علامہ ابن خلدون کو فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُن سے منسوب ہیں۔ ان کے اجداد نے یمن سے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی تھی۔ بعد میں وہ تیونس پہنچے اور وہیں اس خاندان کے ایک گھرانے میں 27 مئی 1332ء کو ابن خلدون نے آنکھ کھولی۔ محققین کے مطابق ابن خلدون کے خاندان میں علم و دانش کا چرچا تھا اور علّامہ نے بھی جیّد علمائے کرام کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ حفظ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ انھوں نے باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔ابن خلدون وہ پہلا شخص ہے جس نے تاریخ پر ایک مستقل سائنس کی حیثیت سے قلم اٹھایا اور یہ حقیقت اس کی معرکہ آرا تصنیف'' مقدمہ ابن خلدون‘‘ کے سرسری مطالعہ سے واضح ہو جاتی ہے۔ مابعد الطبیعات اور ایسے دیگر مسائل میں ابن خلدون عقل و خرد پراعتماد نہیں کرتا بلکہ الہام اور وجدان پر تکیہ کرتا ہے۔ ابن خلدون تاریخ کے اصول تاریخی حقائق کی مدد سے وضع کرتا ہے، علاوہ ازیں اس کی بصیرت افروز نظر کمال ہوشیاری سے سماجی مسائل کی گہرائیوں تک اُتر جاتی ہے اور وہ ان کے باہم ربط و دیگر کوائف کا سراغ لگانے میں خداداد ملکہ رکھتا ہے۔''مقدمہ‘‘ علّامہ ابن خلدون کی علمیت اور قابلیت کا ایک شاہکار ہے۔ مصنّف کو اسلامی تاریخ کی ایک عبقری شخصیت مانا جاتا ہے جنھیں مغرب اور دنیا بھر میں آج بھی ان کے علم و فضل اور تصانیف کی وجہ سے بڑا امتیاز حاصل ہے۔''مقدمہ ابن خلدون‘‘ دیباچہ تمہید اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس نے فلسفہ ٔتاریخ سے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تاریخ بادشاہوں، سلطنتوں اورجنگوں ہی کا نام نہیںبلکہ تاریخ نام ہے ان وجوہات کے تجسس اور تفتیش کا جو سماجی انقلابات اور اقوام عالم کے رستخیز کے عقب میں کار فرما رہتی ہیں۔ تاریخ پر اس نقطہ نگاہ سے بحث کرنے سے ابن خلدون کا مقصد تاریخ کو ایک محدود اور تنگ دائرے سے اٹھا کر سائنس کے بلند اور ارفع مقام پر لاکھڑا کرتا ہے اور یہ وہ مقصد ہے جسے ابن خلدون کے اپنے الفاظ میں'' پہلے کسی مصنف نے مستقل، منظم اور علمی طور پر سرانجام دینے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی‘‘۔''مقدمہ ابن خلدون‘‘ کی تمہید کا بیشتر حصہ مورخین کی تاریخی لغزشوں کی پردہ دری پر مشتمل ہے اور حیرت کا مقام ہے کہ ابن خلدون جب کسی مورخ کی تحقیقات کو تنقید کی زد میں لاتا ہے تو وہ اس کے بطلان اور اثبات کے لئے جو اصول اور معیار وضع کرتا ہے وہ کم و بیش وہی ہیں جو دورِ حاضر کے نقاد ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ابن خلدون نے نوجوانی میں ہجرت بھی کی اور سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیکھنے سکھانے کا مشغلہ بھی جاری رکھا، گھومنے پھرنے کے شوق اور مطالعہ کے ساتھ غور و فکر کی عادت نے انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور سیاحت کے دوران وہ جن مختلف شاہانِ وقت اور امرا سے ملے، وہ ان کی شخصیت اور فکر سے متاثر ہوئے۔ وہ بڑی عزت اور شرف سے نوازے گئے اور مختلف منصب پر فائز ہوئے۔ لیکن اسی عرصہ میں ابن خلدون اپنے بعض نظریات اور خیالات کے سبب مطعون بھی کیے گئے اور ان کے حاسدین اور مخالفین نے ان کو قید خانے میں بھی پہنچانے میں اپنا منفی کردار ادا کیا۔محققین کے مطابق علّامہ ابن خلدون کی کئی کتابوں کا آج نام و نشان بھی نہیں ملتا، لیکن مقدمہ ابن خلدون کا یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اہل علم اسے دنیا کی چند بڑی بڑی کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔ '' تاریخ ابن خلدون‘‘ کے علاوہ انھوں نے روزنامچے اور مشاہدات بھی رقم کیے ہیں۔خلافتِ عبّاسیہ کے زمانے میں جب علّامہ ابنِ خلدون اسکندریہ اور بعد میں قاہرہ گئے تو انھیں شہرہ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب جس جہاز میں سوار تھے، اسے سمندر میں حادثہ پیش آیا جس میں اہلِ خانہ لقمہ اجل بن گئے۔ اس حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون نے فوری سب کچھ چھوڑ کر حج کا قصد کیا۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ ایک سال مکّہ مکرمہ میں رہے اور پھر مصر لوٹے جہاں 1406ء میں ان کا انتقال ہوا۔ بعض کتابوں میں ان کی تاریخ وفات 16 اور بعض جگہ 19 مارچ لکھی ہے۔ عالم اسلام کے اس مشہور و معروف مؤرخ، فقیہ اور فلسفی کے علمی کارنامے آج بھی دنیا کے مفکرین، قابل شخصیات کے درمیان زیر بحث آتے ہیں۔ابن خلدون کو اگر محض ایک مورخ کی حیثیت سے لیا جائے تو خود عربوں میں اس سے کہیں برتر اور فائق مصنفین کا وجود مل سکے گا لیکن ہم تاریخ کے واضح اصول کے اعتبار سے اس کی برتری مسلمہ امر ہے۔ جدت طرازی‘ فکری گہرائی اور وسعتِ نظر وہ امتیازی خصوصیات ہی جن میں ان خلدون کی عظمت کا راز مضمر ہے، جس طرح دانتے کو دنیائے شاعری کا شہنشاہ مانا جاتا ہے، اسی طرح ابنِ خلدون فلسفہ ٔتاریخ کا پیشواہے۔جہاں تک سائنس اور فلسفۂ تاریخ کا تعلق ہے عربی لٹریچر میں ابن خلدون کا نام بقائے دوام کی سند حاصل کر چکا ہے۔ ازمنہ متوسط میں اگر چراغ لے کر بھی ڈھونڈا جائے تو دنیائے کلیسا میں اس پائے کا فاضل آدمی نہ مل سکے گا۔
رمضان میں لگ بھگ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزہ رکھے، چاہے وہ بیماری کا ہی شکار کیوں نہ ہو اور ان میں ذیابیطس کے مریض سرفہرت ہوتے ہیں۔انٹرنیشنل ڈائیبیٹس فیڈریشن کی ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس ٹائپ ٹو کے 93 فیصد مریض کم از کم 15 دنوں تک روزہ رکھتے ہیںچونکہ یہ میٹابولک مرض ہوتا ہے لہٰذا اس کے شکار افراد میں کھانے اور پینے کے اوقات میں تبدیلی سے پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جبکہ ڈی ہائیڈریشن، بلڈ شوگر میں کمی سمیت کئی خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں، تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے شکار افراد روزہ رکھنے کی صورت میں پورے مہینے اپنے شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں۔دبئی ہیلتھ اتھارٹی کے سمارٹ کلینک کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور اس حوالے سے مختلف فتوے بھی موجود ہیں جبکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں کو روزے رکھنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے تاکہ اس کے اثرات پر قابو پایا جا سکے۔ ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے شکار افراد کا شوگر لیول اگر 70 سے نیچے آجائے تو انہیں روزہ توڑ دینا چاہئے۔ شوگر لیول میں اضافے کے مقابلے میں کمی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، جن لوگوں کا شوگر لیول 70 سے نیچے گر جائے انہیں فوری طور پر روزہ توڑ دینا چاہئے، اسی طرح جن کی گلوکوز ریڈنگ 300 سے تجاوز کر جائے وہ بھی روزہ توڑ کر بہت زیادہ پانی استعمال کریں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔شوگر لیول میں کمی کی صورت میں لوگوں کو بہت زیادہ پسینہ آنے، سردی لگنے، انتہائی شدید بھوک، بینائی دھندلانے، دل کی دھڑکن کی رفتار میں تیزی اور سر چکرانے جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب شوگر لیول میں اضافے کی صورت میں مریض کو خشکی اور بار بار پیشاب کی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔طبی ماہرین نے ایسے افراد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پروٹین اور فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ میٹھے کھانوں اور کیفین سے گریز کریں۔ ذیابیطس کے مریض رمضان کے دوران ہر قسم کی غذا کا استعمال کر سکتے ہیں بس یہ خیال رکھیں کہ وہ متوازن غذا ہو۔ تاہم ماہرین نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ روزے کے دوران بلڈ شوگر کی سطح کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔ اجزاء: آلو،آدھا کلو (چھوٹے)۔پاپڑی، چھ عدد (چورا کی ہوئی)دال سیو، ایک پیکٹ۔ تیل، ایک چوتھائی ۔کپ کڑی پتے، آٹھ سے دس عدد۔زیرہ۔ایک کھانے کا چمچ۔رائی۔ آدھا چائے کا چمچ۔نمک، حسب ذائقہ۔لال مرچ، ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔ہلدی، ایک چائے کا چمچ۔املی کا گودا، ایک چوتھائی کپ۔چاٹ مصالحہ۔، ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔ہری مرچچار عدد۔
آلو پاپڑی چاٹ اجزاء: آلو،آدھا کلو (چھوٹے)۔پاپڑی، چھ عدد (چورا کی ہوئی)دال سیو، ایک پیکٹ۔ تیل، ایک چوتھائی ۔کپ کڑی پتے، آٹھ سے دس عدد۔زیرہ۔ایک کھانے کا چمچ۔رائی۔ آدھا چائے کا چمچ۔نمک، حسب ذائقہ۔لال مرچ، ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔ہلدی، ایک چائے کا چمچ۔املی کا گودا، ایک چوتھائی کپ۔چاٹ مصالحہ۔، ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔ہری مرچچار عدد۔ترکیب: پہلے آلووئوں کو چھیل کر اْبال لیں۔ اب ایک پین میں ایک چوتھائی کپ تیل گرم کرکے اس میں کڑی پتہ، زیرہ اور رائی ڈال کر فرائی کریں۔ ساتھ ہی اس میں نمک، لال مرچ، ہلدی اور املی کا گودا ڈال کر تھوڑا بھونیں۔ اس کے بعد اس میں آلو، چاٹ کا مصالحہ اور ہری مرچ شامل کرکے مکس کریں اور پھر اْتار لیں۔ اب اسے ڈش میں نکال کر چورا کی ہوئی پاپڑی اور دال سیو ڈال کر پیش کریں۔لیموں اور پودینے کا شربتاجزاء: سوڈا واٹر ، ایک بوتل۔کٹی ہوئی کالی مرچ ،ایک چٹکی۔برف، ایک پیالی۔پودینے کی پتیاں، ایک پیالی۔براؤن چینی ، ایک کھانے کا چمچ۔کالا نمک ،آدھا چائے کا چمچ۔لیموں کا رس ،چار کھانے کے چمچ۔پودینے کے پتے سجانے کیلئے۔ترکیب:بلینڈر میں تمام اجزا یکجان کر لیں، اسے گلاسوں میں ڈالیں اور پودینے کے پتوں سے سجا کر پیش کریں۔
''طابا‘‘ میں مصری جھنڈا لہرا یا گیا1989ء میںآج کے روز مصر اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والے شہر طابا میں مصری جھنڈا لہرایا گیا۔ اس شہر کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی ہوئی جسے عرب اسرائیل جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس جنگ کے اختتام پراس شہر میں مصری جھنڈا لہرا ہا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ شہر مصر کی ملکیت ہے۔ یہ شہر مصر کے شمال میں واقع ہے اور اس کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے۔ یہ شہر ہمیشہ ہی تنازعات کی زد میں رہا ہے۔عراق میں بم دھماکے19مارچ 2013ء کو عراق کے دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے شمالی و وسطی حصوں میں بم دھماکوں اور فائرنگ کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ان پرتشدد واقعات میں 98 افراد ہلاک اور 240 سے زائد زخمی ہوئے۔ دھماکوں اور فائرنگ کی وجہ سے ملک بھر کی سکیورٹی صورتحال خراب ہو گئی اور حکومت مخالف گروپس نے احتجاج شروع کر دیا۔ان دھماکوں کی ذمہ داری عراق کے عسکریت پسند گروہ نے قبول کی۔ افغانستان:فضائی حادثہ 1998 ء میں آج کے روز افغانستان کی ائیر لائن آریانہ کا جہاز بوئنگ727کابل ایئرپورٹ کے قریب حادثہ کا شکار ہوا۔جس میں 45افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ تحقیقات میں فنی خرابی اور کنٹرول ٹاور سے رابطے میں کمزوری کو حادثے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔اس حادثے کو دنیا کے بدترین فضائی حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔ہٹلر نے نیرو ڈکری کا اعلان کیا1945ء میںایڈولف ہٹلر نے جرمنی کے تعلیمی ادارے، فیکٹریاں ، چھوٹے کارخانے، دفاتر اور سڑکوں کو تباہ کرنے کا حکم دیا، جسے ''نیروڈکری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1945ء میں پے درپے شکستوں کے بعد جرمنی کے حالات ابتر ہو گئے تھے ۔ اتحادی افواج جرمنی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں ۔ ہٹلر نے یہ حکم اس لئے دیا تھا تاکہ اتحادی افواج جرمنی کے تعمیراتی دھانچے کو استعمال نہ کر سکیں۔''سڈنی ہاربر برج ‘‘کا افتتاح1932ء میں آسٹریلیا کے مشہو ر ''سڈنی ہاربر برج کا افتتاح کیا گیا۔ یہ سٹیل کا مضبوط پل ہے جو سڈنی ہاربر کو سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ سے ملاتا ہے۔ اسے دنیا میں زیادہ شہرت اس لئے بھی حاصل ہے کہ اگر پل کے ایک جانب کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو پل اور آسٹریلیا کا مشہور سڈنی اوپرا ایک ہی فریم میں نظر آتے ہیں۔ اس کے ڈیزائن کی وجہ سے اسے وہاں کے لوگ کوٹ ہینگر بھی کہتے ہیں ۔
مغل بادشاہوں کی تخت نشینی کے موقع پر شان و شوکت کا پورا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ اگر عجلت میں تخت نشینی ہوتیتو یہ رسم بڑی سادگی سے کہیں ادا ہو جاتی لیکن عام طور سے پورے تزک و احتشام سے منعقد کی جاتی۔چاندنی رات میں دیوان عام کے سامنے جشن مہتابی منایا جاتا۔ سفید قالین بچھائے جاتے، دیوراوں پر سفید اطلس ، زربفت اور کم خواب کے پردے لتکائے جاتے۔روشنی بلوری شیشوں میں کی جاتیں۔علائو الدین خلجی کی تاج پوشیعلاوہ الدین خلجی نے کٹرہ مانک پور میں اپنے چچا جلال الدین خلجی کو قتل کرکے اپنی بادشاہت کا اعلان کیا تو پہلے اپنے مقرب درباریوں کو خطابات سے سرفراز کیا، اپنے حاشیہ نشینوں کو جو امیر نہ تھے، امارت کے مرتبہ تک پہنچایا، ان کو جاہ و منصب اور جاگیریں دیں، ان کو مطمئن کرکے اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا اور دیو گڑھ کے خزانہ کو ہمراہ لے کر برسات کے موسم میں کٹرہ سے دہلی روانہ ہوا۔ اثنائے راہ میں دادودہش کی بوچھار کردی، روزانہ بارگاہ میں بیٹھ کر خاص و عام سب کو حاضری کا موقع دیتا تھا۔ اس کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اشرفیوں کی تھیلیاں اور بیش قیمت چیزوں سے لدی ہوئی اونٹوں کی قطار در قطار لوگوں کو تحفہ میں دے دیتا تھا، شاہی سرا پردہ کے قریب ایک ترازو نصب کر دی گئی تھی اور پانچ من اشرفیاں اور روپے تول کر صبح و شام لوگوں میں تقسیم کئے جاتے تھے۔ اسی طرح دہلی میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ داخل ہوا، جس کے بعد وہ کوشک لعل میں آکر تخت پر جلوس کیا، کوشک لعل ہی کو وہ اپنا دارالخلافت بنا کر تین دن جشن عیش و عشرت میں مشغول ہوا۔ رعایا نے بھی شہر میں آئینہ بندی کی اور جا بجا عیش و عشرت کی محفلیں گرم ہوئیں، اس دھوم دھام کی وجہ سے جلال الدین خلجی کے بے گناہ مارے جانے کا غبار لوگوں کے دلوں سے جاتا رہا، اس داغ کو دور کرنے کی خاطر علائو الدین خلجی نے اپنے حامیوں کی طرح طرح کی عنایتوں سے نوازا، خواجہ خطیر کو وزیر الممالک بنایا، قاضی صدر الدین شیخ السلام بنائے گئے، ملک اعزالدین کوتوال شہر کے عہدہ پر مامور ہوا، ملک فخر الدین کوچی کو داد بیگئی، ظفر خاں کو عارض ممالک، ملک جلال الدین بیگ کو اخور بیگ اور ملک برن کو نائب باربک کے عہدوں پر فائز کیا گیا، وغیرہ۔ علاء الدین خلجی نے اوقاف کی آمدنی اہل استحقاق کو دے کر ان کو بھی راضی کیا اور تمام شاہی ملازمین کو چھ مہینہ کی تنخواہ پیشگی دے کر خوش کیا۔محمد تغلق کی تاج پوشیغیاث الدین تغلق کی وفات 725ھ (بمطابق1325ء میں ہوئی تو محمد تغلق نے تین دن تک سوگ منایا، چوتھے دن تغلق آباد میں تخت پر بیٹھ کر اپنے کو محمد شاہ کے نام سے موسوم کیا، چالیس دن کے بعد نیک ساعت میں تغلق آباد سے دہلی روانہ ہوا تو راستوں اور گلیوں میں زینت و آرائش کا پورا انتظام کیا گیا، جا بجا قبے بنائے گئے، شادیانے بجے، بازاروں کو رنگ برنگ کے کپڑوں سے آراستہ کیا گیا، سلطان کی سواری کے ساتھ ہاتھیوں پر اشرفیاں اور روپے لدے تھے۔ امرا ان روپیوں اور اشرفیوں کو سلطان پر سے تصدیق کرکے ہر طرف گلیوں اور کوٹھوں پرپھینکتے جاتے تھے، مورخوں کا بیان ہے کہ اس روز اس قدر سونا اور چاندی سلطان پر نچھاور کیا گیا کہ دہلی کے فقرا گدا گری سے بے نیاز ہو گئے، عام لوگوں کی پگڑیاں تھییلیاں اور مٹھیاں بھی چاندی سے بھر گئیں۔ پھولوں کی بھی اتنی بارش ہوئی کہ دہلی پھولوں کے انبار سے گلستاں بن گئی۔ چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے، غلام، لونڈیاں، ہندو اور مسلمان سب ہی سلطان کو دعائیں دے رہے تھے۔ ہر گھر سے صرف اور ڈھولک کی آواز بلند ہو رہی تھی، عورت اور مرد سب نغمے الاپ رہے تھے، اس سلسلہ میں سلطان کی داد وہش بہت دنوں جاری رہی، اس نے تتار خان کو بہرام خاں کا خطاب دیا اور سوزنجیر ہاتھی ایک ہزار گھوڑے ایک لاکھ اشرفیاں اور چتر ودرباش عطا کرکے سنار گائوں اور بنگالہ کا حاکم مقرر کیا ملک سنجر بدخشانی کو اسی لاکھ ملک الملوک عماد الدین ریحانی کو ستر لاکھ اور اپنے استاد مولانا عضد الدین کو چالیس لاکھ تنکے دیئے۔فیروز شاہ تغلق کی تاج پوشیسلطان محمد تغلق کی وفات کے بعد امرا نے اس کے بھتیجے فیروز شاہ تغلق کو بالاتفاق اس کی جانشینی کیلئے منتخب کیا۔ فیروز شاہ خودکو اس کا اہل نہیں سمجھتا تھا لیکن تا تار خاں نے اس کا بازو پکڑ کر اس کو زبردستی تخت پر بٹھا دیا۔ فیروز شاہ تخت پر بٹھا دیا گیا، تو اس نے امراء کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر یہ بلائے عظیم تم میری گردن پر لٹکاتے ہو تو تھوڑا صبر کرو تاکہ میں وضو کر لوں۔ اس نے وضو کرکے نماز ادا کی اور سر نیاز زمین پر رکھ کر خدا کی بار گاہ میں دعا کی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ کہہ رہا تھا کہ خداوند! ملک کا انتظام اور جہانداری کی توفیق انسان کے اندازہ اور قوت سے باہر ہے، ملک کے نظام کا انحصار تیرے ہی حکم پر ہے، خداوندا!تو ہی میری قوت اور پناہ ہے، اس کے بعد اس کے سر پر تاج رکھا گیا لیکن خلعت شاہی کے اوپر، اس نے اپنے مربی اور آقا کی یاد میں ماتمی لباس بھی پہن لیا، پھر سواری کیلئے ہاتھی لایا گیا، شاہی بار گاہ کے نقیبوں اور چاوشوں نے آواز سلامت بلند کی، شادیانے کے نقارے بجنے لگے، ہر طرف مسرت و شادمانی کی لہر پھیل گئی، ہاتھی پردہ شاہی حرم کے اندر گیا، اپنی پھوپھی خداوند زادہ کے قدموں پر سر رکھ دیا، خداوند زادہ نے اس کو اپنے سینہ سے لگا لیا اور سلطان تغلق اور سلطان محمد تغلق کی یاد گار کلاہ اپنے ہاتھوں سے اس کے سر پر رکھی، اس کی قیمت ایک لاکھ تنکہ تھی۔
حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں ایک مردِ بزرگ کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ خشکی کا راستہ ختم ہو کر دریا کا سفر شروع ہوا تو میں کرایہ ادا کر کے کشتی میں سوار ہوگیا۔ اس بوڑھے کا ہاتھ خالی تھا۔ وہ کرایہ ادا نہ کرسکا اور ملاحوں نے کرایہ ادا کئے بغیر اسے سوار کرنے سے انکار کردیا۔ مجھے اپنے ہمراہی کی اس بے چارگی پر بہت افسوس ہوا۔ رنج سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن وہ بوڑھا زور سے ہنسا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا۔ اے سعدیؒتو کیوں رنج کرتا ہے؟جو دریا اس کشتی کو دوسرے کنارے پر لے جائے گا وہ مجھے بھی پار اتار دے گا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا مصلیٰ پانی پر بچھا دیا۔ مجھ پر اس واقعہ سے ہیبت طاری ہوگئی۔ دوسری صبح میں کنارے پر اترا تو وہ بوڑھا وہاں پہلے سے موجود تھا۔ اس نے کہا: اے سعدیؒ تو اس بات پر تعجب نہ کر۔ تجھے کشتی نے پار لگایا اور مجھے میرے خدا نے پار پہنچا دیا۔ کیا تو بچے کی حالت سے آگاہ نہیں ہے کہ اسے آگ کی ہلاکت آفرینی سے کچھ آگاہی نہیں ہوتی لیکن مہربان ماں اس کی حفاظت کرتی ہے۔ بس یہی حال خاصانِ خدا کا ہے۔ ان کیلئے آگ گلزار اور دریا پایاب ہوجاتے ہیں یہ معززو محترم لوگ ایسے مقام میں ہیں جہاں اس دنیا کا سورج ایک ذرے کی حیثیت رکھتا ہے اور سات سمندر ایک قطرے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔ اگر بادشاہ حقیقی اپنی عظمت کا علم بلند کرے تو کائنات کا نام و نشان مٹ جائے۔
چکن سموسےاجزاء:تیل 3 کھانے کے چمچ،زیرا ایک کھانے کا چمچ،کٹی ہوئی پیار ایک درمیانی، ابلا ہوا چکن آدھا کلو،کالی مرچ پاؤڈر ½ چائے کا چمچ،گرم مصالحہ ½ چائے کا چمچ، سرخ مرچ پاؤڈر حسب ذائقہ،سویا ساس ایک چائے کا چمچ،کیچپ ایک چائے کا چمچ، نمک حسب ذائقہ،کٹی ہوئی ہری پیاز 4 کھانے کے چمچ،کٹا ہوا ہرا دھنیا 4 کھانے کے چمچ،کٹی ہوئی ہری مرچ 2 کھانے کے چمچ،میدہ 2 سے 3 کھانے کے چمچ،سموسے کی پٹیاں 12 سے 15،تلنے کیلئے تیلترکیب:کڑاھی میں تیل، زیرا اور پیاز ڈال کر ہلکا سنہری ہونے تک فرائی کرلیں، اس کے بعد اس میں چکن، کالی مرچ پاؤڈر، گرم مصالحہ پاؤڈر، سرخ لال مرچ پاؤڈر، سویا ساس اور کیچپ شامل کرکے اچھی طرح مکس کریں۔ بعد میں اوپر سے ہری پیاز، ہرا دھنیا اور ہری مرچیں شامل کرکے اچھی طرح ملائیں اور چکن کے مصالحے کو ٹھنڈا ہونے کیلئے رکھ دیں۔ میدے میں تھوڑا سا پانی شامل کرکے پیسٹ بنالیں، سموسے کی پٹییاں لیں اور اس کی پاکٹ بنا کر چکن کا مصالحہ شامل کریں، میدے کی مدد سے اس کے کنارے چپکا کر بند کر دیں۔کڑاھی میں تیل گرم کریں اور چکن سموسے فرائی کرکے افطاری پر گرم گرم پیش کریں۔چکن قیمہ پکوڑااجزا: باریک کٹی چکن 250 گرام،پھینٹے ہوئے انڈے 2 عدد، بیسن 4کھانے کے چمچے، پسی لال مرچ ایک چائے کا چمچہ،کٹی ہر مرچ 2عدد،ہلدی ایک چوتھائی چائے کا چمچ،بیکنگ پاؤڈر آدھا چائے کا چمچ، نمک ایک چائے کا چمچ،کٹا ہرا دھنیا حسب ضرورت، چاٹ مصالحہ آدھا کھانے کا چمچ ،باریک کٹی ہری پیاز آدھا کپ۔ترکیب: بیسن ،بیکنگ پائوڈرپسی لال مرچ اور ہلدی،نمک، کپ پانی،باریک کٹی چکن،کٹی ہری مرچ اور کٹا ہرادھنیا ڈال کر ایک پیالے میں مکس کرکے 30 منٹ کیلئے رکھ دیں، اب پین میں تیل گرم کرکے اس کو پکوڑے کی شکل میں خستہ اور گولڈن ہونے تک فرائی کرلیں، لیجئے مزیدا ر چکن قیمہ پکوڑے تیار ہیں ۔اپنے افطار دسترخوان کی رونق بڑھائیں۔کھجور کا ملک شیک اجزاء: کھجوریں 50 گرام،دودھ 75 ملی لیٹر، آئس کیوب آدھا کپ، چینی 50 گرام، دہی 50 گرام۔ترکیب: کھجوروں کو بھگو لیں اور بلینڈر میں کھجوریں، دہی چینی دودھ اور آئس کیوب ڈال کر بلینڈ کریں اور گلاسوں میں ڈال کر افطار دستر خوان کی زینت بڑھائیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی 18مارچ1978ء کو جنرل ضیاالحق کے جانب سے معزولی کے تقریباً8ماہ بعد پاکستان کے سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ ان پر احمد رضا قصوری کے والد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منحرف رکن محمد احمد خان قصوری کے قتل کا الزام تھا۔ذوالفقار علی پھٹو کو پھانسی سے بچانے کیلئے بین الاقوامی کوششیں بھی کی گئیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئیں اور بالآخر4اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کا پھانسی دے دی گئی۔4ہزار سال پرانی ممی کی دریافت18مارچ1989ء میں گیزا کے عظیم اہرام سے4ہزار400سال پرانی ممی دریافت کی گئی۔اس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مصر میں پانی جانے والی اب تک کی سب سے پرانی ممی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ جس نوجوان لڑکی کی ممی دریافت کی گئی اس کے چہرے پر جمی ہوئی مسکراہٹ اب بھی باقی تھی۔اس ممی کو سونے کے پتوں اور کانسی کے تاج کے ساتھ مزین کیا گیا تھا۔300ملین ڈالر کی پینٹنگز چوری ہوئیں18مارچ1990ء کی صبح بوسٹن کے ازابیلا سٹیورٹ گارڈز میوزیم سے 300 ملین ڈالر مالیت کی پینٹنگز چوری کر لی گئیں۔ گارڈز کی جانب سے ایک ڈسٹربنس کال کا جواب دینے والے دو افراد نے خود کو پولیس افسر ظاہر کیا لیکن دراصل وہ چور تھے۔ چوروں نے گارڈز کو باندھ دیا اور ایک گھنٹے میں پورا میوزیم لوٹ لیا۔اس کیس پر تفتیش تو بہت کی گئی لیکن نہ کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور نہ چوری شدہ مال برآمد ہوا۔میوزیم کی جانب سے چوروں کے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات کی فراہمی پر 10ملین ڈالر(ایک کروڑ ڈالر) کا انعام بھی رکھا گیا۔ٹرائی سٹیٹ طوفان18 مارچ 1925ء کو ٹرائی سٹیٹ طوفان آیا، یہ طوفان ریکارڈ شدہ تاریخ کے مہلک ترین طوفانوں میں سے ایک تھا جس نے مزید بارہ طوفان پیدا کئے۔ یہ وسط مغربی اور جنوبی ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ایک بڑے حصے تک پھیل گیا۔ ٹرائی سٹیٹ طوفان کی وجہ سے مجموعی طور پر 751 افراد ہلاک جبکہ2ہزار298زخمی ہوئے۔ اس طوفان کو امریکی تاریخ کا بھی بدترین طوفان قرار دیا جاتا ہے۔
آب زم زم ہم مسلمانوں کے لئے قدرت کا ایک انعام تو ہے ہی ، لیکن اسکی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ ایک عرصہ سے دنیا بھر کے تحقیق کرنے والے اداروں اور سائنس دانوں کیلئے ایک معمہ بھی بنا ہوا ہے۔ ذرہ سوچئے انسان کا چاند پر قدم رکھنا اب ایک قصہ پارینہ بن چکا، مریخ اور دیگر سیاروں کے کروڑوں سالوں سے چھپے راز اب انسان کیلئے راز نہیں رہے اسی طرح سمندر کی حد گہرائیوں تک انسانی دسترس بھی اب گئے زمانوں کا قصہ بن چکا، لیکن کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر کے تحقیق کرنے والے ادارے آب زم زم اور اس کے کنوئیں کی پراسراریت اور اس کی قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ تک پہنچنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ عالمی تحقیقی ادارے کئی دہائیوں سے اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر آب زم زم میں پائے جانے والے خواص کی وجوہات کیا ہیں۔ مثلاً ایک منٹ میں 720 لیٹر، جبکہ ایک گھنٹے میں 43200 لٹر مسلسل پانی فراہم کرنے والے اس کنوئیں میں پانی کہاں سے آرہا ہے جبکہ مکہ شہر کی زمین میں سیکڑوں فٹ گہرائی کے باوجود بھی پانی موجود نہیں ہے۔کچھ تحقیقی ادراوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام کنووں میں ہر کچھ عرصہ بعد کائی کا جم جانا، انواع واقسام کی جڑی بوٹیوں اور خود رو پودوں کا اُگ آنا یا مختلف حشرات کا پیدا ہو جانا ایک عام سی بات ہے جس سے پانی کا رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے۔قدرت کا یہ کیسا کرشمہ ہے کہ زم زم کے کنوئیں کے پانی کو نہ تو کائی لگتی ہے، نہ ہی صدیوں سے رواں اس پانی کا ذائقہ بدلا ہے نہ رنگ۔ایک اور تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک سیکنڈ میں ہزاروں گیلن پانی کے اخراج کے باوجود بھی کنوئیں میں پانی کی سطح میں رتی برابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یعنی جس تیزی سے پانی کا اخراج ہو رہا ہے اسی تیزی سے زیر زمین ذخیرہ آب، پانی کی کمی پوری کر رہا ہے۔اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک جاپانی تحقیقی ادارے ''ہیڈوا انسٹیٹیوٹ‘‘ نے اپنی ایک تحقیق میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آب زم زم کا ایک قطرہ بھی اگر کسی عام پانی میں شامل کر دیا جائے تو اس کے بھی خواص وہی ہو جاتے ہیں جو آب زم زم کے ہیں جبکہ آب زم زم کے ایک قطرے کا بلور دنیا کے کسی بھی خطے کے پانی میں پائے جانے والے بلور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ایک اور تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ری سائیکلنگ سے بھی زم زم کے خواص میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔دنیا کے اندر پانی کی اور بھی بہت ساری اقسام موجود ہیں ، مگر باری تعالٰی نے ان تمام پر زم زم کو ایسی فوقیت اور فضیلت بخشی ہے جو کسی اور پانی کو نہیں بخشی۔ عام پانی کے پینے میں کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی اور پانی کو برکت کی امید سے پیا جاتا ہے، مگر زمزم پینے کیلئے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عام پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بار گراں سمجھا جاتا ہے جبکہ زمزم کو مبارک اور متبرک جانتے ہوئے حجاج کرام اور زائرین شہروں شہروں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔جہاں تک آب زم زم میں شامل معدنیات کے تناسب کا سوال ہے، اس میں سوڈیم کی مقدار 133،کیلشیم 96، پوٹاشیم 43.3 بائی کاربوریٹ 195.4، کلورائیڈ 163.3 فلورائیڈ 0.72،نائٹریٹ 124.8 اور سلفیٹ 124 ملی گرام فی لیٹر موجود ہیں۔خانہ کعبہ سے بیس کلومیٹر کی دوری پر زم زم کا کنواں اس کرہ ارض پر پانی کا سب سے پرانا چشمہ قرار دیا جاتا ہے جو 5000سال سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ قدیم ہی نہیں بلکہ مسلسل فراہمی آب کا ذریعہ بھی چلا آرہا ہے۔اگرچہ کچھ عرصہ کیلئے اس کنوئیں کا پانی خشک ہو گیا تھا لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا جس میں انہیں اس کنوئیں کو دوبارہ کھودنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ کنواں دوبارہ کھدوایا اور پانی پھر نکل آیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ کنواں مسلسل فراہمی آب کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق زم زم کا یہ چشمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے سے پھوٹا تھا۔ جب حضرت حاجرہ نے بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں کھانا اور پانی ختم ہونے کے بعد صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں چکر لگانے شروع کئے تھے۔ پانی کا یہ کنواں تیس میٹر گہرا ہے۔ اس کنوئیں میں پانی تین مقامات سے آتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کنوئیں میں پانی حجرہ اسود، جبل ابوقیس اور المکبریہ کی سمتوں سے آتا ہے۔ اس کی تفصیل ''العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتاتے ہوئے ڈاکٹر انجینئر یحییٰ کوشک، جو امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی سے انوائرمینٹل انجینئرنگ کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ آبی علوم کے ماہر اور پانی کے امور کے پہلے سعودی ماہر اور زم زم کے کنووں کے بارے وسیع اور تاریخی معلومات کا ذخیرہ رکھتے ہیں ، کا کہنا تھا کہ، جب حضرت حاجرہ صفا اور مروہ کے درمیان دیوانہ وار چکر لگا رہی تھیں اور اپنے رب سے مدد کی دعا مانگ رہی تھیں تو اللہ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا جنہوں نے زمین اور پہاڑ کو اپنے پر سے ضرب لگائی۔اس ضرب کے نتیجے میں مکہ کے پڑوس میں واقع پہاڑوں کے دامنوں میں شگاف پڑ گئے۔ان شگافوں میں پانی کا ایک بڑا ذخیرہ ہروقت موجود رہتا تھا۔ ان پہاڑوں کے اندر جمع شدہ پانی کنوئیں کے مقام تک پہنچ گیا جہاں شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدم رگڑنے سے زیر زمین پانی چشمے کی صورت میں پھوٹ پڑا تھا۔زم زم کنوئیں کو محفوظ بنانے کیلئے اس کے اردگرد ایک عمارت بنائی گئی ہے۔ مطاف کے وسط میں یہ کئی منزلہ عمارت بنائی گئی ہے۔کنوئیں کے اطراف میں ایک جالی بھی لگائی گئی ہے۔ اس کنوئیں میں ایک پرانا ڈول جس پر 1299ھ کندہ ہے، حرمین شریفین عجائب گھر میں محفوظ ہے۔1377ھ میں مطاف کی توسیع کیلئے زمزم کی عمارت مسمار کر کے اس کی جگہ مطاف کے صحن سے ایک راستہ نکالا گیا ہے ، جبکہ حالیہ توسیع میں یہ رستہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔سنہ 1400ھ میں آب زمزم کے کنوئیں کو شاہ خالد مرحوم کے حکم پر صاف کرایا گیا تھا۔سنہ 2010 ھ میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے پانی کو صاف اور محفوظ کرنے کے لئے 700ملین ڈالر کے ایک بڑے منصوبے کی منظوری دی۔اس منصوبے کے تحت مسجد حرام سے ساڑھے چار کلومیٹر دور آب زم زم کو زخیرہ کرنے کا ایک کارخانہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کارخانے میں زم زم کے دولاکھ گیلن پانی کو روزانہ کی بنیاد پر ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔2013ء میں سعودی فرماں روا ،شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور میں زم زم کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر اس کی تقسیم کے نظام اور کوالٹی پر نظر رکھنے کیلئے ایک سٹڈی اینڈ ریسرچ سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔جس کے تحت اس پراجیکٹ کی جدید طریقے سے زم زم کی پمپنگ، فلٹرنگ اور ترسیل کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ جدید ٹیکنالوجی اپنانے کے باوجود اس بات کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا گیا کہ زم زم کی قدرتی خصوصیات میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔سعودی عرب کے ادارہ امور الحرمین الشریفین کے شعبہ برائے امور حفظان صحت و آگاہی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسجد الحرام میں فراہم کئے گئے زم زم کے سپلائی ٹینکوں اور کولروں میں موجود پانی کے روزانہ کی بنیاد پر 150 نمونوں کا جدید لیبارٹریوں کے ذریعے مائئیکرو بیالوجیکل اور کیمیکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، عام خیال یہ ہے کہ ہمیں آکسجین صرف درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے، بلکہ بعض ماہرین جنگلات بھی اسی پر زور دیتے ہیں کہ جنگلات کو محفوظ رکھا جائے تاکہ ہمیں مناسب مقدار میں آکسیجن حاصل ہوتی رہے، لیکن یہ خیال غلط ہے، اس سلسلے میں برازیل کے گھنے جنگلات والے ایک مربع میل علاقے کے آکسیجن کے بارے میں اعداد و شمار پیش کئے گئے تھے، لیکن درحقیقت اس کے باوجود بھی ان دوسرے عناصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو آکسیجن کی فراہمی میں مدد گار ہوتے ہیں۔جنگلات میں جو درخت موجود ہوتے ہیں وہ سورج کی روشنی میں آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں۔ درختوں کو معمولی سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے،مثلاً پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ، ان دونوں چیزوں کو جذب کرکے درخت آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں اور نشاستہ اور دیگر پیچیدہ کیمیائی مرکبات کی تالیف کرتے ہیں۔ روشنی کی موجودگی میں انجام دیئے جانے والے اس عمل کو ضیائی تالیف یا (Photosynthesis)کہتے ہیں۔ ضیائی تالیف کا عمل تمام جاندارں کیلئے بے حد ضروری ہے اور اسی پر ہماری زندگیوں کا انحصار ہے۔ جانور بھی پودے اور گھاس کھاتے ہیں۔ ہر جگہ توانائی کا اہم ذریعہ پودے ہیں۔ پودے سورج کی روشنی میں سبز مادہ (Chlorophyl) پیدا کرتے ہیں اور یہ مادہ پوری دنیا کے جاندار غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ایسے جاندار جو اپنی غذائیت اور توانائی پودوں کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل کرتے ہیں یعنی گندھک یا فولاد کے مرکبات کو توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہ دنیا کو توانائی فراہم کرنے میں کوئی حصہ نہیں لیتے ہیں، چنانچہ ایسے جانداروں کو ہم اپنی بحث میں شامل نہیں کریں گے۔دن میں ضیائی تالیف کے عمل کے دوران جو آکسیجن پیدا ہوتی ہے وہ اس طرح متوازن رہتی ہے کہ جب رات کے وقت پودا اپنا باقی عمل انجام دیتا ہے تو آکسیجن پودے میں جذب ہو جاتی ہے۔ پودے کو اپنی زندگی برقرار رکھنے کیلئے آکسیجن کی ضرورت بالکل اسی طرح ہوتی ہے جس طرح ہمیں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ان پودوں کے گلے سڑے حصے جو زمین پر گر جاتے ہیں انہیں کھاد بننے کیلئے آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ اس طرح دن بھرپودوں سے خارج ہونے والی آکسیجن گیس رات بھر میں دوبارہ جذب ہو جاتی ہے۔
اجزاء فلنگ تیل 4 کھانے کے چمچ، ابال کر ریشہ کیا ہوا چکن ایک کپ، گاجر باریک باریک کٹی ہوئی ایک کپ، شملہ مرچ باریک کٹی ہوئی ایک کپ، بند گوبھی باریک کٹی ہوئی ایک کپ، ہری پیاز باریک کٹی ہوئی ایک کپ، نمک ایک چائے کا چمچ یا حسب ذائقہ،کُٹی ہوئی کالی مرچ ایک چائے کا چمچ،کُٹی ہوئی لال مرچ آدھا چائے کا چمچ،سویا ساس دو کھانے کے چمچ،سرکا ایک کھانے کا چمچ،سفید زیرہ ایک چائے کا چمچ،رول کیلئےرول پٹی 12 عدد،میدہ ایک کھانے کا چمچ،پانی حسب ضرورت،تیل تلنے کے لیےترکیبفرائی پین میں چار کھانے کے چمچ تیل گرم کر کے اس میں سفید زیرہ شامل کریں اور فرائی کر لیں۔ پھر اس فرائی پین میں چکن، تمام سبزیاں اور مصالحے ڈال کر کے اچھی طرح مکس کریں جبکہ پانچ منٹ فرائی کرکے فلنگ کو ٹھنڈا ہونے کیلئے رکھ دیں۔ ایک کھانے کے چمچ میدے میں تھوڑا سا پانی ملا کر پیسٹ بنا لیں۔ رول کی پٹیوں میں فلنگ کی کچھ مقدار ڈال کر اسے فولڈ کریں اور کنارے میدے کے پیسٹ سے چپکا لیں۔ ایک الگ پین میں ڈیپ فرائی کیلئے تیل گرم کر لیں، اس میں تیار شدہ رول ڈالیں اور درمیانی آنچ پر سنہرا ہونے تک تل لیں۔گرم گرم رول پودینے، املی کی چٹنی یا کیچپ کے ساتھ پیش کی جا سکتی ہے۔فرائنگ سے قبل تیار شدہ رول کو ایک مہینے تک فریز کیا جاسکتا ہے جبکہ حسب ضرورت فرائی کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سٹیم بوٹ نے انگلش چینل عبور کیا1816ء میں آج کے روز بھاپ سے چلنے والی 38 ٹن وزنی ایک کشتی نے انگلش چینل کو عبور کیا۔ اس کشتی کے کپتان پیئر انڈریال تھے۔ اس کشتی کو انگلش چینل عبور کرنے والی پہلی بھاپ سے چلنے والی کشتی کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ سٹیم بوٹ سکاٹ لینڈ میں 1814ء میں تیار کی گئی۔ 1815 میں، فرانسیسی شہری پیئر اینڈریل نے اسے خریدا، اور اس کا نام تبدیل کرکے ''ایلیز‘‘ رکھ دیا۔ اینڈریل نے عوامی رائے کو قائل کرنے کیلئے چینل کی ایک شاندار کراسنگ کو پورا کرنے کا ارادہ کیا کہ بھاپ والے جہاز سمندر کے قابل ہو سکتے ہیں۔کرکٹ ورلڈ کپ 1996ء:سری لنکا چیمپئن بنا17مارچ 1996ء کو عالمی کرکٹ کپ کے فائنل میں سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست دی۔ قذافی سٹیڈیم میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کا فائنل فلڈ لائٹ میں کھیلا گیا۔ ایک مرتبہ کی چیمپئن آسٹریلیا اور پہلی مرتبہ فائنل کھیلنے والی سری لنکا کی ٹیمیں مدمقابل تھیں۔ 30ہزار تماشائیوں کے سامنے سری لنکا نے آسٹریلیا کو 7 وکٹ سے شکست دے کر پہلی مرتبہ عالمی ورلڈ کپ کا اعزاز اپنے نام کیا۔پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کپتان رانا تنگا کو ورلڈ کپ ٹرافی اور ایک لاکھ ڈالر کا چیک انعام میں دیا۔کولمبیا فضائی حادثہکولمبیئن بوئنگ 727 جیٹ لائنر کی ''فلائٹ 410‘‘ 17 مارچ 1988ء کو پہاڑوں میں گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز کو حادثہ ٹیک آف کے فوراً بعد اس وقت پیش آیا جب وہ ایک پہاڑ کے قریب سے گزر رہی تھی۔ جہاز میں سوار تمام 143 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ اس وقت کولمبیا میں ہونے والا سب سے مہلک ہوا بازی کا حادثہ تھا۔حادثے کی تحقیق کرنے والی ٹیم کے مطابق حادثہ کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سے ایک کاک پٹ میں ایک غیر عملے کا پائلٹ، جس کی موجودگی نے پائلٹ کی توجہ ہٹائی اور جس نے طیارے کے آپریشن میں مداخلت کی، دوسرے ٹیم کے درمیان ٹیم ورک کی کمی تھی۔ برسلز معاہدہ 17 مارچ 1948ء کو بیلجئم،فرانس، ہالینڈ، برطانیہ اور لکسمبرگ کے درمیان 50 سالہ مدت کیلئے برسلز معاہدہ طے کرتے ہوئے مغربی یورپی یونین کی بنیاد رکھی گئی۔ برسلز معاہدہ 1948ء اور 1954ء کے درمیان ویسٹرن یونین کا بانی معاہدہ تھا، جب اس میں ترمیم شدہ برسلز ٹریٹی کے طور پر ترمیم کی گئی۔ اس معاہدے میں رکن ممالک کے درمیان فوجی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی تعاون کی تنظیم کے ساتھ ساتھ باہمی دفاعی شق بھی شامل تھی۔
مملوک قرون وسطی میں مسلم خلفاء اور ایوبی سلاطین کیلئے خدمات انجام دینے والے مسلم سپاہی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ زبردست عسکری قوت بن گئے اور ایک سے زیادہ مرتبہ حکومت بھی حاصل کی جن میں طاقتور ترین مصر میں 1250ء سے 1517ء تک قائم مملوک سلطنت تھی۔اولین مملوک سپاہیوں نے 9ویں صدی میں عباسی خلفاء کیلئے خدمات انجام دیں۔ عباسی انھیں خصوصا ًقفقاز اور بحیرہ اسود کے شمالی علاقوں سے بھرتی کرتے تھے۔ چرکاسیوں کے سوا اکثر قیدی غیر مسلم نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد خلیفہ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالتے تھے۔ مملوک نظام کے تحت حکمرانوں کو ایسے جانباز سپاہی میسر آئے جنہیں کاروبار سلطنت سے کوئی سروکار نہ تھا۔ مقامی جنگجو اکثر سلطان یا خلیفہ کے علاوہ مقامی قبائل کے شیوخ، خاندان یا اعلیٰ شخصیات کے فرماں بردار ہوتے تھے۔ اگر کوئی سردار حکمران کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو ان سپاہیوں کی جانب سے بھی بغاوت کا خدشہ رہتا ہے۔مملوک چھاؤنیوں میں رہتے تھے جہاں وہ تیر اندازی اور دیگر صحت مند تفریح کے ذریعے اپنا دل بہلاتے تھے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد وہ غلام نہیں رہتے تھے۔ سلطان مملوک فوج کو براہ راست اپنی کمان میں رکھتا تھا تاکہ وہ مقامی قبائل کی جانب سے بغاوت کی صورت میں اسے استعمال کرسکے۔غلاموں کے ساتھ مسلمانوں کے اعلیٰ سلوک کی واضح مثال ان مملوک سپاہیوں کا اونچے عہدوں تک پہنچنا ہے جن میں سپہ سالاری تک شامل ہے۔1206ء میں ہندوستان میں مسلم افواج کے مملوک کمانڈر قطب الدین ایبک خود کو سلطان قرار دیتے ہوئے پہلے آزاد سلطانِ ہند بن گئے اور خاندان غلاماں کی بادشاہت کی بنیاد رکھی جو 1290ء تک قائم رہی۔مملوک سلاطین تو زیادہ تر فتح و تسخیر میں لگے رہے لیکن ان کے لوازم شاہی میں دربار کا ہونا ضروری تھا، اس لئے انہوں نے دربار منعقد کرکے ہندوستانی باشندوں کے ذوق اور پڑوسی ملکوں کے معیار کے مطابق روایتیں قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔سلطان دربار میں آکر بیٹھتا تو اس کی جگہ اونچی اور نمایاں ہوتی، جہاں پر شاہی تخت رکھا رہتا، یہ عموماً چار پایوں کا ہوتا اور اس کی شکل چوپہل ہوتی اور اس میں سونے کا کام ہوتا، اس کے سر پر چتر ہوتا، چتر کے اوپر چھوٹا سا سایہ گستر یعنی شامیانہ لگایا جاتا جس کا رنگ یا تو سرخ یا سیاہ ہوتا اور اس میں جواہرات ٹکے رہتے۔(1)اس کے اوپر ہما کی شکل بھی بنی رہتی جو ایک مبارک پرندہ سمجھا جاتا ہے، تخت کے بغل میں دورباش رکھا رہتا، یہ گویا شاہی عصا تھا، سلطان کے تخت کے پیچھے سلاح دار، جان دار، سہم الحشم، نائب سہم الحشم کھڑے رہتے۔(2)سلاح دار سے مراد ہتھیار بند محافظ ہیں، وہ سلطان کے اسلحہ کے بھی نگراں ہوتے اور دربار میں اس کے پیچھے کھڑے رہتے، یا جب سلطان کی سواری باہر نکلتی تو وہ اس کے ساتھ ساتھ ہوتے، ان کا نگراں سر سلاح دار کہلاتا جو دائیں بائیں دونوں بازوئوں پر ہوتے۔ سلطان کی حفاظت کیلئے کچھ تندرست شکیل اور خوب صورت لشکر بھی ہوتے جو جاندار کہلاتے، ان کی پوشاک بھی خوبصورت ہوتی، ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں ہوتیں اور وہ سلطان کے جلو میں کھڑے رہتے، ان کا نگراں سرجان دار کہلاتا جو دائیں بائیں دونوں طرف ہوتے، وہ سلطان کے سر پر مور چھل بھی ہلاتے رہتے۔ سلطان کی سواری کے ساتھ جان دار گھوڑے پر سوار رہتے۔ پیدل محافظ سہم الحشم کہلاتے۔ دربار میں یہ سب بھی تخت کے پیچھے ہوتے، ان کے مدد گار نائب سہم الحشم کہلاتے۔دربار کا سب سے اہم رکن امیر صاحب ہوتا، جو کبھی حاجب المجاب، ملک المجاب، امیر المجاب کہلاتا، امیر صاحب اور باربک ایک ہی عہدہ تھا، وہی تمام امراء کی جگہیں ان کے مراتب کے مطابق مقرر کرتا، اس کی مدد کیلئے نائب امیر حاجب ہوتے، کسی نائب امیر حاجب کے ساتھ خصوصیت کا اظہار کیا جاتا تو وہ سید المجاب یا شرف المجاب کے خطاب سے نوازا جاتا۔ نائب امیر حاجب، امیر حاجب کی مدد کیا کرتے تھے۔ امیر حاجب دربار کے امرا کا تعارف کراتا، یا سلطان کسی درباری سے کچھ کہنا چاہتا تو وہ امیر جاجب سے کہتا، امیر جاجب اپنے مختلف حاجب کے ذریعہ سے یہ پیام دربار تک پہنچاتا، سلطان کے سامنے تمام درخواستیں امیر حاجب کے ذریعے سے پیش ہوتیں، وہ ان کو بلند آواز سے پڑھ کر سناتا، سلطان کوئی فیصلہ دیتا تو اس کو قلم بند کردیا جاتا، دوات دار کاغذ، قلم اور سیاہی لئے حاضر رہتا، اس فیصلہ پر مہر دار شاہی مہر لگا دیتا، جس کے بعد یہ درخواستیں دبیر خاص کے حوالہ کر دی جاتیں۔ امیر حاجب سلطنت کا معزز رکن ہوتا، اس لئے کبھی کبھی وہ سلطان کی عدم موجودگی میں اس کی نیابت بھی کرتا، اس عہدہ پر عموماً شاہی خاندان ہی کے افراد مقرر کئے جاتے۔شحنۂ بار گاہ دربار کی زینت و آرائش کا ذمہ دار ہوتا، نقیب اور چائوش جا بجا کھڑے رہتے اور جب کوئی سلطان کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو وہ بسم اللہ زور سے کہتا۔دربار میں تمام درباری کھڑے رہتے، صرف خاص خاص اشخاص کو بیٹھنے کی اجازت ہوتی، جب کوئی دربار میں آتا تو سلطان کے تخت کے پاس آکر زمین پر سر رکھ کر تین بار زمین بوسی کرتا۔اس کو تعظیم بجالانا کہتے، علماء صلحا اور مشائخ زمین بوسی سے مستثنیٰ ہوتے، اگر سلطان تخت پر نہ ہوتا تو بھی درباری زمین بوسی کرتے، سوری خاندان کی حکومت کے زمانہ میں تو سلطان کی عدم موجودگی میں تخت پر کفش اور ترکش رکھ دیئے جاتے۔سلاطین اپنی خواہش کے مطابق دربار کے آداب میں ترمیم اور اضافہ کرتے رہتے جیسا کہ آگے کی تفصیلا سے ظاہر ہوگا۔عام دربار کے علاوہ ایک مجلس خاص بھی ہوا کرتی تھی، جس میں وزراء کے علاوہ صاحب تدبیر ملوک رائے زن شریک ہوتے تھے اور مجلس خاص کے علاوہ ایک مجلس خلوت بھی ادا کرتی تھی، جس میں صرف محرم راز اور معتمد علیہ شریک ہوتے تھے۔دربار کے داخلہ کے دروازہ پر نوبت بجتی رہتی تھی، وہاں نقیب بھی کھڑے رہتے، ان کا نگران اعلیٰ نقیب، النقبا کہلاتا، وہ ہر آنے جانے الے پر نگرانی رکھتا، دروازے پر متصدی بھی بیٹھے رہتے، کوئی شخص اندر جانے نہیں پاتا جب تک وہ اس کا نام اپنی کتاب اور روزنامچہ میں نہ لکھ لیتے، یہ روزنامچے رات کے وقت سلطان کے سامنے پیش کئے جاتے۔درباریوں کیلئے مخصوص پوشاک ہوتی، سلطان جس کو خلعت عطا کرتا، وہ وہی لباس پہن کر آتا، غیر معمولی دربار عموماً تاج پوشی، سالگرہ، تاج پوشی کی سالگرہ کسی سفیر کی آمد، نذر قبول کرنے، تہوار یا فتح و کامرانی کے جشن منانے کی خاطر کیا جاتا، سلاطین دہلی میں سب سے زیادہ بارعب دربار سلطان بلبن کا تھا اور سب سے پرشکوہ سلطان محمد تغلق کا تھا۔
یہ تاریخ انسانی کی سب سے شاندار اور بہترین تعمیرات ہیں، لیکن تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عظیم اہرام مصر مکمل طور پر متوازن نہیں ہے، جس کی وجہ ساڑھے 4 ہزار سال قبل تعمیر کے دوران آنے والی ایک خرابی تھی۔ اس نقص کی وجہ سے اہرام کی مغربی سمت مشرقی سمت سے تھوڑی سی بڑی ہے، اور اس کی بنیاد مکمل طور پر چوکور نہیں بنی۔یہ تحقیق امریکہ کے گلین ڈیش ریسرچ فاؤنڈیشن اور قدیم مصر پر تحقیق کرنے والے ادارے ''ایرا‘ نے کی ہے، جو اس عظیم اہرام کی حقیقی پیمائش کو بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔جب ساڑھے چار ہزار سال پہلے فرعون خوفوکی نگرانی میں اہرام مصر بنائے گئے تھے تو ان پر سفید چونے کے پتھر کی تہہ تھی۔ آنے والے سالوں میں چونے کے پتھر کی یہ بیرونی سطح ختم ہو گئی اور اہرام مصر ایسے ہو گئے، جیسا ہم انہیں آج جانتے ہیں۔گلین ڈیش کا کہنا ہے کہ یہ پتھر صدیوں پہلے تعمیر کی غرض سے نکال لیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اہرام مصر کی حالت یہ ہو گئی۔ قدیم اہرام کے بارے میں جاننے کیلئے ادارے نے پیمائش کی اور پایا کہ دونوں سمتوں میں ساڑھے 5 انچ کا فرق ہے۔ گوکہ یہ کوئی بہت بڑا نقص نہیں ہے اور بظاہر کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ محققین آج بھی حیرت زدہ ہے کہ ہزاروںسال پہلے اسے بنانیوالے اتنی بہترین پیمائش کیسے کرتے تھے۔ ابھی گزشتہ مہینے اٹلی کے تحقیق کاروں نے پایا کہ شاہ طوطن خامن کا خنجر دراصل کسی شہاب ثاقب سے تیار کیا گیا ہے۔
سعودی عرب کی تھریسرمضان المبارک کا بابرکت مہینہ چل رہا ہے، اس ماہ مبارک کے دوران جہاں متوازن غذا لینا بہت ضروری ہے وہیں خود کو ہائیڈریٹ رکھنا بھی اشد ضروری ہے۔ ان دونوں باتوں کا خیال رکھ کر آپ دن بھر خود کو توانا اور متحرک رکھ سکتے ہیں۔جسم میں پانی کی کمی نہ ہواس لئے سحر و افطار میں مشروبات کا استعمال ضروری ہے۔ ذیل میں ہم آپ کیلئے رمضان کے خصوصی پکوان اور مزیدار مشروب کے بارے میں بتائیں گے جو دن بھر کے روزے کے بعد آپ کو تروتازہ اور متحرک رکھیں گے۔سعودی عرب میں'' تھریس‘‘ نام کی ڈش رمضان المبارک اور ایام حج میں لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ بھی اس ڈش کو بہت پسند فرماتے تھے۔ یوں اس کی اہمیت ہمارے لیے خاص ہے۔ اجزاء و ترکیب :بکرے کا گوشت ایک گھنٹے کیلئے مناسب آنچ پر پکائیے ، ا یک گھنٹے بعد اس میں آلو، گاجر بھی ڈال دیجئے، اس کے ساتھ ہی ٹماٹر، پیازاور ادرک کا پیسٹ بھی ملا دیجئے، جبکہ سرخ مرچ اور کالی مرچ بھی حسب ضرورت استعمال کیجئے۔ یہ ڈش عمومی طور پر کسی بڑی ٹرے نما برتن میں صرف کی جاتی ہے۔ ملکی لیموئنیڈاجزاء: لیموں کا رس آدھی پیالی، سوفٹ ڈرنک ایک چھوٹی بوتل، دودھ دو پیالی، چینی چار کھانے کے چمچ، فریش کریم آدھی پیالی، کُٹی ہوئی برف حسب پسند۔ترکیب: دودھ سوفٹ ڈرنک اور فریش کریم کو علیحدہ علیحدہ پیالوں میں رکھ کر یخ ٹھنڈا کر لیں۔ بلینڈر میں پہلے چینی اور لیموں کا رس ڈال کر بلینڈ کر لیں پھر اس میں سوفٹ ڈرنک ڈال کر بلینڈر کو ایک سے دو منٹ چلائیں۔ آخر میں اس میں دودھ ، فریش کریم اور کٹی ہوئی برف ڈال کر بلینڈ کر لیں۔
عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال1988ء میں آج کے روز عراقی شہر ہالابجا میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ اس حملے میں تقریباً 5ہزار افراد ہلاک اور10ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ حملہ عراق کے شمالی حصے میںکردوں کے خلاف کیا گیا اور اس کا ذمہ دار صدام حسین کے کزن علی حسن کو قرار دیا گیا ۔ اسی وجہ سے ان کو جنرل کیمیکل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب عراق ایران کی جنگ جاری تھی۔مائع ایندھن سے چلنے والا راکٹ1926ء میں امریکی سائنسدان و انجینئر روبرٹ گوڈرڈ نے مائع ایندھن سے چلنے والا راکٹ بنایا۔ یہ دنیا کا پہلا راکٹ تھا جسے مائع ایندھن سے چلایا گیا۔روبرٹ اور ان کی ٹیم نے 1926ء سے 1941ء تک 34 راکٹس کا تجربہ کیا اور وہ مطلوبہ رفتار حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ اس تجربے کو سپیس سائنس کا انقلاب بھی کہا جاتا ہے کیونکہ مائع ایندھن سے چلنے کی وجہ سے راکٹ کو رفتاربھی حاصل ہوئی اور خلائی سفر کو زیادہ محفوظ بھی بنایا گیا۔چائنہ میں بم دھماکے16مارچ2001ء میںشمالی چائنہ کے صوبہ ہیبی کے دارالحکومت سیچاروانگ میں سیریل بم دھماکے ہوئے۔ اسے چائنہ کے بدترین حادثوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ان دھماکوں کو ''جن روچاؤ دھماکوں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہ سیریل دھماکے کرنے والے شخص کا نام جن روچاؤ تھا۔اس حادثے میں 108افرار ہلاک جبکہ38شدید زخمی ہوئے۔تحقیقات کے مطابق جن کو اپنی سابقہ بیوی اور ساس پر غصہ تھا اور ان کی نفرت میں ہی اس نے یہ دھماکے کئے۔ وہ اس سے قبل کئی مرتبہ مختلف عمارات کو بم سے اڑانے کی دھمکی بھی دے چکا تھا۔اٹلی کے وزیر اعظم کو اغوا کیا گیا16مارچ 1978ء کواٹلی کے وزیر اعظم مورو رومیوکو اغوا کیا گیا۔مورو رومیو اٹلی کے سیاستدان اور کرسچن ڈیموکریسی کے اہم رکن تھے۔ مورو 1963ء سے1968تک اور1974ء سے 1976ء تک اٹلی کے وزیر اعظم کے طور پر خدما ت سر انجام دیتے رہے۔ 16مارچ 1978ء کو مورو ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے جا رہے تھے کہ ایک عسکریت پسند تنظیم نے ان کی گاڑی کو روکا اور مورو کے پانچ محافظو ںکا قتل کرکے انہیں اغواء کرکے لے گئے۔کینسر کو روکنے کا طریقہ دریافت ہواہاروڈ یونیورسٹی کے سائنسی ماہرین نے انسانی جسم میں موجود کینسر کے خلیوں کو پھیلنے سے روکنے کیلئے جدید طریقہ علاج دریافت کیا۔ اسی ریسرچ کی بنیاد پر آج بھی دنیا بھر میں کینسر کے علاج پر کام ہو رہا ہے۔ اس سے قبل کینسر کے مریض کو وقتی طور پر دوائیوں کے ذریعے آرام تو مہیا کر دیا جاتا تھا لیکن کوئی باضابطہ علاج موجود نہیں تھا۔ آج کے دور میں کیموتھراپی بھی اسی ریسرچ کی جدید شکل ہے۔