شکاری ایپس عالمی خطرہ قرار

شکاری ایپس عالمی خطرہ قرار

موبائل ایپلی کیشنز (ایپس) نے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہماری روزمرہ کی زندگی کو آسان اور بہتر بنا دیا ہے۔ ان ایپس کی مدد سے ہم اپنے مختلف کاموں کو تیزی سے اور آسانی سے مکمل کر سکتے ہیں، چاہے وہ تفریح ہو، کام کاج ہو یا تعلیم۔ یہ ایپس موبائل فونز پر انسٹال کی جاتی ہیں اور مختلف ضروریات کے مطابق اپنی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ موبائل ایپس نے انسان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ موبائل ایپس نے جہاں انسانی زندگیوں کو فائدہ پہنچایا ہے وہیں بہت سی ایپس ایسی بھی ہیں جنہوں نے انسانی زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ ماہرین نے ان ایپس کو "شکاری ایپس" کا نام دیا ہے ۔ "شکاری ایپس" وہ ایپلی کیشنز ہوتی ہیں جو صارفین کو دھوکہ دے کر ان کی حساس معلومات چوری کرتی ہیں یا انہیں مالی نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ ایپس عام طور پر جھوٹے وعدے جیسے فوری قرض یا کم شرح سود کے ساتھ صارفین کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں، اور بعد میں ان کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایپس عام طور پر بڑی مہارت سے ڈیزائن کی جاتی ہیں تاکہ صارفین کو ان پر اعتماد ہو اور وہ انہیں اپنے اسمارٹ فونز میں ڈاون لوڈ کریں۔ "شکاری ایپس" کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صارفین کے مفاد میں نظر آتی ہیں، مگر دراصل ان کا مقصد مالی فائدہ اٹھانا یا معلومات کا غلط استعمال کرنا ہوتا ہے۔مالی فائدے کے وعدےشکاری ایپس موبائل صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے پر کشش دعوے کرتی ہیں۔ جیسا کہ فوری قرضوں، کم شرح سود یا دیگر مالی فائدوں کے جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ یہ وعدے اس قدر پرکشش ہوتے ہیں کہ صارفین ان ایپس کو ڈاون لوڈ کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔حساس معلومات تک رسائی جب صارف ایپس کو اپنے اسمارٹ فونز میں انسٹال کرتا ہے، تو ایپ ان کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کرتی ہے جیسے بینک اکاو¿نٹ کی تفصیلات، کریڈٹ کارڈ کی معلومات، ذاتی شناختی دستاویزات، یا رابطہ نمبر وغیرہ۔اجازتوں کا غلط استعمال شکاری ایپس صارفین سے ایسی اجازتیں حاصل کرتی ہیں جو ان کےلئے غیر ضروری ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایپ کو کال لاگ، پیغامات یا دیگر حساس ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دینا۔مقصد: ان ایپس کا مقصد صارف کی معلومات کو چوری کرنا، صارف کو غیر قانونی طریقوں سے قرضوں میں جکڑنا یا ان کی مالی حیثیت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ ایپس صارفین کو غیر قانونی مالی معاہدوں میں پھنساتی ہیں۔غلط تجزیہ اور تاثراتشکاری ایپس عام طور پر مثبت ریویوز اور 5 سٹار کی درجہ بندی کے ساتھ آتی ہیں تاکہ صارفین کو ان پر اعتماد ہو۔ یہ تبصروں میں خود کو حقیقی اور قانونی ایپ کی طرح ظاہر کرتی ہیں۔سائبر سیکیورٹی کمپنی McAfee نے 15 نقصان دہ ایپس کی نشاندہی کی ہے جو کم از کم 80 لاکھ اینڈرائیڈ فونز پر ڈاون لوڈ کی گئی ہیں اور "شکاری قرض ایپس کے عالمی سطح پر نمایاں اضافے" کے بارے میں خبردار کیا ہے۔کمپنی کے مطابق لاکھوں افراد خطرے میں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اسمارٹ فونز پر خطرناک ایپلی کیشنز ڈاون لوڈ کی ہیں۔ McAfee نے ان ایپس کو "ایک عالمی خطرہ"قرار دیا ہے۔ ان میں سے کچھ ایپس گوگل پلے اسٹور سے ہٹا دی گئی ہیں، جبکہ دیگر کو ڈویلپرز نے صرف اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔سائبر سیکیورٹی فرم ESET نے گزشتہ سال اسپائی لون ایپس کے بارے میں ایک وارننگ جاری کی تھی، جن میں سے 17 ایپس گوگل پلے اسٹور میں چھپی ہوئی پائی گئی تھیں، اور اینڈرائیڈ صارفین کو ان ایپس کو حذف کرنے کی ترغیب دی تھی۔شکاری ایپس ایک عالمی سنگین خطرہ ہیں جو صارفین کی معلومات اور مالی حالت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان سے بچاو کےلئے محتاط رہنا ضروری ہے اور ہمیشہ سیکیورٹی کے بہترین طریقوں پر عمل کرنا چاہیے۔

سوئی تو شہزادی بیدار ہوئی تو ملکہ

سوئی تو شہزادی بیدار ہوئی تو ملکہ

یہ20جون 1837ءکی ایک دم توڑتی ہوئی رات کا وقت ہے۔ ابھی سپیدہ سحر اچھی طرح نمودار نہیں ہوا تھا کہ اچانک خواب گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ پیغامبر نے کہا کہ شہزادی صاحبہ اٹھئے، شاہی محل میں تشریف لائیں، برطانیہ کا تاج و تخت آپ کا منتظر ہے۔ کیونکہ بادشاہ سلامت آپ کے چچا(ولیم چہارم) کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہو چکا ہے۔ شہزادی نے ہلکی سی غنودگی کی حالت میں شاہی فرمان سنا۔ منہ ہاتھ دھویا، شاہی لباس زیب تن کیا اور خادمہ کے ہمراہ بکنگھم پیلس کو چل دی۔شہزادی الیگزینڈرینا وکٹوریہ کو رات سوتے وقت کیا پتہ تھا کہ صبح جب آنکھ کھلے گی تو تاج برطانیہ اس کا منتظر ہوگا۔ وہ جب سوئی تو ایک شہزادی تھی لیکن جب صبح 6بجے بیدار ہوئی تو ایک ملکہ تھی۔ اسے کہتے ہیں "تقدیر کے کھیل نرالے"۔ اس طرح 18سال کی عمر میں ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی حکمران بن گئی۔ملکہ وکٹوریہ 24مئی 1819ءکو کنسنگٹن پیلس میں پیدا ہوئی۔ اس کا پیدائشی نام الیگزینڈرنیا وکٹوریہ تھا۔ رینا اس کا نک نیم تھا۔ ان کا والد پرنس ایڈورڈڈ یوک آف کینٹ، جارج سوم کا چوتھا بیٹا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کی والدہ شہزادی ماریہ لوئیس جرمن نژاد خاتون تھی۔ ابھی وکٹوریہ کی عمر ایک سال ہی تھی کہ اس کا والد فوت ہو گیا۔ملکہ وکٹوریہ نے اپنی تعلیم کسی سکول یا کالج سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ محل میں ایک گورنس مقرر کر دی گئی تھی۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ نے اسی سے حاصل کی۔ وکٹوریہ کو اپنی 18ویں سالگرہ منائے ابھی ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ جون 1837ءمیں وہ تاج و تحت برطانیہ کی وارث ٹھہری۔ تاج پوشی کی رسم ایک سال بعد ویسٹ منسٹرایبے میں جون 1838ءمیں ہوئی۔1936ءمیں وکٹوریہ کی سترہویں سالگرہ کے موقع پر وکٹوریہ کی البرٹ سے ملاقات ہوئی۔ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ وکٹوریہ البرٹ کو دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو گئی۔ ملکہ وکٹوریہ نے البرٹ کو شادی کا پیغام دیا۔ البرٹ نے ملکہ وکٹوریہ کا پیغام بسر و چشم قبول کیا۔ شہزادہ البرٹ ملکہ وکٹوریہ کا فرسٹ کزن تھا۔10فروری 1840ءکو ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اس وقت ملکہ وکٹوریہ کی عمر 21سال تھی۔ ان کی شادی کا کیک300پاﺅنڈ وزنی تھا۔ ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ کے ہاں 9بچے (پانچ بیٹیاں، چار بیٹے)پیدا ہوئے۔پرنس البرٹ 14دسمبر1861ءکو نمونیہ سے فوت ہوا۔ اس وقت ملکہ کی عمر 42سال تھی۔ یعنی صرف 21برس وہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک رہے۔ جوانی میں ملکہ وکٹوریہ کا بیوہ ہو جانا کسی بھاری صدمے سے کم نہ تھا۔ اپنے خاوند کی وفات کے بعد ملکہ نے شاہی طمطراقی لباس کو خیر باد کہہ کر سیاہ لباس پہننا شروع کردیا۔ رعایا سے ایک طرح کٹ کے رہ گئیں۔ البتہ امور حکومت اپنے وقت پر انجام دیتیں۔ ملکہ وکٹوریہ نے ایک طویل عرصہ حکومت کی،ان کا دور حکومت 64سال (63سال 7ماہ 3دن) پر محیط تھا۔ملکہ وکٹوریہ نے برطانیہ سکاٹ لینڈ آئرلینڈ کے علاوہ نو آبادیات آسٹریلیا، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور برصغیر انڈیا پر برمنگھم پیلس بیٹھے ہوئے حکمرانی کی۔ ملکہ وکٹوریہ یہ اپنی زندگی میں کبھی انڈیا نہیں گئی۔ حالانکہ اس نے قیصر ہند کا خطاب پایا۔ ملکہ کے دور حکومت میں اس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر ایک طرف غروب ہوتا تھا تو دوسری طرف طوع ہو رہا ہوتا تھا۔ کہاں آسٹریلیا اور کہاں جنوبی افریقہ، برطانیہ اور کینیڈا۔ملکہ ایک مسحور کن شخصیت کی مالکہ تھی۔ ملکہ وکٹوریہ نے عہد حکومت میں عنانِ اقتدار پر کبھی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دی۔ حالانکہ وہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور ایک طرح گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ اس کے عہد حکومت میں ایک صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ معاشی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیسن، تعلیم اور تعمیرات میں بہت ترقی ہوئی۔ اس کے دور میں ایسے ایسے ماہر فن کار، سائنس دان اور سیاست دان پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے علم کا دنیا میں لوہا منوایا۔ ملکہ وکٹوریہ کے دور حکومت کو تاریخ میں Victorian Eraکہا جاتا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کا عہد ایک طرح کا تاریخ ساز عہد تھا۔ جا بجا سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں معرض وجود میں آئیں۔ملکہ وکٹوریہ کی زندگی میں اس پر آٹھ قاتلانہ حملہ ہوئے مگر وہ سب حملے ناکام ثابت ہوئے۔ آخر کار 22جنوری 1801ءکو ملکہ اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔

آج کا دن

آج کا دن

لاسارنو معاہدہ (Treaty of Locarno)1 دسمبر 1925ءکو"لاسارنو معاہدہ" پر لندن میں باضابطہ طور پر دستخط کئے گئے۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سفارتی معاہدہ تھا جو اکتوبر 1925ءمیں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاسارنو میں طے پایاتھا۔ اس معاہدہ کے فریقین میں جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور بیلجیم شامل تھے۔ معاہدے کا مقصد پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ میں امن قائم کرنا اور مستقبل کے تنازعات کو روکنا تھا۔ جرمنی نے فرانس اور بیلجیم کے ساتھ اپنی مغربی سرحدوں کو تسلیم کیا اور ان پر حملہ نہ کرنے کا عہد کیا۔ یوگوسلاویہ: فضائی حادثہ یکم دسمبر1987ءکو یوگوسلاویہ ایئر لائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ جزیرہ کورسیکا میں گر گیا جس میں178 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ پرواز معمول کے مطابق یوگو سلاویہ سے مغربی یورپ کے کسی شہر کی طرف روانہ تھی اور راستے میں کورسیکا کے قریب حادثے کا شکار ہو گئی۔یہ حادثہ یوگوسلاویہ کی تاریخ میں ایک افسوسناک واقعہ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، حادثے کی ایک بڑی وجہ خراب موسم تھی جبکہ حادثے کے بعد کی رپورٹ میں پائلٹ کی ممکنہ غلطی یا نیویگیشن کی خامیوں کو بھی زیر غور لایا گیا۔ پیرس میں جدید سینما کی تعمیر1906ءمیں پیرس میں دنیا کا پہلا جدیدسینما گھر کھولا گیا۔یہ سینما فلم بینی کےلئے مخصوص جدید عمارتوں میں سے ایک تھا۔ فرانس سینما کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لومیئر برادران، جو سینما کے بانیوں میں شامل ہیں نے بھی فرانس میں فلمی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔پہلی کاراسمبلی لائن کا آغاز 1913ءمیں آج کے روز فورڈ موٹر کمپنی نے دنیا کی پہلی موٹر اسمبلی لائن متعارف کرائی۔ہنری فورڈ نے 1903ءمیں فورڈ موٹر کمپنی قائم کی تھی۔ یہ کمپنی جلد ہی آٹو موبائل انڈسٹری میں سب سے نمایاں ادارہ بن گئی۔ہنری فورڈ نے اسمبلی لائن کا تصور متعارف کرایا، جس کے ذریعے گاڑیاں بنانے کا عمل نہایت موثر اور تیز ہوا۔ اس تکنیک نے مزدوروں کی پیداواریت میں اضافہ کیا اور کاروں کی قیمت کو کم کر دیا۔ 

30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

کمپیوٹر سکیورٹی جسے سائبر سکیورٹی یا آئی ٹی سکیورٹی بھی کہا جاتا ہے، وہ عمل ہے جس کے ذریعے کمپیوٹر سسٹمز، نیٹ ورکس اور ڈیٹا کو غیر مجاز رسائی، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جدید دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، کمپیوٹر سکیورٹی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ہماری معلومات کو محفوظ رکھتی ہے، چاہے وہ ذاتی ہو یا پیشہ ورانہ۔ یہ ہیکرز، میلویئر، اور دیگر سائبر خطرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور مالی نقصانات اور قانونی پیچیدگیوں سے بچاتی ہے۔کمپیوٹرز سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہاس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے ایک دن مختص ہے جو ''کمپیوٹرز کی حفاظت کے عالمی دن‘‘ یا ''کمپیوٹر سکیورٹی ڈے‘‘ کے عنوان سے ہر سال 30نومبرکو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد کمپیوٹر صارفین کو اپنے کمپیوٹرز میں موجود قیمتی ڈیٹا، پروگرامز اور ہارڈویئرکو وائرس اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین کمپیوٹر صارفین کو کمپیوٹر سافٹ ویئر، کمپیوٹر ز سکیورٹی اور اس سے متعلقہ مفیدمعلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ دن منانے کا آغاز 1988ء سے ہوا تھا۔کمپیوٹر سکیورٹی کی اقسامکمپیوٹر سکیورٹی آج کے دور میں نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارا ذاتی اور پیشہ ورانہ ڈیٹا خطرے میں رہتا ہے۔کمپیوٹر سکیورٹی کئی اقسام پر مشتمل ہے، جن میں سے اہم درج ذیل ہیں۔نیٹ ورک سکیورٹی:یہ نیٹ ورک کو غیر مجاز رسائی اور حملوں سے بچانے کیلئے اقدامات کرتی ہے۔ اس میں فائر وال، اینٹی وائرس اور وی پی این شامل ہیں۔ڈیٹا سکیورٹی:یہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ڈیٹا محفوظ اور خفیہ رہے اور صرف مستند صارفین تک رسائی حاصل کر سکیں۔ایپلی کیشن سکیورٹی:سافٹ ویئر یا ایپلیکیشنز میں موجود کمزوریوں کو دور کرنا تاکہ ہیکرز ان کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔انفارمیشن سکیورٹی:معلومات کو غیر مجاز ترمیم، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھنا۔کلاؤڈ سکیورٹی:کلاؤڈ میں اسٹور کیے گئے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات، جیسے ڈیٹا انکرپشن اور کلاؤڈ سروس فراہم کرنے والے کی سکیورٹی پالیسیاں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک محفوظ ڈیجیٹل دنیا کا قیام ممکن ہو سکے۔فائر وال کا استعمال کریں:ونڈوز میں فائر وال پہلے سے موجود اور خودکار طور پر فعال ہوتا ہے۔ یہ غیر مجاز رسائی کو روکنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کے کمپیوٹر کی حفاظت کرتا ہے۔تمام سافٹ ویئر کو اپڈیٹ رکھیں: ونڈوز اپڈیٹ میں خودکار اپڈیٹس کو آن کریں تاکہ ونڈوز، مائیکروسافٹ آفس، اور دیگر مائیکروسافٹ ایپلی کیشنز اپڈیٹ رہیں۔غیر مائیکروسافٹ سافٹ ویئر کیلئے بھی خودکار اپڈیٹس کو آن کریں، خاص طور پر ویب براؤزرز، ایڈوب ایکروبیٹ ریڈر اور وہ ایپس جو آپ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔اینٹی وائرس کا استعمال : اگر آپ ونڈوز استعمال کرتے ہیں، تو آپ کے ڈیوائس پر پہلے سے ہی ونڈوز سیکیورٹی یا ونڈوز ڈیفنڈر سیکیورٹی سینٹر موجود ہوتا ہے۔اسے اپڈیٹ اور فعال رکھیں تاکہ وائرس اور دیگر میلویئر سے حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔اگر آپ اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنا اور آن لائن خطرات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات پر عمل کریں۔ مضبوط پاسورڈز:اپنے پاس ورڈز کو محفوظ اور محتاط طریقے سے منتخب کریں ۔الفاظ، حروف اور نمبروں کے امتزاج پر مبنی مضبوط پاسورڈز استعمال کریں اور انہیں باقاعدگی سے تبدیل کریں۔مشکوک لنکس:مشکوک لنکس پر کلک نہ کریں۔یہ ای میل، ٹویٹس، پوسٹس، آن لائن اشتہارات، یا پیغامات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی خود کو قابل اعتماد ذرائع کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ویب براؤزنگ میں محتاط رہیں: ایسی ویب سائٹس سے پرہیز کریں جو غیر قانونی مواد فراہم کرتی ہیں، کیونکہ ان میں اکثر میلویئر انسٹال کیا جاتا ہے یا ایسے ڈاؤن لوڈز پیش کیے جاتے ہیں جن میں میلویئر ہوتا ہے۔جدید براؤزرکا استعمال : جدید براؤزر استعمال کریں،جیسے مائیکرو سافٹ ایج، جو خطرناک ویب سائٹس کو بلاک کرنے اور آپ کے کمپیوٹر پر نقصان دہ کوڈ چلنے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔غیر قانونی مواد سے دور رہیں:فلمیں، موسیقی، کتابیں یا ایپلی کیشنز ایسی جگہوں سے اسٹریم یا ڈاؤن لوڈ نہ کریں جو قابل اعتماد نہ ہوں۔ ان میں میلویئر موجود ہو سکتا ہے۔USB کا استعمال: یا دیگر خارجی آلات استعمال نہ کریں جب تک کہ وہ آپ کے اپنے نہ ہوں۔ میلویئر اور وائرس سے بچنے کیلئے یقینی بنائیں کہ تمام خارجی آلات یا تو آپ کے اپنے ہوں یا قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کیے گئے ہوں۔ 

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

منی مرگ سے نکل کر ایک بار پھر ڈومیل تک پہنچ جانا دراصل میری ذاتی خواہش تھی ، جس کا احترام میرے ساتھیوں پر واجب نہ تھا۔منی مرگ کی ایک اجلی صبح میں جیپ ڈرائیور کے ساتھ ایک بار پھر ڈومیل کی طرف نکل آیا۔ گزری شام جو ندی ہمارے راستے کی رکاوٹ بنی تھی ، اب چپ چاپ بہتی جاتی تھی۔ برف پگھلنے سے پہلے ہم نے یہ ندی عبور کی اور رینبو جھیل کی قربت میں آ گئے۔ میرے تمام ہم سفر منی مرگ کے ریسٹ ہاوس میں ابھی سوئے ہوئے تھے اور میں رات کے وقت سنائی ہوئی کہانی کا کردار بن کر نکل آیا۔ رینبو جھیل سے آگے سیون اسٹریم لیک تھی جس میں سات چشمے یوں گرتے تھے جیسے کوئی اپنی ذات کسی محبوب پر فدا کر دے ، ہمیشہ کے لئے اپنی ہستی مٹا دے۔ مگر یہ ابھی صرف کہانی تھی اور اس سات چشموں والی جھیل تک پہنچنے کے لئے میں ڈومیل میں تھا۔ رینبو جھیل کے ساتھ بہتے نالے پر ہم نے سات گھنٹے سفر کرنا تھا اور پھر دو جڑواں جھیلوں تک پہنچنا تھا۔ میں تھکنے والا نہ تھا کہ ڈومیل سے واپس لوٹ جانا میرے سیاحتی عقیدے کی خلاف ورزی تھا۔منی مرگ سے نکلے ہوئے دو گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ ہم ایک ایسی وادی میں آ گئے جہاں بلند درختوں کے عقب میں وسیع لینڈ اسکیپ تھا۔ چھوٹے چھوٹے چشمے تھے اور موسم میں نرم دھوپ کا سایہ تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے جیپ ڈرائیور نے کہا کہ ہم نیرو کی جڑواں جھیلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نیرو کی جڑواں جھیلیں مکمل طور پر ان چھوئی اور کنواری جھیلیں تھیں جہاں تک انسان بہت کم پہنچتا تھا۔ صاف اور مقدس جھیلوں میں جو پانی تھے وہ کرسٹل واٹر تھے۔ برف کا تازہ عرق ان جھیلوں کا رزق بنتا تھا۔ خوبصورت جھیل میں تین خصوصیات ہوتی ہیں ، ایک یہ کہ وہ زندہ جھیل ہوتی ہے جس میں پانی داخل ہو رہا ہو اور ساتھ ساتھ اخراج بھی ہو رہا ہو۔ دوسری خصوصیت یہ کہ وہ اپنے اطراف میں بلند حصار رکھتی ہے۔ تیسرا خاصا اس کا شفاف پانی ہوتا ہے۔ ان جھیلوں میں تینوں نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ان جھیلوں سے آگے ایک اور حیرت کا جہان ہمارا منتظر تھا۔صرف دو گھنٹے کی مسافت پر غلام سر کی دو اور جڑواں جھیلیں ہماری منتظر تھیں۔ ضلع بانڈی پورہ میں واقع یہ جھیلیں بھی حسن فطرت میں آپ اپنی مثال تھیں۔ رینبو جھیل وادی ڈومیل سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر دو اور جڑواں جھیلیں ہیں جنہیں آر ، بی کی جھیلیں کہا جاتا ہے۔ آر ، بی جھیلوں کے ارد گرد زعفرانی گھاس کا ڈھلوان فرش بچھا ہے۔ رینبو لیک کے پاس ہی دل نما جھیل بھی حسن کا منبع ہے۔ کئی جڑواں جھیلیں اور ان دیکھی وادیاں دیکھ کر جب منی مرگ پہنچے تو رات کا دوسرا پہر ڈھل چکا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور تارے اتنے قریب تھے کہ آسمان پر نہیں ہمارے سروں کے اوپر چمکتے محسوس ہوتے تھے۔منی مرگ کے پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاوس میں میرے بچے میرے ہی منتظر تھے۔ میرے ذہن میں سیون اسٹریم جھیل اور کئی جڑواں جھیلوں کے حسن کا جادو تھا جو آنکھوں میں خمار بن کر ہر دیکھنے والے کے سامنے مجھے مشکوک کرتا تھا۔ میں اسی خمار کی وجہ سے گنگ تھا کہ بولنے کی سکت ہی نہ تھی۔ منی مرگ میں یہ رات ہماری آخری شب بسری تھی۔ ہونے والی صبح ہم نے برزل عبور کر کے استور پہنچنا تھا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

تنبس سے انخلاء30نومبر1971ء کو برطانوی افواج کے ابوموسیٰ اور تنبس کے جزائر سے انخلاء کے فوراً بعد شاہی ایرانی بحریہ نے آبنائے ہرمز میں واقع ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔یہ جزائر خلیج فارس اور خلیج عمان کے درمیان موجود ہیں۔ ایران کی شاہی ریاست نے جزائر کے دونوں جانب خودمختاری کا دعویٰ کیا تھا۔ امارات راس الخیمہ نے بڑے اور چھوٹے تبنوں کا دعویٰ کیا اور امارات شارجہ نے ابوموسیٰ پر دعویٰ کیا۔ایران کی جانب سے جزائر پر قبضے کے بعد شارجہ اور راس الخیمہ نے نوتشکیل شدہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ الحاق کر لیا۔اس الحاق کی وجہ سے ان علاقوں پر متحدہ عرب امارات کا بھی وعویٰ قائم ہو گیا۔تاسافارونگا کی جنگتاسا فارونگا کی لڑائی جسے بعض جگہ ''پرساؤجزیرے‘‘ کی چھوٹی جنگ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور جاپانی تاریخ میں یہ ''لونگا پوائنٹ کی جنگ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ ایک بحری جنگ تھی جس کا آغاز 30نومبر1942ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ اور امپیریل جاپان کی بحریہ کے درمیان ہوا۔یہ لڑائی گواڈل کینال پر تسافارونگا علاقے کے قریب آئرن باٹم ساؤنڈ میں ہوئی۔جنگ میں، ریئر ایڈمرل کارلٹن ایچ رائٹ کی کمان میں پانچ کروزر اور چار ڈسٹرائرز پر مشتمل امریکی فورس نے گواڈل کنال پر اپنی افواج کو خوراک پہنچانے کی کوشش کرنے والے آٹھ جاپانی تباہ کن جہازوں کو روکے رکھا جس کی وجہ سے جاپان کو اس جنگ میں کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔سرمائی جنگسرمائی جنگ جسے پہلی سوویت فنش جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سوویت یونین اور فن لینڈ کے درمیاں ہونے والی ایک زبردست جنگ تھی۔ جنگ کا آغاز 30نومبر 1939ء کو فن لینڈ پر سوویت یونین کے حملے سے ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے تین ماہ بعد ماسکو امن معاہدے کے ساتھ اس لڑائی کا اختتام ہوا۔ جدید اسلحہ، ٹینک اور اعلیٰ فوجی قیادت ہونے کے باوجود سوویت یونین کو اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان پہنچا۔لیگ آف نیشنز نے اس حملے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سوویت یونین کو تنظیم سے بے دخل کر دیا۔کرسٹل پیلس میں آتشزدگی30نومبر1936ء کی شام سر ہنری بکلینڈ اپنی بیٹی کرسٹل کے ساتھ ٹہل رہے تھے، جس کا نام عمارت کے نام پر رکھا گیا تھا ۔ اسی دوران انہوں نے عمارت کے اندر سے روشنی آتی ہوئی دیکھی ،جب سر ہنری عمارت کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے دوملازمین کو دفتر میںلگی آگ سے لڑتے ہوئے دیکھا جو خواتین کے کمرے میں ایک دھماکے سے شروع ہوئی تھی۔صورتحال دیکھتے ہوئے فوراً فائر بریگیڈ کو بلایا گیا لیکن آگ بجھانے والے89انجن اور400سے زائد فائر مین مل کر بھی اس آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے۔چند ہی گھنٹو ں میں پورا کرسٹل محل تباہ ہو گیا۔ 

مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

''بابائے صحافت‘‘ کا لقب پانے والے مولانا ظفر علی خان کی آج برسی ہے۔27 نومبر 1956ء کو اردو زبان و ادب کی اس نامور شخصیت کی زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔مولانا ظفر علی خان نے عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد کبھی شاعری اور صحافت کے میدان میں قدم جمائے اور کبھی سیاست کے میدان کے شہسوار بنے۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین احمد 1903ء میں جب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اپنے آبائی گائوں کرم آباد سے اخبار ''زمیندار‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد زمینداروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ والد کی وفات کے بعد جب ''زمیندار‘‘ مولانا کی زیر ادارت آیا تو اس نے انگریز کے خِرمَن اقتدار میں آگ لگا دی۔ مولانا نے 1908ء میں ''زمیندار‘‘ کی اشاعت لاہور سے شروع کی تو لاہور سے شائع ہونے والے بڑے بڑے اردو اخبارات کے چراغ ٹمٹمانے لگے اور ''زمیندار‘‘ کی شہرت کا ستارہ آسمانِ صحافت پر جگمگانے لگا۔مولانا کی صحافتی زندگی کافی دشوارگزار رہی، مالی وسائل کی کمی کے باعث اشاعت کا کام جاری رکھنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحافت کے انتہائی ناموافق حالات میں زمیندار نے مسلمانوں کی بیداری شعور میں اہم کردار کیا۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے زمانے کے چوٹی کے مسلمان صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انگریز دور میں سیاست کے میدان میں مختلف تحاریک، مزاحمتی سرگرمیوں کے علاوہ قلم کے ذریعے آزادی کی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری تھا۔ مولانا ظفر علی خان بھی اپنے اداریوں اور مضامین کی وجہ سے کئی مشکلات جھیلنا پڑیں اور ان کے اخبار زمیندار کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں تھا بلکہ مولانا نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔مولانا ظفر علی خان ایک بہترین خطیب، باکمال شاعر اور انشا پرداز بھی تھے۔ ان کے اداریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔مولانا ظفر علی خان صحافت، خطابت اور شاعری کے علاوہ ترجمہ میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران مولانا نے لارڈ کرزن کے انگریزی سفر نامہ ایران کا ترجمہ ''خیابان فارس‘‘ کے نام سے شائع کیا تو لارڈ کرزن نے سونے کے دستے والی چھڑی تحفہ میں پیش کی۔ اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خان کے تراجم میں فسانہ لندن، سیر ظلمات اور معرکہ مذہب و سائنس بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے ایک ڈرامہ ''جنگ روس و جاپان‘‘ بھی لکھا جبکہ شہرہ آفاق تخلیقات میں ''جسیات‘‘ اور ''بہارستان‘‘ نظموں کے مجموعے ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔مولانا ظفر علی خان کا اسلوب منفرد تھا، ان کی تحریریں نثری ہوں یا شعری دونوں ہی ملی امنگوں کی ترجمان ہیں۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ مولانا کی شاعری کی مختلف جہات ہیں۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔اُن کی شاعری میں حمد، نعت گوئی، حالاتِ حاضرہ کے مطابق شعر کہنا، وطن کی محبت میں شعر، اور انقلابی اشعار شامل ہیں۔ اُن کی شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نےدکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نےتری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستیسمویا اپنے ہاتھوں سے مزاحِ جسم و جاں تو نےایک اور مقام پر عرض گزار ہیں:اب ہم سمجھے کہ شاہنشاہ مُلکِ لامکاں ہے توبنایا اک بشر کو سرورِ کون و مکاں تو نےمحمد مصطفیٰؐ کی رحمۃ اللعالمینی سے!بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نےوہ اپنی نعت گوئی کیلئے بھی مشہور ہیں۔ ان کی اس نعت سے کون واقف نہیں ہے۔وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میںاِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں1956ء میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں کریم آباد(وزیر آباد )میں دفن کیا گیا،صحافت اورنعت گوئی میں ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔فرض اور قرضجو مسلم ہے تو جاں ناموس ملت پر فدا کر دےخدا کا فرض اور اس کے نبی کا قرض ادا کر دےبھری محفل میں لا سکتا نہ ہو گر کفر تاب اس کیتو زنداں ہی میں جا کر روشن ایماں کا دیا کر دےشہادت کی تمنا ہو تو انگریزی حکومت پرکسی مجلس کے اندر نکتہ چینی برملا کر دےتمہارا قافلہ کچھ لٹ چکا اور کچھ ہے لٹنے کورسول اللہ کو اس کی خبر باد صبا کر دےضرورت ہے اب اس ایجاد کی دانائے مغرب کوجو اہل ہند کے دامن کو چولی سے جدا کر دےنکل آنے کو ہے سورج کہ مشرق میں اجالا ہوبرس جانے کو ہے بادل کہ گلشن کو ہرا کر دےقفس کی تیلیوں پر آشیاں کا کاٹ کر چکرفلک سے گر پڑے بجلی کہ بلبل کو رہا کر دےیہ ہے پہچان خاصان خدا کی ہر زمانے میںکہ خوش ہو کر خدا ان کو گرفتار بلا کر دےظفر کے قلم میں مصطفی کمال کی تلوار کا بانکپن ہے: اقبالؒان کی خدمات کے اعتراف کے لیے علامہ اقبال جیسی شخصیت کی یہ رائے ہی کافی ہے کہ''ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے‘‘ 

نظم و ضبط پیدا کریں!

نظم و ضبط پیدا کریں!

ہم سب جانتے ہیں کہ نظم و ضبط کا کیا مطلب ہے، آپ ایک شیڈول بناتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں۔ آپ اپنے مقاصد اور کاموں کا تعین کرتے ہیں اور انہیں اسی کے مطابق مکمل کرتے ہیں۔نظریہ کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ حقیقت بہت مختلف ہے۔ہم عموماً جوش و خروش کے عالم میں بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں، لیکن جب وقت آتا ہے کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر پورا کریں، تو کچھ وقت کے بعد ہم انہیں ترک کر دیتے ہیں۔نظم وضبط کیلئے جو چیز سب سے اہم ہے اسے فیصلہ سازی کہا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات رائے ایف باؤمائسٹر کے مطابق جتنے زیادہ فیصلے آپ کرتے ہیں، ان کے معیار اتنا ہی کمزور ہوتا جاتا ہے۔اگر آپ ہر وقت کسی فیصلے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، ہر ایک انتخاب کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، جیسے کہ ناشتہ میں کیا کھائیں، بس لیں یا ٹیکسی، سیڑھیاں چڑھیں یا لفٹ کا استعمال کریں تو دن کے اختتام تک آپ ذہنی طور پر تھک جائیں گے۔ آپ کا دماغ ایسی حالت اختیار کر لے گا ''مجھے پرواہ نہیں یار، بس کچھ بھی چن لو‘‘۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ اثر ہر کسی پر پڑتا ہے، آپ کا دماغ ''آرام‘‘ پر چلا جاتا ہے اور آپ بغیر سوچے سمجھے فیصلے لینا شروع کر دیتے ہیں۔صبح اور شام کے معمولات بنانامیں وہ شخص ہوں جو منصوبوں پر کام کرنا، نئی چیزیں سیکھنا، اور نتیجہ خیز رہنا پسند کرتا ہے۔لیکن چاہے جتنی بھی کوشش کر لوں، میں کبھی شیڈول پر قائم نہیں رہ سکا۔ میں اکثر جمود کا شکار ہو جاتا اور اپنے کام میں کسی بھی قسم کی استحکام قائم کرنے میں مشکل محسوس کرتا۔میں جِم جانا شروع کرتا، پھر چھوڑ دیتا اور بالآخر چند مہینوں بعد مکمل طور پر ترک کر دیتا۔ میں کسی منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ایک شیڈول بناتا، لیکن چند ہفتوں بعد اس سے ہٹ جاتا اور اپنے مقرر کردہ تمام اہداف کو برباد کر دیتا۔وہ انقلابی خیال جس نے مجھے بالآخر درست راستے پر آنے میں مدد دی، یہ تھا کہ نظم و ضبط کا مطلب خود کو سخت محنت کرنے پر مجبور کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے ماحول کو اس طرح ترتیب دینا ہے کہ سخت محنت کرنا ''معمول‘‘ بن جائے۔جیسا کہ جیمز کلیر نے اپنی کتاب ''ایٹومک ہیبٹس‘‘ میں وضاحت کی: ''آپ اپنے اہداف کی سطح تک نہیں پہنچتے، بلکہ آپ اپنے نظام کی سطح تک گر جاتے ہیں‘‘۔جب تک میں نے سخت صبح اور شام کے معمولات مرتب نہیں کیے، میں اپنی زندگی کو منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کچھ وقت کے بعد مجھے احساس ہوا کہ استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے، پہلے سے اپنی زندگی میں مستحکم عناصر رکھنا ضروری ہے۔میری صبح کی روٹین میں شامل تھا اخبار پڑھنا، مراقبہ کرنا، نئی زبان سیکھنا، سائنس کے بارے میں کچھ سیکھنا، کتاب پڑھنا اور کسی نہ کسی قسم کی جسمانی ورزش کرنا۔ یہ سب کچھ دن کے آغاز میں کرنا تھا، اور اس روٹین کو مکمل کرنے میں کم از کم 2 گھنٹے لگتے تھے۔یہ سب کرنے اور دن کے اصل کام مکمل کرنے کیلئے مجھے بہت جلدی اٹھنا، دیر سے سونا اور بہت کم یا بالکل بھی وقفہ نہ لینا پڑتا۔ یہ تھکا دینے والی روٹین تھی۔ چنانچہ ایک یا دو ہفتوں بعد میں ہار مان لیتا۔آخرکار، میں نے چیزوں کو آسان بنانے کا فیصلہ کیا۔آپ کی روٹین میں وہ کام شامل ہونے چاہئیں جو نہ صرف ''دلچسپ‘‘ لگیں بلکہ صبح اور شام کے لحاظ سے ایک مقصد بھی پورا کریں۔ صبح کے معمولات آپ کو جگانے اور دن کیلئے درست ذہنی حالت میں لانے کیلئے ہونے چاہئیں، جبکہ شام کے معمولات آپ کے شیڈول پر غور کرنے اور ذہن کو سکون دینے کیلئے ہوں۔ہر روٹین میں زیادہ سے زیادہ 5 کام ہونے چاہئیں۔ آپ کے اوپر ہے کہ آپ اپنی روٹین میں بڑے یا چھوٹے کون سے کام شامل کرنا چاہتے ہیں، لیکن جتنے کم عناصر ہوں گے، آپ اتنی ہی تیزی سے انہیں مکمل کر سکیں گے۔کاموں کا انتخابجیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، آپ کی روٹین میں شامل کام ذاتی نوعیت کے ہونے چاہئیں ۔میں دو چیزوں کو اجاگر کرنا چاہوں گا جو مجھے لگتا ہے کہ ہر کسی کو اپنی روٹین کا حصہ بنانے چاہئیں (دونوں کو آپ اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں)(1)ایک ہی وقت پر اٹھنا:چاہے آپ گھر سے کام کرتے ہوں یا دفتر جاتے ہوں، یہ امکان ہے کہ آپ ہر دن ایک ہی وقت پر نہیں اٹھتے۔ اس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ آپ ہر روز ایک ہی وقت میں اٹھنے کی عادت اپنائیں۔(2) شیڈول بنانا اور اس پر قائم رہنا: وقت کا شیڈول ترتیب دینا اور اس پر ایک مدت تک قائم رہنا وہ سب سے مؤثر طریقہ ہے جو میں نے نظم و ضبط کیلئے دریافت کیا ہے۔ مکمل روٹین بنانامکمل روٹین بنانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ چیزوں کو جتنا ممکن ہو سکے سادہ رکھا جائے۔ایسی سرگرمیاں شامل کریں جو فائدہ مند ہوں، لیکن جنہیں مکمل کرنے میں زیادہ وقت نہ لگے۔ آپ کی روٹین 30 منٹ سے زیادہ کی نہیں ہونی چاہیے۔ جتنا زیادہ وقت لگے گا، اتنا ہی زیادہ آپ ان سرگرمیوں سے بچنے یا کچھ کام چھوڑنے کے بہانے تلاش کریں گے۔

آج کا دن

آج کا دن

دوسری جنگ عظیم: جرمنی کا تولون پر قبضہ27نومبر 1942ء کو دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فوج نے فرانسیسی بیڑے کے حامل شہر تولون پر قبضہ کر لیا۔ تولون کی فوجی بندرگاہ فرانس کے بحیرہ روم کے ساحل پر ایک بڑا بحری مرکز تھاجو فرانسیسی طیارہ بردار بحری جہاز چارلس ڈی گال اور اس کے جنگی گروپ کا گھر سمجھا جاتا تھا۔فرانسیسی فوجیوں نے جرمن فوج کے ہاتھوں میں آنے سے قبل ہی اس بیڑے کو غرقاب کر دیا۔ نیوسکی ایکسپریس بم دھماکا27نومبر2009ء کوروسی شہر ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان سفر کرنے والی تیز رفتار ٹرین میں دھماکہ ہوا۔ اس واقعہ کو ''نیوسکی ایکسپریس بم دھماکا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بم کو ٹرین کے نیچے لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے ٹرین لائن سے نیچے اتر گئی۔ اس حادثے میں 39افراد ہلاک اور95زخمی ہوئے۔ اگلے ہی دن تفتیش کی جگہ پر ایک اور دھماکا ہوا جس سے ایک شخص زخمی ہوا۔لکسمبرگ کی بغاوتلکسمبر گ کی بغاوت کا آغاز 27 نومبر 1856ء کو لکسمبر گ کے آئین پر نظر ثانی سے شروع ہوا۔ اگرچہ حقیقی بغاوت یا انقلاب نہیں تھا لیکن لوگوں نے اسے ''شاہی بغاوت‘‘کا نام دیا کیونکہ لکسمبرگ کے حکمران نے اپنے اختیارات کو ضرورت سے زیادہ بڑھا لیا تھا۔ 1848ء کے آئین میں تبدیلیوں کا مقصد ولیم کی طرف سے نافذ کی گئی بڑی تبدیلیوں کو ختم کرنا تھا جس کی وجہ سے لکسمبرگ میں بحران پیدا ہوا۔جیلاوا قتل عامجیلاوا قتل عام26نومبر1940ء کی رات بخارسٹ رومانیہ کے قریب جیلاوا قید خانے میں کیا گیا۔آئرن گارڈز نے 64 سیاسی قیدیوں کو ہلاک کر دیاجس کے فوراً بعد مزید ہائی پروفائل قتل کئے گئے۔ یہ واقعہ فاشسٹ نیشنل لیجنری اسٹیٹ اورکنڈکٹر آئن انتونیسکو کے درمیان جھڑپ کی وجہ بنا۔ اس جھڑپ کے بعد آئن کی جانب سے لیجن کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔جارج ماسکون پر قاتلانہ حملہ27نومبر1978ء کو سان فرانسسکو کے میئر جارج ماسکون اور سپر وائزر ہاروی کو سان فرانسسکو سٹی ہال میں سابق سپروائزر ڈین وائٹ نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا جب انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وائٹ نے جس نگران عہدے سے استعفیٰ دیا ہے وہ کسی اورکو دے دیا جائے گا۔ڈین وائٹ اعلان سے قبل غصے کی حالت میں سٹی ہال میں داخل ہوااور میئر کے دفتر میں موجود ماسکون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 

نو بخت اور فضل بن نوبخت

نو بخت اور فضل بن نوبخت

ابوجعفر منصور خلیفہ عباسی کو عمارات سے دلچسپی تھی۔ اس نے بغداد کو ایک نئے پلان کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرانا چاہا۔ انجینئروں کی ایک جماعت اس سلسلے میں مقرر کی گئی۔ نو بخت اور فضل بن نو بخت یا باپ اور بیٹے اس کام کے لئے نگراں تھے۔ یہ دونوں باکمال سول انجینئر تھے اور ان میں نظم و ضبط کی بھی صلاحیت اور قابلیت تھی۔ شاہی دربار کی خاص عمارت کاگنبد زمیںسے دو سو چالیس فٹ بلند تھا اور اوپر ایک سوار کا مجسمہ تھا۔ فضل بن نو بخت نے اس فن کی تعمیر اپنے والدسے حاصل کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام کئے۔ اسی دور میں کتب خانہ بھی قائم ہوا۔ فضل بن نوبخت نے کتابیں جمع کر کے ان کی فہرست تیار کی ۔ دنیا کا یہ پہلا باقاعدہ شاہی کتب خانہ تھا جو حکومت وقت نے تعمیر کرایا اور اخراجات برداشت کئے۔ ہارون رشید کے عہد میں بغداد علم وفن کا مرکز بن گیا۔ابتدائی زندگی تعلیم و تربیت نو بخت بغداد معمار ہے۔ اسی ہوشیار انجینئر نے عمارت کا پلان بنایا اور تعمیرات میں نمایاں حصہ لیا۔ عراق میں بنو عباس کی حکومت مستحکم ہوچکی تھی۔ اس اہم اور بڑے کام کے لئے تجربہ کار ہوشیار انجینئروں کی ضرورت تھی۔ نو بخت نے اس کام کو نہایت عمدگی سے انجام دیا۔نو بخت نہایت ذہن، بلا صلاحیت اور محنتی نوجوان تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت معمولی مدارس میں حاصل کر کے مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ علم ہئیت اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ نو بخت کو انجینئرنگ سے دلچسپی تھی۔ اس نے عمارتوں کے پلان بنانے اور تعمیر کے فن میں کمال پیدا کیا۔ خلیفہ جعفر منصور کو متعدد انجینئروں کی ضرورت تھی۔ ان میں نوبخت بھی منتخب کیا گیا۔کام اور کارنامےنوبخت بہت ہوشیار سول انجینئر اور پیمائش کرنے ولا( Surveyer) تھا۔ مکمل شہری آبادی پلاننگ میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ غورو فکر کے بعد بادشاہ کی خواہش کے مطابق شہر بغداد کی منصوبہ بندی کی اور پورانقشہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہی دربار کی گنبد نما عمارت زمیں سے کوئی دو سو چالیس فٹ بلند تھی۔ وسیع و عریض اس عمارت کے اونچے اور شاندار گنبدپر ایک شہسوار کا مجسمہ نصب تھا۔ یہ مجسمہ دھات کاتھا،شاہی محلات ، باغات اور دیگر عماراتیں ایک گل دستے کی باہم مناسبت سے بنی ہوئی تھیں۔نوبخت اور اس کے معاون انجینئروں نے بغداد کی پلاننگ میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں شک نہیںکہ اس وقت کی دنیا میں یہ انوکھا تخیل تھااوری یہی بغداد آئندہ الف لیلہ کی کی کہانیوں کا مرکز بنا۔فضل بن نو بخت فضل قابل باپ کا ہونہار بیٹھا تھا۔ تعلیم اپنے قابل باپ سے حاصل کی اورمطالعہ میں مصروف ہوگیا۔ وہ جلد ہی علم ہئیت میں یکتائے روز گار بن گیا اور شہر کی تعمیر میں اپنے والد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہ علم ہئیت میں بھی اپنے والد کی مدد کرتا اور مشاہد افلاک میںساتھ رہتا۔علمی خدمات اور کارنامے فضل علم ہلیت کا ماہر تھا، اس نے کئی علم اور فنی کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔ اسے کتابوں سے خاص انس تھا۔ اکثر کتابوں کو تلاش کر کے لاتا اور ان کو اپنے کتب خانے میں بڑے ڈھنگ سے ترتیب کے ساتھ رکھتا تھا۔ بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہارون رشید کا عہد تھا، اسے کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، شاہی کتب خانے کی ابتدا ہو چکی تھی، بادشاہ نے فضل کو شاہی کتب خانے کا مہتمم اورنگران مقرر کیا۔ فضل نے شاہی کتب خانے میں کتابوں کو ترتیب سے رکھا، رجسٹر بنایا اور کتابوں کی فہرست بنائی یہ اس دور کا عظیم کتب خانہ بن گیا اور یہ دنیا کا پہلا کتب خانہ تھا۔ 

’’ریڈ مونسٹر‘‘ : نئی کہکشائوں کی دریافت

’’ریڈ مونسٹر‘‘ : نئی کہکشائوں کی دریافت

یہ تینوں کہکشائیں کائنات کے ابتدائی دور کو تشکیل دینے والے حالات بارے نئی بصیرت فراہم کریں گےیہ کہکشائیں 12.8 ارب سال سے زیادہ پرانی ہیں اور زمینی سورج سے 100 ارب گنا زیادہ حجم رکھتی ہیںاندھیری راتوں میں آپ نے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کا مشاہدہ تو کیا ہو گا۔ کچھ بہت روشن ہوتے ہیں، کچھ مدھم اور کچھ کسی کسی وقت ٹمٹا کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اخترشماری کرنا شاعروں کا ہی نہیں بلکہ فلکیات کے ماہرین کا بھی محبوب مشغلہ ہے۔ آسمان پر کتنے ستارے ہیں؟ اربوں یا کھربوں؟ کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے، جیسے جیسے خلا میں دیکھنے والی دوربینوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، نئے نئے ستارے نظروں میں آ رہے ہیں۔ آسمان کی وسعت اور گہرائی کا تو خیر ذکر ہی کیا، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف ہماری کہکشاں میں اتنے ستارے ہیں کہ ہماری گنتی ختم ہو جاتی ہے، لیکن وہ ختم نہیں ہوتے۔ کائنات میں اس جیسی بلکہ اس سے کہیں بڑی ان گنت کہکشائیں ہیں۔حال ہی میں سائنسدانوں نے ''ریڈ مونسٹر‘‘ نامی کہکشائیں دریافت کی ہیں جو تقریباً ملکی وے جتنی بڑی ہیں ۔سائنسدانوں کے ایک گروپ نے تین کہکشاؤں کو دریافت کیا ہے جنہیں ''ریڈ مونسٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کہکشائیں اپنے ستارے بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کہکشاؤں کو ''ریڈ مونسٹر‘‘ کا نام ان کی آگ کے شعلے جیسی سرخ شکل کی وجہ سے دیا گیاہے، جو ان میں موجود دھول کی بے پناہ مقدار کا نتیجہ ہے۔یہ کہکشائیں 12.8 ارب سال سے زیادہ پرانی ہیں اور زمین کے سورج سے 100 ارب گنا زیادہ حجم رکھتی ہیں۔ماہرین ِ فلکیات نے ناسا کی ''جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ‘‘ کی مدد سے ان کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا۔ وہ ان کہکشائوںکے حجم کو دیکھ کر حیران رہ گئے جو تقریباً ملکی وے کے برابر ہیں۔کہکشاؤں کی ستارے بنانے کی صلاحیت نے سائنسدانوں کو زیادہ حیران کیا جو دیگر کہکشائوں سے زیادہ تیز ہے اور تقریباً 80 فیصد گیس کو ستاروں میں تبدیل کرتی ہیں اور کائناتی تاریخ میں اوسط کہکشاؤں سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔کہکشاؤں کی ترقی میں کئی عوامل گیس کو ستاروں میں تبدیل کرنے کی رفتار کو محدود کر دیتے ہیں، لیکن '' ریڈ مونسٹرز‘‘ ان رکاوٹوں کو حیرت انگیز طور پر عبور کرتی نظر آتی ہیں۔ یونیورسٹی آف باتھ کے پروفیسر اور شائع شدہ تحقیق کے شریک مصنف اسٹین وائیٹس نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ دریافت جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے فریسکو ''FRESCO‘‘ سروے پروگرام کے تحت سامنے آئی، جو مشاہدات کے لیے دوربین کے منفرد آلات کا استعمال کرتا ہے۔محققین نے ان کہکشاؤں کو دریافت کرنے کیلئے دوربین کے ساتھ انفراریڈ کیمرے کا استعمال کیا۔ انہوں نے ''ریڈ مونسٹرز‘‘ کے فاصلے اور خصوصیات کو ان کے روشنی کے طولِ موج کے ذریعے مطالعہ کیا۔ دوربین سے اِن کہکشاؤں کے اُن حصوں کا مشاہدہ بھی با آسانی ہوا جو دھول سے چھپے ہوئے تھے۔''ریڈ مونسٹر‘‘ کہکشائیں تقریباً ملکی وے جتنی بڑی ہیں اور ستارے بنانے کی رفتار ان کہکشاؤں سے کہیں زیادہ ہے جو اب تک دریافت کی جا چکی ہیں۔ان کہکشاؤں کی غیر معمولی خصوصیات کے باوجود یہ دریافت کائنات کے قبول شدہ ماڈل کو چیلنج نہیں کرتی، لیکن موجودہ کہکشاں نظریات پر سوالات ضرور اٹھاتی ہے۔ تحقیق کے مرکزی مصنف اور یونیورسٹی آف جنیوا کے پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق ڈاکٹر منگیوان ژاؤ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ابتدائی کائنات میں کہکشائیں غیر متوقع طور پر مؤثر طریقے سے ستارے بنا سکتی تھیں۔ جیسے جیسے ہم ان کہکشاؤں کا مزید گہرائی سے مطالعہ کریں گے، یہ کائنات کے ابتدائی دور کو تشکیل دینے والے حالات کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کریں گی۔  

آج کا دن

آج کا دن

مشن انسائٹ26 نومبر 2018 ء کو ''مشن انسائٹ‘‘ نامی روبوٹ نے مریخ کی سطح پر لینڈ کیا۔ اس روبوٹ کو مریخ کے گہرے اندرونی حصے کا معائنہ کرنے کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ یہ روبوٹ لاک ہیڈ مارٹن سپیس سسٹم کی جانب سے تیار کیا گیا تھا لیکن اس کا نظام ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے حوالے کیا گیا تھا۔ مشن کا آغاز 5مئی 2018ء کو ہوا تھا جبکہ 26 نومبر 2018ء کو اس نے کامیابی کے ساتھ مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔ ''سٹالن گراڈ جنگ‘‘26 نومبر 1942ء کو سٹالن گراڈ میں جرمن فوج کے خلاف کئی روزہ دفاعی جنگ کے بعد روسی فوج نے جوابی حملوں کا آغاز کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ''سٹالن گراڈ جنگ‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں روسیوں نے بے پناہ جانی قربانیاں دے کر نازی ازم کو شکست سے دوچار کیا۔اس لڑائی میں لاکھوں افراد مارے گئے تھے۔ یہ لڑائی 23اگست1942ء کو شروع اور 2فروری 1943ء کو ختم ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹالن گراڈ کی لڑائی میں روس نے جو کردار ادا کیا وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ روڑو: سکول میں قتل عام26نومبر2004ء کو چین کے روڑو شہر میں واقع سکول میں ایک شخص نے سکول کے بچوں پر حملہ کر دیا۔ ژان ژان منگ سکول ہوسٹلز کے ایک بلاک میں داخل ہوا اور وہاں اس نے چھری سے وار کرتے ہوئے 12لڑکوں کو شدید زخمی کر دیا۔ زخمی ہونے والوں میں سے 9 لڑکے بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ حملے کے بعد فرار ہو جانے والے ملزم کو وقت گرفتار کیا گیا جب وہ خودکشی کرنے والا تھا۔ اسے18جنوری2005ء کو پھانسی دے دی گئی۔برنکز میٹ ڈکیتی26 نومبر 1983ء کو ہیتھرو انٹرنیشنل ٹریڈنگ اسٹیٹ لندن میں ڈکیتی ہوئی جسے برنکزمیٹ ڈکیتی کہا جاتا ہے۔ اس واردات میں ملزم 26ملین یوروز کے زیورات لے گئے جو موجودہ دور میں تقریباً 93ملین یوروز کے مساوی ہیں۔ یہ کمپنی ڈکیتی کے اگلے ہی سال بند ہو گئی۔ انشورنس کمپنی نے نقصان کی ادائیگیاں کیں لیکن ڈکیتی شدہ سونے کا زیادہ حصہ کبھی بازیاب نہیں کیا جا سکا۔پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن حادثہپاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی پرواز 740 جو عازمین حج کو لے کر کراچی آ رہی تھی 26 نومبر 1979ء کو جدہ ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز میںسوار تمام 156 افراد ہلاک ہو گئے۔ تحقیقات میں حادثے کی وجہ کیبن میں لگے والی آگ کو قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرواز کے فوراً بعد جہاز کے کیبن میں آگ لگ گئی تھی،جس کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ۔    

انٹرنیٹ،فائروال اور وی پی این

انٹرنیٹ،فائروال اور وی پی این

کون نہیں جانتا کہ انٹر نیٹ کا استعمال دور حاضر میں ایک طالب علم سے لے کر معمولی بزنس مین، صنعتکار غرض کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کی ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔آپ کی یاداشت کو تازہ کرتے چلیں کہ ''کمپیوٹر سائنس‘‘ نے باقاعدہ طور پر 1950ء کے آس پاس خودآپ کو نئے علوم کی فہرست میں شامل کرا لیا تھا، جبکہ 1989ء کے آخر میں سوئٹزرلینڈ کے ایک برطانوی کمپیوٹر سائنس دان ٹم برنرزلی کی تحقیق کے نتیجے میں ورلڈ وائیڈ ویب نے ہائپر ٹیکسٹ دستاویزات کو انفارمیشن سسٹم سے جوڑ دیا تھا ۔جس کے نتیجے میں 1990ء کی دہائی کے وسط میں انٹر نیٹ نے تجارت، ثقافت، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ ہائے علوم میں انقلابی اثرات مرتب کرنا شروع کر دئیے تھے۔ جس میں ای میل ، فوری پیغام رسانی، وائس اوور ، انٹرنیٹ پروٹوکول، ٹیلی فون کالز ، ویڈیو کالز ، ورلڈ وائیڈ ویب ، سوشل نیٹ ورکنگ اور آن لائن شاپنگ جیسی سہولیات نے انٹر نیٹ کی اہمیت کو انسانی روزمرہ زندگی کا اتنا عادی بنا دیا کہ کسی بھی تکنیکی خرابی یا انٹر نیٹ کی روانی میں معمولی سی کمی بھی انسانی معمولات زندگی کو معطل کر کے رکھ دیتی ہے۔ پاکستان میں انٹر نیٹ تک عام صارفین کی دسترس 1993ء کے آس پاس شروع ہوئی تھی۔ اس وقت یہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ''یو این ڈی پی‘‘ کی معاونت سے ایک پراجیکٹ کے طور پر متعارف ہوا تھا جسے ''سسٹینیبل ڈویلپمنٹ نیٹ ورکنگ پروگرام‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ابتدا میں صرف چند بڑی کارپوریشنز، بنکوں، اہم سرکاری دفاتر کو ہی اس تک رسائی دی گئی۔ بعد ازاں 1995 میں ''ڈیجی کام‘‘ نامی ایک نجی کمپنی نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے اپنی ڈائل اپ انٹرنیٹ سروس کا آغاز کیا، جس کی سپیڈ محظ 64 کے بی پی ایس تھی۔ پھر اسی سال پاکستانی قومی ادارے ''پی ٹی سی ایل‘‘ نے بھی اپنی ایک ذیلی کمپنی '' پاک نیٹ‘‘ کے ذریعے ڈائل اپ سروس کا آغاز کیا تھا۔ مارچ 2000ء میں پاکستان میں پہلی مرتبہ انٹر نیٹ ٹریفک کو ''بیک بون ‘‘یعنی مرکزی کنیکشن لنک کے ذریعے جوڑ دیا گیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر سیٹلائٹ سے فائبر پر منتقل ہونے کا زیر سمندر کیبل بچھانے کا منصوبہ تھا۔اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے سیٹلائٹ کے مقابلے میں ڈیٹا برق رفتاری سے فوری طرف پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا۔ بنیادی طور پر پاکستان میں تیز ترین انٹرنیٹ کی تاریخ کا یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ اچانک کیا ہوا ؟حالیہ چند مہینوں سے اچانک انٹر نیٹ سروس کی بعض علاقوں میں بندش جبکہ متعدد علاقوں میں اس کی سست رفتاری کی شکایات نے پورے ملک میں معمولات زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر متعلقہ ادارے اس کی اصل وجوہات کا تعین کرنے میں ابھی تک خاموش ہیں تاہم بعض سرکاری حکام غیر مبہم انداز میں اسے قومی سلامتی معاملات سے جوڑتے ہیںجبکہ کچھ حکومتی ارکان نجی محفلوں میں برملا کہتے دیکھے گئے ہیں کہ '' سوشل میڈیا ایک ایسا شتر بے مہار ہے جسے لگام دینا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ انٹرنیٹ کی بندش یا سست رفتاری کا مسئلہ پاکستان میں پہلی دفعہ پیش نہیں آرہا بلکہ مختلف مواقع پر اس کی بندش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ ایسا اکثر سکیورٹی خدشات کے دوران ہوتا ہے جیسے محرم الحرام یا اسی طرح کے دیگر حساس ایام کے دوران۔ اسی طرح فروری میں حالیہ انتخابات کے دوران بھی سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر ٹوئٹر ، جسے اب''ایکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور وٹس ایپ کے استعمال میں حکومتی سطح پر مداخلت کی وجہ سے اندرونی بالخصوص بیرون ملک کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں بیٹھ کر کام کرنے والے انفرادی اور کلائنٹس کے ساتھ مل کر فری لانسنگ کرنے والوں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور اس کی بندش کے سبب لوگوں نے متعدد ''چور راستے‘‘ تلاش کرنا شروع کئے تو ملک بھر میں ''وی پی این ‘‘ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کو دور کرنے والا ایک اہم ذریعہ بن کر سامنے آیا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سال مارچ میں وی پی این سروسز مہیا کرنے والی سوئس کمپنی ''پروٹون‘‘ کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے اندر وی پی این کے استعمال میں 600گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وی پی این سروسز مہیا کرنے والی دوسری کمپنیوں کا موقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔وی پی این کیا ہے؟بنیادی طور پر وی پی این ''ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک‘‘ کا مخفف ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال یا راز داری کو ئقینی بنانے کیلئے ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ استعمال کرنے والے کی شناخت اور مقام کو بھی خفیہ رکھتا ہے۔ اس طرح اس کے استعمال کرنے والے ایسی ویب سائٹس تک بھی رسائی کو ممکن بنا لیتے ہیں جن پر کسی ملک میں پابندی ہوتی ہے۔اس کا سب سے زیادہ فائدہ پرائیویٹ انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کو اس طرح ہوتا ہے کہ جہاں مختلف سائبرحملوں کا سامنا ہو سکتا ہے وی پی این کے استعمال سے ہر قسم کے خطروں سے نجات مل جاتی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ وی پی این کے استعمال سے ایسی ویب سائٹس کے مواد تک رسائی ہو جاتی ہے جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتی۔وی پی این کے استعمال میں اس وقت اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا جب رواں برس فروری میں پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندی اور ایکس تک رسائی محدود کر دی گئی۔ اس بارے حکومتی موقف میں ایکس پر پابندی کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا ۔ مزید براں چونکہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس کیلئے ملکی سلامتی کے تناظر میں یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ البتہ پی ٹی اے کے سربراہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے پاس وی پی این کو رجسٹرڈ کرنے کے علاوہ اب کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس کے تحت ایسی پالیسی وضع کی جارہی ہے جس کے تحت صرف رجسٹرڈ وی پی این کمپنیاں ہی پاکستان میں کام کر سکیں گی۔مسئلہ اتنا آسان نہیں !ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی یا غیر رجسٹرڈ شدہ وی پی این پر پابندی رازداری کے حق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔یہ شہریوں کی معلومات تک رسائی اور آزادی رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وزارت داخلہ نے رواں سال جولائی میں انٹرنیٹ کی بندش بارے سندھ ہائی کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی اس کے مطابق ایکس کو ملکی سالمیت کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے، ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جسے متعدد بار تنبیہ کی گئی کہ وہ قانون پر عمل کرے ۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کی آزادی نے بذریعہ انٹرنیٹ پاکستان جیسے ملک کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف انٹر نیٹ کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں جزو لاینفک کی صورت اختیار کر گیا ہے ، وہیں دوسری طرف یہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 19 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ملکی معیشت میں آئی ٹی برآمدات 25 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچ چکی ہیں۔چنانچہ اسی تناظر میں پی ٹی اے کے چیئرمین کو سینیٹ کہ قائمہ کمیٹی میں برملا یہ اعتراف کرنا پڑا کہ آئی ٹی کی صنعت وی پی این کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اب حکومت کے تمام متعلقہ اداروں اور آئی ٹی ماہرین کو مل کر اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنا چاہئے۔فائر وال ایک حربہ حکومت نے جہاں انٹرنیٹ کے''منہ زور گھوڑے‘‘کو قابو میں لانے کیلئے وی پی این اور دیگر حربے استعمال کئے ہیں وہیں خیال کیا جاتا ہے کہ' انٹر نیٹ فائر وال‘‘ بھی ایک حربے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ فائر وال بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے مرکزی انٹر نیٹ گیٹ وے پرلگایا جانے والا ایک طرح کا ''سیفٹی والو‘‘ ہے جہاں سے انٹرنیٹ ، اپ اور ڈاؤن لنک کیا جاتا ہے۔اس نظام کی تنصیب کا بنیادی مقصد انٹر نیٹ ٹریفک کی فلٹریشن اور نگرانی ہوتا ہے۔     

یادرفتگاں: اے دل کسی کی یاد میں گلو کار سلیم رضا

یادرفتگاں: اے دل کسی کی یاد میں گلو کار سلیم رضا

پرسوز اور سحر انگیز آواز کے مالک گلوکار سلیم رضا کو مداحوں سے بچھڑے 41 برس بیت گئے، آج ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔ ان کے گائے گیت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ 50ء کی دہائی کے مقبول گلوکار سلیم رضا 1955ء سے 1971ء تک پاکستان کے فلمی افق پر اپنے مقبول گیتوں کے ذریعے چھائے رہے۔ سلیم رضا، پاکستان کی اردو فلموں کے پہلے عظیم گلوکار تھے جنھیں ایک ایسے وقت میں فلمی گائیکی پر اجارہ داری حاصل تھی جب پاکستان میں عنایت حسین بھٹی، مہدی حسن، احمدرشدی اور منیر حسین جیسے بڑے بڑے نام موجود تھے۔ ہندوستانی پنجاب کے شہر امرتسر کے عیسائی خاندان میں پیدا ہونے والے سلیم رضا کا پیدائشی نام ڈیاس نوئیل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور نام بدل کرکے سلیم رضا رکھ لیا۔ انہوں نے گلوکاری کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا جبکہ فلمی دنیا میں قدم 1955ء میں فلم ''نوکر‘‘ سے رکھا اور اسی سال ریلیز ہونیوالی فلم ''قاتل‘‘ کے گیتوں سے انہیں بے پناہ مقبولیت ملی۔ 1957ء کا سال سلیم رضا کیلئے بہت خوش قسمت ثابت ہوااور انہوں نے بلندی کی طرف اڑان بھرنا شروع کی۔ ان کی پڑھی ہوئی نعت ''شاہ مدینہ، یثرب کے والی‘‘ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول ترین فلمی نعت ثابت ہوئی جسے جتنا بھی سنیں ، اتنا ہی لطف آتا ہے۔ یہ نعت موسیقار حسن لطیف نے فلم ''نوراسلام‘‘ کیلئے تیار کی تھی۔اسی سال فلم ''بیداری‘‘ کے ترانے ''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘ اور ''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘گا کر انھوں نے اپنے آل راؤنڈ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔1962ء کو سلیم رضا کے انتہائی عروج کا سال قرار دیا جاتا ہے ۔ اس برس ان کی 18 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں انھوں نے 31 گیت گائے تھے۔ اس سال انھوں نے فلم ''اولاد ‘‘کی مشہور زمانہ قوالی ''لا الہ الا اللہ، فرما دیا کملی والے نے‘‘ ریکارڈ کروائی تھی۔ یہ اپنے وقت کی سب سے مشہور فلمی قوالی تھی۔ اس سال فلم ''عذرا‘‘کا شاہکار گیت ''جان بہاراں، رشک چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن‘‘ بھی منظر عام پر آیاجسے ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کیا تھا۔ 1963ء میں سلیم رضا کی فلموں کی تعداد 15تھی جن میں کل 32 گیت گائے تھے۔ اس سال کا سب سے سپرہٹ گیت ''اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘‘ تھا جو فلم ''اک تیرا سہارا‘‘ میں شامل تھا۔ اسی فلم میں یہ دوگانا ''بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں‘‘بھی سپرہٹ تھا۔ دیگر گیتوں میں ''صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ (باجی) ،''آجا ، دل گبھرائے‘‘ (فانوس) ،''جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ (جب سے دیکھا ہے تمہیں)اور ''شام غم پھر آ گئی‘‘ (سیما) قابل ذکر تھے۔ انہوں نے سب سے زیادہ گیت موسیقارماسٹرعنایت حسین، رشید عطرے اور بابا چشتی کی دھنوں میں گائے۔ موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی تھی حالانکہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کیلئے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز ، پنجابی فلموں ، اونچی سروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کیلئے موزوں نہ تھی۔اس وقت موسیقاروں کی مجبوری ہوتی تھی کہ کوئی اور انتخاب تھا بھی نہیں۔ ان کی آواز سنتوش اور درپن پربہت سوٹ کرتی تھی۔ان کے گائے ہوئے گیتوں کی بدولت کئی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔وہ المیہ گیت گانے میں مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے ملی نغموں کو بھی اپنی آواز دی، جوآج بھی لوگوں میں مقبول ہیں۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان لاہور سے جو پہلا ترانہ گونجا تھا وہ سلیم رضا اور ساتھیوں کا گایا ہوا تھا، جس کے بول ''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘ تھے۔بطور گلوکار فلموں میں زوال کے بعد وہ کچھ عرصہ ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک فلم ''انداز‘‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود کبھی ریلیز نہ ہو سکی۔70ء کی دہائی کے وسط میں وہ پاکستان کو خیرآباد کہہ کر کینیڈا چلے گئے، جہاں 1983ء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہیں۔عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کیخلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میںبھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے۔پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردیاگیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل، تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے ۔ا ن کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں ۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میںہوتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے ۔ نوعمری کی شادیاں، کاروکاری،غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارناپیٹنا،زخمی کرنا،درد پہنچانا، تیزاب پھینکنا، لفظوں سے چوٹ پہنچانا، ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا، حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ، زیادتی کرنا،ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرناوغیرہ شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز 6 خواتین کو اغوا اور قتل، 4خواتین کے ساتھ زیادتی اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں عورتوں کیلئے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون ‘‘قابل ذکر ہے۔ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ۔ خواتین کو اغوا کرنے کے1707کیس جبکہ زیادتی کے 1408 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔وطن عزیز میں خواتین کے بنیادی انسانی حقوق ہمیشہ سے نظر اندا زکیے جا تے رہے ہیں۔ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے مثلاًونی ، کاروکاری، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، وراثت سے محرومی،جہیز کی رسم،قرآن سے شادی اور 32 روپے حق مہر وغیرہ ان سب کا شریعت اسلامیہ، پاکستانی قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ سب کچھ شعائر اسلامی کے سراسر خلاف ہے بلکہ اسلام میں تو عورتوں کو اتنے حقوق دیئے گئے ہیں کہ کوئی اور مذہب ،معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔ مثلاًجنت ماں کے قدموں کے نیچے ،بیوی شوہر کا اور شوہر بیوی کا لباس قرار دیا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیوی کے متعلق فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘(النسا:19)۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہواور میں ،تم میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہوں‘‘ (الترمذی:1828)۔ کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں (الترمذی: 1161) ۔بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے ، بلکہ وہ نمایا ں پوزیشنز حاصل کر رہی ہیں۔ دوسری طرف دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔والدین میں بھی شعور آ رہا ہے وہ اپنی بچیوں کے اچھے مستقبل کیلئے ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ۔اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اندھیرا چھٹ رہا ہے ۔ خواتین والے باکس میں ایرر ہے اس کو سب سے آخر میں ٹچ کیجئے گا ٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)ترانے٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)جنگی ترانہ(1965ء)٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔مقبول قوالی و نعت٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)ترانے٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)جنگی ترانہ(1965ء)٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘مشہور فلمی نغمات ٭...یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں (سات لاکھ)،٭... زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ(ہم سفر)،٭... جاں بہاراں رشک چمن (عذرا)، ٭...کہیں دو دل جو مل جاتے (سہیلی)، ٭...حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں (پائل کی جھنکار)، ٭...یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو ،یہ نگاہیں (گلفام)،٭... تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم (جب سے دیکھا ہے تمہیں)، ٭...میرے دل کی انجمن میں (قیدی) ؎٭...گول گپے والا آیا(مہتاب)1959ء: سب سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔ 

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹریامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کر دیا گیا تھا۔ میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کیخلاف دن کی حیثیت سے منا تے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میںبھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردیاگیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل، تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے۔ ان کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں ۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میںہوتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے ۔ نوعمری کی شادیاں، کارو کاری، غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارناپیٹنا،زخمی کرنا،درد پہنچانا، تیزاب پھینکنا، لفظوں سے چوٹ پہنچانا، ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا، حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ، زیادتی کرنا،ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز 6 خواتین کو اغوا اور قتل، 4خواتین کے ساتھ زیادتی اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں عورتوں کیلئے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون‘‘ قابل ذکر ہے۔ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ خواتین کو اغوا کرنے کے1707کیس جبکہ زیادتی کے 1408 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

بدگمانی سے بچیں

بدگمانی سے بچیں

خاموشی اور گفتار میں اگر کوئی موازنہ کیا جائے تو لازمی طور پر خاموشی کے حق میں زیادہ ووٹ ہوں گے۔ ایک چپ ہزار سکھ کا محاورہ ہم سب نے سن رکھا ہے اور اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سے مستفید بھی ہوئے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بات کرنے سے بات زیادہ بگڑ جاتی ہے اور اس کے بالکل برعکس کبھی یوں بھی ہوتا ہے ایک خاموشی بگڑی ہوئی بات بنا دیتی ہے۔ اب اس سارے متضاد منظرنامے میں اہم اور قابل توجہ یہ چیز ہے کہ ہمیں علم و احساس ہو کہ کب خاموش رہنا ہے اور کب گفتگو کرنی ہے؟ کیونکہ سکوت و گفتار دونوں ہی مخصوص مواقع پر اپنی اپنی جگہ پر اہم ہیں۔یوں تو ہر وقت کا بولنا اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر زندگی میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب نہ بولنا اور خاموش رہ جانا نقصان کا باعث ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کبھی ہمارے رشتوں یا تعلقات میں کوئی معمولی سا اختلاف، چھوٹی سی بدگمانی یا غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے اور فریقین اس غلط فہمی کو خاموشی سے نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً یہ خاموشی تعلقات میں بڑی سی دراڑ ڈال دیتی ہے۔ اگر ہم بروقت اس درز کو بھرنے کی کوشش نہیں کرتے تو رشتوں کے بیچ کی یہ خلیج وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دونوں فریق اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو گلے لگائے ہوئے طویل عرصے تک ایک دوسرے سے ناراض اور بدگمان رہتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ بطور مسلمان ہم جنہیں آپس میں تین روز سے زیادہ قطع تعلق کی اجازت ہی نہیں برسوں گزار دیتے ہیں کہ سگے بھائی بہن اور قریب ترین رشتے بھی آپسی دشمنی یا بدگمانی کو نہ صرف ساری عمر پالتے رہتے ہیں بلکہ کچھ تو اپنی اولاد کے ذہن و دل میں بھی ان نفرتوں اور بیگانگی کی فصل بو جاتے ہیں۔ نتیجتاً خوبصورت ترین رشتوں اور اچھے بھلے متحد خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ دلوں کی تنگی، عدم برداشت، ناچاقی اور قطع تعلقی کے بد اثرات اور بے برکتی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی رہتی ہے۔ دراصل بدگمانیوں کا معاملہ بھی ایک گرداب کی طرح ہوتا ہے جو نقطے سے شروع ہو کر طویل دائروں میں پھیلتا چلا جاتا ہے اور پھر وہ بھنور اپنے قریب آنے والی ہر شے کو غرقاب کردیتا ہے۔اگر کبھی ایمانداری اور غیر جانبداری سے اپنا جائزہ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ اس ساری خرابی کا مرکز و منبع ہماری انا اور احساس برتری کی تہوں میں چھپا ہوا ہے۔ ہم اپنی خود ساختہ شان و بڑائی کے زعم میں مبتلا ہو کر خیر کی جانب پہل کرنے سے اعراض کرتے ہیں۔ ہر کسی کی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ معاملات کو سدھارنے اور اختلافات کو ختم کرنے کیلئے دوسرا فریق پہل کرے۔ اس کے علاوہ کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں بدخواہ اور شر پسند افراد اپنی سازش کے ذریعے آپسی رشتوں میں پھوٹ ڈالتے اور منافرت پھیلاتے ہیں اور لوگوں کے بیچ مفاہمت اور سمجھوتہ ہونے نہیں دیتے۔ ایسے بد فطرت عناصر کی سازش سے باخبر رہنا اور بچنا بھی ضروری ہے۔بدگمانی اور غلط فہمیاں ہماری انفرادی اور سماجی زندگی کیلئے زہر کا کام کرتی ہیں۔ اس کے خسارے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ ہماری غیر مناسب و غیر وقتی خاموشی بھی معاملات کے زیادہ بگاڑ کا باعث ہوتی ہے۔ اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم آج سے اس بات کا عہدکریں کہ اپنے بزرگوں کی مانند ہم نے ساری عمر اختلافات اور رنجشیں نہیں پالنی بلکہ وسیع قلبی اور فراخدلی کے ساتھ فریقین نے ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو معاف کرکے اور ناانصافی و زیادتیوں کی تلافی کرکے اپنے کشیدہ تعلقات کو بحال کرنے کی ہر ممکن تدبیر کرنی ہے۔ اور حکمت و ادب کے ساتھ اپنے بزرگوں کو بھی اپنی پرانی رنجشیں دور کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنی ہے تاکہ ہماری آئندہ نسل کو مخلص رشتوں اور باہمی انس و محبت سے بھرپور ایک خوشگوار ماحول میسر آسکے۔