3 دسمبر:خصوصی افراد  کا عالمی دن: حقوق،رکاوٹیں اور ہماری ذمہ داریاں

3 دسمبر:خصوصی افراد کا عالمی دن: حقوق،رکاوٹیں اور ہماری ذمہ داریاں

3 دسمبر کو خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد معاشرے کے ان افراد کے حقوق، ضروریات، صلاحیتوں اور مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی تقریباً 16 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں خصوصی افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن حکومتی سطح پر ان کی ضروریات کے مطابق سہولتوں کی فراہمی اب بھی ناکافی ہے۔ پاکستان میں خصوصی افراد کی اصل تعداد پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں ان کی شرح صرف 0.48 فیصد بتائی گئی تاہم ماہرینِ سماجیات اسے درست قرار نہیں دیتے۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں معذور افراد کی شرح 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔اس حساب سے پاکستان میں تقریباً دو کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی جسمانی، ذہنی یا سماعت و بصارت کی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق متعدد قوانین منظور کیے ہیں۔ 2011ء میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ معذوراں (UNCRPD) کی توثیق کی۔ اس کے بعد مختلف صوبوں نے خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین بھی بنائے جیسے سندھ میں 2018 کا سندھ معذور افراد تحفظ ایکٹ،پنجاب کا سپیشل پرسنز ایکٹ 2020،خیبرپختونخوا کا معذور افراد کا ایکٹ 2022۔ ان قوانین میں تعلیم، روزگار، رسائی، مالی معاونت، علاج، سماجی تحفظ اور سیاسی شمولیت جیسے نکات شامل ہیں،لیکن مسئلہ ہمیشہ کی طرح نفاذ کا ہے۔ عملاً نہ عمارتیں قابلِ رسائی ہیں نہ دفاتر میں ریمپس ہیں نہ بڑی تعداد میں ملازمتوں کا کوٹہ پورا کیا جاتا ہے نہ ہی خصوصی افراد کے لیے تعلیم اور صحت کے نظام کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ قانون موجود ہو تو بھی رویے، نگرانی، بجٹ اور ترجیح نہ ہو تو وہ کاغذی کارروائی بن جاتا ہے۔خصوصی افراد کو صحت کے نظام میں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں وہیل چیئر کی رسائی،بریل یا سائن لینگویج کے ذریعے معلومات کی فراہمی اورذہنی صحت کے لیے معاون سہولتیں بہت کم ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ نفسیاتی دباؤ ہے جو خصوصی افراد مسلسل معاشرتی رویوں کی وجہ سے سہتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی معذوری کے لیے پاکستان میں ماہرین اور علاج کے وسائل بہت کم ہیں۔تعلیم تک رسائی، سب سے بڑا چیلنجپاکستان میں خصوصی بچوں کی تعلیم سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خصوصی بچے سکولوں سے باہر ہیں۔عام سکولوں میں ریمپس، سائن لینگویج، بریل سسٹم یا خصوصی اساتذہ نہیں ہیں ۔خصوصی بچوں کو تعلیمی نظام سے باہر رکھ کر ہم ان کی زندگی، کیریئر اور سماجی کردار کو محدود کر دیتے ہیں۔ دنیا کے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں انکلوسیو ایجوکیشن یعنی سب کے لیے مشترکہ نظام تعلیم ترجیح ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی یہ تصور ابتدائی مراحل میں ہے۔روزگار اور معاشی مشکلات معذور افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ مختص ہے لیکن اکثر محکمے یہ کوٹہ پورا نہیں کرتے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان افراد کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے۔یوں مالی انحصار خاندانوں پر بڑھ جاتا ہے،عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے،سماجی سطح پر الگ تھلگ ہونے کا احساس بڑھتا ہے۔اصل مسئلہ معذوری نہیں بلکہ معاشرتی نظام کی وہ ناکامی ہے جو اِن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتی ہے۔دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے خصوصی افراد کے لیے ہزاروں مواقع پیدا کیے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس سمت میں ترقی ابھی بہت سست ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا، نصاب،مساجد، تعلیمی ادارے اور حکومتی بیانیہ مل کر آگاہی پیدا کریں کہ معذوری ایک جسمانی یا ذہنی کیفیت ہے کمزوری نہیں۔آگے بڑھنے کا راستہخصوصی افراد کے حوالے سے حقیقی تبدیلی کے لیے کئی اقدامات ناگزیر ہیں مثال کے طور پر درست اعداد و شمار کی تدوین، خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔سکولوں کو قابلِ رسائی بنایا جائے اور خصوصی تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کیے جائیں۔ دو فیصد کوٹہ بھرنے پر سختی کی جائے اور نجی شعبے کو مراعات دی جائیں۔ میڈیا اور نصاب میں خصوصی افراد کی نمائندگی بڑھائی جائے۔ جدید ایڈاپٹو ٹیکنالوجیز کو سبسڈی دے کر عام کیا جائے۔ ریاست، معاشرہ اور خاندان خصوصی افراد کو وہ مواقع فراہم کریں جن کے وہ برابر کے حق دار ہیں۔پاکستان تبھی مضبوط ہو گا جب اس کے تمام شہری،چاہے وہ جسمانی، ذہنی، بصارت یا سماعت کی کسی بھی معذوری کے حامل ہوں،برابر کے شہری تسلیم کیے جائیں۔

مہرگڑھ:برصغیر کے تمدنی سفر کی پہلی منزل

مہرگڑھ:برصغیر کے تمدنی سفر کی پہلی منزل

بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں ایک ایسی بستی آباد تھی جو آج بھی انسانی تاریخ کی پہلی دھڑکنوں کی یاد دلاتی ہے۔ یہ ہے مہر گڑھ،جنوبی ایشیا کی وہ تہذیب جس نے انسان کو خانہ بدوشی سے نکال کر منظم زندگی، آباد بستیوں اور زرعی تمدن کی طرف دھکیلا۔ اس کہانی کا آغاز تقریباً نو ہزار سال پہلے ہوا جب دنیا کے کئی خطے ابھی پتھر کے دور میں گم تھے۔یہ 1974ء کی ایک دوپہر تھی جب فرانسیسی ماہرینِ آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جارج (Jean-François Jarrige) اور کیتھرین جارج( Catherine Jarrige) نے بلوچستان کے ضلع کچّھی میں مٹی کے نیچے چھپی ایک ایسی دنیا دریافت کی جو تاریخ کو نئی ترتیب دینے والی تھی۔ شب و روز کی کھدائی سے سامنے آیا کہ یہ جگہ کوئی عام بستی نہیں بلکہ برصغیر کی سب سے قدیم زرعی معاشرت کا گہوارہ تھی۔مہر گڑھ کا مقام کچھ ایسا تھا کہ یہاں سے گزرنے والے راستے سندھ، افغانستان اور ایران تک پہنچتے تھے۔ شاید یہی وہ سنگم تھا جہاں انسان نے پہلی بار تجارت، تبادلے اور میل جول کی اہمیت محسوس کی۔ کھدائی میں ملنے والی اینٹیں، چکی کے پتھر اور اناج کے ذخائر بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ شکار پر انحصار چھوڑ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے کچی اینٹوں کے گھر بنائے،اناج کے گوداموں میں غلہ محفوظ کیا اور ایک جگہ مستقل رہائش اختیار کی۔ یہ تمام باتیں اس بستی کے ارتقا کی بنیاد تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کے چند ہی خطوں میں زراعت کا آغاز ہوا تھا، مہر گڑھ ان میں سرفہرست ہے۔ قدیم مہر گڑھ کا طرزِ زندگیمہر گڑھ کے رہنے والوں نے گندم اور جو کی باقاعدہ کاشت کی۔ دریا کے قریب لہلہاتے کھیت، پانی کھینچ کر لانے کے طریقے، اور غلے کی حفاظت کے انتظامات سے وہ ایک مکمل زرعی معاشرے میں تبدیل ہو گئے۔ مویشی بانی بھی یہاں کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی۔مہر گڑھ کی دستکاری آج بھی ماہرین کو حیران کرتی ہے۔ یہاں سے ملنے والی اشیا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قدیم بستی کے لوگ صرف کسان نہیں، فنکار بھی تھے۔ ان کی بنائی ہوئی چیزوں میں خوبصورت ڈیزائنوں والے مٹی کے برتن، فیروزے اور سیپیوں سے بنے زیورات،تانبے کے اوزار،ہڈی سے کندہ کاری کے نمونے اورانسانی اور حیوانی پیکرخاص طور پر مٹی کی گڑیائیں انتہائی دلچسپ ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ گڑیاں زرخیزی، ممتا اور مذہبی عقائد کا آئینہ تھیں۔مہر گڑھ کی سب سے حیران کن دریافت انسانی جبڑوں پر کیے گئے سوراخ ہیں جو کسی قدیم ڈینٹل ڈرل سے بنائے گئے تھے۔ یعنی 7000 سال پہلے اس بستی کے لوگ دانتوں کا علاج کر رہے تھے! یہ دنیا کی قدیم ترین دندان سازی میں شمار ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہر گڑھ صرف ایک زرعی بستی نہیں بلکہ سائنسی سوجھ بوجھ کی حامل ایک جدید آبادی تھی۔موت کی وادی میں زندگی کا یقینماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ مہر گڑھ کی قبروں میں ملنے والی چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھتے تھے۔ دفن کیے گئے افراد کے ساتھ رکھا جانے والا سامان ان کے عقائد اور رسوم کا پتہ دیتا ہے۔ مٹی کے برتن، زیورات، کھانے پینے کی اشیا،بعض جگہ جانوروں کی قربانی کے آثار،یہ رواج اس تہذیب کے روحانی شعور اور سماجی تنظیم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔لوبان اور فیروزے کی تجارت مہر گڑھ کے باشندے اپنی حدود سے بہت آگے تک سفر کرتے تھے۔ یہاں پایا جانے والا لیپس لازولی اور فیروزہ افغانستان سے آتا تھا جبکہ بعض مصنوعات ایران تک جاتی تھیں۔ یہ شواہد بتاتے ہیں کہ لمبے فاصلے کی تجارت کا راج تھا،دستکار قیمتی مصنوعات تیار کرتے تھے اورمہر گڑھ علاقائی سطح پر معاشی مرکز بن چکا تھا،یہی تجارتی روایت بعد میں وادی سندھ کے بڑے شہروں میں بھرپور طور پر نظر آتی ہے۔یہ تہذیب ختم نہیں ہوئی، آگے بڑھ گئیتاریخ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مہر گڑھ ہی وہ ابتدائی بنیاد ہے جس نے بعد میں موئن جو دڑو، ہڑپہ اوروادی سندھ کے دیگر شہروں کو جنم دیا۔ شہری منصوبہ بندی، تجارت، دستکاری، زرعی نظام،یہ سب عناصر سب سے پہلے مہر گڑھ میں پروان چڑھے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مہر گڑھ نے انسان کو راستہ دکھایا اور وادی سندھ نے اس راستے پر ایک عظیم تہذیب پروان چڑھی۔سمندر بہا دیا۔2600 قبل مسیح کے بعد مہر گڑھ کی آبادی کم ہونے لگتی ہے۔ ماہرین اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں مثال کے طور پر موسمی تبدیلیاں، دریاؤں کے رخ میں تبدیلی یا بہتر مواقع کی تلاش۔ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ مہر گڑھ کے لوگ کہیں گم نہیں ہوئے،وہ آگے جا کر وادی سندھ کے بڑے مراکز میں جذب ہو گئے۔آج جب ہم بلوچستان کی اس تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت جیسے تھم گیا ہو۔ کہیں دور مٹی کے نیچے وہ لوگ اب بھی چکی پیس رہے ہیں، مٹی کی گڑیاں بنا رہے ہیں، کھیتوں میں اگتی گندم سے امید کا رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ مہر گڑھ ہمیں بتاتا ہے کہ برصغیر کی کہانی کسی جنگ، کسی فاتح یا کسی سلطنت سے نہیں شروع ہوئی بلکہ ایک چھوٹی سی بستی سے، جہاں انسان نے پہلی بار زمین کو کاٹ کر اپنا مستقبل بویا۔ اسی لیے مہر گڑھ ایک تہذیب نہیں، ہمارے تمدنی سفر کی پہلی دھڑکن ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

جارج پنجم کی دہلی دربار میں آمد3 دسمبر 1910ء کو برطانوی بادشاہ جارج پنجم نے دہلی دربار میں بطور بادشاہ پہلی مرتبہ شرکت کی۔ اس دربار کو خاص طور پر ہندوستان کیئیے سیاسی کنٹرول، طاقت کے اظہار اور عوامی جذبات کو اپنے حق میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جارج پنجم کی آمد کے موقع پر پورے دہلی کو شاہی طرز پر سجایا گیا اور لاکھوں لوگ اس تاریخی موقع پر جمع ہوئے۔ اس تقریب میں آنے والے برسوں میں ہونے والی انتظامی تبدیلیوں، سیاسی فیصلوں اور نوآبادیاتی حکمتِ عملی کی جھلک بھی نظر آئی۔ یہ وہی دور تھا جب انگریزوں نے دارالحکومت کو کلکتہ سے دہلی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس نے ہندوستان کی سیاسی نقشہ بندی بدل دی۔ دہلی دربار کی یہ تقریب نوآبادیاتی نظام کے عروج کا نشان سمجھی جاتی ہے۔پہلا کامیاب دل کا ٹرانسپلانٹ3 دسمبر 1967ء کو طب کی تاریخ میں ایک عظیم سنگِ میل اس وقت عبور ہوا جب جنوبی افریقی سرجن ڈاکٹر کرسچین برنارڈ نے انسانی دل کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا۔ یہ آپریشن 25 سالہ خاتون کے دل کو 55 سالہ مریض لوئس واشکانسکی کے جسم میں منتقل کرنے کے ذریعے کیا گیا۔ اگرچہ مریض صرف 18 دن تک زندہ رہا لیکن اس سرجری نے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس واقعے نے دل کے امراض کے علاج کے حوالے سے نئی راہیں کھولیں، اعضاکی پیوند کاری کے عالمی رجحان کو بڑھایا اور سرجری کو جدید سائنس کے نئے دور میں داخل کیا۔ اس کامیابی پر دنیا بھر کے طبی اداروں نے تحقیق کا نیا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں دل کے ٹرانسپلانٹ آج معمول کا طریقہ بن چکا ہے۔ پیراگوئے میں شدید زلزلہ3 دسمبر 1973ء کو پیراگوئے کے کئی علاقوں میں تباہ کن زلزلہ آیا جس نے ملک کے اقتصادی و سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات چھوڑے۔ اگرچہ لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کی طرح پیراگوئے میں زلزلے عام نہیں تھے لیکن اس زلزلے کی شدت اور نوعیت نے حکومتی و انتظامی اداروں کو سخت امتحان میں ڈال دیا۔ کئی دیہات مکمل طور پر متاثر ہوئے، بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس واقعے نے پیراگوئے میں قدرتی آفات کے انتظام، حفاظتی تعمیرات اور امدادی نظام کی کمزوریوں کو نمایاں کیا۔ زلزلے کے بعد بین الاقوامی اداروں نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ یہ زلزلہ آج بھی پیراگوئے کی تاریخ کا اہم ترین قدرتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ یونین کاربائیڈ حادثہ 3 دسمبر 1984ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں بدترین صنعتی حادثہ پیش آیا جب یونین کاربائیڈ فیکٹری سے زہریلی گیس لیک ہو گئی اورچند گھنٹوں میں ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔اس سانحہ کی وجہ حفاظتی نظام میں شدید غفلت، ناقص مینجمنٹ اور حکومتی نگرانی کی کمی تھی۔ اس حادثے نے نہ صرف بھارتی صنعتکاری پر سوال اٹھائے بلکہ پوری دنیا میں صنعتی حفاظتی قوانین میں انقلابی تبدیلیاں لائیں۔ آج بھی بھوپال میں ہزاروں افراد اس گیس کے اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سانحہ صنعتی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے جو انسانی جانوں، ماحول اور انتظامی ذمہ داریوں کی سنگینی کا ہمیشہ کے لیے سبق بن گیا۔ سرب فورسز کے حملے کی ابتدا3 دسمبر 1992ء کو بوسنیا کی خانہ جنگی کے دوران سرب فورسز نے سربرنیٹسیا کے علاقے پر بڑے حملے کا آغاز کیا جو بعد میں 1995ء کے بدنامِ زمانہ قتلِ عام کی بنیاد بنا۔ اس دن ہونے والی جارحیت نے مقامی بوسنیائی مسلمانوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا اور ہزاروں افراد پناہ گزینی کے لیے دیگر علاقوں کی طرف منتقل ہونے لگے۔ اس حملے کا مقصد سٹریٹجک علاقوں پر قبضہ، آبادیاتی تبدیلی اور مسلم آبادی کو بے دخل کرنا تھا۔ 3 دسمبر کا یہ حملہ بوسنیا کی تاریخ میں وہ موڑ تھا جس نے جنگ کے ظلم اور انسانیت سوز مظالم کی راہ ہموار کی۔ آج یہ واقعہ نسل کشی کے مقدمات میں تاریخی حوالہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔   

بین الاقوامی یومِ انسداد غلامی : ایک تجدیدِ عہد

بین الاقوامی یومِ انسداد غلامی : ایک تجدیدِ عہد

دنیا ہر سال 2 دسمبر کو غلامی کے خاتمے کا عالمی دن مناتی ہے۔ یہ دن ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ غلامی اگرچہ ماضی کا قصہ سمجھی جاتی ہے لیکن اس کی مختلف شکلیں آج بھی انسانی معاشروں کو متاثر کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ دن اس مقصد کے تحت منانا شروع کیا کہ عالمی برادری کو آگاہ کیا جائے کہ جدید دور کی غلامی،جس میں جبری مشقت،انسانی سمگلنگ، بچوں کا استحصال، قرض کے عوض غلامی، جبری شادی اور جسم فروشی شامل ہیں،اب بھی کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔غلامی انسانی تاریخ کی قدیم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ ماضی میں طاقتور قومیں کمزور اقوام کے لوگوں کو غلام بنا لیتی تھیں۔ منڈیوں میں انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور انہیں محض ایک جائیداد سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں غلامی کا نظام طویل عرصے تک قائم رہا۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کے مختلف ممالک نے قانون سازی کے ذریعے غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن سماجی و عدم مساوات اور بدعنوان نظاموں نے غلامی کی نئی شکلیں پیدا کر دیں۔ آج بین الاقوامی اداروں کے مطابق دنیا میں تقریباًپانچ کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی شکل میں جدید غلامی کا شکار ہیں۔ان میں اکثریت بچوں، خواتین اور مزدور طبقے کی ہے جنہیں غربت، جہالت، روزگار کی کمی، قدرتی آفات اور تنازعات کی وجہ سے استحصال کا سامنا ہے۔ غلامی کی جدید صورتیںجدید دور کی غلامی پرانی غلامی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اب غلاموں کی خرید و فروخت روایتی منڈیوں کے بجائے خفیہ نیٹ ورکس اور جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے ہوتی ہے۔جدید دور میں غلامی کی چند نمایاں صورتوں میں انسانی سمگلنگ،جبری مشقت،بچوں سے جبری مشقت اور استحصال، قرض کے عوض غلامی اور جبری شادی شامل ہیں۔ انسانی سمگلنگ کو جدید غلامی کی سب سے خطرناک صورت قرار دیا جاتا ہے۔ سمگلرز لوگوں کو بہتر روزگار، خوشحال زندگی، یا بیرونِ ملک مواقع کا لالچ دے کر دھوکے سے اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ بعد ازاں انہیں جبری مشقت، جسم فروشی یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے۔دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں مزدور غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ فیکٹریوں، کھیتوں، کانوں، تعمیراتی مقامات اور گھروں میں لاکھوں لوگ انتہائی کم اجرت پر 14 سے 18 گھنٹے تک کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ قانونی تحفظ ہوتا ہے نہ ہی کوئی سماجی سہولت۔بچوں کو ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، اینٹوں کے بھٹوں، کھیتوں اور گھریلو کام کاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں سے بھیک منگوائی جاتی ہے اور انہیں جرائم پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔قرخ کے عوض غلامی کا نظام جنوبی ایشیا سمیت کئی خطوں میں موجود ہے۔ ایک خاندان معمولی قرض لیتا ہے اور پھر سود، غیر منصفانہ حساب یا طاقتور جاگیرداروں کے دباؤ کی وجہ سے نسل در نسل غلامی میں جکڑا رہتا ہے۔اکثر معاشروں میں لڑکیوں کو کم عمری میں زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری زندگی سماجی، جسمانی اور ذہنی پابندیوں میں گزارتی ہیں۔ جبری شادی کو بھی اقوام متحدہ جدید غلامی کی ایک شکل کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔بین الاقوامی کوششیں اور اقوام متحدہاقوام متحدہ نے 1949ء میں غلامی کے کاروبار اور انسانوں کی خرید و فروخت کے خلاف کنونشن منظور کیا۔ اس کے بعد مختلف پروٹوکولز اور معاہدوں کے ذریعے عالمی کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ جدید غلامی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ 2000ء میں ''پالرمو پروٹوکول‘‘ کی منظوری انسانی سمگلنگ کے خلاف اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ بین الاقوامی ادارہ محنت (ILO) مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور جبری مشقت کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل مہم چلا رہا ہے۔پاکستان میں چیلنجزپاکستان میں بھی جدید غلامی کی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے اور کھیت مزدور قرض کے عوض نسل در نسل بندھے رہتے ہیں۔ بچوں سے جبری مشقت، گھریلو ملازمین کا استحصال، انسانی سمگلنگ اور غیرقانونی ہجرت (مثلاً یورپ جانے کے لیے ایجنٹوں کا استعمال) سنگین مسائل ہیں۔حکومتِ پاکستان نے متعدد قوانین بنائے ہیں جن میں Prevention of Trafficking in Persons Act, 2018 ،جبری مشقت کے خلاف قانون سازی اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے پروگرام شامل ہیں، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ قانون پر عمل درآمد، اداروں کی کمزوریاں اور بدعنوانی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔سول سوسائٹی، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں لیکن چیلنج اب بھی بہت بڑا ہے۔معاشی مواقع اور سماجی تحفظ غربت جدید غلامی کی بنیادی وجہ ہے۔ لوگوں کو تعلیم، مہارت، روزگار اور سماجی تحفظ دیا جائے تاکہ وہ مجبوری میں استحصال کا شکار نہ ہوں۔دیہی علاقوں، کم تعلیم یافتہ طبقے اور نوجوانوں کو اس بات کی آگاہی دینا بھی ضروری ہے کہ جھوٹے وعدوں یا معاہدوں کے ذریعے انہیں کس طرح غلامی میں دھکیلا جاتا ہے۔بین الاقوامی یومِ انسدادِ غلامی ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ آزادی محض ایک لفظ یا قانون نہیں بلکہ ایک بنیادی حق ہے جسے ہر انسان کے لیے یقینی بنانا ہمارا مشترکہ فریضہ ہے۔ غلامی کی پرانی زنجیریں تو ٹوٹ چکی ہیں لیکن نئی، خاموش اور پیچیدہ زنجیریں آج بھی انسانی معاشروں کو جکڑے ہوئے ہیں۔اس دن کا مقصد یہی ہے کہ دنیا متحد ہو کر یہ عہد کرے کہ غلامی کسی بھی شکل میں ناقابلِ قبول ہے۔ ہر بچے، عورت اور مرد کا حق ہے کہ وہ آزادانہ، باعزت اور محفوظ زندگی گزارے۔اگر ہم اجتماعی کوشش کریں، قانون کو مضبوط کریں، انسانی وقار کو مقدم رکھیں اور سماجی انصاف کو فروغ دیں تو ایک دن ضرور آئے گا جب دنیا غلامی کے لفظ سے بھی ناواقف ہو جائے گی۔

چھپے ہوئے آتش فشاں:ان دیکھے خطرات جو دینا کو ہلا سکتے ہیں

چھپے ہوئے آتش فشاں:ان دیکھے خطرات جو دینا کو ہلا سکتے ہیں

زمین کی سطح کے نیچے ایک خاموش ہلچل ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ کہیں میگما آہستہ آہستہ حرکت کرتا ہے، کہیں زمین کے دباؤ میں معمولی سی تبدیلی زیرِ زمین توازن بگاڑ دیتی ہے۔ ہم عموماً ان آتش فشاں پہاڑوں سے واقف ہیں جو مشہور ہیں، جن کی تصاویر کتابوں میں چھپی ہیں، جن کے فعال ہونے کی خبریں وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا خطرہ اکثر اُن آتش فشانوں سے نہیں ہوتا جو مشہور ہیں بلکہ ان سے ہوتا ہے جو نامعلوم، غیر معروف یا صدیوں سے خاموش چلے آ رہے ہیں۔حال ہی میں ایتھوپیا کے علاقے افار میں پھٹنے والےHayli Gubbi آتش فشاں نے دنیا کو خاصا متاثر کیا۔ 12 ہزار سال کی طویل خاموشی کے بعد اس کا اچانک جاگ اٹھنا جیالوجی کے سائنسدانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے آتش فشاں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں یا جنہیں ہم ہمیشہ سے غیر فعال سمجھتے آئے ہیں اصل میں سب سے بڑا عالمی خطرہ بن سکتے ہیں۔Hayli Gubbi کی کہانی 23 نومبر کی صبح دنیا نے ایک ایسے آتش فشاں کی خبر سنی جس کا نام شاید ہی کسی نے پہلے سنا ہو۔Hayli Gubbi ایک شیلڈ آتش فشاں ہے، یعنی وہ پہاڑ جو سطح سے زیادہ بلند نہیں ہوتا اور اپنی ساخت کے باعث نسبتاً کم خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نے دھواں اگلنا شروع کیا تو راکھ کا بادل 45 ہزار فٹ کی بلندی تک جا پہنچا۔ یہ راکھ ایتھوپیا سے نکل کر یمن، عمان، بحیرہ عرب تک پھیل گئی۔گوادر کے ساحلی علاقے کے قریب بھی اس بادل کے آثار محسوس کیے گئے اور محکمہ موسمیات نے ایوی ایشن کیلئے ایش الرٹ جاری کیا۔یہ واقعہ دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ احتیاط ان جگہوں سے ضرور کرنی چاہیے جو دکھائی نہیں دیتیں۔ چھپے ہوئے آتش فشاں اتنے خطرناک کیوں؟ سائنسدانوں کے مطابق فعال آتش فشانوں میں سے 50 فیصد سے بھی کم کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے۔ جن ممالک میں وسائل کم ہیں ، جیسے افریقی، پیسیفک یا جنوب مشرقی ایشیائی خطے، وہاں سینکڑوں آتش فشاں ایسے ہیں جن پر کوئی مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ ان کے اندر بڑھتے ہوئے دباؤ یا تبدیل ہوتے ہوئے میگما کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوتی نتیجتاً وہ اچانک پھٹ سکتے ہیں۔Mount Etna،ییلو سٹون یا فیوجی جیسے آتش فشانوں پر بے شمار تحقیقی مقالے اور رپورٹس موجود ہیں مگر انڈونیشیا، فلپائن، چلی، پیرو اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں موجود کئی آتش فشاں مکمل طور پر نظر انداز ہیں۔ یہ وہ خطے ہیں جہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور معاشی و سماجی نقصان بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ آتش فشاں کا اثر صرف اسی علاقے تک محدود رہتا ہے جہاں وہ پھٹتا ہے لیکن تاریخ اس کے برخلاف شواہد پیش کرتی ہے مثلاً 1982ء میں میکسیکو کا El Chichónآتش فشاں اچانک پھٹا تھا حالانکہ اس کا بھی کوئی بڑا تاریخی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس دھماکے نے عالمی موسم کو متاثر کیا، بارشوں کے نظام میں تبدیلی آئی، زراعت متاثر ہوئی اور افریقہ سمیت کئی خطوں میں قحط اور بیماریوں کی شدت بڑھی۔یہی خطرہ آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے کیونکہ فضامیں جانے والی راکھ اور سلفر کے ذرات سورج کی روشنی روک کر عالمی درجہ حرارت کو گرا سکتے ہیں، بارشوں کے پیٹرن تبدیل کر سکتے ہیں اور معاشی و زرعی عدم توازن پیدا کر سکتے ہیں۔ماہرینِ ارضیات نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث جیسے جیسے گلیشیئر پگھل رہے ہیں زیرِ برف چھپے ہوئے آتش فشاں آزاد ہو رہے ہیں۔برف کی تہہ ان آتش فشانوں پر ایک قسم کا دباؤ ڈالے رکھتی ہے۔ جب یہ دباؤ کم ہوتا ہے تو میگما اوپر آنے لگتا ہے اور دھماکے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل مستقبل میں ہماری زمین کے لیے نئے خطرات جنم دے سکتا ہے۔زمین کی گہرائیوں میں چھپا ہوا عالمی خطرہ اگرچہ ہماری دنیا کو موسمیاتی تغیرات، زلزلوں، طوفانوں اور سمندری سیلابوں جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن سائنسدان متنبہ کر رہے ہیں کہ ایک بڑا آتش فشانی دھماکہ ان تمام بحرانوں کو یکجا کر کے عالمی سطح پر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔یہ دھماکے انسانوں کی پیدا کردہ مشکلات کا نتیجہ نہیں ہوتے لیکن ان کے اثرات ہمارے نظامِ زندگی، خوراک، معیشت، موسم اور فضائی سفر تک سب کچھ بدل سکتے ہیں۔دنیا میں ایسے آتش فشاں موجود ہیں جنہیں ماضی میں کبھی پھٹتے نہیں دیکھا گیا نہ ان کے بارے میں ریکارڈ موجود ہے، نہ ان پر سائنسی آلات نصب ہیں مگر یہی پہاڑ آنے والے برسوں میں سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔Hayli Gubbi کا اچانک پھٹنا ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ خطرہ ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو نظر آئے بلکہ وہ بھی ہوتا ہے جو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔زمین ایک زندہ سیارہ ہے، اس کے اندر کی حرارت، اس کے دباؤ، اس کے میگما کے چشمے ہمارے قابو میں نہیں لیکن ہم ان خطرات کو سمجھ کر، تحقیق کر کے اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے تباہی کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ دنیا کو جھنجوڑنے والی اگلی بڑی تباہی شاید کسی ایسے آتش فشاں سے آئے جس کا نام ہم نے کبھی نہ سنا ہو۔ 

آج کا دن

آج کا دن

نپولین کی تاجپوشی2 دسمبر 1804ء کو نپولین بوناپارٹ کی پیرس کے نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل میں فرانس کے پہلے شہنشاہ کے طور پر تاجپوشی کی گئی۔ یہ تقریب روایتی یورپی طرز کی بادشاہت سے مختلف تھی کیونکہ نپولین نے پاپائے روم کی موجودگی کے باوجود خود اپنے سر پر تاج رکھا جو اس بات کی علامت تھا کہ وہ اپنی قوت کا سرچشمہ مذہبی اقتدار کے بجائے عوامی طاقت اور انقلابی نظام کو سمجھتے ہیں۔ اس تاجپوشی نے نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔ نپولین کا دور جدید ریاستی نظام، عدالتی اصلاحات اور نپولینک کوڈ کی تشکیل کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ نپولین کی تاجپوشی نے یورپی سیاست کو تقریباً ایک دہائی تک ہلا کر رکھ دیا۔ مونرو ڈاکٹرائن کا اعلان2 دسمبر 1823ء کو امریکی صدر جیمز مونرو نے کانگریس کے سامنے اپنا معروف ''مونرو ڈاکٹرائن‘‘ پیش کیا۔ اس کے مطابق یورپی طاقتوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے امور میں مداخلت نہ کریں بصورتِ دیگر امریکہ اسے اپنی سلامتی کے خلاف سمجھ کر ردعمل دے گا۔ اس ڈاکٹرائن کا مقصد تھا کہ یورپ کی نوآبادیاتی توسیع پسندی کو روک کر زمین کے مغربی نصف کرے کو امریکی اثر و نفوذ کا خطہ بنادیا جائے۔ وقت کے ساتھ یہ پالیسی امریکی خارجہ حکمتِ عملی کا بنیادی ستون بن گئی۔ بیسویں صدی میں یہ نظریہ امریکی برتری کے تصور کا محرک بنا۔ مونرو ڈاکٹرائن نے امریکی سفارت کاری، معاشی اثرورسوخ اور خطے میں سیاسی حکمتِ عملی کو نئی سمت دی، جو آج بھی مختلف صورتوں میں برقرار ہے۔ فرنچ شمالی افریقہ پر قبضہ2 دسمبر 1942ء کو دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی افواج نے شمالی افریقہ خصوصاً الجزائر اور مراکش کے کئی سٹریٹجک علاقوں پر فیصلہ کن کنٹرول حاصل کیا۔ یہ پیش قدمی آپریشن ٹارچ کا حصہ تھی جسے امریکی اور برطانوی افواج نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔ اس آپریشن کا مقصد جرمن اور اطالوی افواج کو شمالی افریقہ سے پیچھے دھکیل کر یورپ کے جنوبی حصے پر حملوں کی راہ ہموار کرنا تھا۔ 2 دسمبر کو حاصل ہونے والی کامیابی نے رومیل کی زیرِ قیادت افریقی کور کو پسپائی پر مجبور کیا اور اتحادیوں کو بحیرہ روم میں بہتر رسائی ملی۔ اس فتح کے بعد اتحادی افواج کو اٹلی پر حملے کا راستہ ملا جس نے یورپ میں جنگ کی صورتحال بدل کر رکھ دی۔ متحدہ عرب امارات کی تشکیل 2 دسمبر 1971ء کو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جب سات امارات‘ابوظہبی، دبئی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ اور بعد میں 1972ء میں شامل ہونے والی راس الخیمہ نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے نام سے ایک وفاقی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔ اس تاریخی اتحاد کی قیادت شیخ زید بن سلطان النہیان نے کی جنہیں جدید یو اے ای کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے نے خلیجی خطے میں معاشی ترقی، تیل کی صنعت، انفراسٹرکچر اور بین الاقوامی سفارت کاری کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ یو اے ای کی تشکیل نے عرب دنیا میں استحکام، علاقائی تعاون اور تیز رفتار ترقی کی راہ ہموار کی۔  

گلوبل وارمنگ؟ حقیقت یا مبالغہ

گلوبل وارمنگ؟ حقیقت یا مبالغہ

میساچوسیٹس کے پروفیسر کا چونکا دینے والا دعویٰموسمیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کے بارے میں شکوک و شبہات ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں، کیونکہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کے حقیقی اسباب ابھی تک واضح نہیں ہوسکے اور اس سے نمٹنے کیلئے بنائی جانے والی پالیسیاں سائنسی بنیادوں سے زیادہ مالی مفادات کے تحت تشکیل دی جارہی ہیں۔''میساچوسیٹس انسٹی ٹیوشن آف ٹیکنالوجی‘‘ (MIT) کے شعبہ موسمیات کے پروفیسر ایمریٹس رچرڈ لنڈزن(Richard Lindzen) جو کئی دہائیوں سے فضائی و ماحولیاتی علوم پر تحقیق کر رہے ہیں، نے برطانوی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں پیدا کی جانے والی ہیجان انگیزی دراصل حقیقی اعداد و شمار پر مبنی نہیں ہے۔کلائمٹ چینج اس اصطلاح کو کہا جاتا ہے جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو بیان کرتی ہے، جس کی بڑی وجہ انسانی سرگرمیوں کو سمجھا جاتا ہے، مثلاً کوئلہ، تیل اور گیس جلانا۔سائنس دانوں اور ماحولیاتی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ غیر معمولی حدت میں یہ اضافہ زیادہ شدید طوفانوں، ساحلی علاقوں میں سمندر کی سطح بلند ہونے سے ممکنہ تباہ کن سیلابوں اور زیادہ گرم موسمِ گرما کا باعث بن سکتا ہے، جس سے دنیا بھر میں غذائی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے اور یہ سب آئندہ 25 برسوں میں ممکن ہے۔ تاہم، رچرڈ لنڈزن کا کہنا ہے کہ توانائی کی کھربوں ڈالر مالیت کی عالمی صنعت پر کنٹرول حاصل کرنے کے مالی اثرات ہی وہ حقیقی محرک ہیں جنہوں نے سیاست دانوں کو اس ''غلط تحقیق‘‘ کی حمایت پر اکسایا ہے، جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی فوری تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کہ آپ ایک کھربوں ڈالر کی صنعت کے مالک ہیں اور آپ کو اسے مکمل طور پر بدلنے کا موقع مل رہا ہے، بہت سے سیاست دانوں کیلئے بڑی کشش رکھتا تھا۔ وہ اس پر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ آدھا درجہ اور ہم تباہ ہو جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ عوام جانتی ہے کہ یہ سب بکواس ہے۔ لنڈزن نے اس چیز کا بنیادی حساب بھی واضح کیا جسے وہ ''موسمیاتی خطرہ انگیزی‘‘ (climate alarm)کہتے ہیں۔ ان کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مخصوص گیسوں کے اخراج میں کمی پر زور دینا وہ عالمی درجہ حرارت کی تبدیلیاں ہرگز پیدا نہیں کرتا جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ان سائنسدان کا کہنا تھا کہ زمین کے درجہ حرارت میں تاریخ کے مختلف ادوار میں نمایاں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، اور اب تک سائنسی طور پر یہ بات بھی یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکی کہ شدید حدت یا شدید سردی کی ان تبدیلیوں کی اصل وجہ کیا رہی ہے۔انہوں نے 15ویں صدی میں ہونے والی برف باری اور شدید سردی کے طویل دور جسے ''لٹل آئس ایج‘‘کہا جاتا ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس برفانی دور کو نہیں سمجھ سکے جو 15ویں صدی میں آیا تھا۔ تو پھر اس وقت کیا ہو رہا تھا؟ کیا اس دور میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ناکافی تھی؟صاف توانائی کے منصوبوں اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کی مالی معاونت کیلئے ''ریڈکشن فنڈ‘‘ قائم کیا گیا ہے۔لنڈزن کا دعویٰ ہے کہ قانون سازوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا سب سے بڑا ماحولیاتی مجرم بنا کر پیش کیا ہے، حالانکہ یہ دراصل ایک نسبتاً معمولی گرین ہاؤس گیس ہے جو پودوں کی نشوونما کیلئے فائدہ مند کردار ادا کرتی ہے۔محقق نے مؤقف اختیار کیا کہ دنیا بھر میں بعض گرین ہاؤس گیسوں کو شیطانی صورت میں پیش کرنے کے رجحان نے بہت سے سائنس دانوں کو ایک طرح کی ''آزاد چھوٹ‘‘ دے دی، جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے نظریات کی حمایت میں تحقیق کرنے والوں کی جامعات کو بڑے پیمانے پر مالی گرانٹس دی گئیں۔حالیہ برسوں میں امریکی وفاقی ادارے ہر سال تقریباً 5 ارب ڈالر موسمیاتی تحقیق پر خرچ کر رہے ہیں، جبکہ وائٹ ہاؤس کے 2024ء￿ کے بجٹ کے تحت 1.6 ارب ڈالر جامعات اور غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کو ایسے تحقیقی منصوبوں کیلئے فراہم کیے گئے جو گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والی ممکنہ قدرتی تباہ کاریوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔مزید یہ کہ لنڈزن بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ جن سائنس دانوں نے موسمیاتی تبدیلی کے غیر مستقل اور متضاد اعداد و شمار پر سوالات اٹھائے، ان کی تحقیق کو اکثر علمی جرائد نے مسترد کر دیا، یا پھر وہ مدیران جنہوں نے ان کے نتائج شائع کیے، انہیں بعد میں عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔لنڈزن نے موسمیاتی تبدیلی کی تعبیر کے بارے میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ امید کی بات ہے کہ لوگ کم از کم اس پر سوال تو اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ تاریخی طور پر ایک انوکھا معاملہ ہے اور ہماری عہد کیلئے شرمندگی کا باعث ہوگا۔شائع شدہ مطالعات نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا بھر کی حکومتیں 2050 تک عالمی درجہ حرارت کو قبل از صنعتی دور کی اوسط کے مقابلے میں 2.7°F سے زیادہ بڑھنے سے نہ روک سکیں، تو اس کے نتیجے میں برفانی چادروں کا ناقابلِ واپسی پگھلاؤ، فصلوں کی تباہی اور مہلک گرمی کی لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔ان خدشات کے باوجود، لنڈزن کے حساب کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار دوگنی ہو جانے سے درجہ حرارت میں صرف آدھا درجہ اضافہ ہوگا۔تاہم، بہت سے ماڈلز جو ممکنہ موسمیاتی تباہی کی پیش گوئی کرتے ہیں، یہ مفروضہ بھی شامل کرتے ہیں کہ درجہ حرارت میں ہر معمولی اضافہ فضا میں مزید آبی بخارات جمع کر دیتا ہے اور آبی بخارات حرارت جذب کرنے میں کاربن ڈائی آکسائیڈسے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ لنڈزن اس مفروضے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق قدرت اکثر بڑی موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتی ہے، نہ کہ انہیں مزید شدید بناتی ہے۔ ان کا نظریہ ''آئرس افیکٹ‘‘ کہلاتا ہے، جس کے مطابق جب استوائی خطے ضرورت سے زیادہ گرم ہو جاتے ہیں تو طاقتور طوفانی بادل فضا میں سوراخ پیدا کرتے ہیں، جس سے اضافی حرارت خلا میں خارج ہو جاتی ہے۔اس عمل کے نتیجے میں بادلوں کی نمی کم ہوتی ہے، جو دوسری صورت میں زیادہ حرارت جذب کر کے زمین کو مزید گرم رکھتی۔لنڈزن نے یہ بھی کہا کہ اگر دنیا کے تمام ممالک 2050 تک بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق نیٹ زیرو اخراج کے ہدف تک پہنچ بھی جائیں، یعنی ایندھن کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہونا مکمل طور پر ختم ہو جائے، تب بھی اس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں صرف نہایت معمولی سے حصے کے برابر کمی آئے گی۔البتہ سخت ماحولیاتی پابندیوں پر عملدرآمد کی عالمی معاشی لاگت کھربوں ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، جسے لنڈزن نے ''انتہائی خسارے کا سودا، اور تقریباً بے فائدہ‘‘ قرار دیا ہے۔

چیچن اِتزا :دنیا کے نئے عجائبات میں شامل ایک پراسرار شہر

چیچن اِتزا :دنیا کے نئے عجائبات میں شامل ایک پراسرار شہر

میکسیکو کی دِلکش وادیوں اور یوکاتان کے گھنے جنگلات کے درمیان واقع چیچن اِتزا صدیوں پر محیط انسانی تہذیب کے ایسے راز سمیٹے کھڑا ہے جو آج بھی دنیا بھر کے محققین کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ مایا تہذیب کا یہ عظیم الشان شہر نہ صرف اپنے معماری کمالات، فلکیاتی مشاہدات اور مذہبی روایات کے باعث عالمی توجہ کا مرکز ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثے اور سات نئے عجائباتِ عالم میں شامل ہونے کے سبب ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لاتا ہے۔ کُکولکان کے بلند و بالا ہرم سے لے کر مقدس کھیلوں کے وسیع میدانوں تک، چیچن اِتزا انسانی ذہانت، فنی مہارت اور قدیم علوم کی روشن مثال بن کر آج بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے۔یوکاتان کے گھنے جنگلات اور چونا پتھر سے بنی بے آب و ہوا زمینوں کے درمیان ایک ایسا شہر آباد ہے جو صدیوں بعد بھی انسانی ذہانت، فلکیاتی علم اور فنِ تعمیر کا بے مثال مظہر بن کر کھڑا ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے والا چیچن اِتزا مایا تہذیب کا وہ عظیم مرکز ہے جسے اقوامِ متحدہ نے عالمی ثقافتی ورثہ اور دنیا کے سات نئے عجائبات میں شامل کر کے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا ہے۔ تقریباً 600ء سے 1200ء کے درمیان اپنا عروج دیکھنے والا چیچن اِتزا مایا سلطنت کا مذہبی، سیاسی اور علمی مرکز تھا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق یہ شہر نہ صرف تجارتی سرگرمیوں کیلئے اہم تھا بلکہ یہاں ایسے فلکیاتی مشاہدات بھی کئے جاتے تھے جنہوں نے مایا کیلنڈر اور زراعت کے نظام کو جنم دیا۔چیچن اِتزا کی سب سے پہچانی جانے والی علامت ایل کاسٹیلو ہے۔ وہی عظیم ہرم جسے کُکولکان کا معبد کہا جاتا ہے۔ سال میں دو بار اعتدالِ شب و روز کے موقع پر یہ ہرم ایک عجیب بصری کرشمہ دکھاتا ہے جہاں سورج کی روشنی اور سایہ مل کر سیڑھیوں پر ''سانپ‘‘ کے سرکتے ہوئے منظر کو جنم دیتے ہیں۔ یہ اثر مایا معماروں کی فلکیاتی مہارت اور ریاضیاتی علم کا حیرت انگیز ثبوت ہے۔ایل کاسٹیلو کے آس پاس موجود دیگر عمارتیں بھی اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔ ''ٹیمپل آف دی واریئرز‘‘ (Temple Of The Warriors) میں کندہ کاری سے مزین ستون اور دیوتاؤں کے مجسمے مایا مذہبی روایات کو آشکار کرتے ہیں۔ اسی طرح ''دی گریٹ بال کورٹ‘‘ (The Great Ball Court) دنیا کے سب سے بڑے میسو امریکن بال کورٹ میں شمار ہوتا ہے، جہاں کھلاڑیوں کا مقدس کھیل محض تفریح نہیں بلکہ روحانی اہمیت رکھتا تھا۔ روایات کے مطابق بعض مقابلوں کا انجام انسانی قربانی پر بھی منتج ہوتا تھا۔چیچن اِتزا اپنی انجینئرنگ اور جمالیاتی خوبصورتی کے علاوہ سائنسی سوچ کا بھی مرکز رہا۔ رصدگاہ ''ای آئی کاراکول‘‘ (EI Caracol) اس کا ثبوت ہے، جہاں سے مایا لوگ ستاروں اور سیاروں کی حرکت کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ اس علم نے ان کے کیلنڈر، زراعت، تہواروں اور مذہبی رسومات پر انتہائی گہرا اثر ڈالا۔آج چیچن اِتزا میکسیکو کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا تاریخی مقام ہے۔ سالانہ لاکھوں افراد یہاں آ کر تاریخ کے اس عظیم ورثے کو قریب سے دیکھتے اور مایا تہذیب کی فکری بلندی پر حیران رہ جاتے ہیں۔ جہاں تاریخ اور آثار اپنے اپنے راز کھولتے ہیں، وہیں میکسیکن ثقافت، ہنر اور ذائقے خصوصاً مقامی کھانے، سیاحت کے تجربے کو مزید یادگار بنا دیتے ہیں۔چیچن اِتزا محض ایک کھنڈر نہیں بلکہ تہذیبوں کی تطہیر، علم کی مسلسل جستجو اور انسانی تخیل کی پرواز کا ایسا آئینہ ہے جس کی چمک وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوئی۔ یہ شہر آج بھی دنیا کو بتاتا ہے کہ ہزار سال پہلے بھی انسان سوچتا، تعمیر کرتا اور کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور یہی وہ بات ہے جو چیچن اِتزا کو دنیا کے عظیم ترین تاریخی شہروں میں ممتاز بناتی ہے۔

قطب جنوبی : دنیا کا وہ کونہ ہے جہاں سورج بھی شرماتا ہے

قطب جنوبی : دنیا کا وہ کونہ ہے جہاں سورج بھی شرماتا ہے

قطبِ جنوبی جہاں برف کی چادر تنی ہے اور تنہائی وہاں کی رازداں ہے۔ یہ دنیا کا وہ کونہ ہے جہاں سورج بھی شرماتا ہے اور ہوا بھی سردی سے تھراتی ہے۔ خاموشی کا یہاں راج ہوتا ہے۔ یہ علاقہ کوئی معمولی جگہ نہیں ہے۔ یہ تو ایسی سر زمین ہے جس کا ہم جیسے میدانی علاقوں میں رہنے والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں نہ کوئی آبادی ہے اور نہ ہی کوئی گہما گہمی ہے۔ ہم اپنے بچپن میں جب کہانیاں سنتے تھے تو پریوں کے دیس کا تصور کچھ ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اس دنیا میں بھی ایک ایسی جگہ ہے جو کسی پریوں کے دیس سے کم نہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہاں خوبصورت محل نہیں ہیں بلکہ آسمان تک پھیلے ہوئے برفانی پہاڑ ہیں، اور سبزہ تو خیر یہاں کا نام بھی نہیں جانتا۔ وہاں سردی کا یہ عالم ہے کہ سانس بھی جم جائے اور ہوا کی ٹھنڈک ہڈیوں تک اتر جائے۔ اب وہاں کے درجہ حرارت کی بات سنیں یقین نہیں آئے گا۔ یہاں سردی میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ایک کپ گرم چائے بھی وہاں لے جائیں تو وہ لمحوں میں برف بن کر رہ جائے گی۔ اس جگہ کی سب سے بڑی خوبی اس کی تنہائی ہے۔ وہاں کوئی شور شرابا نہیں، کوئی ہجوم نہیں۔ بس چند سائنسی تحقیق کرنے والے لوگ رہتے ہیں، جو یہاں کی آب و ہوا، برف اور چمکدار ستاروں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے اس جگہ کو صرف اپنی خوبصورتی کو سائنسی رازوں کے پردے میں چھپا کر رکھنے کیلئے بنایا ہے۔اب اگر وہاں کی مخلوقات کی بات کریں تو یہاں بس پینگوئن اور سمندری پرندے ہی نظر آتے ہیں۔ ہم نے تو سنا تھا کہ پینگوئن بڑے شریف اور سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔ یہ بھی وہاں کے ماحول میں رہتے ہوئے اس طرح کے ہو گئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ بھی اس تنہائی میں ہی خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے برف کے پانیوں میں غوطہ لگاتے ہیں اور اس سردی میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی چال بھی بڑی خوبصورت ہوتی ہے۔ میں نے جب اس جگہ کے بارے میں پڑھا تو ذہن میں یہ سوال آیا کہ آخر اس جگہ کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ تو یہ معلوم ہوا کہ یہ جگہ سائنسی تحقیق کے لیے اہم ہے بلکہ یہ زمین کے آب و ہوا کے نظام کو سمجھنے میں بھی ہماری مدد کرتی ہے۔ یہاں کی برف میں زمین کا ہزاروں سال پرانا راز چھپا ہوا ہے۔ سائنس دان اس برف میں سے ہوا اور دیگر اجزاء کے نمونے لیتے ہیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ صدیوں پہلے زمین کا ماحول کیسا تھا۔قطبِ جنوبی کی ایک اور خاص بات یہاں کی رات اور دن ہے۔ ہمارے یہاں تو رات بھی آتی ہے اور دن بھی۔ لیکن وہاں کا حال سنیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ وہاں سال کے چھ مہینے تو دن رہتا ہے اور چھ مہینے رات۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ وہاں جائیں تو آپ کو مہینوں تک سورج نظر نہیں آئے گا، یا پھر مہینوں تک سورج غروب نہیں ہوگا۔ یہ بھی ایک عجیب و غریب بات ہے، اور یہ بات صرف اسی جگہ کی نہیں ہے بلکہ قطبِ شمالی کا بھی یہی حال ہے۔ لوگ اس جگہ پر سیاحت کے لیے بھی جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ دل بہلانے کے لیے حسین باغوں میں جاتے ہیں یا پھر کسی پرانی عمارت کی سیر کرتے ہیں۔ لیکن وہاں جانا بہادری کا کام ہے۔ وہاں صرف وہی لوگ جا سکتے ہیں جن کا حوصلہ بلند ہو، جو شدید سردی اور سخت حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ وہاں کے سفر کے لیے خاص قسم کے لباس، کھانے پینے کی چیزیں اور دیگر ضروری سامان لے جانا پڑتا ہے۔ وہاں کے سفر کے دوران انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر چھوٹا ہے اور قدرت کتنی بڑی ہے۔ قطبِ جنوبی ایک ایسی جگہ ہے جہاں فطرت کی سادگی اور خوبصورتی اپنے عروج پر ہے۔ یہ ایسی سر زمین ہے جس پر کسی انسان کا بس نہیں چلتا۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر لاچار ہے۔ اس جگہ کی خاموشی انسان کو اپنے اندر جھانکنے کا موقع دیتی ہے۔

میرا من پسند صفحہ

میرا من پسند صفحہ

کچھ لوگ صبح اْٹھتے ہی جماہی لیتے ہیں، کچھ لوگ بستر سے اْٹھتے ہی ورزش کرتے ہیں، کچھ لوگ گرم چائے پیتے ہیں۔ میں اخبار پڑھتا ہوں اور جس روز فرصت زیادہ ہو اس روز تو میں اخبار کو شروع سے اخر تک معہ اشتہارات اور عدالت کے سمنوں تک پورا پڑھ ڈالتا ہوں۔یوں تو اخبار سارے کا سارا اچھا ہوتا ہے لیکن عام لوگوں کیلئے اخبار کا ہر صفحہ اتنی دلچسپی نہیں رکھتا۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو اخباروں میں صرف ریس کا نتیجہ دیکھتے ہیں یا وہ صفحہ جس پر روئی، تلی، پیتل، لوہا، تانبا، پٹ سن، سونا، چاندی، گڑ، پاپڑ اور آلوؤں کے سوکھے قتلوں کے بھاؤ درج ہوتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو اخبار کا پہلا صفحہ ہی پڑھتے ہیں جس پر بڑی وحشت ناک خبریں موٹے موٹے حروف میں درج ہوتی ہیں۔سچ پوچھیئے تو مجھے اخبار کے ان صفحوں میں سے کوئی صفحہ پسند نہیں۔ ریس کے ٹپ اکثر غلط نکلتے ہیں۔ میں کئی دفعہ غپّا کھا چکا ہوں اور ریس کے اخباری ماہر کی جان کو روچکا ہوں۔ میرا من پسند صفحہ وہ ہے جس پر صرف اشتہار ہوتے ہیں، میرے خیال میں یہ اخبار کا سب سے سچا، سب سے عمدہ اور سب سے دلچسپ صفحہ ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے لین دین اور تجارتی کاروبار کا صفحہ ہے۔ ان کی ذاتی مصروفیتوں اور کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زندگی کی ٹھوس سماجی حقیقتوں کا ترجمان ہے۔ یہاں پر آپ کو کاروالے اور بے کار ٹائپسٹ اور مل مالک مکان کی تلاش کرنے والے اور مکان بیچنے والے، گیراج ڈھونڈنے والے اور ذاتی لائبریری بیچنے والے، کْتے پالنے والے اور چوہے مارنے والے، سرسوں کا تیل بیچنے والے اور انسانوں کا تیل نکالنے والے، پچاس لاکھ کا مِل خریدنے والے اور پچاس روپے کی ٹیوشن کرنے والے سبھی بھاگتے دوڑتے، چیختے چلاتے، روتے ہنستے ، نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے جیتا جاگتا صفحہ ہے جس کا ہر اشتہار ایک مکمل افسانہ ہے اور ہر سطر ایک شعر۔ یہ ہماری دنیا کی سب سے بڑی سیرگاہ ہے جس کی رنگا رنگ کیفیتیں مجھے گھنٹوں مسحور کئے رکھتی ہیں۔ آئیے آپ بھی میرے اس من پسند صفحہ کی دلچسپیوں میں شامل ہوجائیے۔ نائیلان جرابوں کا اسٹاک آگیا ہے، بیوپاری فوراً توجہ کریں۔ آپ کہیں گے یہ تو کوئی ذاتی دلچسپی کی چیز نہیں ہے۔ بھئی ہمیں نائیلان جرابوں سے کیا لینا، یہ صحیح ہے لیکن ذرا صِنفِ نازک سے پوچھیے، جن کے دل یہ خبر سن کر ہی زور سے دھڑک اْٹھے ہوں گے اور ٹانگیں خوشی سے ناچنے لگی ہوں گی۔ آج کل عورت کے دل میں نائیلان جراب کی وہی قدر وقیمت ہے جو کسی زمانے میں موتیوں کی مالا کی ہوتی تھی۔ آگے چلیے۔''ڈارلنگ فوراً خط لکھو، معرفت ایس ڈی کھرونجہ ،نیلام پور۔ کون ڈارلنگ ہے وہ۔ کسی مصیبت میں ہے وہ۔ وہ کیوں اس کے گھر یا کسی دوست یا سہیلی کے ہاں خط نہیں بھجوا سکتا۔ اخبار میں یہ اشتہار کیوں دے رہا ہے کہ بیچارہ دیکھیے کیسی کیسی مجبوریاں ہوں گی، اس بیچاری لڑکی کے لیے بھی۔ وہ بھی میری طرح ہر روز یہ اخبار کھولتی ہوگی۔ اس میں ذاتی کالم دیکھتی ہوگی اور اپنے لیے کوئی خبر نہ پاکر کیسی اْداس اور رنجور ہوجاتی ہوگی اور آج جب وہ ذاتی کالم میں یہ خبر پڑھے گی تو کیسے چونک جائے گی، خوشی سے اس کاچہرہ چمک اْٹھے گا۔ مسرّت کی سنہری ضیا اس کی روح کے ذرے ذرے کو چمکادے گی اور وہ بے اختیار اخبار اپنے کلیجے سے لگالے گی اور اس کی لانبی لانبی پلکیں اس کے رخساروں پر جھک جائیں گی یعنی اگر اس کی لانپی پلکیں ہوئیں تو ورنہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس کی پلکیں نہایت چھوٹی چھوٹی ہوں ، جیسے چوہیا کے بال ہوتے ہیں اور ماتھا گھٹا ہوا ہو۔ کچھ بھی ہو وہ ایس ڈی کھرونجہ کی ڈارلنگ ہے۔ ایس ڈی کھرونجہ کون ہے؟ اب اس کے متعلق آپ اندازہ لگائیے۔اس سے اگلا کالم دیکھیے، یہ مکانات کا کالم ہے۔ یہ بھی بے حد دلچسپ ہے کیونکہ آج کل مکان کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے لیکن یہاں آپ کو ہر طرح کے مکان مل جائیں گے۔ ''میرے پاس سمندر کے کنارے ایک بنگلے میں ایک علیحدہ کمرہ ہے لیکن میں شہر میں رہنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب مجھے شہر کے اندر ایک اچھا کمرہ دے سکیں تو میں انہیں سمندر کے کنارے کا اپنا کمرہ دے دوں گا اور ساتھ ہی اس کا کل ساز وسامان بھی جس میں ایک صوفہ دوٹیبل لیمپ اور ایک پیتل کالوٹا شامل ہے‘‘۔لیجیے اگر آپ شہری زندگی سے اْکتا گئے ہوں تو سمندرکے کنارے جاکے رہیے۔ اگر آپ سمندر کے کنارے رہنے سے گھبراتے ہوں تو شہر میں جاکے رہیے۔ پیتل کا لوٹا تو کہیں بھی رہ سکتا ہے۔یہ دوسرا اشتہار دیکھیے۔ ''کرائے کیلئے خالی ہے، نیا مکان، آٹھ کمرے، دو کچن پانچ غسل خانے، گراج بھی ہے اور مکان کے اوپر چھت ابھی نہیں ہے۔ مگر اگلے مہینے تک تیار ہوجائے گی۔ کرائے دار فوراً توجہ کریں‘‘۔ آپ یہ پڑھ کر فوراً توجہ کرتے ہیں بلکہ کپڑے بدل کر چلنے کیلئے آمادہ بھی ہوجاتے ہیں کہ اتنے میں آپ کی نظر اگلی سطر پر پڑتی ہے لکھا ہے۔ ''کرایہ واجبی مگر سال بھر کا پیشگی دینا ہوگا۔ سالانہ کرایہ اٹھارہ ہزار‘‘ ۔ اور آپ پھر بیٹھ جاتے ہیں اور اگلا اشتہار دیکھتے ہیں، لکھا ہے عمدہ کھانا، بہترین منظر، کھلا کمرہ، فرنیچر سے سجا ہوا بجلی پانی مفْت۔ کرایہ سب ملا کے ساڑھے تین سو روپے ماہانہ۔آپ خوشی سے چلّا اْٹھتے ہیں مِل گیا، مجھے ایک کمرہ مل گیا اور کس قدر سستا اور عمدہ اور کھانا ساتھ میں۔

حکایت سعدیؒ:حماقت کا انجام

حکایت سعدیؒ:حماقت کا انجام

ایک بیوہ رئیس زادی کی دو کنیزیں تھیں جن سے وہ گھر کا کام لیتی تھی۔ یہ دونوں کنیزیں سست، کاہل اور کام چور تھیں۔ انہیں کام کرنے سے سخت نفرت تھی۔ خاص طور پر صبح سویرے اٹھنا تو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ان کی مالکہ انہیں مرغ کی اذان پر جگا دیتی کہ اٹھو، صبح ہو گئی ہے۔ گھر کا کام کرو۔ ادھر مرغ کی اذان کا کیا وہ تو آدھی رات گئے ہی اذان دینے لگتا۔دونوں کنیزوں نے تنگ آ کر مرغ کو جان سے مار دینے کا فیصلہ کیا۔ کہ نہ یہ ہوگا نہ اذان دے گا اور وہ دن چڑھے تک مزے کی نیند سوئیں گی۔ ایک دن دونوں کنیزوں نے مالکہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرغ کو پکڑ کر مار ڈالا اور ایک جگہ دبا دیا۔ اب ہوا یہ کہ مرغ کے نہ ہونے سے بیوہ کو وقت کا اندازہ ہی نہ رہا۔ وہ کنیزوں کی جان کھانے لگی اور انہیں نصف شب کو جگانے لگی۔حاصل کلام : غیر ضروری چالاکی اور ہوشیاری کا نتیجہ ہمیشہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

منفرد سیاسی معرکہیکم دسمبر 1824ء کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کا شمار امریکی تاریخ کے سب سے غیر معمولی اور پیچیدہ انتخابات میں ہوتا ہے۔جس میں چار بڑے قومی رہنما مدمقابل تھے۔ ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی اکثریت نہ مل سکی۔ آئین کے مطابق جب کسی امیدوار کو الیکٹورل ووٹوں میں اکثریت نہ ملے تو انتخاب ایوانِ نمائندگان میں جاتا ہے۔ایوانِ نمائندگان نے جان کوئنسی ایڈمز کو امریکہ کا چھٹا صدر منتخب کیا۔ حالانکہ عوامی اور الیکٹورل دونوں ووٹوں میں جیت اینڈریو جیکسن کی تھی۔یہ امریکی تاریخ کے چند انتخابات میں سے ایک ہے جس میں عوامی ووٹ جیتنے والا صدر نہیں بن سکا۔لاسارنو معاہدہ 1 دسمبر 1925ء کو''لاسارنو معاہدہ‘‘ پر لندن میں باضابطہ طور پر دستخط کئے گئے۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سفارتی معاہدہ تھا جو اکتوبر 1925ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاسارنو میں طے پایاتھا۔ اس معاہدہ کے فریقین میں جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور بیلجیم شامل تھے۔ معاہدے کا مقصد پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ میں امن قائم کرنا اور مستقبل کے تنازعات کو روکنا تھا۔ جرمنی نے فرانس اور بیلجیم کے ساتھ اپنی مغربی سرحدوں کو تسلیم کیا اور ان پر حملہ نہ کرنے کا عہد کیا۔ یوگوسلاویہ: فضائی حادثہ یکم دسمبر1987ء کو یوگوسلاویہ ایئر لائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ جزیرہ کورسیکا میں گر گیا جس میں178 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ پرواز معمول کے مطابق یوگو سلاویہ سے مغربی یورپ کے کسی شہر کی طرف روانہ تھی اور راستے میں کورسیکا کے قریب حادثے کا شکار ہو گئی۔یہ حادثہ یوگوسلاویہ کی تاریخ میں ایک افسوسناک واقعہ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، حادثے کی ایک بڑی وجہ خراب موسم تھی جبکہ حادثے کے بعد کی رپورٹ میں پائلٹ کی ممکنہ غلطی یا نیویگیشن کی خامیوں کو بھی زیر غور لایا گیا۔ پیرس میں جدید سینما کی تعمیر1906ء میں پیرس میں دنیا کا پہلا جدیدسینما گھر کھولا گیا۔یہ سینما فلم بینی کیلئے مخصوص جدید عمارتوں میں سے ایک تھا۔ فرانس سینما کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لومیئر برادران، جو سینما کے بانیوں میں شامل ہیں نے بھی فرانس میں فلمی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔پہلی کاراسمبلی لائن کا آغاز 1913ء میں آج کے روز فورڈ موٹر کمپنی نے دنیا کی پہلی موٹر اسمبلی لائن متعارف کرائی۔ہنری فورڈ نے 1903ء میں فورڈ موٹر کمپنی قائم کی تھی۔ یہ کمپنی جلد ہی آٹو موبائل انڈسٹری میں سب سے نمایاں ادارہ بن گئی۔ہنری فورڈ نے اسمبلی لائن کا تصور متعارف کرایا، جس کے ذریعے گاڑیاں بنانے کا عمل نہایت مؤثر اور تیز ہوجبکہ کاروں کی قیمت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ 

ہیکرز کے وار اور ہمارا دماغ

ہیکرز کے وار اور ہمارا دماغ

آج دنیا بھر میں کمپیوٹر سیکیورٹی کا عالمی دن منایا جا رہا ہےڈیجیٹل دنیا کی برق رفتاری نے جہاں انسانی زندگی کو سہل اور مربوط بنا دیا ہے، وہیں آن لائن خطرات اور سائبر حملوں نے نئی نوعیت کے چیلنج بھی جنم دیے ہیں۔ آج جب معاشی معاملات سے لے کر ریاستی راز تک سب کچھ کمپیوٹر نیٹ ورکس پر منتقل ہو چکا ہے، ڈیٹا کی حفاظت محض تکنیکی ضرورت نہیں بلکہ قومی و انفرادی سلامتی کا بنیادی ستون بن چکی ہے۔ اسی حقیقت کو اجاگر کرنے کیلئے ہر سال 30 نومبر کو کمپیوٹر سیکیورٹی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، تاکہ افراد اور ادارے اپنے ڈیجیٹل اثاثوں کے تحفظ کیلئے بروقت اور مضبوط اقدامات کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک لمحے کی غفلت پوری دنیا سے جڑے ہوئے سسٹمز میں ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے سائبر شعور اور سیکیورٹی پروٹوکول اب ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہیں۔ کمپیوٹر سیکیورٹی جسے سائبر سیکیورٹی یا آئی ٹی سیکیورٹی بھی کہا جاتا ہے، وہ عمل ہے جس کے ذریعے کمپیوٹر سسٹمز، نیٹ ورکس اور ڈیٹا کو غیر مجاز رسائی، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جدید دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، کمپیوٹر سیکیورٹی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کمپیوٹر سیکیورٹی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ہماری معلومات کو محفوظ رکھتی ہے، چاہے وہ ذاتی ہو یا پیشہ ورانہ۔ یہ ہیکرز، میلویئر، اور دیگر سائبر خطرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور مالی نقصانات اور قانونی پیچیدگیوں سے بچاتی ہے۔کمپیوٹرز سیکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے ایک دن مختص ہے جو ''کمپیوٹرز کی حفاظت کے عالمی دن‘‘ یا ''کمپیوٹر سکیورٹی ڈے‘‘ کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد کمپیوٹر صارفین کو اپنے کمپیوٹرز میں موجود قیمتی ڈیٹا، پروگرامز اور ہارڈویئرکو وائرس اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ کمپیوٹر سیکیورٹی ڈے کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین کمپیوٹر صارفین کو کمپیوٹر سافٹ ویئر، کمپیوٹر زسیکیورٹی اور اس سے متعلقہ مفیدمعلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ دن منانے کا آغاز 1988ء میں ہوا تھا۔کمپیوٹر سیکیورٹی کی اقسامکمپیوٹر سیکیورٹی آج کے دور میں نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارا ذاتی اور پیشہ ورانہ ڈیٹا خطرے میں رہتا ہے۔کمپیوٹر سیکیورٹی کئی اقسام پر مشتمل ہے، جن میں سے اہم درج ذیل ہیں۔نیٹ ورک سیکیورٹی:یہ نیٹ ورک کو غیر مجاز رسائی اور حملوں سے بچانے کیلئے اقدامات کرتی ہے۔ اس میں فائر وال، اینٹی وائرس اور وی پی این شامل ہیں۔ڈیٹا سیکیورٹی:یہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ڈیٹا محفوظ اور خفیہ رہے اور صرف مستند صارفین تک رسائی حاصل کر سکیں۔ایپلی کیشن سیکیورٹی:سافٹ ویئر یا ایپلی کیشنز میں موجود کمزوریوں کو دور کرنا تاکہ ہیکرز ان کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔انفارمیشن سیکیورٹی:معلومات کو غیر مجاز ترمیم، نقصان یا چوری سے محفوظ رکھنا۔کلاؤڈ سیکیورٹی:کلاؤڈ میں اسٹور کیے گئے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات، جیسے ڈیٹا انکرپشن اور کلاؤڈ سروس فراہم کرنے والے کی سیکیورٹی پالیسیاں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کے اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک محفوظ ڈیجیٹل دنیا کا قیام ممکن ہو سکے۔فائر وال کا استعمال کریں:ونڈوز میں فائر وال پہلے سے موجود اور خودکار طور پر فعال ہوتا ہے۔ یہ غیر مجاز رسائی کو روکنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کے کمپیوٹر کی حفاظت کرتا ہے۔تمام سافٹ ویئر کو اپڈیٹ رکھیں: ونڈوز اپڈیٹ میں خودکار اپڈیٹس کو آن کریں تاکہ ونڈوز، مائیکروسافٹ آفس اور دیگر مائیکروسافٹ ایپلی کیشنز اپڈیٹ رہیں۔ غیر مائیکروسافٹ سافٹ ویئر کیلئے بھی خودکار اپڈیٹس کو آن کریں، خاص طور پر ویب براؤزرز، ایڈوب ایکروبیٹ ریڈر اور وہ ایپس جو آپ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔اینٹی وائرس کا استعمال: اگر آپ ونڈوز استعمال کرتے ہیں، تو آپ کے ڈیوائس پر پہلے سے ہی ونڈوز سیکیورٹی یا ونڈوز ڈیفنڈر سیکیورٹی سینٹر موجود ہوتا ہے۔اسے اپڈیٹ اور فعال رکھیں تاکہ وائرس اور دیگر میلویئر سے حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔اگر آپ اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنا اور آن لائن خطرات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات پر عمل کریں۔ مضبوط پاسورڈز:اپنے پاس ورڈز کو محفوظ اور محتاط طریقے سے منتخب کریں ۔الفاظ، حروف اور نمبروں کے امتزاج پر مبنی مضبوط پاسورڈز استعمال کریں اور انہیں باقاعدگی سے تبدیل کریں۔مشکوک لنکس:مشکوک لنکس پر کلک نہ کریں۔یہ ای میل، ٹویٹس، پوسٹس، آن لائن اشتہارات یا پیغامات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی خود کو قابل اعتماد ذرائع کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ویب براؤزنگ میں محتاط رہیں: ایسی ویب سائٹس سے پرہیز کریں جو غیر قانونی مواد فراہم کرتی ہیں، کیونکہ ان میں اکثر میلویئر انسٹال کیا جاتا ہے یا ایسے ڈاؤن لوڈز پیش کیے جاتے ہیں جن میں میلویئر ہوتا ہے۔جدید براؤزرکا استعمال : جدید براؤزر استعمال کریں،جیسے مائیکرو سافٹ ایج، جو خطرناک ویب سائٹس کو بلاک کرنے اور آپ کے کمپیوٹر پر نقصان دہ کوڈ چلنے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔غیر قانونی مواد سے دور رہیں:فلمیں، موسیقی، کتابیں یا ایپلی کیشنز ایسی جگہوں سے اسٹریم یا ڈاؤن لوڈ نہ کریں جو قابل اعتماد نہ ہوں۔ ان میں میلویئر موجود ہو سکتا ہے۔USB کا استعمال: یا دیگر خارجی آلات استعمال نہ کریں جب تک کہ وہ آپ کے اپنے نہ ہوں۔ میلویئر اور وائرس سے بچنے کیلئے یقینی بنائیں کہ تمام خارجی آلات یا تو آپ کے اپنے ہوں یا قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کیے گئے ہوں۔  

پتھر کے مجسمے کس نے تراشے؟سائنسدانوں نے 900سال قدیم معمہ حل کر دیا

پتھر کے مجسمے کس نے تراشے؟سائنسدانوں نے 900سال قدیم معمہ حل کر دیا

دنیا کے سب سے پراسرار مجسموں میں شمار ہونے والے ایسٹر آئی لینڈ کے مشہور پتھریلے سر، جنہیں ''موائی‘‘ (Moai) کہا جاتا ہے، صدیوں سے ماہرین آثار قدیمہ کیلئے معمہ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں تک یہ سوال موجود تھا کہ اتنے بھاری اور بڑے مجسمے کس نے تراشے اور انہیں اس جزیرے پر کیسے منتقل کیا۔ایسٹر آئی لینڈ کے ارد گرد سب سے بڑے اس راز کو ممکنہ طور پر حل کر لیا گیا ہے۔ سائنسدانوں نے آخرکار یہ معلوم کر لیا ہے کہ تقریباً 900 سال قبل مشہور پتھریلے سر ''موائی‘‘ (Moai) کس نے بنائے تھے۔ ماضی میں محققین کا خیال تھا کہ 12 سے 80 ٹن وزنی یہ مجسمے بنانے اور منتقل کرنے کیلئے سینکڑوں مزدوروں کی مشترکہ محنت درکار ہوئی ہو گی۔ تاہم، حالیہ آثار قدیمہ کے شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مجسمے کسی ایک طاقتور قبیلے نے نہیں تراشے تھے بلکہ ہر ''موائی‘‘ ایک چھوٹے قبیلے یا فرد کی فیملی نے تراشا، جس پر صرف چار سے چھ افراد کام کرتے تھے۔ جزیرے کے مرکزی مجسمے کی نئی 3ڈی ماڈلنگ کے ذریعے محققین نے 30 منفرد ''ورکشاپس‘‘ کی نشاندہی کی جہاں یہ مجسمے تیار کیے جاتے تھے۔محققین نے پایا کہ ہر قبیلے کا اپنا منفرد فن، مخصوص تراشنے کی تکنیک اور پسندیدہ کھدائی کے مقامات تھے۔ ''بنگ ہیمٹن یونیورسٹی‘‘ (Binghamton University) کے پروفیسر کارل لیپو نے کہا کہ ہم نے علیحدہ ورکشاپس دیکھی ہیں جو مختلف قبیلوں سے متعلق ہیں اور جو اپنے مخصوص علاقوں میں بھرپور محنت کر رہے تھے‘‘۔ ایسٹر آئی لینڈپر موائی مجسموں کی تیاری کا آغاز تقریباً 13ویں صدی میں ہوا، جب پولینیثیائی برادریوں نے بڑے اور مزید شاندار یادگاریں تراشنا شروع کیں۔ جب 1700ء کی دہائی میں پہلی بار مغربی مہم جو جزیرے پر پہنچے تو وہاں تقریباً ایک ہزار مجسمے بکھرے ہوئے تھے، جبکہ بہت سے مجسمے ایک کان کے اندر ادھورے پڑے تھے۔ تاہم یہ سوال کہ اس چھوٹی سی جزیرہ کمیونٹی نے اتنے وسیع وسائل ان یادگاروں کی تعمیر پر کیوں اور کیسے خرچ کیے؟، ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔پروفیسر لیپو کہتے ہیں:یہ کان تو جیسے آثارِ قدیمہ کی ڈزنی لینڈ ہے۔یہ ہمیشہ معلومات اور ثقافتی ورثے کا خزانہ رہی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اب تک اس کی مناسب دستاویز بندی نہیں ہوئی۔ایک نئی تحقیق میں پروفیسر لیپو اور ان کے ساتھیوں نے اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی اور کان کا ایک انتہائی تفصیلی ڈیجیٹل نقشہ تیار کیا۔ ڈرون کی مدد سے محققین نے اس مقام کی تقریباً 22 ہزار تصاویر لیں اور انہیں جوڑ کر ایک ایسا 3D ماڈل تشکیل دیا جسے کوئی بھی دیکھ اور جانچ سکتا ہے۔یہ شاندار نقشہ نہ صرف مستقبل کی تحقیق کیلئے اس مقام کو محفوظ بناتا ہے بلکہ اس نے کئی ایسے حیران کن حقائق بھی آشکار کیے ہیں جو پہلے کی مطالعہ جات سے پوشیدہ رہے تھے۔پروفیسر لیپو کہتے ہیں:آپ ان چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں جو زمینی سطح پر نظر ہی نہیں آ سکتیں۔ آپ اوپر سے، اطراف سے اور ان تمام حصوں کو دیکھ سکتے ہیں جہاں تک پیدل کبھی پہنچا ہی نہیں جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کان کے اندر موجود ہر ورکشاپ ایک دوسرے سے کتنی مختلف تھی۔ مثال کے طور پر، زیادہ تر مواقع پر مجسمے اس طرح تراشے جاتے تھے کہ پہلے چہرے کی تفصیلات کو نکھارا جاتا، پھر سر اور جسم کی بیرونی ساخت بنائی جاتی۔لیکن کچھ مجسمہ ساز پہلے پورا بلاک تراشتے تھے اور بعد میں چہرے کی تشکیل شروع کرتے، جبکہ کچھ کاریگر چٹان کے اندر ایک طرف سے تراشنا شروع کر دیتے تھے۔اسی طرح کچھ مجسموں میں منفرد فنکارانہ انداز کے آثار پائے جاتے ہیں حتیٰ کہ کچھ مجسموں میں نمایاں طور پر نسائی خصوصیات بھی دکھائی دیتی ہیں۔ورکشاپس کا تعین بھی بڑی جغرافیائی تقسیم کے بجائے چٹان کی قدرتی ساخت اور قدرتی حدود کے مطابق ہوتا تھا۔ سر کو آگے پیچھے جھٹکے دینے سے موائی مجسموں کو دائیں بائیں ہلایا جا سکتا ہے اور انہیں آگے کی طرف 'چلنے‘ کی انداز میں سرکایا جا سکتا ہے۔اس طریقہ کار نے نسبتاً کم افراد پر مشتمل ٹیموں کو یہ قابل بنا دیا کہ وہ ان دیوہیکل مجسموں کو طویل فاصلے تک بہت کم محنت کے ساتھ منتقل کرسکیں۔بعد ازاں یہ مجسمے خصوصی طور پر تیار کردہ سڑکوں پر لے جائے جاتے تھے، جو کان کنی کے مقام کو ان کی آخری منزل سے ملاتی تھیں۔تقریباً 4.5 میٹر چوڑی اور اندر کی طرف دھنسی ہوئی ساخت والی ان سڑکوں کے بارے میں محققین نے دریافت کیا کہ ان کی مخصوص بناوٹ مجسموں کو حرکت کے دوران متوازن رکھنے میں مدد دیتی تھی اور انہیں آگے کی جانب سرکانا زیادہ آسان ہو جاتا تھا۔3D ماڈلنگ اور حقیقی تجربات کے امتزاج سے پروفیسر لیپو اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ صرف 18 افراد کی مدد سے ایک موان کو 'چلا‘ سکتے ہیں۔یہ طریقہ اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ ایک بار جھٹکا دینے کے بعد لوگ صرف ایک ہاتھ سے رسی کھینچ کر مجسمے کو حرکت دیتے رہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پہلا بین الاقوامی فٹبال میچ فٹ بال کی تاریخ میں 30 نومبر 1872ء ایک روشن باب رکھتا ہے۔ اس روز دنیا کا پہلا باضابطہ بین الاقوامی فٹ بال میچ 30 نومبر 1872ء کو اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان منعقد ہوا۔ فٹ بال کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والا یہ مقابلہ 90 منٹ کے کھیل کے باوجود بغیر کسی گول کے برابر رہا۔مائیکل جیکسن کا''تھرلر‘‘ 30 نومبر 1982ء کو مائیکل جیکسن کا تاریخ ساز میوزک البم ''Thriller‘‘ ریلیز ہوا، جس نے عالمی موسیقی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ یہ البم نہ صرف اپنے منفرد اسٹیج پرفارمنس، جدید پروڈکشن اور دلکش ویڈیوز کی وجہ سے مقبول ہوا بلکہ یہ موسیقی کی تاریخ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا البم بھی ثابت ہوا۔یمن کا بٹوارہ30 نومبر 1967ء کو برطانوی استعمار کے خاتمے کے بعد یمن باضابطہ طور پر دو حصوں شمالی یمن اور جنوبی یمن میں تقسیم ہوگیا۔ شمالی یمن ایک روایتی قبائلی اور قدامت پسند نظام کے تحت آگے بڑھتا رہا، جبکہ جنوبی یمن سوشلسٹ نظریات کے اثر میں نئی سیاسی تشکیل کی جانب مائل ہوا۔ دونوں ریاستوں کے درمیان نظریاتی اختلافات، سرحدی تنازعات اور باہمی عدم اعتماد نے کئی دہائیوں تک خطے میں کشیدگی کو جنم دیا۔ دونوں حصے 1990ء میں متحد ہو کر جدید ریاستِ یمن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے۔کرسٹل پیلس آتشزدگی30نومبر1936ء کی شام سر ہنری بکلینڈ اپنی بیٹی کرسٹل کے ساتھ ٹہل رہے تھے، جس کا نام عمارت کے نام پر رکھا گیا تھا ، اسی دوران انہوں نے عمارت کے اندر سے روشنی آتی ہوئی دیکھی ،جب سر ہنری عمارت کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے دوملازمین کو دفتر میں لگی آگ سے لڑتے ہوئے دیکھا جو خواتین کے کمرے میں ایک دھماکے سے شروع ہوئی تھی۔صورتحال دیکھتے ہوئے فوراً فائر بریگیڈ کو بلایا گیا لیکن آگ بجھانے والے 89 انجن اور400سے زائد فائر مین مل کر بھی اس آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے۔چند ہی گھنٹو ں میں پورا کرسٹل محل تباہ ہو گیا۔سرمائی جنگسرمائی جنگ جسے پہلی سوویت فنش جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سوویت یونین اور فن لینڈ کے درمیان ہونے والی ایک زبردست جنگ تھی۔ جنگ کا آغاز 30نومبر 1939ء کو فن لینڈ پر سوویت یونین کے حملے سے ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے تین ماہ بعد ماسکو امن معاہدے کے ساتھ اس لڑائی کا اختتام ہوا۔ جدید اسلحہ، ٹینک اور اعلیٰ فوجی قیادت ہونے کے باوجود سوویت یونین کو اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان پہنچا۔لیگ آف نیشنز نے اس حملے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سوویت یونین کو تنظیم سے بے دخل کر دیا۔ 

فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کا عالمی دن

فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کا عالمی دن

دنیا بھر میں ہر سال 29نومبر کوفلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے دنیا بھر میں ہر سال فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کا عالمی دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مظلوم فلسطینی قوم کی صدائے احتجاج کو عالمی طاقتوں تک پہنچایا جائے اور ان کے بنیادی انسانی و قومی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ کیا جائے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط یہ جدوجہد آج بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے، جہاں ایک پوری قوم اپنے ہی وطن میں بے دخلی، محاصرے اور جبر کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس دن کا مقصد نہ صرف فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کو ایک ناقابل تردید اصول کے طور پر اجاگر کرنا ہے بلکہ دنیا کو یہ احساس دلانا بھی ہے کہ دیرپا امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطینیوں کو اپنی شناخت، اپنی سرزمین اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آوازیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ انصاف کی تلاش میں سرگرداں یہ قوم تنہا نہیں اور دنیا کا ہر باشعور فرد فلسطین کی مقدس اور تاریخی جدوجہد کے ساتھ کھڑا ہے۔ہر سال 29نومبر کو دنیا بھر کے لوگ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن مناتے ہیں ۔ اس دن کو منانے کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2 دسمبر 1977ء کو اپنی ایک قرارداد کے ذریعے کیا تھا تاکہ اس مظلوم قوم کے مسائل کی طرف ممالک کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ اور 1948ء میں ناجائز صیہونی حکومت کا قیام مغربی ایشیاء میں جنگ اور عدم تحفظ کا آغاز تھا۔ شاید 29نومبر کو فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کا نام دینا 1947ء کی اس ظالمانہ ''قرارداد 181‘‘ کے حوالے سے مطمئن کرنا ہے، جسے اسی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس قرارداد کے مطابق فلسطین کی زمین کا57فیصد حصہ یہودیوں کو دیا گیا، جو زیادہ تر دوسرے ممالک سے آئے تھے اور یہی ''قرارداد 181‘‘ تقریباً چھ ماہ بعد صیہونی حکومت کے وجود کے اعلان کا پیش خیمہ بن گئی۔ اس جارح حکومت نے جنگ اور تسلط کے ذریعے فلسطین کے تقریباً 85فیصد حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔انبیاء علیہ السلام کی مقدس سر زمین فلسطین پر ایک عالمی سازش کے تحت دنیا بھر سے اسلام دشمن شیطانی طاقتوں کو جمع کر کے ناقابل تسلیم ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس گھناونی سازش میں سرفہرست امریکہ اور برطانیہ تھے۔ ان طاقتوں کے زیر اثر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29نومبر 1947ء کو ''قرارداد 181‘‘ پاس کی، جس کے تحت سرزمین فلسطین کو غیر منصفانہ طریقے سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصے میں یہودی حکومت اور دوسرے حصے میں فلسطینی حکومت قائم کی جانا تھی۔اقوام متحدہ کی قرارداد اس قدر غیر منصفانہ تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29 نومبر 1977ء کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن قرار دیا۔ 1974ء میں یاسر عرفات نے فلسطین کے نمائندے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک قوم تسلیم کیا اور ان کے حق خود ارادیت کیلئے کئی قرار دادیں منظور کیں۔اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد نہتے فلسطینیوں کو صیہونی ظلم وجبر برادشت کرتے 77 سال بیت گئے لیکن عالمی برادری کی بے حسی کے باعث فلسطینی عوام صیہونی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کئی عشروں سے اسرائیل کی جارحیت کا شکار فلسطینی آج بھی اسرائیل کی دہشت گردی کے ہاتھوں اپنی ہی سر زمین پر قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت فلسطینی عوام ظلم، کرب و اذیت کا شکار ہیں، بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ گھر، ہسپتال اور تعلیمی ادارے گرائے جا چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی فلسطینی مسلمانوں کیلئے جہنم بن چکی ہے۔ حد یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ہے۔ فلسطینی مسلمان تعداد کے اعتبار سے اگرچہ مٹھی بھر ہیں لیکن یہی مسلمان اسرائیلی عزائم کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینی مسلمانوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہے انھیں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور دل لرز جاتے ہیں۔ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز اور تقاریب میں اسرائیلی مظالم کی مذمت اور مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہارکیا جاتا ہے۔ دنیا نصف صدی سے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منا رہی ہے۔ پچاس سال سے اظہار یکجہتی کا دن منانے کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور مسئلہ فلسطین سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب مدد کے عملی تقاضے پورے نہیں کر رہے۔ اقوام متحدہ 1947ء سے فلسطین میں امن کیلئے کوشاں ہے مگر اسرائیل کے مظالم اسی طرح جاری ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیلی فوجی نہتے فلسطینیوں کو شہید کرتے رہتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج کے ہاتھوں ہر سال اوسطاً 560 فلسطینی شہید ہوجاتے ہیں جبکہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران 14ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کئے جانے کے بعد ہزاروں فلسطینی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔