روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

داخلے جاری ہیں!

داخلے جاری ہیں!

پہلے بریلی کو بانس بھیجا کرتے تھے۔ یہ کاروبار کسی وجہ سے نہ چلا تو کوئلوں کی دلالی کرنے لگے۔ چونکہ صورت ان کی محاورے کے عین مصداق تھی، ہمارا خیال تھا اس کاروبار میں سرخ روہوں گے۔ لیکن آخری بار ملے تو معلوم ہوا نرسری کھول رکھی ہے۔ پودے اور کھاد بیچتے ہیں۔ پھولوں کے علاوہ سبزیوں کے بیج بھی ان کے ہاں سے بارعایت مل سکتے ہیں۔ آتے ہی کہنے لگے، ''دس روپے ہوں گے؟‘‘ہم نے نہ دینے کے بہانے سوچتے ہوئے استفسار کیا، ''کیا ضرورت آن پڑی ہے؟‘‘ فرمایا، ''اپن ادبی ذوق کے آدمی ہیں، اپن سے اب گھاس نہیں کھودی جاتی۔ کھاد اور پود نہیں بیچی جاتی۔ اب ہم ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس سے قوم کی خدمت بھی ہو‘‘۔ ہم نے کہا، ''دس روپے میں اسکول کھولیے گا؟‘‘ بہت ہنسے اور بولے، ''اچھی رہی۔ بھلا دس روپے میں بھی اسکول کھولا جا سکتا ہے۔ دس روپے میرے اپنے پاس بھی تو ہیں۔ دیکھیے سیدھا سیدھا حساب ہے۔ ایک دس روپے کا تو بورڈ لکھوایا جائے گا۔ بورڈ کیا کپڑے پہ نام لکھوانا ہی کافی ہوگا اور دوسرے دس روپے سے جو آپ مجھے دیں گے، میں شہر کی دیواروں، پلیوں، بس اسٹینڈوں وغیرہ کے چہرے پر کالک پھیروں گا۔ یعنی اپنا اشتہار لکھواؤں گا کہ اے عقل کے اندھو۔ گانٹھ کے پورو آؤ کہ داخلے جاری ہیں‘‘۔ہم نے کہا، ''یہ جو تم لوگوں کیلئے پتے گھروں کی دیواروں کو کالی کوچی پھیر کر خراب کروگے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تمہیں۔ کارپوریشن نہیں روکتی، پولیس نہیں ٹوکتی؟‘‘ بولے، ''پہلے یہ لوگ ملاوٹ کو تو روک لیں۔ عطائیوں اور گداگروں کو تو ٹوک لیں۔ شہر سے گندگی کے ڈھیر تو اٹھوا لیں۔ کتے تو پکڑوا لیں اور مچھروں مکھیوں کے منہ تو آلیں‘‘۔ ہم نے کہا، ''آپ بھی سچے ہیں۔ ان لوگوں کی مصروفیت کا ہمیں خیال ہی نہ رہا تھا۔ اچھا اگر یونین کمیٹیوں کو خیال آگیا کہ ان کا محلہ اجلا ہونا چاہیے۔‘‘ ٹھٹھا مار کر بولے، ''یونین کمیٹیاں؟ یہ کون لوگ ہوتے ہیں، کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ہم نے کھسیانے ہوکر پوچھا، ''آپ کے پاس اسکول کیلئے عمارت بھی ہے۔ خاصی جگہ درکار ہوتی ہے۔ آپ کاگھر تو جہاں تک ہمیں معلوم ہے 133 گز پر ہے‘‘۔ فرمایا، ''وہ ساتھ والا پلاٹ خالی ہے نا؟ جس میں ایک زمانے میں بھینسیں بندھا کرتی تھیں۔ بچوں سے تین تین ماہ کی پیشگی فیس لے کر اس پر ٹین کی چادریں ڈلوالیں گے۔ فی الحال تو اس کی بھی ضروت نہیں۔ گرمیوں کے دن ہیں۔ اوپن ایئر ٹھیک رہے گا۔ سنا ہے شانتی نکیتن میں بھی کھلے میں کلاسیں لگتی تھیں‘‘۔ہم نے کہا۔ ''آپ کی بات کچھ ہمارے جی نہیں لگتی۔ بارشیں آنے والی ہیں۔ ان میں اسکول بہہ گیا تو‘‘۔ سوچ کر بولے، ''ہاں یہ تو ہے۔ جگہ تو اپنی نرسری کے سائبان میں بھی ہے بلکہ اسکول کھولنے کا خیال ہی اس لیے آیاکہ کئی والدین نرسری کا بورڈ دیکھ کر آئے اور کہنے لگے۔ ہمارے بچوں کو اپنی نرسری میں داخل کرلو۔ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ یہ وہ نرسری نہیں بلکہ پھولوں پودوں والی نرسری ہے۔ لیکن وہ یہی زور دیتے رہے کہ اسکولوں میں تو داخلہ ملتا نہیں، یہیں داخل کر لو ہمارے بچوں کو، کم از کم مالی کا کام سیکھ جائیں گے‘‘۔ہم نے کہا، ''کس درجے تک تعلیم ہوگی؟‘‘ فرمایا، ''میٹرک تک تو ہونی ہی چاہیے۔ اس کے ساتھ کے۔ جی اور منٹگمری اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے‘‘۔ ہم نے کہا، ''مانٹیسوری سے مطلب ہے غالباً‘‘۔ فرمایا، ''ہاں ہاں مانٹیسوری۔ میرے منہ سے ہمیشہ منٹگمری ہی نکلتا ہے‘‘۔''پڑھائے گا کون؟‘‘ ہم نے دریافت کیا۔ بولے، ''میں جو ہوں اور کون پڑھائے گا۔ اب مشق چھٹی ہوئی ہے، ورنہ مڈل تو بندے نے بھی اچھے نمبروں میں پاس کر رکھا ہے۔ اے بی، سی تو اب بھی پوری آتی ہے۔ سناؤں آپ کو؟‘‘''اے بی سی ڈی ای‘‘ہم نے کہا، ''نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ آپ کی اہلیت میں کسے شک ہے۔ لیکن آپ تو پرنسپل ہوں گے پھر آپ کی دوسری مصروفیات بھی ہیں۔ یہ پھول پودے کا کاروبار بھی خاصا نفع بخش ہے۔ یہ بھی جاری رہنا چاہیے‘‘۔ بولے، ''ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ خیر ساٹھ ستر روپے میں کوئی بی اے، ایم اے پاس ماسٹر یا ماسٹرنی رکھ لیں گے۔ جب تک چاہا کام لیا۔ چھٹیاں آئیں نکال باہر کیا۔ بلکہ ہمارے اسکول میں تو تین کے بجائے چھ ماہ کی چھٹیاں ہوا کریں گی تاکہ بچوں کی صحت پر پڑھائی کا کوئی برا اثر نہ پڑے‘‘''نام کیا رکھا ہے اسکول کا؟‘‘ ہم نے پوچھا، ''مدرسہ تعلیم الاسلام اقبال ہائی اسکول وغیرہ‘‘۔ بولے، ''جی نہیں۔ نام تو انگریزی چاہئے۔ فرسٹ کلاس کا ہو جس سے معلوم ہو کہ ابھی ابھی انگریزوں نے آکر کھولا ہے۔ کسی سینٹ کا نام تو اب خالی نہیں سینٹ جوزف، سینٹ پیٹرک، سینٹ یہ سینٹ وہ، سب ختم ہوئے۔‘‘

حکایت سعدیؒ:دو امیر زادے

حکایت سعدیؒ:دو امیر زادے

شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مصر میں دو امیر زادے ر ہتے تھے۔ ایک نے علم حاصل کیا اور دوسرے نے مال و دولت جمع کیا۔ آخر کار ایک زمانے کا بہت بڑا عالم بن گیا اور دوسرے کو مصر کی بادشاہت مل گئی۔ بادشاہ بننے کے بعد اس نے اس عالم کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور کہا : ''میں حکومت تک پہنچ گیا اور تیری قسمت میں غربت و مسکینی آئی ‘‘۔عالم نے کہا : '' اے بھائی! مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر تجھ سے زیا دہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ میں نے پیغمبروں کا ورثہ یعنی علم پایا اور تو نے فرعون و ہامان کی میراث یعنی مصر کی حکومت پائی ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

خلائی مشن ''ونیرہ 7‘‘ کی زہرہ پر لینڈنگ1970ء میں آج کے روز سوویت خلائی مشن ''ونیرہ 7‘‘ نے سیارہ زہرہ پر کامیابی کے ساتھ لینڈنگ کی۔ یہ کسی دوسرے سیارے پر پہلی کامیاب لینڈنگ تھی۔ یہ مشن سوویت خلائی ایجنسی کے ''ونیرہ پروگرام کا حصہ تھا، جو زہرہ کی خصوصیات کو سمجھنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ ''ونیرہ 7‘‘ کا مقصد سیارہ زہرہ کی فضائی خصوصیات، سطح کی بناوٹ اور موسمی حالات کا مطالعہ کرنا تھا۔ اس کی بھیجی گئی معلومات کے مطابق زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 475 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔پیسا ٹاور 11سال بعد دوبارہ کھولا گیا15دسمبر 2001ء کو پیسا ٹاور کو مرمت کے بعد 11 سال بعد دوبارہ عوام کیلئے کھولا گیا۔ مینار کو مستحکم کرنے پر 2 کروڑ 70لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے، لیکن اس کے جھکاؤ کو درست نہیں کیا جا سکا۔ پیسا ٹاور، جسے ''لیننگ ٹاور آف پیسا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اٹلی میں واقع ایک تاریخی مینار ہے۔ یہ اپنی منفرد جھکی ہوئی ساخت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کی تعمیر 1173ء میں شروع ہوئی تھی۔ یہ اصل میں ایک گرجا گھر کے گھنٹی ٹاور کے طور پر بنایا گیا تھا۔ امریکی پیٹنٹ آفس میں آتشزدگی1836ء میں آج کے دن واشنگٹن، ڈی سی میں امریکی پیٹنٹ آفس کی عمارت تقریباً جل کر خاکستر ہو گئی، جس میں حکومت کی جانب سے اس وقت تک جاری کیے گئے تمام 9957 پیٹنٹ اور 7ہزار متعلقہ ماڈلز تباہ ہو گئے۔ امریکی پیٹنٹ آفس ایک وفاقی ایجنسی ہے جو اختراعات، ایجادات اور ٹریڈ مارکس کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ یہ آفس امریکہ کے محکمہ تجارت کے تحت کام کرتا ہے۔امریکی کانگریس نے پیٹنٹ سسٹم 1790ء میں قائم کیا ۔یو اے ای فضائی حادثہ 1997ء میں آج کے دن تاجکستان ایئرلائنز کی پرواز 3183 متحدہ عرب امارات میں شارجہ کے قریب گر کر تباہ ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں 85 افراد جاں بحق ہو گئے۔ معجزاتی طور پر مسافروں میں سے صرف ایک شخص زندہ بچ گیا۔ تفتیش کاروں نے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ کو قرار دیا، جس کی معمولی سی غلطی کے نتیجے میں طیارہ کنٹرول سے باہر ہو گیا اور زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔عراق سے امریکی افواج کی واپسی2011 میں آج کے روز عراق سے تمام امریکی فوجی دستوں کی واپسی مکمل ہوئی۔ 15 دسمبر 2011ء کو آخری امریکی فوجی دستہ کویت میں داخل ہوا، جس کے ساتھ ہی عراق میں امریکی مشن کا باقاعدہ اختتام ہوا۔ یہ واپسی عراق میں امریکی مداخلت کے اختتام اور ملکی خودمختاری کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم تھی۔

مصر کے مقبرے نے حیرتوں کے در کھول دیے!

مصر کے مقبرے نے حیرتوں کے در کھول دیے!

نایاب نوادرات کی دریافتفرعونی دور کی نئی کہانی، مصر میں نئی بحث کا آغازقدیم مصر کی سرزمین ایک بار پھر دنیا کو حیران کر گئی ہے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے ایک مقبرے سے شاندار خزانہ دریافت کیا ہے جس نے تاریخ کے کئی اوراق پلٹ کر رکھ دیے ہیں۔ صدیوں پرانے اس مقبرے میں سے ملنے والی نایاب اشیا، زیورات، روزمرہ استعمال کے آلات اور مذہبی علامات نے نہ صرف ماہرین کو نئی تحقیق پر مجبور کر دیا ہے بلکہ یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس دور کی تہذیب اور طرزِ زندگی پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور پیچیدہ تھی۔ اس حیران کن دریافت نے مصر کی قدیم تہذیب کے بارے میں رائج بہت سے نظریات کو چیلنج کر دیا ہے اور نئے سوالات نے جنم لیا ہے کہ آخر اس مقبرے کے مالک کی حیثیت کیا تھی، اور ان قیمتی نوادرات کو اس انداز میں کیوں دفن کیا گیا؟ ماہرین اس انکشاف کو صدی کی عظیم ترین آثارقدیمہ دریافت قرار دے رہے ہیں۔مصر کے ماہرین آثار قدیمہ نے یہ حیرت انگیز خزانہ ایک قدیم شاہی مقبرے سے دریافت کیا ہے، جو اتنا نایاب ہے کہ تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے پر مجبور کر رہا ہے۔تانیس ( Tanis)کی ریت میں گہرائی میں دفن اس مقام سے محققین کو 225 نہایت نفاست سے تراشی گئی مورتیاں ملی ہیں، جو ایک پراسرار مذہبی طرز پر ترتیب دی گئی تھیں۔ یہ دریافت صرف اپنی مقدار کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی گتھیوں کے باعث بھی آثارِ قدیمہ کی دنیا میں نئی سنسنی پھیلا رہی ہے۔ان مورتیوں میں سے آدھے سے زیادہ انسائی شکلوں پر مشتمل ہیں، جو شاہی تدفینی رسومات میں تقریباً ناپید خصوصیت ہے۔ اس سے مصر کے تیسرے عبوری دور کی رسومِ تدفین کے بارے میں نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مورتیاں ستارے جیسی ساخت اور بالکل سیدھی افقی قطاروں میں رکھی ملیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تقریباً 3 ہزار سال تک بغیر چھوئے ایک خاص مذہبی ترتیب کے تحت محفوظ رہیں۔ تقریباً 80 سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ تانیس میں کسی شاہی مقبرے کے اندر سے غیر متاثر شدہ مورتیاں ملی ہیں۔ اسے 1940ء کی دہائی کے بعد اس مقام کی سب سے بڑی دریافت قرار دیا جا رہا ہے۔سب سے حیران کن انکشاف یہ ہے کہ ان ننھی مورتیوں پر موجود شاہی نشانات ثابت کرتے ہیں کہ یہ خالی مقبرہ دراصل فرعون شوشنق سوم کا تھا۔وہ حکمران جس کی آخری آرام گاہ ماہرین کیلئے دہائیوں سے معمہ بنی ہوئی تھی۔ اس کی حکمرانی 830 قبل مسیح سے 791 قبل مسیح تک رہی۔ یہ انکشاف برسوں سے قائم نظریات کو الٹ دیتا ہے اور اس گتھی کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے کہ آخر فرعون اپنے ہی مقبرے میں دفن کیوں نہ کیا گیا۔کھدائی کی ٹیم نے انتہائی احتیاط سے ان مورتیوں کو 10 دن کے دوران نکالا اور ان کی نازک حالت کو محفوظ رکھنے کیلئے رات بھر کام کیا۔ تحقیق مکمل ہونے کے بعد یہ مورتیاں مصر کے ایک میوزیم میں نمائش کیلئے رکھی جائیں گی، جہاں عوام کو مصر کے سب سے پراسرار فرعونوں میں سے ایک کی تدفینی رسومات کا نایاب مشاہدہ حاصل ہو گا۔ فرانسیسی ماہر مصر شناس فریڈرک پیروڈیو نے پیرس میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ دریافت ''حیران کن‘‘ ہے، کیونکہ اسی مقام پر موجود ایک اور مقبرے کی دیواروں اور وہاں کے سب سے بڑے تابوت (sarcophagus) پر اسی فرعون کا نام درج ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پھر وہ اسی مقبرے میں دفن کیوں نہیں ہے؟ پیروڈیو نے کہا کہ اصل میں، کسی فرعون کیلئے مقبرہ تعمیر کرنا ایک بڑا جوا ہوتا ہے، کیونکہ اسے کبھی یقین نہیں ہوتا کہ اس کا جانشین واقعی وہیں اسے دفن کرے گا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یقیناً، ہمارے پاس اب اس بات کا نیا ثبوت موجود ہے کہ یہ جوے ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے۔شوشنق سوم نے تیسرے عبوری دور کے دوران حکومت کی وہ دور جو سیاسی انتشار اور اقتدار کی مسلسل کشمکش کیلئے بدنام تھا۔ پیروڈیو کے مطابق، اس کی چار دہائیوں پر مشتمل حکمرانی نہایت پُرآشوب تھی اور اس میں ''بالائی اور زیریں مصر کے درمیان ایک انتہائی خونریز خانہ جنگی جاری رہی، جہاں کئی فرعون طاقت کے حصول کیلئے لڑ رہے تھے۔لہٰذا یہ ممکن ہے کہ شاہی جانشینی منصوبے کے مطابق نہ ہوئی ہو اور فرعون کو اس کے منتخب کردہ مقبرے میں دفن نہ کیا گیا ہو۔ ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ لوٹ مار کے بعد اس کے باقیات کو کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہو۔فرانسیسی ماہر پئیر مونٹے نے یہ چونے کے پتھر سے بنا مقبرہ پہلی بار 1939ء میں دریافت کیا تھا، جو معبدِ آمون کے بالکل ساتھ واقع ہے۔اگرچہ یہ مقبرہ قدیم زمانے میں لوٹا جا چکا تھا، مگر اس کے چار کمروں میں سے سب سے بڑے کمرے میں اب بھی اوسورکون دوم جو مصر کی 22ویں سلطنت کا فرعون تھاکا گرینائٹ کا تابوت موجود تھا۔کھدائی کی ٹیم اس تنگ مقبرے کے باقی تین کونوں میں بھی کھدائی مکمل کر چکی ہے، جن میں سے ایک میں ایک عجیب و غریب، مگر بے نام و نشان تابوت پایا گیا۔پیروڈیو کے مطابق، ایسی دریافت مصر کے جنوب میں وادی الملوک (لکسر کے قریب) میں بھی کبھی نہیں ہوئی،سوائے 1922ء میں دریافت ہونے والے نو عمر بادشاہ توت عنخ آمون کے مقبرے کے،کیونکہ تاریخی طور پر وہاں کے زیادہ تر مقبرے لوٹ مار کا شکار ہو چکے ہیں۔  

’’بلیک پینتھر‘‘ کی دیوانی

’’بلیک پینتھر‘‘ کی دیوانی

سپر ہیرو سے جڑی 2,546 اشیاء جمع کر کے عالمی ریکارڈ بنا ڈالاہیوسٹن، ٹیکساس کی رہائشی ٹائیشا ایلام نے اپنے شوق کو اس حد تک پروان چڑھایا ہے کہ ان کا پورا گھر مارول کے مشہور کردار بلیک پینتھر کیلئے ایک منفرد اور ریکارڈ ساز مقام بن چکا ہے۔ گھر کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں اس افریقی خیالی بادشاہ کی جھلک نہ ملتی ہو۔ شیلفوں پر سلیقے سے رکھی اشیاء، دیواروں پر سجے پوسٹر اور آرٹ ورک حتیٰ کہ الماری میں رکھے مگ اور کپ بھی اسی کردار کی تصویر سے مزین ہیں۔ٹائیشا ایلام نہ صرف بلیک پینتھر کی شوقین ہیں بلکہ گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی بلیک پینتھر یادگاروں کی مالک بھی ہیں۔ ان کے پاس 2,546 سرکاری طور پر تسلیم شدہ اور مجموعی طور پر 3ہزار سے زائد اشیاء موجود ہیں، جنہوں نے ان کے گھر کو فینز کیلئے ایک عجوبہ بنا دیا ہے۔یہ سپر ہیرو کی سپر فین اپنے شوق کی تکمیل کیلئے دنیا بھر کا سفر کر چکی ہیں۔ انہوں نے بلیک پینتھر کے سیکوئل ''واکانڈا فاریور‘‘ (2022ء) کو سات مختلف ممالک کے سینمائوں میں دیکھا، جن میں جرمنی، فجی، نیوزی لینڈ، میکسیکو، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ان کے پاس اشیاء کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہوں نے بقول خود ''کئی چھوٹی چھوٹی کلیکشنز پر مشتمل ایک بڑی کلیکشن‘‘ جمع کر لی ہے۔ اس میں فنکو پاپس اور ڈیزائنر برانڈ Coach کے خصوصی آئٹمز سے لے کر دنیا بھر کے سینما گھروں کے مووی کپ اور پاپ کارن بکٹ تک شامل ہیں۔یہ سب کچھ فروری 2018ء میں شروع ہوا، جب ٹائیشا نے پہلی بار اپنی والدہ کے ساتھ فلم ''بلیک پینتھر‘‘ دیکھی۔ٹائیشا کے مطابق،اس وقت میری عمر 46 سال اور میری والدہ کی عمر 66 سال تھی۔ ہماری فلموں میں دلچسپی مختلف ہونے کی وجہ سے ہم کئی دہائیوں سے اکٹھی سینما نہیں گئے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایاکہ کہنے کی ضرورت نہیں، ہمیں دونوں کو یہ فلم بے حد پسند آئی! میں نے ''بلیک پینتھر‘‘ کی اشیاء جمع کرنا صرف اس خوبصورت یاد کو تازہ رکھنے کیلئے شروع کیا تھا۔سینما ہال سے باہر نکلتے ہی ٹائیشا اور ان کی ماں سیدھا قریبی ٹوائز شاپ پہنچیں تاکہ اپنی کلیکشن کی پہلی چیز بلیک پینتھر کا ماسک خرید سکیں۔ ٹائیشا نے بتایا، جی ہاں، 46 سال کی عمر میں، وہ مجھے ٹوائے شاپ لے گئیں! میں خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ انہوں نے مجھے ناکیا کی گڑیا، شوری کی گڑیا اور بلیک پینتھر کا ماسک لے کر دیا۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہی تین اشیاء آگے چل کر ہزاروں کی کلیکشن کی بنیاد بنیں گی۔ٹائیشا، جو پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں، ہائی اسکول کے زمانے میں اداکارہ بھی رہی ہیںاور آج تک فنونِ لطیفہ سے گہرا لگاؤ رکھتی ہیں۔ مگر بلیک پینتھر نے ان پر محض اپنی والدہ کے ساتھ جڑی جذباتی یاد سے بڑھ کر، ایک گہرا اثر چھوڑا۔اس فلم کے مرکزی کردار ٹی چیلا(بلیک پینتھر) اور دیگر کرداروں کے ساتھ انہیں فوراً ایک مضبوط روحانی اور جذباتی رشتہ محسوس ہوا،ایسے کردار جو اپنے خاندان، اپنے ثقافتی ورثے اور اپنی خودمختاری سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور جو اپنی اخلاقی قدروں پر قائم رہتے ہوئے خوشحال زندگی بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جو بھی فلمیں میں نے دیکھی ہیں، ان میں بلیک پینتھر سب سے بہترین ہے! کہانی میں چھپی اقدار اور اخلاقی اصول دنیا بھر کے مداحوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔ٹی چیلا کے ساتھ، ہم اس کے پورے خاندان سے محبت کرنے لگے۔ ہمیں اس کے والد بادشاہ ٹی چا کا، والدہ ملکہ رامونڈا اور بہن پرنسس شوری سب پسند ہیں۔ ہم واکانڈا میں کئی قبائل کے سرداروں سے ملے اور ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنے بادشاہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔دشمن کے مقابلے میں بھی، جیسے ایم'باکو یا کلمنگر کے ساتھ لڑائی، ہمیں آخرکار یہ سیکھنے کو ملا کہ ٹی چیلا انہیں محبت کرتا تھا اور دل کی گہرائیوں سے وہ بھی اسے پسند کرتے تھے۔مزید برآں، ٹائیشا کہتی ہیں کہ یہ فلمیں ان کیلئے ایک سیاہ فام عورت کی حیثیت سے بہت اہم ہیں، کیونکہ انہیں شاذ و نادر ہی ایسے کردار نظر آئے جو اپنی طرح دکھائی دیتے ہوں اور جنگجو یا سپر ہیروز بنیں۔لیکن نمائندگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر کی چھوٹی سیاہ اور بھوری لڑکیوں کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ ملکہ رامونڈا کی طرح عقلمند، شوری کی طرح ذہین، ناکیا کی طرح خوبصورت اور اوکوائے کی طرح مضبوط بن سکتی ہیں۔اور اس فلم کی بدولت، جو 11 مارچ 2021ء تک دنیا کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی سپر ہیرو فلم بن گئی اور جس نے عالمی سطح پر ایک ارب 33کروڑ ڈالر کا بزنس کیا۔ نیز یہ 2019ء میں بیسٹ پکچر کیلئے نامزد ہونے والی پہلی سپر ہیرو فلم بھی بنی، ٹائیشا نے خود یہ دیکھا کہ باکس آفس پر درست نمائندگی کس طرح کامیابی اور اثر انگیز مشترکہ تجربات کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اپنی کلیکشن کی بدولت، ٹائیشا نے دنیا بھر میں سفر کرتے ہوئے بے شمار انمول یادیں جمع کی ہیں، جب وہ مزید یادگار اشیاء تلاش کرتی رہیں۔ انہیں ڈزنی پارکس جانا بہت پسند ہے،خاص طور پر اس لیے کہ ان کی سالگرہ 5 دسمبر کو والٹ ڈزنی کے ساتھ منائی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ فلم کی خوشی میں خود کیلئے ایک خاص سالگرہ کا تحفہ خریدتی ہیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

صدام حسین کی گرفتاریعراق کے معزول صدر صدام حسین کو امریکی فوجی دستوں نے13دسمبر2003ء کو عراق کے قصبے ادداور سے گرفتار کیا ۔صدام حسین کے خلاف اس آپریشن کو ''ریڈ ڈان‘‘ کا نام دیا گیا تھاجو 1984ء کی ہالی وڈ فلم ''ریڈ ڈان‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔مشن کو مشترکہ آپریشنز ٹاسک فورس121کے ذریعے انجام دیا گیا۔ صدام حسین کو دو مختلف جگہوں پر تلاش کیا گیا، امریکی فوجیوں نے صدام حسین کو گرفتار کیاتو انہوں نے بغیر مزاحمت کے گرفتاری دے دی۔ نیوزی لینڈ دریافت ہواابیل تسمان، ڈچ مہم جو اور جہاز ران تھا۔ 1642ء میں اس نے جنوبی سمندری علاقوں کی تلاش کیلئے تاریخ ساز سفر شروع کیا۔13 دسمبر 1642ء کو تسمان نے ایک نامعلوم سرزمین دیکھی جو بعد میں نیو زی لینڈ کہلائی۔ یہ اس خطے سے یورپی اقوام کا پہلا رابطہ تھا۔تسمان نے ابتدا میں اس جگہ کو ''Staten Landt‘‘ کا نام دیا۔بعد میںبرطانوی مہم جو کیپٹن جیمز کک نے 1769ء میں اس علاقے کی تفصیلی نقشہ بندی کی۔یورپی یونین میں توسیع2002ء میں آج کے روز یورپی یونین میں تویسع کی گئی۔ یورپی یونین نے وسعت کا اعلان کرتے ہوئے مزید دس ممالک کو یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یورپی یونین کا حصہ بننے والے نئے ممالک میں قبرص، چیکیا، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیہ اور سلووینیا شامل ہیں۔ یہ ممالک یکم مئی 2004ء کو یونین کا رکن بنے۔لزبن معاہدہ''لزبن معاہدہ‘‘ جسے ''ریفارم ٹریٹی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے پر یورپی یونین کے رکن ممالک نے 13دسمبر2007ء کو دستخط کئے۔ یہ معاہدہ یکم دسمبر2009ء کو نافذ العمل ہوا۔ اس معاہدے کے ذریعے ''Maastricht Treaty‘‘ میں ترمیم کی گئی جسے اب '' European Union Treaty‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں یورپی اٹامک انرجی کمیونٹی کے قیام کے معاہدے میں بھی ترمیم کی گئی۔شمالی یمن میں زلزلہ13دسمبر1982ء کو شمالی یمن کے شہر دمار میں 6.2شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کے شدیدجھٹکوں نے پورے شہر میں تباہی مچا دی جس کے بعد 2800 افراد جاں بحق اور 1500سے زیادہ شدید زخمی ہوئے۔ یہ زلزلہ ارضیاتی طور پر پیچیدہ خطے میں پلیٹ باؤنڈری کے کئی سو کلومیٹر کے اندر آیا جس میں فعال آتش فشاں اور سمندری سطح پر پھیلنے والی پہاڑیاں شامل تھیں۔پولینڈ میں مارشل لاء13دسمبر1981ء کو پولیش عوامی جمہوریہ کی حکومت نے سیاسی مخالفین بالخصوص یکجہتی کی تحریک کا مقابلہ کرنے کی کوشش میںمارشل لاء لگا کر روزمرہ کی زندگی کو محدود کر دیا۔ 1970ء کی دہائی کے اختتام سے کمیونسٹ پولینڈ ایک گہری اقتصادی کساد بازاری کاشکار تھا۔ پولیش فرسٹ سیکرٹری ایڈورڈ گیرک نے بہتر معاشی پیداوارکیلئے غیر ملکی قرضوںکا ایک سلسلہ شروع کیا لیکن اس کا نتیجہ ملکی بحران کی صورت میں نکلا۔    

VILPA:مختصر وقفوں کی ورزش صحت مند زندگی کا راز

VILPA:مختصر وقفوں کی ورزش صحت مند زندگی کا راز

آج کی تیزرفتار زندگی میں باقاعدہ ورزش کے لیے وقت نکالنا بہت سے لوگوں کے لیے مشکل کام بن چکا ہے۔ مصروف شیڈول، دفتری ذمہ داریاں، گھر کے کام، سفر اور سماجی مصروفیات کی وجہ سے ہم یا تو جِم جانے کا ارادہ ٹالتے رہتے ہیں یا پھر روزانہ کے دس ہزار سٹیپس کا ہدف پورا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مگر سائنس ایک نئی تحقیق نے ہماری سوچ بدل کر رکھ دی ہے۔ اب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ صحت بہتر رہنے کے لیے نہ لمبی ورزش ضروری ہے نہ مہنگا سامان اور نہ ہی روزانہ گھنٹوں کی مشقت۔ صرف چند منٹ کی مختصر مگر تیز جسمانی حرکات جنہیں Vigorous Intermittent Lifestyle Physical Activityیا (VILPA) کہا جاتا ہے،آپ کو صحت مند لمبی زندگی کے قابل بناسکتی ہیں۔VILPA کیا ہے؟ گزشتہ چند برسوں میں ورزش کی سائنس میں یہ نیا تصور بہت تیزی سے مقبول ہوا ہے کہ عام گھریلو یا روزمرہ کے کام تیز رفتاری سے اور توانائی سے بھرپور انداز میں کیے جائیں مثال کے طور پر سیڑھیاں چڑھنا، کچن میں تیزی سے کام کرنا، بچوں کے ساتھ کھیلنا، خریداری کے تھیلے اٹھانا یا گھر کی صفائی کرنا۔ ان سرگرمیوں کا دورانیہ بہت کم،صرف ایک سے دو منٹ ہوتا ہے لیکن ان کے اثرات حیران کن ہیں۔لندن یونیورسٹی کالج کے پروفیسر مارک ہیمر اور ان کے ساتھیوں نے جب ایسے افراد کا ڈیٹا دیکھا جو کسی قسم کی باضابطہ ورزش نہیں کرتے تھے، تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان میں سے کئی لوگ روزمرہ کے معمولات میں تیز رفتار حرکات کے ذریعے کافی مقدار میں ورزش کر رہے تھے۔ یہ حرکات مختصر وقفوں میں تھیں مگر شدت زیادہ تھی۔ تحقیق میں سامنے آیا کہ یہی مختصر وقفے، دل کی دھڑکن بڑھا کر اور پٹھوں کو فعال بنا کر صحت پر ایسے مثبت اثرات چھوڑ رہے تھے جنہیں پہلے صرف جِم کی سخت ورزشوں سے جوڑا جاتا تھا۔تحقیق کیا کہتی ہے؟ 2022ء میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے محققین نے 25 ہزار سے زائد افراد پر مبنی ایک بڑی تحقیق شائع کی جس میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ اگر کوئی شخص روزانہ صرف تین سے چار بار ایک منٹ کے VILPA بٹس کرے تودل کی بیماریوں سے موت کا خطرہ تقریباً 49 فیصد کم دیکھا گیا۔ ایک اور تازہ تحقیق نے بتایا کہ صرف چار منٹ کی VILPA روزانہ، بیٹھے بیٹھے زندگی گزارنے والوں کے لیے دل کی بیماری کا خطرہ نمایاں حد تک گھٹا دیتی ہے۔یہ نتائج طبی دنیا کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب80 کروڑافراد ایسے ہیں جو ورزش نہ کرنے کی وجہ سے خطرناک بیماریوں کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ وقت کی کمی، سہولیات کا فقدان، عدم دلچسپی اور طرزِ زندگی کی مصروفیات،یہ تمام عوامل ورزش چھوڑنے کی بنیادی وجوہات مانے جاتے ہیں۔ ایسے میں VILPA کا ماڈل ان لوگوں کے لیے ایک قابلِ عمل راستہ فراہم کرتا ہے جو پوری ورزش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ صرف ایک یا دو منٹ کی تیز رفتار حرکت ہماری صحت میں اتنا بڑا فرق کیسے ڈال سکتی ہے؟ اس کی وضاحت سادہ ہے وہ یہ کہ جیسے ہی ہم تیزی سے حرکت کرتے ہیں پٹھے سکڑ کر خون میں مختلف بائیو کیمیکل مادوں کو متحرک کرتے ہیں جو چربی جلانے، خون میں شوگر کو بہتر انداز میں استعمال کرنے اور جسم میں موجود سوزش کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ VILPA نہ صرف دل کی صحت کے لیے مفید ہے بلکہ ذیابیطس، موٹاپا اور ہائی کولیسٹرول جیسے مسائل کے خطرات بھی گھٹا دیتی ہے۔یہ مائیکرو برسٹ بڑھتی عمر کے ساتھ سامنے آنے والی کمزوری اور فریکچر کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں کیونکہ یہ جسم کے اہم عضلات کو مسلسل فعال رکھتے ہیں۔ ایسے افراد جنہیں گھٹنوں، کمر یا جوڑوں میں درد رہتا ہے وہ بھی مختصر وقفوں میں تیز رفتار حرکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔VILPA کیسے کریں؟ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں کچھ خاص یا مشکل کام کرنے ہوں گے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس کے لیے آپ کو نہ وقت نکالنے کی ضرورت ہے نہ پیسے خرچ کرنے کی۔ یہ صرف معمولات میں تھوڑی سی تبدیلی کا نام ہے ۔ جیسا کہ لفٹ کے بجائے سیڑھیاں استعمال کریں،مگر عام چال سے تھوڑا تیز۔گھر میں چلتے پھرتے قدموں کی رفتار بڑھا دیں۔ کچن کا کام کرتے ہوئے تیز رفتار موومنٹ اپنائیں۔گاڑی سے اتریں تو آخری چند میٹر پاور واک کر کے چلیں۔بچوں کے ساتھ روزانہ دو تین منٹ تیز کھیلیں۔ویٹ نہ اٹھا سکیں تو شاپنگ کے بیگ اٹھا لیں۔یہ بھی ایک طرح کی طاقت بڑھانے والی مشق ہے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب یہ سرگرمیاں دن بھر میں تین سے چار بار دہرائی جائیں تو اثرات باقاعدہ ورزش کے برابر محسوس ہو سکتے ہیں۔ورزش کے متعلق ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ماہرین زیادہ قدم چلنے کے جنون کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق دل کی بیماریوں کے خطرے میں کمی کے لیے 10 ہزار قدم ضروری نہیں۔ صرف 2200 سے 2700 قدم روزانہ بھی بڑا فائدہ دیتے ہیں۔ VILPA کی کارکردگی محض دل اور میٹابولزم تک محدود نہیں چند سٹڈیز ظاہر کرتی ہیں کہ روزانہ صرف چار منٹ کی تیز رفتار سرگرمی کینسر کے خطرے کو 17 سے 18 فیصد تک کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ سرگرمیاں جسم میں موجود مہلک سوزش کو نمایاں حد تک کم کر دیتی ہیں،وہی سوزش جو نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک متعدد بیماریوں کی جڑ ہے۔ماہرین اس ماڈل کو مستقبل کی صحت پالیسیوں کا حصہ بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر پوری آبادی کو اس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ دن میں چند بار مختصر مگر تیز حرکات کریں تو اس کا مجموعی اثر لاکھوں زندگیاں بچا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بیماریوں کا بوجھ کم کرے گا بلکہ ہسپتالوں پر دباؤ بھی گھٹا دے گا۔اہم بات یہ ہے کہ ''کچھ کرنا، کچھ بھی نہ کرنے سے کہیں بہتر ہے‘‘۔ اگر آپ جِم نہیں جا سکتے، واک کا وقت نہیں ملتا یا آپ کو لگتا ہے کہ ورزش کی روٹین بنانا بہت مشکل ہے تو کوئی مسئلہ نہیں صرف اپنی روزمرہ زندگی میں تیزی اور توانائی شامل کریں۔ تیز قدموں سے چلیں، تیزی سے سیڑھیاں چڑھیں یا گھر کے کاموں میں حصہ لیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے قدم آپ کی صحت میں بڑا انقلاب لا سکتے ہیں۔ 

آن لائن ہراسانی :خواتین کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ صورتحال

آن لائن ہراسانی :خواتین کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ صورتحال

ڈیجیٹل دنیا نے انسانوں کے درمیان رابطے کے نئے ذرائع پیدا کیے ہیں، لیکن اسی دنیا میں لاکھوں خواتین اور لڑکیاں ہر روز '' تشدد اور بدسلوکی‘‘ کا شکار ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین(UN Women) کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک ارب 80کروڑخواتین اور لڑکیاں یعنی خواتین کی مجموعی آبادی کا44 فیصد آن لائن ہراسانی یا تعاقب سے قانونی تحفظ سے محروم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی آدھی سے زائد خواتین کیلئے ڈیجیٹل دنیا خطرے کا گڑھ بن چکی ہے۔آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی کی نوعیت مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ اس میں نہ صرف ہراسانی اور تعاقب شامل ہیں بلکہ بدنامی، جھوٹی معلومات، رضامندی کے بغیر تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا، ڈیپ فیک اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے جعلی مواس اوردھمکیاں دینا بھی شامل ہے۔ یہ تشدد صرف آن لائن محدود نہیں رہتا بلکہ حقیقی زندگی میں خوف، ذہنی اور جسمانی نقصان اور بعض اوقات خواتین کے قتل تک جا پہنچتا ہے۔قانونی خلا اور کمزور تحفظ ورلڈ بینک کے مطابق 40 فیصد سے بھی کم ممالک میں خواتین کو آن لائن ہراسانی سے تحفظ دینے والے قوانین موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی 44 فیصد خواتین اور لڑکیاں قانونی خلا کی وجہ سے خطرات کا شکار ہیں۔ کمزور قانونی نظام کی وجہ سے مجرم بلاخوف و خطر اپنے اقدامات جاری رکھتے ہیں جبکہ متاثرہ خواتین اور لڑکیاں غیر محفوظ رہ جاتی ہیں۔خاص طور پر کاروبار یا سیاست میں قیادت کے عہدوں پر فائز خواتین اکثر منظم ہراسانی اور ڈیپ فیک کا شکار بنتی ہیں۔ ان پر غلط معلومات پھیلانے، بدنام کرنے یا انہیں اپنے عہدوں سے ہٹانے کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یو این ویمن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی تقریباً ایک چوتھائی خاتون صحافیوں کو آن لائن جسمانی تشدد حتیٰ کہ قتل کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔مصنوعی ذہانت اور آن لائن تشدد آن لائن ہراسانی میںAI کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈیپ فیک اورAI ٹولز کے ذریعے سرحد پار تشدد سے دھمکیوں اور بدنامی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عدالتی نظام اس طرح کے نئے جرائم سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز پر مؤثر احتساب تقریباً موجود نہیں۔ یہ صورتحال مجرموں کو مزید بے خوف بناتی ہے اور متاثرہ خواتین کی آواز کو دبانے کا سبب بنتی ہے۔تاہم کچھ مثبت پیش رفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کے آن لائن سیفٹی ایکٹ، میکسیکو کے اولمپیا ایکٹ اور یورپی یونین کے ڈیجیٹل سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین آن لائن تشدد کے خلاف مؤثر اقدامات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 117 ممالک نے آن لائن تشدد سے نمٹنے کی اپنی کوششوں کی رپورٹ پیش کی مگر عالمی سطح پر یہ کوششیں اب بھی ناکافی ہیں۔یو این ویمن نے آن لائن ہراسانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے چند اہم سفارشات پیش کی ہیں:عالمی تعاون: ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور AI آلات کو حفاظتی اور اخلاقی معیار کے مطابق بنانے کیلئے ممالک کے درمیان تعاون ضروری ہے۔مالی معاونت: آن لائن تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے حقوق نسواں کی تنظیموں کو مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی جائے۔قانونی نفاذ: قوانین بہتر بنانے اور ان کے نفاذ کے ذریعے مجرموں کو جوابدہ بنایا جائے تاکہ متاثرہ خواتین تحفظ حاصل کر سکیں۔خواتین کی شمولیت: ٹیکنالوجی کمپنیوں میں خواتین کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ آن لائن ماحول محفوظ بن سکے، نقصان دہ مواد کو ہٹایا جا سکے اور شکایات پر مؤثر کارروائی ہو۔رویوں میں تبدیلی: ڈیجیٹل خواندگی، آن لائن حفاظت کی تربیت اور زہریلی آن لائن ثقافت کا مقابلہ کرنے کے پروگرام مرتب کیے جائیں تاکہ خواتین اور لڑکیوں کو معلوماتی اور ذہنی تحفظ حاصل ہو۔ آن لائن ہراسانی کا اثر صرف ڈیجیٹل دنیا تک محدود نہیں یہ حقیقی زندگی میں خوف، ذہنی دباؤ اور جسمانی تشدد تک پہنچ سکتا ہے۔ جب خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد بڑھتا ہے تو ان کی آوازیں دب جاتی ہیں، وہ عوامی زندگی سے کٹ جاتی ہیں اور بعض اوقات انہیں اپنے پیشہ ورانہ یا ذاتی میدان میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث (Sima Bahous)کہتی ہیں کہ جو کچھ آن لائن شروع ہوتا ہے وہ وہاں ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہ حقیقی زندگی میں تشدد اور خطرات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے قوانین اور پالیسیوں کو ٹیکنالوجی کے مطابق تیار کرنا ناگزیر ہے تاکہ خواتین اور لڑکیاں آن لائن اور آف لائن دونوں جگہوں پر محفوظ رہ سکیں۔آگے کا راستہیو این ویمن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دنیا بھر میں فوری اقدامات کیے جائیں اور قانونی خلا کو ختم کرنا، مجرموں کو جوابدہ بنانا اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کی ذمہ داری بڑھانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کی ڈیجیٹل خواندگی بڑھانا، آن لائن حفاظت کی تربیت دینا اور زہریلی آن لائن ثقافت کا مقابلہ کرنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آن لائن ہراسانی ایک عالمی مسئلہ ہے جو نہ صرف خواتین کی حفاظت بلکہ سماجی اور قانونی ڈھانچے کی مضبوطی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ قانونی خلا، کمزور احتساب اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے خواتین غیر محفوظ ہیں لیکن عالمی تعاون، مضبوط قوانین اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت کے ذریعے یہ مسئلہ کم کیا جا سکتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

انسانی حقوق کا اعلامیہ 10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں لاکھوں انسانوں کے قتل، نسل کشی، جبری مشقت، جلاوطنی اور ظلم و جبر کے بعد دنیا کو ایسی دستاویز کی ضرورت تھی جو ہر انسان کے بنیادی، پیدائشی اور ناقابلِ تنسیخ حقوق کی وضاحت کرے۔ یہ اعلامیہ ایلینور وزویلٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی ایک کمیشن کی محنت کا نتیجہ تھا۔ اس میں 30 آرٹیکلز شامل کیے گئے جن میں آزادی ٔاظہار، مذہبی آزادی، قانون کے سامنے مساوات، تعلیم کا حق، زندگی اور تحفظ کا حق، جبری مشقت اور تشدد کی ممانعت، آزادانہ نقل و حرکت اور منصفانہ عدالتی کاروائی جیسے اصول شامل تھے۔ پہلا نوبیل انعام10 دسمبر 1901ء کو دنیا میں پہلی مرتبہ نوبیل انعامات تقسیم کیے گئے۔ اسی تاریخ کو سویڈن کے سائنسدان اور ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبیل کی برسی بھی ہوتی ہے۔ نوبیل نے اپنی وصیت میں کہا کہ فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، ادب اور امن کے شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کو ہر سال انعام دیا جائے گا۔ بعد میں معاشیات کا نوبیل انعام بھی شامل ہوا۔ 1901ء میں انعامات کی پہلی تقریب میں مختلف ممالک کے سائنسدان، مصنفین اور امن کے علمبرداروں کو اعزازات سے نوازا گیا۔ اس دن نے عالمی سطح پر علمی اور اخلاقی خدمات کو ایک نئے معیار پر متعارف کرایا، جو آج تک جاری ہے۔پیرس معاہدہ10 دسمبر 1898ء کو امریکہ اور سپین کے درمیان پیرس معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے نتیجے میں سپین امریکہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ معاہدے کے تحت سپین نے کیوبا پر اپنا قبضہ ختم کیا جبکہ پورٹو ریکو، فلپائن اور گوام امریکہ کے زیرِ انتظام آگئے۔ اس معاہدے نے امریکہ کو پہلی بار ایک بین الاقوامی نوآبادیاتی طاقت بنا دیا اور بحرالکاہل و بحرِ اوقیانوس میں اس کے اثرات کو بڑھایا۔ فلپائن پر قبضے نے امریکہ کو ایشیا میں ایک سٹریٹجک مقام فراہم کیا۔ معاہدے کے اثرات مقامی آبادیوں پر بھی بہت گہرے تھے۔ فلپائن میں امریکی قبضے کے خلاف آزادی کی تحریک نے جڑ پکڑی، پورٹو ریکو کے سیاسی مستقبل پر بحث شروع ہوئی اور کیوبا کا سیاسی ڈھانچہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہا۔ یہ دن عالمی طاقتوں کی نئی تقسیم کی ابتدا کا نشان مانا جاتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کوامن انعام1993ء کے نوبیل امن انعام کا اعلان 10 دسمبر کو کیا گیا جو نیلسن منڈیلا اور فریڈریک ڈی کلرک کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ یہ انعام نسل پرستی کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے ان دونوں رہنماؤں کی کوششوں کا اعتراف تھا۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے لیکن انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ رہائی کے بعد انہوں نے سفید فام حکومت سے مذاکرات کے ذریعے پرامن سیاسی انتقالِ اقتدار کی کوشش جاری رکھی۔ دوسری جانب صدر ڈی کلرک نے جنوبی افریقہ کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کا آغاز کیا، پابندیوں ختم کیں، اپارتھائیڈ قوانین منسوخ کیے اور پہلے آزاد انتخابات کی بنیاد رکھی۔ 

آخری برفانی دور کا خاتمہ:سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والے نئے انکشافات

آخری برفانی دور کا خاتمہ:سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والے نئے انکشافات

زمین کی تاریخ میں کچھ ایسے موڑ آئے ہیں جنہوں نے موسم، فضا اور انسانی تہذیب کے رخ متعین کیے۔ تقریباً بارہ ہزار سال قبلLast Ice Age یعنی آخری برفانی دور کا خاتمہ بھی ایسا ہی فیصلہ کن لمحہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب زمین تیزی سے گرم ہوئی، برفانی چادریں پگھلنا شروع ہوئیں اور عالمی ماحول ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ تازہ تحقیق نے اس تبدیلی کے پس منظر کو مزید واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصل معرکہ فضا میں نہیں بلکہ سمندر کی گہرائیوں میں ہوا۔ خصوصاً بحر منجمد جنوبی(Antarctic Ocean) نے اس عالمی موسمی تغیر میں مرکزی کردار ادا کیا۔بحر منجمد جنوبی کیوں اہم ہے؟انٹارکٹکا کے گرد پھیلا ہوایہ سمندر ہمارے سیارے کی آب و ہوا کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سمندر صرف حرارت کو ہی نہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی بڑی مقدار میں جذب کرنے اور محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق آخری برفانی دور کے اختتام پر اسی سمندر نے سب سے زیادہ سرگرم کردار ادا کیااور اس کی تہہ میں موجود گہرے، ٹھنڈے اور کثیف پانی( Antarctic Bottom Water) میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔یہ تحقیق جو حال ہی میں Nature Geoscience میں شائع ہوئی یہ بتاتی ہے کہ حرارت میں اضافے کے ساتھ کثیف پانی دو بڑے مرحلوں میں پھیلا جس کے نتیجے میں وہ کاربن جو ہزاروں سال سمندر کی تہہ میں قید تھا دوبارہ فضا تک پہنچ گیا۔ یہی عمل عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ بنا۔سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے بحر منجمد جنوبی کے مختلف حصوں سے مٹی کے قدیم نمونے حاصل کیے۔ ان نمونوں کی گہرائی 2200 سے 5000 میٹر تک تھی اور ان میں محفوظ معلومات تقریباً 32 ہزار سالہ دور کا احاطہ کرتی ہیں۔ان تہوں میں موجود ایک خاص دھات نیوڈیَمیم اور اس کے مختلف آئسوٹوپس نے سمندر کے ماضی کو بے نقاب کیا۔ نیوڈیَمیم کا آئسوٹوپ ایک طرح کا ''سمندری فنگر پرنٹ‘‘ ہے جو بتاتا ہے کہ کس دور میں پانی کہاں سے آ رہا تھا اور کس رفتار سے بہہ رہا تھا۔ محققین نے دیکھا کہ برفانی دور میں بحر منجمد کی گہرائیوں میں پائے جانے والے نشانات آج کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اُس زمانے میں گہرا پانی تقریباً ساکن تھا جس کے نتیجے میں کاربن سمندر کی تہہ میں بند پڑا رہتا تھا۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آخری برفانی دور کے دوران بحر منجمد کی گہرائیوں میں وہ پانی غالب تھا جسے سائنس میںCircumpolar deep water (CDW) کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ یہ پانی نسبتاً آہستہ حرکت کرتا تھا اور سطحی پانی سے کم ملتا تھا جس کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر کے اندر قید رہتی تھی اور فضا میں کم جاتی تھی۔ اسی وجہ سے زمین ہزاروں سال تک نسبتاً ٹھنڈی رہی۔لیکن جب زمین گرم ہونے لگی اور انٹارکٹکا کی برف تیزی سے پگھلنے لگی تو ابتدا میں پگھلی ہوئی برف کے پانی نے سمندر کی کثافت بدل دی۔ نمکیات کم ہوئے، پانی ہلکا ہوا اور نتیجتاً نیا پانی وجود میں آیا۔ اس نئے پانی نے رفتہ رفتہ سمندر کی گہرائیوں پر قبضہ جما لیا۔اگلے مرحلے میں سمندر کی ''عمودی آمیزش‘‘ بڑھی‘ یعنی وہ پانی جو ہزاروں سال تک سطح سے کٹا ہوا تھا، دوبارہ اوپر آنے لگا۔ اس آمیزش نے سمندر میں قید کاربن کو سطح تک پہنچنے کا راستہ دیا جہاں سے وہ فضا میں داخل ہوا۔ اس طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح تیزی سے بلند ہوئی اور زمین تقریباً اسی رفتار سے گرم ہونے لگی۔سابقہ نظریات کے مطابق عالمی گہرے پانیوں کی تبدیلی میں شمالی اوقیانوس بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ خیال تھا کہ شمالی نصف کرہ سے ہونے والی تبدیلیاں جنوبی سمندر کو متاثر کرتی ہیں۔ مگرنئی تحقیق نے اس نظریے کو کمزور کر دیا ہے۔اس تحقیق سے یہ واضح ہوا کہ آخری برفانی دور کے خاتمے میں بحر منجمد شمالی کا اثر کم تھا اور اصل تبدیلی بحر منجمد جنوبی کے اندرونی وقوع پذیر ہوئی۔ یہ دریافت آج کیوں اہم ہے؟آج جب ہماری زمین دوبارہ تیزی سے گرم ہو رہی ہے، سمندروں کی حرارت بڑھ رہی ہے اور انٹارکٹکا کی برف غیرمعمولی تیزی سے پگھل رہی ہے تو یہ تحقیق ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک رہنمائی بھی۔ ماضی میں سمندر نے جو کردار ادا کیا وہ مستقبل کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔سمندر نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں بلکہ اس کے اخراج میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آج AABW یا CDW جیسی گہرائیوں میں پھر وہی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہزاروں سال پہلے ہوئیں تو دنیا ایک بار پھر شدید ماحولیاتی تغیرات کا سامنا کر سکتی ہے ، جس میں شدید گرمی، سمندری سطح میں اضافہ، برفانی چادروں کا انہدام اور ماحولیاتی نظام کا عدم توازن شامل ہے۔یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ سمندر کی گہرائیاں صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ زمین کے مستقبل کا فیصلہ کن عنصر ہیں۔ 12 ہزار سال پہلے انہی گہرائیوں میں قید کاربن نے انسانی تاریخ کے رخ تبدیل کئے اور آج بھی سمندر وہی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔زمینی ماحولیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمندروں کی حرکیات، ان میں آنے والی تبدیلیوں اور برفانی خطوں کے ردعمل کو سنجیدگی سے لیں۔ ماضی کا مطالعہ صرف تاریخ نہیں مستقبل کی کنجی ہے۔ اگر ہم اس کنجی کو درست استعمال کریں تو موسمیاتی بحران کے حل میں نئی راہیں سامنے آ سکتی ہیں۔

عالمی دن:انسدادِبد عنوانی، شفافیت کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے

عالمی دن:انسدادِبد عنوانی، شفافیت کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے

ہر سال 9 دسمبر کو دنیا بھر میں ''انسدادِ بدعنوانی کا عالمی دن‘‘ اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے، شفاف طرزِ حکمرانی کے فروغ اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے عالمی اور قومی سطح پر ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ بدعنوانی محض مالی بے ضابطگی نہیں یہ ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والا ایک ہمہ گیر بحران ہے جو معاشی ترقی، عوامی خدمات، اعتماد اور قانون کی عملداری ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں یہ چیلنج کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں منظم کرپشن نے نہ صرف اداروں کی ساکھ کو مجروح کیا ہے بلکہ پائیدار ترقی کے امکانات کو بھی محدود کر دیا ہے۔ بدعنوانی نے برسوں سے پبلک سروسز، سرمایہ کاری اور معیشت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے لیے صرف دن منانا کافی نہیں عملی اقدامات اور شفافیت کے لیے مؤثر اقدامات بھی لازم ہیں۔ بدعنوانی، دیرینہ مسئلہپاکستان میں بدعنوانی ایک دیرینہ قومی مسئلہ ہے۔ سرکاری اداروں، پالیسی سازی، سرکاری ٹھیکوں، لین دین اور ترجیحات کے تعین میں ناجائز مفادات پر مبنی تعلقات نے نہ صرف عوامی اعتماد کو زائل کیا ہے بلکہ ملکی معیشت اور عام آدمی کی زندگی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم، ٹیکس نظام کی خامیاں اور سرکاری اداروں کی کارکردگی میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن اکٹوپس کی طرح ہمارے سسٹم کے ہر شعبے کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ سرکاری وسائل کے غلط استعمال سے عوام بنیادی خدمات، جیسے صحت، تعلیم، اور انفراسٹرکچر سے محروم رہنے پر مجبور ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے منانا اس وقت نہ صرف علامتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ ایک ایسا دن ہے جب عوامی شعور اور اداروں کی کارکردگی دونوں دوبارہ غور کا موضوع بن سکتے ہیں۔حال ہی میں IMFنے پاکستان کے لیے ایک مفصل رپورٹ جاری کی جس کا عنوان Governance and Corruption Diagnostic Report ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی اور گورننس کی کمزوریوں کی جڑوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ کی چند اہم نکات میں IMFنے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی مستقل اور کثیر سطحی ہے ، یعنی یہ صرف چھوٹے سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی نہیں بلکہ نظام کی خامیوں کا نتیجہ ہے، جس میں طاقتور اور مراعات یافتہ طبقات کا کردار بہت بڑا ہے۔پورٹ کے مطابق جنوری 2023 ء سے دسمبر2024 ء کے دوران بدعنوانی کے خلاف ریکوری کے نام پر تقریباً 53 ٹریلین روپے وصولی ہوئی، مگر IMF نے واضح کیا ہے کہ یہ صرف ایک پہلوہے اور اصل معاشی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹیکس نظام، جو ملک کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ ہے ،پر رپورٹ میں شدید تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹیکس نظام پیچیدہ ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب نچلے درجے پر ہے (تقریباً 10 فیصد) اور داخلی نگرانی اور احتساب کے انتظامات ناکافی ہیں۔ریاستی ملکیت یا ریاستی سرپرستی والے ادارے (جیسے سرکاری ادارے بھی بدعنوانی اور Elite captureکا شکار ہیں۔رپورٹ نے وفاقی اور مرکزی سرکاری معاملات، پبلک سیکٹر پروکیورمنٹ، ٹیکس اور ریونیو سسٹم، سرکاری ٹھیکوں، مالیاتی شفافیت اور عوامی وسائل کی نگرانی سمیت 15 نکاتی ایک اصلاحاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔اگر یہ اصلاحات بروقت اور مکمل طور پر عملی ہوں تو IMF کی پیش گوئی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔مجموعی طور پر IMF کی رپورٹ صرف تنقید نہیں بلکہ اس کو ایک wake-up callقرار دیا گیا ہے ، یعنی اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو معاشی امداد اور قرضے وقتی ریلیف ثابت ہوں گے، لیکن بنیادیں ڈگمگا جائیں گی۔انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے اور پاکستان انسداد بد۰عنوانی کے عالمی دن کا مقصد صرف شعور بیدار کرنا نہیں بلکہ عملی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس دن پر عوامی سطح پر مکالمہ ضروری ہے ۔ کرپشن کے نقصانات، عوامی خدمات کی کمی اور احتساب کے نظام کی خامیوں پر عوام سے بات ہونی چاہیے۔ یوں لوگ صرف تنقید نہیں کریں گے، بلکہ مطالبہ کریں گے۔سرکاری اداروں، پبلک سیکٹر اداروں اور خصوصی ٹھیکے داروں کی سرگرمیوں کو عوامی نظر وں کے سامنے لانا اور ٹھیکوں، بجٹ مختص کرنے اور ریونیو جمع کرنے کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ IMF کی رپورٹ میںElite capture کوبنیادی خطرہ قرار دیا ہے اس لیے سیاستدانوں، بڑے کاروباری گروپس اور سرکاری کرپٹ نیٹ ورکس کی نگرانی لازمی ہے۔کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ اقدامات سے عام آدمی کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے، جس سے سرمایہ کاری، خدمتِ عامہ، اور معاشی ترقی کے مواقع بڑھیں گے۔انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے صرف ایک دن نہیں ، یہ تحریک کی شروعات ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال کے پیش نظر اس دن کا استعمال محض علامتی سطح پر نہیں بلکہ ایک حقیقی محاسبہ اور اصلاحات کے عہد کے طور پر ہونا چاہیے۔ IMF کی حالیہ رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ بدعنوانی صرف اخلاقی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی اور روزگار، سرمایہ کاری، عوامی خدمات اور مستقبل کی بنیادیں مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو اس رپورٹ اور انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے کے درس کو سنجیدہ لینا ہوگا۔

آج کا دن

آج کا دن

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا اجلاس9 دسمبر 1946 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا جو دنیا میں ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس اجلاس میں 51 رکن ممالک نے شرکت کی جو عالمی جنگ کے فوراً بعد دنیا کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو میں مصروف تھے۔ اجلاس میں عالمی امن کے تحفظ، ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام، پناہ گزینوں کے مسائل، عالمی معیشت کی بحالی اور نئے بننے والے اداروں کا فریم ورک طے کرنے کے اہم فیصلے کیے گئے۔ اسی اجلاس نے بعد ازاں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے، سلامتی کونسل کی ساخت اور جنیوا کنونشن کی شکل میں کئی عالمی اصولوں کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کیا۔مدر آف آل ڈیموز 9دسمبر 1968 ء کو سان فرانسسکو میں امریکی انجینئر ڈگلس اینجل بارٹ نے ایک ایسی تاریخی ٹیکنالوجی ڈیمو پیش کی جسے ''مدر آف آل ڈیموز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ایک گھنٹے سے زائد طویل پریزنٹیشن میں اینجل بارٹ نے پہلی بار کمپیوٹر ماؤس، گرافیکل یوزر انٹرفیس (GUI)، ہائپر لنکس، ونڈوز، لائیو ویڈیو کانفرنسنگ، ای میل اور ریئل ٹائم کولیبریشن جیسے کئی جدید کمپیوٹر تصورات کا عملی مظاہرہ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب انہوں نے یہ چیزیں دکھائیں اُس دور میں دنیا کے اکثر کمپیوٹر صرف پیچیدہ حسابات یا ڈیٹا ریکارڈنگ کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ عام صارف کے لیے کمپیوٹر کا تصور تقریباً موجود نہیں تھا۔ چیچک کے خاتمے کااعلان9 دسمبر 1979ء وہ تاریخی دن ہے جب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا کہ چیچک جیسی مہلک بیماری دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ چیچک کا مرض ہزاروں برس سے انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا تھا۔ اس بیماری سے کروڑوں افراد ہلاک ہوئے، شہروں کے شہر اجڑ گئے اور کئی قومیں سماجی و معاشی بحرانوں کا شکار ہوئیں۔ 20ویں صدی میں ویکسین کی تیاری کے بعد اس کے خاتمے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا۔ عالمی ادارہ صحت نے 1967 ء میں عالمی سطح پر چیچک کے خلاف بڑے پیمانے کی مہم شروع کی جس میں 80 سے زیادہ ممالک نے حصہ لیا۔ پہلیِ انتفاضہ کا آغاز9 دسمبر 1987ء کو فلسطین میں پہلی انتفاضہ کا آغاز ہوا جو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس تحریک کا آغاز غزہ میں پیش آنے والے ایک واقعے سے ہوا جب ایک اسرائیلی فوجی گاڑی سے چار فلسطینی شہید ہوگئے۔ فلسطینی نوجوانوں، مزدوروں، طلبہ اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مظاہرے شروع کیے جنہوں نے جلد ہی مغربی کنارے اور غزہ میں عوامی مزاحمت کی شکل اختیار کر لی۔ اس تحریک نے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو نمایاں کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی انتفاضہ نے بعد میں اسرائیل فلسطین مذاکرات، اوسلو معاہدوں اور عالمی رویوں میں تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ لیخ ویونسا کا پولینڈ کے صدر کے طور پر انتخاب9 دسمبر 1990 ء کو پولینڈ میں کمیونسٹ دور کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ براہِ راست صدارتی انتخابات منعقد ہوئے، جن میں مشہور مزدور رہنما اور سولڈیرٹی تحریک کے بانی لیخ ویونسا بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کا انتخاب مشرقی یورپ میں سیاسی تبدیلیوں اور کمیونزم کے خاتمے کے سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت تھا۔ سولڈیرٹی تحریک نے پولینڈ میں 1980 کی دہائی کے دوران آمریت، سنسرشپ، معاشی مسائل اور ریاستی جبر کے خلاف ایک پْرامن مگر مؤثر جدوجہد کی جس نے نہ صرف پولینڈ بلکہ پورے مشرقی یورپ کے سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔

ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

جدید سائنسی تحقیق نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جسمانی ورزش نہ صرف ہمارے جسم بلکہ دماغ پر بھی حیران کن اثرات مرتب کرتی ہے۔ امریکی ماہرین کی نئی تحقیق کے مطابق صرف ایک سیشن ویٹ لفٹنگ یا مزاحمتی ورزش صحت مند بالغ افراد کی دماغی کارکردگی میں قابلِ ذکر اضافہ کر دیتی ہے۔ محض چالیس سے زائد منٹ کی مشقیں نہ صرف ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہیں بلکہ فیصلہ سازی، توجہ اور دماغ کے برقیاتی نظام کی رفتار میں بھی فوری بہتری لاتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ذہنی صحت اور ادراک سے متعلق مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ چھوٹی، باقاعدہ اور سادہ ورزشیں بھی ذہانت بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف 40 منٹ سے کچھ زیادہ وزن اٹھانے کی ورزش (ویٹ ٹریننگ) صحت مند بالغ افراد کی طویل مدتی یادداشت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ تحقیق میں ویٹ ایکسرسائز کو مزاحمتی ورزش (resistance training)کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی مزاحمتی سرگرمیاں (resistance activities) جیسے اسکواٹس (squats) یا گھٹنے موڑنے کی مشقیں بھی یہی نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ انڈیانا کی پراڈیو یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختصر مزاحمتی ورزش ایگزیکٹو فنکشنز پر مثبت اثر ڈالتی ہے، پروسیسنگ اسپیڈ اور ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہے اور دماغ کی برقی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے۔تحقیق میں، انہوں نے 18 سے 50 سال کی عمر کے 121 بالغ افراد کا مشاہدہ کیا اور انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ تمام شرکاء کا کارڈیو ویسکیولر فٹنس ٹیسٹ لیا گیا اور ان سے طرزِ زندگی سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ دو دن بعد تمام شرکاء کے خون کے نمونے لیے گئے اور دماغ کی برقی سرگرمی ریکارڈ کرنے کیلئے الیکٹرو اینسیفلوگرافک (EEG) اسکین کیا گیا۔ پہلے گروپ نے درمیانی سطح کی مشکل والے ویٹ ایکسرسائز کے سیٹس کیے جبکہ دوسرے گروپ سے بالغ افراد کی مزاحمتی ورزش (resistance exercises)کرتے ہوئے ویڈیو دیکھنے کو کہا گیا۔مزاحمتی ورزشیں کل 42 منٹ تک جاری رہیں۔ ان کا آغاز دو منٹ کی وارم اپ سے ہوا، جس کے بعد ہر مشق کے دو سیٹ کروائے گئے، ہر سیٹ میں دس ریپیٹیشنز شامل تھے۔ ان مشقوں میں چیسٹ پریس، پل ڈاؤنز، بائی سیپ کرلز، لیگ پریس، کیبل ٹرائی سیپس ایکسٹینشنز اور لیگ ایکسٹینشنز شامل تھیں۔ ورزش مکمل ہونے کے بعد، رضا کاروں سے دوبارہ خون کے نمونے لیے گئے اور دوسرا EEG ٹیسٹ کیا گیا۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ جس گروپ نے مزاحمتی ورزشیں کی تھیں، اس کے ورکنگ میموری کے ردِ عمل کا وقت ویڈیو دیکھنے والے گروپ کے مقابلے میں قدرے بہتر ہو گیا تھا۔ محققین نے کہا کہ وہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وزن اٹھانے کی ورزش نے کس طرح ورکنگ میموری کو بہتر بنایا تاہم انہوں نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ ورزش کے بعد خون میں 'لیکٹیٹ‘ کی مقدار میں اضافہ جو عضلات کی تھکن کی علامت ہے اور بلڈ پریشر میں اضافہ ایگزیکٹو فنکشنز کی رفتار کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر دماغی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چونکہ ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹ ورزش کے فوراً بعد کروائے گئے تھے، اس لیے یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ ان اثرات کا دورانیہ کتنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبی نقطہ نظر سے، یہ نتائج اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ مزاحمتی ورزش کو ورزش کے ایسے پروگراموں کا حصہ بنایا جائے جو ایگزیکٹو فنکشنز میں فوری فائدہ پہنچا سکیں۔ پچھلی تحقیق بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ درمیانی عمر میں ورزش کیلئے وقت بڑھانے سے ذہنی صلاحیتیں برقرار رہ سکتی ہیں اور بعد کی زندگی میں ڈیمنشیا کے آغاز میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ہسپانوی سائنس دانوں نے 300 سے زائد بالغ افراد کا جائزہ لیا اور معلوم کیا کہ جن لوگوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ہفتے میں تقریباً ڈھائی گھنٹے ورزش جاری رکھی45 سے 65 سال کی عمر کے درمیان وہ دماغ میں 'امائلائڈ‘ نامی زہریلے پروٹین کے پھیلاؤ سے کم متاثر ہوئے۔ یہ پروٹین الزائمر کی علامات کے پیچھے اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔مزید یہ کہ وزن اٹھانے کی ورزش ہفتے میں صرف تین بار کرنا بھی ایک شخص کی ''حیاتیاتی عمر‘‘ (Biological Age) کو تقریباً آٹھ سال تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) تجویز کرتی ہے کہ بالغ افراد ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی درمیانی شدت کی ورزش کریں یا 75 منٹ کی تیز شدت کی ورزش کریں۔ ہفتے میں کم از کم دو دن ایسی ورزشیں کی جائیں جو بڑے عضلاتی گروپس جیسے ٹانگیں، کمر اور پیٹ کو مضبوط بنائیں۔