کثیر الجہتی فورمز تک پھیل چکا ہے، روس اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک تعاون شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے فورمز میں بھی نمایاں ہے۔

دونوں ممالک نے افغانستان میں استحکام کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے، ویلین ٹینا میٹویئنکو کے دورے نے تعلیم اور پارلیمانی تعاون کو مزید فروغ دینے پر بھی زور دیا جس سے اس تعلقات کی مضبوطی کے مزید امکانات کھلتے ہیں۔

چیلنجز کے باوجود روس اور پاکستان کے تعلقات کی موجودہ سمت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے اسٹریٹجک اور اقتصادی مفادات مشترکہ ہیں، حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتیں، پارلیمانی تبادلے اور تعاون کے امکانات ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں جہاں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں تنوع لانے اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

آنے والے کچھ مہینے اس تعلقات میں مزید مضبوطی اور مختلف شعبوں میں شراکت داری کے نئے مواقع لے کر آئیں گے جو علاقائی سفارت کاری اور عالمی اقتصادی حکمت عملیوں میں اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں۔