عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

علی بن عیسیٰ کا شمار عظیم مسلمان سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ امراض چشم کے ماہرتھے۔ خصوصی مشاہدے، تجربے اور تحقیق کے بعد قوتِ بصارت کو قائم رکھنے نیز آنکھوں کیلئے مفید ترین دوائیں، مناسب غذائیں اور پرہیز تجویز کرکے ان کی مکمل فہرست بنا کر پیش کرنے والا، آنکھوں کے امراض اور اسباب و علامات پر بحث کرنے والا، آنکھوں کی حفاظت اور احتیاط کے طریقے بیان کرنے والا ایک ضخیم اور مکمل کتاب کا مصنف اور طبیب حاذق۔ابتدائی زمانہ، علمی خدمات اور کارنامےقابل ترین اور باصلاحیت حکما میں وہ سائنسداں جنہوں نے خاموشی کے ساتھ علمی اور فنی کام کئے ان میں علی بن عیسیٰ بھی ہے۔ بغداد میں اس دانشور نے گوشۂ گمنامی میں زندگی گزاری۔ اس کی زندگی کے حالات سے کتابیں خاموش ہیں لیکن اس کے تحقیقی کام ہمارے سامنے ہیں۔ علی بن عیسیٰ عباسی خلیفہ قائم باللہ کے عہد کا ایک ماہرِ امراض چشم تھا۔علی بن عیسیٰ نے اجزائے جسم میں صرف آنکھ کو منتخب کیا اور جسم کے اس نازک ترین لیکن اہم ترین حصے پر تحقیقی کام کئے۔ اس نے آنکھ کے امراض پر زبردست تحقیقات کیں اور پھر اپنے جملہ ذاتی تجربات اور مشاہدات اور نظریات اپنی ضخیم اور معیاری کتاب تذکرۃ الکحلین میں جمع کردیں۔ ہم یہاں تذکرہ الکحلین سے کچھ معلوم پیش کرتے ہیں۔تذکرہ الکحلین نہایت مفصل اور ضخیم کتاب ہے گویا یہ انسانی آنکھ کی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس کی تین جلدیں ہیں، کتاب کا بڑا حصہ امراض چشم کے اس ماہر ڈاکٹر کے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔آنکھ کا ماہر سرجن:علی بن عیسیٰ ایک ماہر کی طرح اپنی معلومات پیش کرتا ہے۔ اس کی کتاب تذکرہ الکحلین کی پہلی جلد میں آنکھ کے حصوں کی مفصل تشریح اور منافع اعضاء یعنی ہر جزو اور ہر حصے کو بیان کیا ہے اور اس کے فوائد بتائے ہیں جس کو انگریزی میں اناٹومی اور فزیالوجی کہتے ہیں۔ اس ماہر سرجن نیخ آنکھ کی بناوٹ پتلی، حصے، روشنی سب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔دوسری جلد میں آنکھ کی ان بیماریوں کا علاج ہے جو ظاہری طور پر نظر آ جاتی ہیں علی بن عیسیٰ نے آنکھ کی جملہ ظاہری بیماریوں کا بتایا، اسباب اور علامات تفصیل سے لکھے اور مکمل بحث کی۔تذکرۃ الکحلین کی تیسری جلد نہایت اہم ہے۔ اس میں آنکھ کے ان جملہ امراض کو تفصل سے بیان کیا ہے جو آنکھ کے اندرونی حصوں میں کہیں پیدا ہو جاتے ہیں اور جن سے آنکھ کو نقصان پہنچتا ہے یا آئندہ کبھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن باہر سے دیکھنے میں کچھ پتا نہیں چلتا۔تذکرہ الکحلین یا آنکھ کی انسائیکلو پیڈیاکتاب تذکرہ الکحلین آنکھ سے متعلق ایک جامع کتاب ہے اسے انسائیکلوپیڈیا کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں آنکھ سے متعلق جملہ معلومات بڑی تحقیق کے ساتھ جمع کر دی گئی ہیں۔ آنکھ کے تحفظ اور احتیاط کو بتایا گیا ہے، آنکھ کی روشنی اور قوت بصارت کو قائم رکھنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔اس کتاب میں امراض چشم پر بحث بڑی تفصیل اور تحقیق سے کی گئی ہے۔ یہ کتاب امراض چشم پر ضخیم اور معیاری ہے اس میں آنکھ سے متعلق جملہ مسائل پر نہایت عمدہ بحث ہے اور کم و بیش آنکھ کی ایک سو تیس بیماریوں کا ذکر ہے اور تفصیل سے ان کے اسباب اور ان کی علامتوں کو بتایا گیا ہے۔کتاب میں 143 ایسی دوائوں اور جڑی بوٹیوں کے نام، ان کی پہچان، ان کے خواص اور اثرات اور فوائد بیان کئے گئے ہیں جو آنکھوں کیلئے مفید ہیں اور ان کو آنکھ کے امراض اور شکایتوں کے سلسلے میں استعمال کیا جاتا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔کتاب کے ایک حصے میں احتیاط اور پرہیزی غذائوں کا بھی مفصل بیان ہے۔ آنکھ کے مریضوں کیلئے جو غذائیں مفید اور اچھی ہیں ان کو بتایا گیا ہے اور جن غذائوں سے نقصان ہوتا ہے یا نقصان اور تکلیف کا اندیشہ ہے ان کو بھی لکھ دیا ہے۔ غذا پر اس ماہر مصنف نے اچھی بحث کی ہے اور مفید معلومات کا ذخیرہ پیش کردیا ہے۔علی بن عیسیٰ آنکھ کاا یک زبردست معالج تھا۔ اس نے دوائوں کے ذریعے امراض کا علاج کیا اور اس فن میں وہ ماہر تھا، اس نے دوائوں کے ذریعے علاج کو ترجیح دی۔ آپریشن کے ذریعے کسی مرض کا دور کرنا اور آنکھ کا آپریشن کرنا اس کے طریق علاج سے باہر تھا۔تذکرۃ الکحلین یورپ میںآنکھ کے سلسلے میں یہ کتاب مفصل، معیاری اور مستند تسلیم کی گئی۔ اس فن میں یہ دوسری قابل ِذکر کتاب ہے۔ 1499ء میںاس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میںشائع ہوااور یورپ کے ڈاکٹروں نے اس کی اہمیت کو سمجھا۔ دورِ جدید کے دانشوروں نے اسے جب غور سے پڑھا تو اس کی افادیت کا احساس ہوا ۔ 1903ء میں اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔اس کے بعد اس مفید ترین کتاب کو 1904ء میں جرمن زبان کے قالب میں ڈھالا گیا۔ 

موسم بہار

موسم بہار

بہار کا موسم نہ صرف پھولوں اور خوشبوؤں کا موسم ہے بلکہ اس کے پیچھے کئی دلچسپ اور عجیب حقائق بھی چھپے ہیں۔ آئیے کچھ انوکھی رسومات اور حقائق کے بارے جانتے ہیں۔ بہارSpringکیسے ہوئی؟اس موسم کو انگریزی میں Spring اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب پودے زمین سے اچانک(Spring forth) باہر نکلتے ہیں۔ یہ اصطلاح 16ویں صدی میں عام ہوئی۔اس سے پہلے اسےLent یا ''نئی کلیوں کا موسم‘‘ کہا جاتا تھا۔بہاریہ اعتدال (Vernal Equinox)اور علمِ فلکیات بہار کے پہلے دن (20-23 مارچ) کو Vernal equinoxکہا جاتا ہے جب سورج بالکل خطِ استوا کے اوپر ہوتا ہے۔ اس وقت دن اور رات تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس دن ابوالہول کا مجسمہ سورج کی سمت میں مکمل طور پر سیدھ میں ہوتا ہے۔جاپان میں چیری بلاسم کا جنون جاپان میں ساکورا (چیری بلاسم) کے پھول کو بہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپانی موسمیات کے محکمے پھول کھلنے کی پیشگوئی کرتے ہیں اور لوگ ''ہنامی‘‘(پھول بینی) کے لیے پارکوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ایک درخت کے پھول صرف سات دن تک کھلتے ہیں۔جانوروں پر بہار کا جادو بہار میں جانوروں کے رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پرندے 20 ہزار کلومیٹر تک کا ہجرتی سفر کرتے ہیں۔ کچھ ممالیہ جانور (جیسے ریچھ) ہائیبرنیشن سے جاگتے ہیں کیونکہ دن لمبے ہونے سے ان کے جسم میں میلاٹونن ہارمون کم ہو جاتا ہے۔انڈے کا توازن؟ ایک مشہور myth یہ ہے کہ Vernal equinox کے دن انڈے کو عمودی طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی بھی دن ممکن ہے، بس صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ اعتدال کی کششِ ثقل سے نہیں بلکہ انڈے کے خول کی سطح کی ہمواری سے تعلق رکھتا ہے۔بہار اور آئس کریم کا تعلق قدیم فارس (ایران) میں بہار کے موسم میں برف اور پھلوں کے شربت کو ملا کر ایک ٹریٹ بنایا جاتا تھا جو آئس کریم کی ابتدائی شکل سمجھا جاتا ہے۔دنیا کے الٹے موسم جب شمالی نصف کرہ میں بہار ہوتی ہے، تو جنوبی نصف کرہ (جیسے آسٹریلیا، ارجنٹائن) میں خزاں کا موسم ہوتا ہے۔بہار اور انسانی موڈ سورج کی روشنی میں اضافہ انسانی دماغ میں سیروٹونن (خوشی کا ہارمون) بڑھاتا ہے جس سے لوگ زیادہ متحرک اور خوش نظر آتے ہیں۔ قدیم رومی اسے ورنا لٹرجیا(بہار کی دیوانگی) کہتے تھے۔بہار اور الرجی کا تعلق کیا آپ جانتے ہیں کہ بہار میں نکلنے والے پولن صرف پھولدار پودوں سے نہیں بلکہ زیادہ تر درختوں (جیسے دیودار، چیڑ) اور گھاس سے آتے ہیں۔ دنیا بھر میں 10سے 30 فیصدلوگ پولن الرجی (Hay fever) کا شکار ہوتے ہیں۔دنیا کی بہاریہ رسومات ٭ہولی (بھارت): رنگوں کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔ ٭کوپرز ہِل چیڑولنگ (انگلینڈ): ایک پہاڑی سے پنیر کا ڈھیر لڑھکایا جاتا ہے اور لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ٭سونگکران (تھائی لینڈ):دنیا کا سب سے بڑا پانی کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔   

رمضان کے پکوان: جنجرلائم فز

رمضان کے پکوان: جنجرلائم فز

یہ مشروب ان لوگوں کے لیے ہے جو صحت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ادرک پیٹ پھولنے اور گیس کا عارضی علاج ہے۔ترکیب: یہ مشروب صرف تین اجزا سے بنتا ہے، یعنی ادرک کا جوس، پروفیشنل لائم سیزننگ پاؤڈر اور پانی۔ یہ ملاپ ذائقہ اور پیٹ دونوں کے لیے آئیڈیل ہے۔خوریشی فسنجان اجزاء:چکن ایک عدد، وزن ڈیڑھ کلو( صاف کرواکے ثابت رکھیں اور کٹ لگوالیں)،کالی مرچ کٹی ہوئی آدھا کھانے کا چمچ،پیاز ایک بڑی سائز کی ( باریک کٹی ہوئی)،اخروٹ گری باریک پسی ہوئی آدھی پیالی ،انار کا جوس ڈیڑھ پیالی ،برائون شکر تین کھانے کے چمچ ،دار چینی کے ٹکڑے دوعدد، نمک حسب ذائقہ ،لیموں کا عرق ایک کھانے کا چمچ، آئل دوکھانے کے چمچترکیب : چکن اچھی طرح سے دھوکر بالکل خشک کرلیں اور نمک لگاکر رکھ دیں۔ ایک بڑے اور ذرا گہرے فرائنگ پین میں بناسپتی گھی گرم کریں، پھر چکن کو برائون تل کر نکال لیں۔ پھر اسی فرائنگ پین میں پیاز ڈال کر ہلکی گلابی کرلیں۔ پھر انار کا جوس، دار چینی کے ٹکڑے، اخروٹ گری، برائون شکر ڈالر کر تھوڑی دیر پکالیں، بالکل ہلکی آنچ کردیں۔ چکن ڈال کر ڈھکن ڈھانک دیں پھر ڈھائی گھنٹے تک پکنے دیں۔ اس دوران دوتین مرتبہ چمچہ ضرور چلائیں ۔ جب بالکل پک جائے تو چکن کو ایک ڈش میں رکھیں، اوپر سے بچی ہوئی ساس ڈال دیں، لیموں کاعرق چھڑک دیں، باریک کی ہوئی اخروٹ کی گری ڈال دیں۔ اس کو فوراً ہی گرم گرم چاولوں کے ساتھ پیش کریں۔ 

حکایت سعدیؒ :حسد

حکایت سعدیؒ :حسد

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک بار کوتوال کے بیٹے کو دیکھا تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مترادف، اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا۔ یہ نیک فطرت نوجوان دانا بادشاہ کی توقعات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ وفا شعاری، دیانت داری اور شرافت میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جاتا وہ اسے بخیر و خوبی انجام دیتا تھا۔قابلیت اور شرافت کے باعث جہاں بادشاہ کی نظروں میں اس کی قدرو منزلت زیادہ ہوتی چلی جا رہی تھی وہاں حاسدوں کی پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر انہوں نے صلاح مشورہ کر کے نوجوان کے سر ایک تہمت دھری اور بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حضور جس شخص کو ہر لحاظ سے قابلِ اعتبار خیال فرماتے ہیں وہ حد درجہ بد فطرت اور بدخواہ ہے۔اگرچہ حاسدوں نے یہ سازش بہت خوبی سے تیار کی تھی اور انھیں یقین تھا کہ بادشاہ نوجوان کو قتل کروا دے گا لیکن دانا بادشاہ نے یہ بات محسوس کر لی کہ قصور نوجوان کا نہیں بلکہ حاسدوں کا ہے۔ چنانچہ اس نے نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا، کیا وجہ سے کہ لوگ تمہارے متعلق خراب رائے رکھتے ہیں۔ نوجوان نے جواب دیا، اس کا باعث اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضور اس خاکسار پر نوازش فرماتے ہیں۔ بس یہی بات ان کے لیے باعثِ حسد ہے۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ایک درس یہ دیا ہے کہ انسان میں اگر واقعی کوئی خوبی اور ہنر ہو تو وہ قدر دانی سے محروم نہیں رہتا۔انہوں نے دوسری بات یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر خوش بختی سے کسی کو عروج حاصل ہو تو اسے بد خواہوں اور حاسدوں کی طرف سے لاپروا نہیں رہنا چاہیے۔ حاسد کسی بھی وقت کوئی سازش تیار کر سکتے ہیں لہٰذا چوکنا رہنا لازم ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر کسی کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ اس نے فلاں جرائم کیے ہیں تو تحقیق اور سوچ بچار کیے بغیر رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ کسی بے گناہ کو سزا دینا کسی طور درست نہیں۔ اس لیے حاکموں کوالزامات کی جانچ پڑتال کر لینی چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

چڑیوں کا عالمی دن20مارچ کو دنیا بھر میں چڑیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ماحو لیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے چڑیوں پر ہونے والے اثرات کو اجاگر کرنا اور ان کیلئے بہترین ماحول فراہم کرنا ہے۔اس دن کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کیلئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔جیوٹن کے ذریعے سزائے موت 1792ء میں آج کے دن فرانسیسی حکومت نے '' جیوٹن‘‘ نامی دوا کے ذریعے سزائے موت کو قانونی حیثیت دی۔ اس سزائے موت کا نام اس دوا کے مؤجد ڈاکٹر جوزف اگنیس جوئیلوٹن کے نام پر ہی ''جیوٹن‘‘ رکھا گیا۔اس دوا کا پہلی مرتبہ استعمال 25 اپریل 1792ء کو کیا گیا۔ سزائے موت دینے کا یہ طریقہ قدیم وقتوں میں بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ بوسٹن میں 349عمارتیں جل گئیں 1970ء میں آج کے دن امریکی ریاست میسا چوسٹس کے شہر بوسٹن میں بہت بڑی آگ لگی ۔ یہ آگ بوسٹن سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے شہر کے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ا س آگ نے واشنگٹن سٹریٹ اور فورٹ ہل کے درمیان349عمارتوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ارجنٹائن میں زلزلہ20مارچ 1861ء کو ارجنٹائن کے علاقے منڈوزا میں شدید زلزلہ آیا۔ آدھی رات کے قریب آنے والے اس زلزلے کی شدت 7.2 ریکارڈ کی گئی۔اس کا مرکز زمیں سے30کلومیٹر گہرائی میں واقع تھا۔اس زلزلے نے ارجنٹائن کے صوبائی دارالحکومت مینڈوزا کو تباہ و برباد کردیا۔اس زلزلے میں تقریباً 4ہزار شہری ہلاک اور800کے قریب زخمی ہوئے۔ 

چین کی بڑی تین مساجد

چین کی بڑی تین مساجد

نیو جی مسجد، بیجنگ خیال کیا جاتا ہے کہ چین میں اسلام ساتویں صدی میں متعارف ہو چکا تھا تاہم بیجنگ میں پہلی مسجد Tangسلطنت کے دور حکومت میں 996ء میں تعمیر ہوئی جو نیو جی مسجد کہلاتی ہے۔ ٹانگ خاندان کا دور حکمرانی 960ء سے 1279ء تک رہا۔ بیجنگ شہر میں یہ مسجد آکس سٹریٹ پر واقع ہے۔ چینی میں نیو(Niu) کا مطلب ہے بیل یا گائے اور جی (Jie)کا مطلب ہے سٹریٹ۔ اس لئے اس مسجد کا نام نیو جی (Niu Jie)پڑ گیا۔ یہ چین کی سب سے پرانی مسجد ہے۔ آغاز سے لے کر آج تک اس میں مرمت اور تزئین و آرائش کا کام جاری رہا اور آج یہ اپنے خوبصورت رنگ و روغن کی وجہ سے نمایاں ہے۔ اس مسجد کا کل رقبہ ڈیڑھ ایکڑ ہے جبکہ اندرونی رقبہ64600مربع فٹ ہے۔ اس میں ایک ہی وقت میں ایک ہزار نماز نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مسجد بیجنگ کے ضلع Xuanwuمیں واقع ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس وقت بیجنگ میں مسلمانوں کی تعداد 210,000ہے۔ شمالی چین میں یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس وقت چین میں 35ہزارمساجد ہیں اور صرف بیجنگ شہر میں چھوٹی بڑی مساجد کی کل تعداد 68ہے۔ نیو جی مسجد 1442ء میں دوبارہ تعمیر کی گئی اور پھر تنگ عہد میں 1696ء میں اس مسجد کے سات سو سال مکمل ہونے پر اس میں توسیع کی گئی۔ اب پانچوں وقت یہاں باقاعدگی سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ صبح اور شام کے وقت نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ غیر مسلموں کو یہ تاریخی مسجد دیکھنے کی اجازت ہے لیکن انہیں امام کی اجازت لینا پڑتی ہے لیکن جب مسجد میں نماز جاری ہو تو انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں۔ غیر مسلم مرد و خواتین کا مسجد میں داخلے کے وقت مناسب لباس میں ہونا لازمی ہے۔ژیننگ شہر کی مسجدیہ مغربی چین میں صوبہ چنگھائی کا دارالحکومت ہے اس کی آبادی 22لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ قدیم شہر ماضی کی شمالی شاہراہ ریشم پر واقع تھا۔ پہلے یہ صوبہ گانسو کا حصہ تھا۔1928ء میں اسے صوبہ چنگھائی میں شامل کیا گیا۔ یہاںڈونگو آن سٹریٹ میں تاریخی ڈونگو آن مسجد واقع ہے۔ژیننگ میں بدھوں کی مشہور خانقاہ ''تائر‘‘ نامی ہے۔ یہ شہر دریائے ہوانگ شوئی کی وادی میں واقع ہے اور بذریعہ ریل تبت کے صدر مقام لہاسہ اور گانسو کے صدر مقام لانژو، سیان اور شنگھائی سے ملا ہوا ہے۔ ژیننگ سے ستر اسی کلو میٹر مغرب میں چنگھائی نامی ایک بڑی جھیل ہے جس سے صوبے کا نام موسوم ہےکولون مسجد، ہانگ کانگ ہانگ کانگ کی کولون مسجد ان میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد ایک اسلامی مرکز بھی ہے۔1896ء میں مقامی مسلمانوں کی دینی ضروریات کے پیش نظر یہ مرکز قائم کیا گیا۔ پھر تقریباً 90سال بعد 1986ء میں مسجد نئے سرے سے تعمیر کی گئی۔ اس میں روزانہ پانچوں وقت کی اذان اور نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسجد میں3500نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں یہ ہانگ کانگ میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد ناتھن اور ہے فونگ روڈ کے سنگم پر واقع ہے، اس کے قریب ہی تھوڑے فاصلے پر کولون پارک ہے۔ اس مسجد کی عمارت میں کچھ نقائص اس وقت سامنے آئے جب اس کے زیر زمین (انڈر گرائونڈ) ماس ٹرانزٹ ریلوے بچھائی جانے لگی۔ گو بعد ازاں ماس ٹرانزٹ ریلوے نے معاوضہ ادا کر دیا اور مسلمانوں کے عطیات سے مسجد کی مرمت کر دی گئی مسجد کی دوسری منزل پر بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ مسجد کا گنبد بالائی منزل سے 30فٹ بلند ہے اور اس کا قطر 16.5فٹ ہے۔ دوسری منزل کا ایک حصہ خواتین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ 

رمضان کے پکوان:منٹ لائم آئسڈ ٹی

رمضان کے پکوان:منٹ لائم آئسڈ ٹی

منٹ یعنی پودینے کے پتے ایک عام سی ڈرنک کو زندگی اور توانائی سے بھرپور بنانے کا بہترین طریقہ ہے، پیاس بجھانے والی یہ موک ٹیل بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ترکیب:چینی، پانی، کنور پروفیشنل لائم سیزننگ اور باریک کٹے ہوئے پودینے کے پتوں کا ایک سیرپ بنائیں اور پہلے سے بنی ہوئی چائے میں مکس کرلیں، یہ ایک زبردست ڈرنک بن جائے گی۔ہاتھ کا کٹا ہوا قیمہ اجزاء: گائے کا قیمہ آدھاکلو ( ہاتھ سے کٹوالیں)، ہلدی ایک چائے کا چمچ، لال مرچ پسی ہوئی ایک چائے کا چمچ،ادرک، لہسن پسا ہوا ایک کھانے کا چمچ،نمک حسب ذائقہ ،کالی مرچ (گدری گدری پسی ہوئی) آدھا چائے کا چمچ،ہری مرچ چارعدد( دوباریک کٹی ہوئی)، ہرادھنیا ایک گھٹی باریک کٹا ہوا، پیاز درمیانی سائز کی دوڈلیاں( باریک کٹی ہوئی)،ڈالڈا کوکنگ آئل آدھی پیالی ترکیب :سب سے پہلے ایک دیگچی میں کوکنگ آئل گرم کریں۔ پیاز ڈال کر ہلکی گلابی کرلیں پھر ذرا اسے پانی کے ساتھ سارے مصالحے ڈال دیں۔ ہلکا سابھون کر ہری مرچ کٹی ہوئی اور ہرادھنیا ڈال دیں۔ مقدار:یہ ڈش چارافراد کے لیے کافی ہے۔  

سوء ادب:والد صاحب

سوء ادب:والد صاحب

والد صاحب ایک لڑکا کسی کے باغ میں ایک درخت پر چڑھا آم چرا رہا تھا کہ اس کا مالک بھی آ دھمکا اور بولا ،'' تم نیچے اترتے ہو کہ تمہارے والد کو بلاؤں ؟ ‘‘ جس پر لڑکے نے جواب دیا، '' انہیں بلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ساتھ والے درخت پر چڑھے ہوئے ہیں ‘‘۔ حساب پڑھاتے ہوئے استاد نے تیسری جماعت کے طالب علم سے پوچھا ، '' اگر تمہارا باپ مجھ سے 150 روپے ادھار لے جائے اور 50 روپے واپس کر دے تو اس کے ذمے کتنے پیسے باقی رہے ؟ ‘‘۔ طالب علم نے کہا کچھ بھی نہیں ۔'' اس کا مطلب ہے کہ تم حساب نہیں جانتے‘‘ جس پر طالب علم بولا : '' جناب میں تو حساب جانتا ہوں آپ میرے باپ کو نہیں جانتے‘‘۔ ہیکل یہ ہمارے عزیز دوست اقتدار جاوید کا مجموعہ غزل ہے جس کا ٹائٹل شاکر گرافکس کا تیار کردہ ہے جبکہ کمپوزنگ شہزاد شاکر طور نے کی ہے۔ انتساب محترمی عطاالحق قاسمی صاحب کے نام ہے۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور عطاالحق قاسمی کی رائے درج ہے،جو اس طرح سے ہے ''اقتدار جاوید سے طویل ملاقاتوں سے پہلے میں انہیں محض شاعر سمجھتا تھا ،جب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی شخصیت کی کئی پرتیں نظر آئیں۔ میرے یہ دوست بہت پڑھے لکھے ہیں، مذہب ، ثقافت اور سیاست پر ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے بہت سی مختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم بھی کئے ہیں، انہیں تاریخ سے بھی گہرا شغف ہے، میرے اور ان کے درمیان کئی باتوں پر اتفاق اور کئی باتوں پر اختلاف ہے۔ میں نقاد نہیں ہوں اور ان کی شاعری پر اپنے تاثرات کا اظہار ہی کر سکتا ہوں۔ پہلا تاثر یہ ہے کہ اس وقت اردو دنیا میں ہزاروں شاعر پائے جاتے ہیں مگر اثر آفرینی کے لحاظ سے اقتدار جاوید کا شمار گنے چنے شعرا میں ہوتا ہے۔ دوسرا تاثریہ ہے کہ ان کی شاعری نئی شاعری سے بھی مختلف ہے کہ نئی شاعری اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔ اقتدار جاوید کے موضوعات بھی علیحدہ ہیں اور پیرایہ اظہار بھی مختلف ہے۔ اقتدار جاوید بنیادی طور پر نظم نگار ہیں کہ ان کی آزاد نظم کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور چوتھا مجموعہ آرام باغ زیر ترتیب ہے مگر ان کی تخلیقی سر گرمی کو محض نطم نگاری تک محدود کرنا قدرے زیادتی ہے کہ ان کی پنجابی شاعری کے تین مجموعے بھی اپنے قارئین کا ایک خاص حلقہ بنا چکی ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ رزمیہ شاعری پر ان کی کتاب ''پؤدی وار‘‘ تو کلاسیک میں شمار ہونی چاہیے۔ ''چار چفیرے‘‘ ان کی طویل پنجابی غزل کی کتاب ہے جو ایک ہزار مصرعوں پر مشتمل ہے اور ہر فعل پر شعر موجود ہے۔ جدید عربی نظم ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ''ہیکل‘‘ کی شاعری عام اور دستیاب اردوغزل سے الگ ہے اور اہم تخلیقی تجربہ ہے۔ ہیکل کی غزل ایسا اسلوب بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جو اقتدار جاوید کو کسی خاص لمحے میں قدرت سے عطا ہوا ہے۔ ایسی تخلیقی عطا پر شاعر ہر درجہ شکر گزار ہے کہ یہی شکر گزاری تخلیقی سوتے خشک نہیں ہونے دیتی۔ ہیکل ایک الگ جہان ہے الگ جہان شاعری ہے۔ ''ہیکل‘‘ میں اقتدار جاوید کے جہان شاعری میں کئی کہکہشائیں آباد ہیں۔ اندرونی فلیپ فرخ یار نے لکھا ہے اس کے علاوہ شاعر کی دیگر تصانیف کی تفصیل ہے اور عارفہ شہزاد کی رائے ہے۔ ہمارے یہ دوست ہرفن مولا کہلانے کے بھی پورے مستحق ہیں اردو و پنجابی نظم و غزل کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جبکہ تنقیدی بصیرت سے بھی مالا مال ہیں۔ گیٹ اپ عمدہ اور ٹائٹل دیدہ زیب۔ کتاب میں کل 84 غزلیں ہیں اور قیمت 900 روپے ہے ۔اور اب آخر میں اسی مجموعہ میں سے یہ غزل! غزلبیچ میں ہے چمکیلی ڈوریپھول کی لال و لال کٹوری پھول کی لال و لال کٹوری ناک پہ چمکا کوئی موتی اتنی دھوپ اور اتنی گوری نیچے ہے اوپر تک میٹھی مٹھی مٹھی کھانڈ کی بوری عین اندھیرے میں ظاہر ہو پچھل پیری چوری چوری پیڑہ پیڑہ گھی اور میدہ شکر خورہ شکر خوری قاشوں قاشوں ہونٹ کو چاٹےکھٹی مھٹی چاٹ چٹوری گاڑھا نشہ محبت والاایک نشیلے کی منہ زوری ایک زمانہ ایک خزانہ صبح کی گھٹی رات کی لوری رات حروف کی گڈ مڈ گڈ مڈصبح فلک ہے تختی کوری آج کا مطلعیوں بھی نہیں کہ میرے بلانے سے آگیا جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آگیا    

حکایت سعدیؒ :بادشاہ  کی حماقت

حکایت سعدیؒ :بادشاہ کی حماقت

کہتے ہیں، ایک بادشاہ رعیت کی نگہبانی سے بے پروا اور بے انصافی اور ظلم پر دلیر تھا۔ ان دونوں باتوں کا یہ نتیجہ بر آمد ہو رہا تھا کہ اس کے ملک کے لوگ گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ایک دن یہ کم فہم اور ظالم بادشاہ اپنے دربار میں عہدے داروں اور ندیموں کے درمیان بیٹھا فردوسی کی مشہور رزمیہ نظم ''شاہنامہ‘‘ سن رہا تھا۔ بادشاہ ضحاک اور فریدوں کا ذکر آیا تو اس نے اپنے وزیر سے سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ضحاک جیسا بڑا بادشاہ اپنی سلطنت گنوا بیٹھا اور فریدوں بڑا بادشاہ بن گیا جب کہ اس کے پاس لاؤ لشکر تھا نہ بڑا خزانہ ؟اس کا وزیر بہت دانا تھا، اس نے ادب سے جواب دیا کہ حضور والا اس کی وجہ یہ تھی کہ فریدوں خلق خدا کا بہی خواہ اور ضحاک لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف سے لا پروا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ضحاک کو چھوڑ کر فریدوں کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور وہ بادشاہ بن گیا۔ بادشاہی لشکر اور عوام کی مدد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر وزیر نے بادشاہ کو نصیحت کی کہ سلطنت قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ حضور اپنا رویہ بدلیں۔ لوگوں کو پریشان اور ہراساں کرنے کی بجائے اچھا برتاؤ کریں۔ احسان اور انصاف کرنے سے بادشاہ کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ فوج کے سپاہی وفادار اور جاں نثار بن جاتے ہیں۔یہ باتیں خیر خواہی کے جذبے سے کہی گئی تھیں لیکن بادشاہ وزیر سے ناراض ہو گیا اور اسے جیل بھجوا دیا۔ اس نے اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کچھ ہی دن بعد، کرنا خدا کا کیا ہوا کہ بادشاہ کے بھائی بھتیجوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور رعایا ان کی طرف دار ہو گئی۔ کیونکہ ہر شخص بے تدبیر بادشاہ کے ظلم سے پریشان تھا۔سلطنت اور ظلم یکجاہو نہیں سکتے کبھیبھیڑیا بھیڑوں کی رکھوالی پہ کب رکھا گیاظلم سفاکی پہ جو حاکم بھی ہو جائے دلیرجان لو قصر حکومت اس نے خود ہی ڈھا دیاحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں جہاندانی کا یہ زرین اصول بیان کیا ہے کہ بادشاہ کی اصل قوت رعایا کی خیر خواہی اور محبت ہے۔ یہ قوت احسان اور انصاف کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر انتہائی قریبی لوگ بھی مخالف بن جاتے ہیں۔ ظالم حاکم تنہا رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں دشمن اسے آسانی سے ختم کر دیتے ہیں۔٭٭٭٭٭ 

آج کا دن

آج کا دن

''سڈنی ہاربر برج ‘‘کا افتتاح1932ء میں آسٹریلیا کے مشہو ر ''سڈنی ہاربر برج کا افتتاح کیا گیا۔ یہ سٹیل کا مضبوط پل ہے جو سڈنی ہاربر کو سینٹرل بزنس ڈسٹرک سے ملاتا ہے۔ اسے دنیا میں زیادہ شہرت اس لئے بھی حاصل ہے کہ اگر پل کے ایک جانب کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو پل اور آسٹریلیا کا مشہور سڈنی اوپرا ایک ہی فریم میں نظر آتے ہیں۔ہٹلر کا ''نیرو ڈکری‘‘ کا اعلان 1945ء میںایڈولف ہٹلر نے جرمنی کے تعلیمی ادارے، فیکٹریاں ، چھوٹے کارخانے، دفاتر اور سڑکوں کو تباہ کرنے کا حکم دیا، جسے ''نیروڈکری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1945ء میں پے درپے شکستوں کے بعد جرمنی کے حالات ابتر ہو گئے تھے ۔افغانستان فضائی حادثہ 1998 ء میں آج کے روز افغانستان کی ائیر لائن آریانہ کا جہاز بوئنگ727کابل ایئرپورٹ کے قریب حادثہ کا شکار ہوا۔جس میں جہاز میں موجود45افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ تحقیقات میں فنی خرابی اور کنٹرول ٹاور سے رابطے میں کمزوری کو حادثے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ ''طابا‘‘ میں مصری جھنڈا لہرا یا گیا1989ء میں آج کے روز مصر اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والے شہر طابا میں مصری جھنڈا لہرا ہا گیا۔اس شہر کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی ہوئی جسے عرب اسرائیل جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جنگ کے اختتام پرشہر میں مصری جھنڈا لہرا ہا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ شہر مصر کی ملکیت ہے۔ یہ شہر مصر کے شمال میں واقع ہے اور اس کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے۔ یہ شہر ہمیشہ ہی تنازعات کی زد میں رہا ہے۔

دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

جامع الالفار مسجد، کولمبو(سری لنکا)یہ ایک تاریخی مسجد ہے جو کولمبو میں کراس سٹریٹ پر واقع ہے۔ کولمبو سری لنکا کا دارالحکومت ہے جو اس جزیرے کے جنوب مغربی ساحل پر واقع ہے۔ یہ مسجد اتنی خوبصورت ہے کہ شروع سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے۔ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اس کو دنیا کی بیس خوبصورت مساجد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مسجد کو 1909ء میں کولمبو میں رہنے والے مسلمانوں نے تعمیر کیا تاکہ وہ پانچ وقت کی نماز، نماز جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کر سکیں۔ اس کے منفرد ڈیزائن میں سفید اور سرخ رنگ کے استعمال نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس مسجد کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس کے بنانے والوں کے دلوں میں دین اسلام سے کس قدر محبت تھی۔مسجد بیت المکرم، ڈھاکہ(بنگلہ دیش)یہ مسجد بنگلہ دیش کی قومی مسجد ہے، بیت المکرم بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں واقع ہے۔ اس مسجد کا افتتاح 1960ء میں ہوا اور اس وقت اس میں تیس ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی دس بڑی مساجد میں شمار کی جاتی ہے لیکن روز بروز مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر یہ مسجد چھوٹی پڑ رہی ہے۔ حکومت کا پروگرام ہے کہ اس مسجد کو توسیع دے کر مزید دس ہزار نمازیوں کی گنجائش پیدا کر لی جائے۔ توسیعی منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد اس میں نمازیوں کی گنجائش چالیس ہزار ہو جائے گی۔مسجد بیت المکرم کے ڈیزائن میں یہ انفرادیت ہے کہ وہ کسی حد تک خانہ کعبہ سے مماثلت رکھتا ہے دوسرے اس مسجد کا عام روایتی مساجد کی طرح نہ تو کوئی گنبد ہے، نہ کہیں محرابیں نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ مسجد اپنے منفرد ڈیزائن اور خوبصورتی کی وجہ سے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ دنیائے اسلام میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔مسجد اُمُّ القریٰ، بغداد(عراق)یہ مسجد سنی مسلک کے مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کا ڈیزائن صدر صدام حسین کی خلیجی جنگ (17جنوری تا 28فروری 1991ء) کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ یہ مسجد بغداد کے مغرب میں محلہ العادل میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد 28اپریل 1998ء کو صدام حسین کی 65ویں سالگرہ کے دن رکھا گیا اور 28اپریل 2001ء ہی کو مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر 7.5ملین ڈالر خرچ ہوئے۔اس مسجد کے چار مینار ہیں جو کلاشنکوف رائفل کی نالی سے مشابہت رکھتے ہیں۔ان میناروں کی بلندی 43میٹر ہے، مسجد کے ارد گرد 28فوارے ہیں، مسجد میں سفید چونے کے پتھر اور نیلے رنگ کی ٹائلیں استعمال کی گئی ہیں۔ صدام حسین نے اس مسجد کے ایک پہلو میں اپنی آخری آرام گاہ کیلئے جگہ کا انتخاب سوچ رکھا تھا۔ عراق پر اتحادیوں کے حملہ کے بعد جب صدام حسین کا زوال شروع ہوا تو اس مسجد کا انتظام سنی علماء کی انجمن نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ آج بھی یہ مسجد بغداد کے مسلمانوں کی ایک مرکزی عبادت گاہ سمجھی جاتی ہے۔

رمضان کے پکوان:عربی بریڈ پڈنک

رمضان کے پکوان:عربی بریڈ پڈنک

اجزاء : ڈبل روٹی کے توس چھ عدد ( چاروں طرف کے کنارے کاٹ لیں)، سوکھی خوبانی ایک پیالی( گھٹلی نکال کر باریک باریک کاٹ لیں)، سنگترے کے چھلکے چارعدد ( سفید والا حصہ نکال کر باریک کاٹ لیں )، کنڈینس دودھ ایک ٹن،کارن فلور ایک چائے کا چمچ،بادام دس عدد( باریک کاٹ لیں)،تلنے کے لیے کوکنگ آئل ترکیب :سب سے پہلے ایک فرائنگ پین میں ڈالڈا کوکنگ آئل گرم کریں۔ توس گولڈن برائون تل کر نکال لیں۔ ایک اخبار پر پھیلا دیں تاکہ چکنائی جذب ہوجائے۔ ایک الگ فرائنگ پین لیں۔ دودھ ڈال کر ذرا پکالیں اور کارن فلور ملاکر گاڑھا گاڑھا کرلیں۔ پھر سے ایک فرائنگ پین لے لیں اس میں چینی پگھلا کر خوبانی کے ٹکڑے ، سنگترے کے چھلکے اور بادام ڈال کر پکالیں۔ چینی جب شیرا بن جائے تو اتارلیں۔ تلے ہوئے توس کے اوپر سب سے پہلے اچھی طرح گاڑھا کیا ہوا دودھ لگالیں پھر تینوں چیزیں لگاکر ایک ڈش میں رکھتے جائیں۔ چاہیں تو ٹھنڈا پیش کریں یا گرم گرم پیش کریں۔ دونوں طرح سے مزے دار لگیں گے۔ یہ ڈش پانچ افراد کے لیے کافی ہے۔

حکایت سعدیؒ:نصیحت

حکایت سعدیؒ:نصیحت

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ حاکم شیراز تکلہ بن زنگی نے ایک دن ندیموں کی مجلس میں یہ اعلان کیا کہ میں تخت حکومت چھوڑ کر باقی عمر یادِ خدا میں بسر کروں گا۔ بادشاہ کی یہ بات سنی تو ایک روشن ضمیر بزرگ نے ناراض ہو کر کہا کہ اے بادشاہ! اس خیال کو ذہن سے نکال دے۔ دنیا ترک کر دینے کے مقابلے میں تیرے لیے یہ بات کہیں افضل ہے کہ تو عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے اور اپنے اچھے کاموں سے خلق خدا کو فائدہ پہنچائے۔ یاد رکھ! عبادت خلقِ خدا کی خدمت کے سِوا کچھ نہیں۔ تسبیح و سجادہ تو یہ مقصد حاصل کرنے کے ذریعے ہیں۔ صاحبِ دل بزرگوں کا یہ دستور رہا ہے کہ گو ان کے جسم پر بہترین قبا ہوتی تھی لیکن وہ قبا کے نیچے پرانا کُرتا پہنتے تھے۔ تُو بھی یہی طریق اختیار کر۔ صدق و صفا کو اپنا اور شیخی اور ظاہر داری سے بچ۔اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے دنیا سے تعلق کے بارے میں صحیح اسلامی تصور پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان دنیا سے کنارہ کش نہ ہو۔

آج کا دن

آج کا دن

سٹیم بوٹ نے انگلش چینل عبور کیا1816ء میں آج کے روز بھاپ سے چلنے والی 38 ٹن وزنی ایک کشتی نے انگلش چینل کو عبور کیا۔ اس کشتی کے کپتان پیئر انڈریال تھے۔ اس کشتی کو انگلش چینل عبور کرنے والی پہلی بھاپ سے چلنے والی کشتی کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ سٹیم بوٹ سکاٹ لینڈ میں 1814ء میں تیار کی گئی۔ 1815ء میں، فرانسیسی شہری پیئر اینڈریل نے اسے خریدا، اور اس کا نام تبدیل کرکے ''ایلیز‘‘ رکھ دیا۔ اینڈریل نے عوامی رائے کو قائل کرنے کے لیے چینل کی ایک شاندار کراسنگ کو پورا کرنے کا ارادہ کیا کہ بھاپ والے جہاز سمندر کے قابل ہو سکتے ہیں۔سری لنکا کرکٹ کا چیمپئن بنا17مارچ 1996ء کو عالمی کرکٹ کپ کے فائنل میں سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست دی۔ قذافی سٹیڈیم میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کا فائنل فلڈ لائٹ میں کھیلا گیا۔ ایک مرتبہ کی چیمپئن آسٹریلیا اور پہلی مرتبہ فائنل کھیلنے والی سری لنکا کی ٹیمیں مدمقابل تھیں۔ 30ہزار تماشائیوں کے سامنے سری لنکا نے آسٹریلیا کو 7 وکٹ سے شکست دے کر پہلی مرتبہ عالمی ورلڈ کپ کا اعزاز اپنے نام کیا۔پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کپتان رانا تنگا کو ورلڈ کپ ٹرافی اور ایک لاکھ ڈالر کا چیک انعام میں دیا۔کولمبیا فضائی حادثہکولمبیئن بوئنگ 727 جیٹ لائنر کی ''فلائٹ 410‘‘ 17 مارچ 1988 کو پہاڑوں میں گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز کو حادثہ ٹیک آف کے فوراً بعد اس وقت پیش آیا جب وہ ایک پہاڑ کے قریب سے گزر رہی تھی۔ جہاز میں سوار تمام 143 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ اس وقت کولمبیا میں ہونے والا سب سے مہلک ہوا بازی کا حادثہ تھا۔حادثے کی تحقیق کرنے والی ٹیم کے مطابق حادثہ کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سے ایک کاک پٹ میں ایک غیر عملے کا پائلٹ، جس کی موجودگی نے پائلٹ کی توجہ ہٹائی اور دوسرے ٹیم کے درمیان ٹیم ورک کی کمی تھی۔ برسلز معاہدہ 17 مارچ 1948ء کو بلجیم،فرانس، ہالینڈ، برطانیہ اور لکسمبرگ کے درمیان 50 سالہ مدت کیلئے برسلز معاہدہ طے کرتے ہوئے مغربی یورپی یونین کی بنیاد رکھی گئی۔ برسلز معاہدہ 1948ء اور 1954ء کے درمیان ویسٹرن یونین کا بانی معاہدہ تھا، اس معاہدے میں رکن ممالک کے درمیان فوجی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی تعاون کی تنظیم کے ساتھ ساتھ باہمی دفاعی شق بھی شامل تھی۔

ہائیپر لوپ ٹیکنالوجی

ہائیپر لوپ ٹیکنالوجی

ذرائع ابلاغ انسانی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔زمانہ قدیم میں نقل و حرکت بہت سست تھی اسی وجہ سے ترقی کی منازل بھی سستی روی کا شکار رہی۔ جوں جوں آمدورفت میں تیزی آئی گئی اور لوگ مہینوں کا سفر دنوں میں ، دنوں میں طے ہونے والا فاصلہ گھنٹوں میں اور گھنٹوں کاسفر منٹوں میں طے کرنے لگے تو فاصلے سمٹنے لگے ، دنیا ایک گلوبل ویلیج بن کر رہ گئی۔سات سمندر کی باتیں کتابوں کے و رقوں تک سمٹ گیا۔ برینڈز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیا کے پہنائووں کو ایک کلچر میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ٹیکنالوجی میں جدت نے جہاںفاصلوں کوتوپہلے سمیٹ دیا مگر اب ہائپر لوپ کے ذرائع ابلاغ میں انقلاب برپا کرنے کے لئے تیار ہے۔ہائپر لوپ ٹیکنالوجی آنے والے وقتو ں میں انسانی زندگی پر حیران کن اثرات مرتب کرے گی۔2013ء میں ایلون مسک نے ہائپرلوپ ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی کا تصور پیش کیا تھا۔ یہ ایک ایسی تیز رفتار نظام ہے جو مسافروں یا سامان کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک تقریباً 1200 کلومیٹر فی گھنٹہ (تقریباً 760 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے منتقل کر سکتا ہے۔یہ روایتی ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور حتیٰ کہ تیز رفتار بلٹ ٹرینوں سے بھی کئی گنا تیز ہے۔ ہائپر لوپ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک کم دباؤ والی ٹیوب کے اندر کیپسول نما گاڑیوں (پوڈز) کو بجلی یا مقناطیسی قوت سے چلایا جائے، جہاں ہوا کا دباؤ اور رگڑ (friction) انتہائی کم ہو۔جہاں پر ہائپر لوپ کو دنیا کا تیز ترین سفری سہولت سمجھا جا رہا ہے اورکچھ ممالک میں اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تیاریاں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ تیز ترین سفری سہولت میں کچھ چیلجز بھی درپیش ہیں۔ہائپر لوپ ٹیکنالوجی میں چیلنجز جدید ٹرانسپورٹیشن سسٹم ''ہائپر لوپ‘‘ کو وسیع پیمانے پر قابل عمل بنانے کیلئے کئی چیلنجز اور سائنسی مسائل کا سامنا ہے۔اس ٹیکنالوجی کو درپیش چند مسائل درج ذیل ہیں۔ایک لمبی ٹیوب میں کم دباؤ کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ اگر ٹیوب میں کوئی رساؤ (leak) ہو جائے تو پورا نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے جدید پمپنگ سسٹم اور مضبوط مواد کی ضرورت ہے۔تیز رفتار سے حرکت کرتے ہوئے کیپسول اور ٹیوب کے درمیان حرارت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے کولنگ سسٹم ضروری ہیں۔ اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو مسافروں کو کم دباؤ والی ٹیوب سے باہر نکالنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے ہنگامی نظام تیار کرنا پڑے گا۔ اس ٹیکنالوجی کو بنانے کیلئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے، کیونکہ اس میں جدید مواد، مقناطیس اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ہائپر لوپ کے کامیاب ہونے سے دنیا بھر میں سفر کا وقت ڈرامائی طور پر کم ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، لاہور سے کراچی کا سفر جو اب 12 سے 15 گھنٹے لیتا ہے، ہائپر لوپ سے صرف ایک گھنٹے میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف وقت بچے گا بلکہ معاشی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔ سائنسی تحقیق کے اعتبار سے، ہائپر لوپ نئے مواد، مقناطیسی نظاموں اور توانائی کے استعمال کے طریقوں کو ترقی دے سکتا ہے جو دیگر شعبوں میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ہائپر لوپ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو طبیعیات کے بنیادی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی نقل و حمل کو تبدیل کر سکتی ہے۔ کم دباؤ والی ٹیوب، مقناطیسی لیویٹیشن اور لکیری انڈکشن موٹر جیسے سائنسی عناصر اسے ممکن بناتے ہیں۔ اگرچہ اس کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، لیکن اس کی کامیابی سے انسانیت کو تیز، سستا اور ماحول دوست سفر میسر ہو سکتا ہے۔ یہ ایلون مسک کا ایک انقلابی تصور ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے حقیقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔توانائی اور ماحولیاتی فوائدہائپر لوپ کو سائنسی طور پر پائیدار بنانے کیلئے اسے شمسی توانائی (Solar Power) یا دیگر قابل تجدید ذرائع سے چلانے کا منصوبہ ہے۔ ٹیوب کے اوپر شمسی پینلز لگائے جا سکتے ہیں جو دن کے وقت توانائی پیدا کریں گے اور یہ توانائی بیٹریوں میں محفوظ کی جا سکتی ہے۔ چونکہ ہائپر لوپ میں رگڑ اور ہوا کی مزاحمت کم ہوتی ہے، اسے چلانے کیلئے روایتی ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم توانائی درکار ہوتی ہے۔ماحولیاتی اعتبار سے یہ ٹیکنالوجی کاربن کے اخراج (Carbon Emissions)کو کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ ایندھن جلانے کے بجائے بجلی پر چلتی ہے۔ اگر بجلی قابل تجدید ذرائع سے آئے تو یہ صفر اخراج (Zero Emission)نظام بن سکتا ہے۔اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں ہائپرلوپ ٹیکالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے بھارت ، سعودی عرب، متحدہ امارات، چائنہ ،اٹلی اور کنیڈاکی حکومتیں اس ہائپر لوپ ٹیکنالوجی کو اپنے ملکوں کی عوام کو سفری سہولت کیلئے شروع کرنے کیلئے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کرچکے ہیں اور کئی جگہوں پر اس کیلئے کام کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔

گھوڑے اور بھی ہیں

گھوڑے اور بھی ہیں

گھوڑا اس کرۂ ارض کے قدیم ترین جانوروں میں سے ایک ہے۔ماہرین کا قیاس ہے کہ گھوڑوں کا ارتقائی عمل لگ بھگ پانچ کروڑ سال پہلے عمل میں آچکا تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے سب سے پہلی نسل کے گھوڑوں کا سائز ایک عام سائز کے بکرے کے برابر ہوا کرتا تھا۔ زمانۂ قدیم میں چونکہ جانور پالنے کا رواج ابھی شروع نہیں ہوا تھا اس لئے گھوڑوں کا شمار بھی عام طور پر جنگلی جانوروں میں ہوتا تھا۔ سب سے پہلے گھوڑے گھر پر پالنے کا رواج 4000قبل مسیح کے آس پاس ہوا تھا۔گھوڑا صدیوں سے ایک اہم جانور اس لئے بھی چلا آ رہا ہے کہ یہ ایک تیز رفتار اور پر وقار سواری کے ساتھ ساتھ ایک عرصہ تک جنگوں کا اہم جزو ہوا کرتا تھا۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جنگ جیتنے کا بہت حد تک دارومدار گھوڑوں پر ہوا کرتا تھا۔ پونی گھوڑےاگرچہ اس کرۂ ارض پر گھوڑوں کی انگنت اقسام پائی جاتی ہیں لیکن جو قسم ابتدائی گھوڑوں کے قریب ترین ہے وہ ''پونی گھوڑوں‘‘ کی ہے۔انہیں عرف عام میں چھوٹا گھوڑا بھی کہا جاتا ہے۔ گھوڑوں کی پیمائش ''ہاتھوں‘‘ کے حساب سے کی جاتی ہے، اس گھوڑے کا سائز تقریباً 14.2 ہاتھ یا 58 انچ اونچا ہوتا ہے جبکہ پونی کا اوسط سائز 8 ہاتھ یعنی تقریباً 32 انچ ہوتا ہے۔پونی ، عام گھوڑوں سے سائز میں تو چھوٹے ہوتے ہیں، ان کے جسم پر بال عام گھوڑوں کی نسبت زیادہ گھنے ہوتے ہیں ، خاص طور پر گردن اور دم پر۔البتہ ان کی ٹانگیں چھوٹی، منہ چوڑے، گردن موٹی، پیشانی کشادہ ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان کا جسم عام گھوڑے کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سب خشکی کے گھوڑے ہیں۔ خشکی کے علاوہ اس کرہ پر کچھ اور اقسام کے گھوڑے بھی پائے جاتے ہیں جن میں ایک ''دریائی گھوڑے‘‘ جبکہ دوسری قسم '' سمندری گھوڑوں‘‘ کی ہے۔ دریائی گھوڑے اس روئے زمین پر ہاتھی کے بعد بالحاظ جسامت دریائی گھوڑا سب سے بڑا اور دیو ہیکل جانور ہے۔ بھینسے سے مشابہت رکھنے والے اس جانور کو ماہرین ہاتھی اور گینڈے کے قبیل سے جوڑتے ہیں۔گھاس کھانے والا یہ ممالیہ جانور اس روئے زمین کے قدیم ترین جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دریائی گھوڑوں کے اجداد اس روئے زمین پر پانچ کروڑ سال پہلے بھی موجود تھے۔دریائی گھوڑے کا جسم گول مٹول،چار بڑے بڑے نوکیلے دانت ، لمبی چوڑی تھوتھنی، جسم پر چھوٹے چھوٹے بال اور ستون نما چھوٹی اور بھاری بھر کم ٹانگوں والا یہ جانور Hippopotamidae نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جست تو نہیں لگا سکتا مگر انتہائی ڈھلوان دریائی کناروں پر یہ باآسانی چڑھ سکتا ہے۔دریائی گھوڑے کے نتھنے ، آنکھیں اور کان ، کھوپڑی کے اوپر والے حصے میں ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پانی میں چھپنے کے باوجود بھی یہ اپنا ناک ،کان اور نتھنا پانی سے باہر نکال سکتا ہے۔دریائی گھوڑوں کی اوسط عمر 40 سے 50 سال ہوتی ہے۔ جبکہ ان کا اوسط وزن 1500 کلو گرام کے لگ بھگ ہوتا ہے۔سمندر عجیب و غریب اور حیرت انگیز جانداروں کی اتنی بڑی دنیا ہے جس کا شمار ممکن ہی نہیں۔ایسی ہی ایک سمندری مخلوق جس کی شباہت بہت حد تک گھوڑے سے ملتی ہے ،اسے ''سمندری گھوڑے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا سر ٹٹو ( Pong) کی شکل کا ہوتا ہے ، اس کا جسم ٹھوس پلیٹوں اور نوک دار کانٹوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اس کی دم سانپ کی مانند ہوتی ہے ۔ بعض علاقوں میں اسے گھڑ مچھلی کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ماہرین اس کا تعلق مچھلی کے خاندان سے بتاتے ہیں۔اس کی 32 سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔اس کا عمومی قد تو ایک فٹ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کی ایک قسم کا قد ایک انچ سے بھی کم ہوتا ہے۔اس کا تعلق چونکہ مچھلی کے قبیل سے ہے اور پانی کے اندر ہی رہتا ہے اس لئے دریائی گھوڑے کے برعکس یہ خشکی پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کی خوراک چھوٹے سمندری جھینگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔