امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

'' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘امریکہ دراصل مہاجروں کی سرزمین ہے۔ ایسے ملک کے متعلق عام فہم الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ '' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ تو بے جا نہ ہوگا۔ امریکہ کے اصل مکین اس وقت آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ باقی سارے لوگ کوئی کہیں سے آیا تو کوئی کہیں سے۔ گوروں نے تین چار صدی قبل اپنی سہولت اور خدمت کیلئے افریقہ کے کالے لوگوں کو یہاں بسایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہی کالے انہی کے حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ ان میں سابق صدر بارک اوباما، سابق وزرائے خارجہ بیڈن پاول اور کونڈالیزا رائیس نمایاں شخصیات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ راقم نے دیکھا کہ امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں کئی اہم عہدوں پر کالے براجمان ہیں۔ پولیس چیف، شہروں کے میئر، عالمی شہرت کی حامل یونیورسٹیوں کے سربراہ اور کئی محکموں میں کالے بلاتفریق اپنا اپنا رول ادا کر رہے ہیں، گو یہ مقام انہیں بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ کالوں(سیاہ فام) کو یہ شہری آزادی اور عزت دلوانے کی خاطر امریکہ کے نامور صدور کو بھی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن آج کل امریکہ میں تعصب کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ امریکہ اور اہل امریکہ نے خندہ پیشانی سے باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے۔ یقیناً یہ فراخ دلی کا ثبوت ہے۔ باہر کی دنیا سے آئے ہوئے ایسے ایسے دانشور اور انٹلیکچوئل اکٹھے ہو گئے ہیں کہ آج انہوں نے ساری دنیا کو آگے لگا لیا ہے۔ حکومت نے تھنک ٹینکوں کا ایک بریگیڈ تشکیل دے دیا ہے جس کے نتیجہ میں امریکہ نے ساری دنیا کو ایک شہر کی حیثیت دے کر خود کو کوتوال شہر بنا لیا ہے۔ یہ امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ شمال اور جنوب میں صرف دو معصوم سے ممالک کی اسے قربت حاصل ہے۔امریکہ بذات خود اتنا بڑا ملک ہے کہ اس کی 50 ریاستوں میں سے کئی ریاستیں دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑی ہیں۔ قدرت نے دو بڑے سمندروں کے ہزار ہا میل لمبے کنارے دیئے ہیں۔ امریکہ میں ہر طرح کا موسم موجود ہے۔ اتنی نسلوں اور قسموں کے لوگ وہاں آباد ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں ملنی مشکل ہے۔ گویا امریکہ ایک طرح سے چوں چوں کا مربہ ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے لوگ امریکہ میں موجود ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اخبار امریکہ سے شائع ہو رہا ہے۔ اور پھر جمہوریت کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عالمی سطح پر کشتی لڑنے والا پہلوان بھی اپنی ریاست کا گورنر منتخب ہو جاتا ہے۔ کبھی وقت تھا کہ برطانیہ کی نو آبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب یہ اعزاز امریکہ کو حاصل ہے۔ آج امریکہ کا دائرہ اختیار آٹھ ٹائم زونوں پر محیط ہے۔ اس ملک کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جیسے ہمارے ملک کی سرحدوں سے شروع ہو کر فلپائن تک ایک ہی ملک ہو۔اگر آپ سابقہ سوویت یونین کی کسی ریاست یا کسی عرب ملک میں چلے جائیں تو ہر وقت آپ کو اپنی شناخت کیلئے پاسپورٹ رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں اگر آپ ایک دفعہ داخل ہو گئے تو آپ اپنا پاسپورٹ اپنے اٹیچی میں سنبھال کر رکھ لیں، کہیں کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ سے اپنے ملک واپس جا رہے ہوں آپ سے پاسپورٹ طلب نہیں کیا جائے گا۔خیر یہ تو امریکہ کا ایک رخ ہے، امریکہ میں ایسے ایسے جرائم جنم لیتے ہیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے۔ پولیس والوں کو مجرموں کے ہاتھوں پٹتے دیکھا ہے۔ پولیس سے اسلحہ چھین کر پولیس پر ہی استعمال ہونے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ سوفٹ چوڑی سڑک کے ایک طرف سے سرنگ کھود کر بنکوں کی تجوریاں خالی کرنے کے واقعات بھی امریکہ میں ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھ سالہ بچے کو باپ کی کار کی چابیاں Ignitionمیں ڈال کر کار کو شہر کی سڑکوں پر گھماتے ہوئے دیکھا گیا۔ اور تو اور ایک 13سالہ بچے نے ایئرپورٹ سے سیسنا طیارہ نہ صرف اڑایا بلکہ بحفاظت قریبی شہر کے ایئرپورٹ پر اتار بھی لیا۔ خیر جتنا بڑا ملک اتنی بڑی باتیں۔مذہب کی اتنی آزادی ہے کہ کئی چرچوں کے ماتھے پر برائے فروخت کے بورڈ آویزاں ہیں۔ بلکہ کئی چرچ تو مساجد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کہیں مذہبی تعصب نظر نہیں آتا، ہاں کہیں ایک آدھ مثال ہے تو وہ کسی کا ذاتی جنون ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ایسی ایسی قدرتی آفات آتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اگر کہیں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو کیلیفورنیا کے وسیع جنگل میل ہا میل تک شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ سمندری طوفان آتا ہے تو پورے کے پورے مکانات سڑکوں پر دھرے نظر آتے ہیں۔ اگر بجلی چلی جائے تو پورے امریکہ کا 1/4(ایک چوتھائی) تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ ہمارے ساتھ ہوا کیسے؟ مگر پھر بھی امریکہ کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے نہ اس کی تھانیداری پر۔ امریکہ ہر طور اپنا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہے۔  

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والی سب سے پہلی ویڈیوآپ روزانہ یوٹیوب پر بہت سی ویڈیو دیکھتے ہیں جن میں سے کچھ ویڈیو محفوظ (سیو) کر لیتے ہیں اور بعض کو شیئر بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ذہنوں میں ایک سوال آتا ہے کہ سب سے پہلے یو ٹیوب پر کونسی ویڈیو اپ لوڈ کی گئی تھی؟۔ تو آئیے ہم کو آپ کوبتاتے ہیںکہ وہ کونسی ویڈیو تھی جو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی، اس کا تخلیق کار کون تھااور اس نے یہ ویڈیوکہاں پر جا کر شوٹ کی تھی۔ 2005ء کے آغاز میں انٹرنیٹ کا جال دنیا بھر میں پھیل چکا تھا اور تقریباً ہر کوئی انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا تھا۔ 14 فروری 2005ء میں پے پال کمپنی کے تین سابق ملازمین جاوید کریم، سٹیوچن اور چاڈ لی نے انٹرنیٹ پر ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ''یو ٹیوب‘‘ کا آغاز کیا۔ یو ٹیوب کی تخلیق نے ویڈیو دیکھنے، ویڈیو بنانے اور ویڈیو شیئر کرنے میں انقلاب برپا کر دیا۔یو ٹیوب کے آنے سے دنیا میں ایک نئی صنعت قائم ہوئی اورآج یوٹیوبرز اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے اشتہارات کی مد میں اچھی خاصی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ یہ 7 اپریل 2005ء کی بات ہے جب جاوید کریم نے ''می ایٹ دی زو‘‘نامی پہلی یوٹیوب ویڈیو پوسٹ کی۔ 18 سیکنڈ کی ویڈیو، جس کا عنوان ہے ''میںچڑیا گھر میں ہوں‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جاوید، کریم، یو ٹیوب کے شریک بانی، سین ڈیاگو چڑیا گھر میں ہاتھیوں کے ایک جھنڈ کے سامنے کھڑے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ ''ٹھیک ہے، تو یہاں ہم ہاتھیوں کے سامنے ہیں، وہ ویڈیو کلپ میں مزید کہتے ہیں ''ان لڑکوں کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ ان کے پاس واقعی، واقعی، واقعی لمبے تنے ہیں، اور یہ بہت اچھا ہے اور بس اتنا ہی کہنا ہے‘‘۔''می ایٹ دی چڑیا گھر‘‘ کو جاوید کریم نے اپ لوڈ کیا تھا، جو یوٹیوب کے تین بانیوں میں سے ایک ہیں، اور اسے سین ڈیاگو چڑیا گھر میں کچھ ہاتھیوں کے ساتھ ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔آج، ''Me At the Zoo ‘‘کو پانچ کروڑ چالیس لاکھ (54,000,000) سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے اور تقریباً دس لاکھ اس پر تبصرے ہیں۔ جاوید کریم کی اس ویڈیو نے انیرنیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا اور یوٹیوب کو ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بنانے میں مدد کی۔ اس ویڈیو نے کئی نئی آن لائن صنعتیں شروع کیں اور لوگوں کے میڈیا استعمال کرنے کا طریقہ بدل دیا۔آج کل یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والے یوٹیوبرزنے زیادہ تر روایتی طریقہ اپنا رکھا ہے جیسا کہ ''میرے چینل کو سبسکرائب کریں،لائک کریں اور کمنٹ ضرور کریں۔ جاوید کریم کی ویوڈیو بہت ہی سادہ ہے اور انہوں نے صرف اتنا ہی کہہ کر ویڈیو ختم کردی کہ ''بس اتنا ہی کہنا ہے ‘‘۔''می ایٹ دی زو‘‘ ویڈیو اپ لوٹ ہونے کے ایک سال بعد جاوید کریم اوران کے ساتھی شریک بانی نے یہ پلیٹ فارم گوگل کو 1.65 بلین ڈالرمیں فروخت کردیا تھااور اس وقت یوٹیوب کے مطابق یوٹیوب پلیٹ فارم پر ہر ماہ 2 ارب سے زیادہ صارفین وزٹ کرتے ہیں اور ویڈیوز دیکھتے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے یوٹیوب انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پلیٹ فارم ہے۔ اس وقت ٹی وی شوز، فلموں اور لائیو سٹریمنگ سروس کے ساتھ یو ٹیوب انٹرنیٹ کا سب مقبول پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ یوٹیوب انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں روزانہ ایک ارب گھنٹے کا مواد دیکھا جاتا ہے اور یہ سب جاوید کریم کی ویڈیو''می ایٹ دی زو‘‘ کے اپ لوڈ ہونے کے ساتھ شروع ہوا۔ یوٹیوب کے ماہانہ 2.5 ارب سے زیادہ صارفین ہیں جو اجتماعی طور پر روزانہ ایک ارب گھنٹے سے زیادہ ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ مئی 2019ء تک، ویڈیوز کو پلیٹ فارم پر 500 گھنٹے سے زیادہ مواد فی منٹ کی شرح سے اپ لوڈ کیا جا رہا تھا اور 2021ء تک، مجموعی طور پر تقریباً 14 ارب ویڈیوزیو ٹیوب پر اپ لوڈ ہو چکی تھیں ۔اکتوبر 2006ء میں، یوٹیوب کو گوگل نے 1.65 بلین ڈالرمیں خریدا تھا ۔ گوگل نے صرف اشتہارات سے آمدنی سے یوٹیوب کے کاروباری ماڈل کو بڑھایا، بامعاوضہ مواد جیسے فلمیں اور یوٹیوب کے ذریعہ تیار کردہ خصوصی مواد کی پیشکش تک۔ یوٹیوب نے گوگل کے ایڈسینس پروگرام میں شامل کیا، جس سے یوٹیوب کے صارفین کی آمدن میں اضافہ ہوا اور 2022ء میں یوٹیوب کی سالانہ اشتہاری آمدنی بڑھ کر 29.2 بلین ڈالر ہوگئی جو کہ 2020ء کے مقابلے میں 9 بلین ڈالر زیادہ بنتی ہے۔گوگل نے خریدار ی کے بعد یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مزید بہتر بنایا اور موبائل ایپس ، نیٹ ورک ٹیلی ویژن اور دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ لنک کر کے یوٹیوب کے صارفین میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر ویڈیو کیٹیگریز میں میوزک ویڈیوز، ویڈیو کلپس، خبریں، مختصر اور فیچر فلمیں، گانے، دستاویزی فلمیں، مووی اور ٹیزر ٹریلرز، لائیو سٹریمز، وی لاگز اور بہت کچھ شامل کیا۔ یوٹیوب پلیٹ فارم پر زیادہ تر موادصارفین یعنی یوٹیوبرز کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے۔YouTube نے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اپنی ترقی اور کامیابی کے باوجود یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر بعض اوقات مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے، کاپی رائٹ شدہ مواد کے اشتراک، اپنے صارفین کی رازداری کی خلاف ورزی، سنسرشپ کو فعال کرنے، بچوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈالنے، اور پلیٹ فارم کے متضاد یا غلط نفاذ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔   

آج کا دن

آج کا دن

'' اپالو 16‘‘ کی چاند سے زمین پر واپسی 27 اپریل 1972ء کو امریکہ کی طرف سے خلا میں بھیجا جانے والا خلائی جہاز ''اپالو 16‘‘ چاند سے واپس زمین پر اترا۔ ''اپالو 16‘‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اپالو خلائی پروگرام کا دسویں مشن تھا، جو ''ناسا‘‘ کے زیر انتظام تھا اور چاند پر اترنے والا یہ پانچواں اور اختتامی مشن تھا۔ اس مشن کے دوران خلاء بازوں نے 71گھنٹے چاند پر گزارے اس دوران انہوں نے 20 گھنٹے 14 منٹ پر مشتمل تین بار چاند پر چہل قدمی بھی کی۔یونان پر قبضہ1941ء میں آج کے دن یونان پر اس وقت قبضہ شروع ہوا جب نازی جرمنی نے اپنے اتحادی اٹلی کی مدد کیلئے سلطنت یونان پر حملہ کیا۔ جون 1941ء تک تمام یونان پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ قبضہ جرمنی اور اس کے اتحادی بلغاریہ کو اکتوبر 1944ء میں اتحادیوں کی جانب سے دباؤ پر دستبردار ہونے تک جاری رہا۔ ڈنیپروپیٹروسک دھماکے27اپریل 2012ء میں یوکرین میں ڈنیپرو پیٹروسک کے چار ٹرام سٹیشنز پر دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بم دھماکے دو گھنٹے کے اندر ہوئے۔ چار گھریلو ساختہ بم چار ٹرام اسٹیشنوں کے قریب کوڑے دان میں رکھے گئے تھے۔ پہلا بم اس وقت پھٹا جب ٹرام مسافروں کو لینے کیلئے سست ہو رہی تھی۔ دوسرا بم 30 منٹ بعد پھٹا۔ تیسرا بم دوسرے کے فوراً بعد پھٹا۔ چوتھے دھماکے کے بعد ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان معاہدہ27 اپریل 2018ء کو شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن کے درمیان کوریا کے امن، خوشحالی اور دوبارہ اتحاد کیلئے پانمونجوم اعلامیہ پر کوریائی سربراہی اجلاس جوائنٹ سکیورٹی ایریا میں پیس ہاؤس کی جانب سے دستخط کئے گئے۔ اعلامیے کے مطابق شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی حکومتوں نے کوریائی جنگ اور کوریائی تنازعے کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کیلئے تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔یہ اعلامیہ 6 ستمبر 2018 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔وِلو(willow) جزیرہ کی تباہی 27 اپریل 1978ء کو وِلو (willow) آئی لینڈ، ویسٹ ورجینیا میں پلیزنٹس پاور اسٹیشن پر زیر تعمیر کولنگ ٹاور گر کر تباہ ہو گیا۔اس خوفناک حادثے میں تعمیراتی سائٹ پر موجود 51 کارکن جاں بحق ہوئے۔ اسے امریکی تاریخ کا سب سے مہلک تعمیراتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے دوران، دریائے اوہائیو کے کنارے وادی میں کوئلے سے چلنے والے بہت سے پاور پلانٹس بنائے جا رہے تھے۔ الیگینی پاور سسٹم ولو آئی لینڈ پر ایک اور بڑا پلانٹ بنا رہا تھا، جس میں دو الیکٹرک جنریٹر موجود تھے ۔ 

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

زمانہ قدیم کے انسان نے جب معاشرہ تشکیل دیا تو اسے سب سے پہلے اپنے استعمال کیلئے دو چیزوں کے ذخیرہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی ، ایک پانی اور دوسرا اناج۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی اس روئے زمین پر دھات ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان کو صرف مٹی ہی دستیاب تھی، جسے بروئے کار لاکر انسان نے پانی اور اناج کو ذخیرہ کرنے کیلئے کٹورہ نما برتن ایجاد کیا ہو گا۔ شاید یہ اس روئے پر پہلا برتن ہو گا۔ اس کے بعد کے انسان نے شکار کیلئے جس اوزار کو استعمال کیا وہ پتھر سے بنا نوک دار تیر نما ہتھیار تھا۔ بعد ازاں دھات کی ایجاد کے ساتھ ہی انسان نے دھات سے کلہاڑی ، چھری اور اس طرح کے دیگر اوزار اپنی روزمرہ زندگی کی ضرورت کے مطابق بنانا شروع کئے۔ لکڑی کا استعمال بھی انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جب انسان نے ایندھن کے علاوہ لکڑی کو تعمیراتی استعمال کے ساتھ ساتھ گھریلو ضرورت کی اشیاء بنانے میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ شروع میں لوگ اپنی ضرورت کی اشیا خود بنا لیا کرتے تھے جسے اڑوس پڑوس والے باوقت ضرورت مستعار بھی لے لیا کرتے تھے۔لیکن جب معاشرتی حجم میں اضافہ ہوتا گیا تو انسانی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں تو ایک فرد یا ایک خاندان کیلئے مختلف انواع کی اشیاء ایک ساتھ بنانا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ افراد نے اپنی آسانی کے مطابق یہ کام بانٹ لئے۔ شاید یہی وہ دور تھا جب اس معاشرے میں ہنر کی تقسیم کی بنیاد کے ساتھ ہی انسانی پیشے کے حوالے سے انسانی ذات کی بھی بنیاد پڑی۔دراصل ''ذات‘‘ بنیادی طور پر ایک سماجی رابط کا نام ہے جو اسے اپنے پیشے ، ثقافت ، تہذیب اور وراثت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔یوں لکڑی کے ہنرمند کو '' ترکھان‘‘ ، لوہے کے کاریگر کو '' لوہار‘‘ ، اعلیٰ ہذا القیاس موچی ، جولاہا ، کمہار وغیرہ کی ذاتیں معرض وجود میں آتی چلی گئیں۔ ان پیشوں کی شناخت انیسویں صدی عیسوی میں اس وقت اور بھی نمایاں ہو گئی جب پنجاب کے دیہاتوں میں بالخصوص سکھ شاہی کے دور میں اپنی روزمرہ زندگی کے دوران سرداروں اور وڈیروں کو اپنے لئے کمیوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔جہاں یہ لوگ زراعت کیلئے ہل، درانتی اور دیگر اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے،رنگنے ، جوتیاں بنانے ، لکڑی سے فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء بنانے میں مصروف رہتے تھے اور یوں یہ ''کردار‘‘ ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بن کے رہ گئے۔ ذیل میں ہم ان میں سے چند کرداروں کا فرداً فرداً تعارف کراتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔کمہارکمہار ، مٹی کے برتن بنانے والے کو کہتے ہیں۔ یہ پیشہ انسانی تہذیب کا سب سے پرانا پیشہ یوں ہے کہ انسان نے جب معاشرے کو تشکیل دیا تو سب سے پہلے اس نے مٹی کے برتنوں کو رواج دیا ۔اس کے بعد قدیم ترین تہذیبوں سے انسانی اور جانوروں کی شکل میں کچھ مورتیاں بھی ملی تھیں جو چوبیس ہزار سال قبل مسیح کے دور کی بتائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چودہ ہزار سال قبل مسیح میں میسو پیٹیمیا ( موجودہ عراق )سے مٹی کی بنی اینٹیں بھی ملی ہیں۔ایک وہ دور تھا جب مٹی سے بنے پانی کے کٹورے سے لے کر ہانڈی تک روزمرہ ضرورت کی بیشتر اشیاء کمہاروں کی کاریگری کا پیش خیمہ ہوتی تھیں۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ دھات ، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بننے والے برتنوں کی تیاری ہے۔جس کے باعث اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً اس قدیم فن کے روح رواں دن بدن مالی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کے سبب وہ اپنی نئی نسل کو اس فن سے دور رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور یوں صدیوں پرانا یہ فن اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اب آخری سانس لینے پر مجبور ہو چکا ہے۔لوہارکسی دانشور نے ایک موقع پر کیا خوب کہا تھا کہ ''کاشتکاری ، لوہار کے بغیر ایسے ہی جیسے پانی کے بغیر کاشتکاری‘‘۔ اگر بات پنجاب کی، کی جائے تو پنجاب میں صدیوں سے زراعت کا شعبہ نمایاں رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں آباد کہنا کرتی تھی۔ کاشتکاری چونکہ ایک ''ٹیم ورک‘‘ کا نام ہے اس لئے دیہاتوں میں اس ٹیم کو ''کامے‘‘ یا ''کمی‘‘ کہا جاتا تھا۔ زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی ہوتی تھی اس لئے ان کے بغیر کاشتکاری یا زرعی نظام کا چلنا ناممکن ہوتا تھا۔یہ کامے جو لوہار ،ترکھان ، نائی ، مصلی، جولاہوں وغیرہ پر مشتمل ہوتے تھے، انہیں معاشرے میں نیچ سمجھا جاتا تھا۔لوہار ایسا پیشہ تھا جو زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ زرعی اوزار بنانا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے تھا۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ لوہار ، کمی طبقے کا سب سے معزز کردار سمجھا جاتا تھا ۔ اب وقت بدل گیا ہے کیونکہ بیلوں کی جوڑی کے ساتھ لوہار کے بنے ہلوں کی جگہ اب ٹریکٹر نے لے لی ہے ، لکڑیاں کاٹنے والے آلات کی جگہ الیکٹرک آرے نے لے لی حتی کہ فضل کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک کے تمام مراحل اب جدید مشینوں نے سنبھال لئے ہیں۔ایسے میں اب لوہار کا وجود صرف چھوٹی چھوٹی چھریوں، درانتیوں اور کچھ دیگر اوزاروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کے سبب یہ اپنی اگلی نسل کو اپنا موروثی پیشہ منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔موچیموچی کو عام طور پر ''چمار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں موچی کو دیہی علاقوں بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ موچی کا کام ویسے تو دیہی علاقوں میں جوتیاں بنانا، مرمت کرنا، بیل گاڑیوں اور دیگر جانوروں کے چھانٹے بنانا اور چمڑے کے دوسرے متفرق کام کرنا ہوتا تھا لیکن دیہاتوں میں موچی سے فصلوں کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک اور محنت مزدوری کے دوسرے کام بھی لئے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ موچی کا کام جوتے بنانے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ دیگر پیشوں بالخصوص زرعی پیشے میں مشینی انقلاب نے ہنر مندوں کی ہنر مندی کو مشینوں کے تابع لا کھڑا کیا۔ نتیجتاًجفت ساز (موچی )تیزی سے بے روزگار ہونے لگے اور اب یہ پیشہ صرف جوتا مرمت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ مشینوں پر تیار جوتے باآسانی دستیاب ہو چکے ہیں جس کے سبب ان کی نئی نسل اب تیزی سے اس خاندانی پیشہ سے کنارہ کشی اختیار کرتی جارہی ہے۔ جولاہااب سے لگ بھگ چار، پانچ عشرے پہلے تک ''جولاہا‘‘ جسے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ''پاولی‘‘بھی کہا جاتا ہے ،پنجاب کی ثقافت اور سماجی زندگی کا ایک اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ پنجاب کے ہر گاؤں میں جہاں نائی ، کمہار ، موچی ،تیلی، کمہار اور ترکھان ہوا کرتے تھے وہیں کم از کم ایک یا دو گھر ایسے ضرور ہوا کرتے تھے جن کے ایک کمرے میں کھڈیاں لگا کر کھیس ، کھدر اور دریاں وغیرہ بنائی جا رہی ہوتی تھیں، اور یہ گھر کسی جولاہے کا ہوتا تھا۔ اپنے ہی گاوں کی کپاس سے کھڈیوں پر تیار کردہ کپڑے گاؤں کے باسیوں کا پہناوا اور ان جولاہوں کا ذریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔ جولاہا بڑے مزے میں تھا کہ اچانک حکومت کو '' ترقی‘‘ کی سوجھی اور قرار پایا کی دیسی کپاس کی کاشت ملک کیلئے شجر ممنوعہ ہے، اس کی جگہ امریکن کپاس نے لے لی اور کھڈیوں کی جگہ ٹیکسٹائل ملوں نے۔ جولاہا حیران پریشان کہ اب وہ کرے تو کیا کرے ؟ پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے وہ انہی ملوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔یوں ماضی کا ایک اہم کردار ہمیشہ کیلئے گمنامی کے اندھیروں میں کھو گیا۔صرف یہی نہیں بلکہ ماضی کے ایسے ہی لاتعداد کردار جن میں چوہڑے (خاکروب )، ماچھی ، ماشکی ،مصلی، ملاح، دھوبی ، قصاب ، ترکھان اور ایسے ہی بہت سارے مزید طبقات بھی شامل تھے اب رفتہ رفتہ وقت کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔  

رضیہ سلطان: عظیم تخت نشین خاتون

رضیہ سلطان: عظیم تخت نشین خاتون

ہندوستان کی تاریخ میں عظیم اور جانباز خواتین میں سے ایک رضیہ سلطان حیرت انگیز بہادری اور بے مثال حولہ سے بھرپور نادر الوجود شخصیت کی حامل خاتون سلطان، پردہ نشین معاشرہ کا نایاب ہیرا تھیں۔ جس نے تخت سلطانی پر رونق افروز ہو کر اس عہد میں مرد سلطان کے ہم پلہ اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا اور تقریباً 785 سال پہلے اس سماج میں جس میں عورت کا پردے میں رہنا مستحسن سمجھا جاتا تھا، یہ ثابت کردیا کہ جب اس سماج کی بیٹی پر سلطان ہند کی ذمہ داری آئی تو اس نے سلطنت کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا اور پورے طبقۂ نسواں کیلئے اس کی شخصیت کشش کا سرچشمہ بنی۔ رضیہ سلطان کی شخصیت اور کارناموں سے تمام ہندوستانی خواتین کو تحریک ملتی ہے۔ بہادری اور حوصلہ کی علامت رضیہ سلطانہ جب آلات حرب سے آراستہ ہو کر گھوڑے پر سوار جنگ کیلئے نکلتی ہوں گی تو وہ منظر بہت ہی دلکش ہوتا ہوگا۔رضیہ سلطان نے ہندوستان پر تین سال چھ مہینے اور چھ دن حکومت کی اس مختصر عرصے میں اس نے اپنی لیاقت اور عظمت کے جوہر، دوست اور دشمن دونوں سے تسلیم کرا لئے۔ تخت دہلی پر رضیہ کے فائز ہونے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل امور پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سلطنت دہلی کی تاریخ میں دہلی کے عوام نے پہلی بار کسی کو اپنی مرضی کے مطابق تخت پر بٹھایا تھا۔ اس کے بعد سے دہلی کے عوام کی حمایت رضیہ کے استحکام کا خاص ذریعہ بنی رہی۔ جب تک وہ دہلی سے باہر نہیں نکلی اس وقت تک کوئی بھی بغاوت اس کے خلاف کامیاب نہ ہو سکی اور نہ محل کے اندر کوئی انقلاب برپا ہوا۔ اس نے اپنی تخت نشینی کو ایک معاہدے کی شکل میں یہ کہہ کر دے دی کہ اگر وہ عوام کے توقعات پر پوری نہ اتریں تو عوام کو حق ہوگا کہ وہ اسے تخت سے برطرف کر دیں۔ اس واقعہ سے التمش کا انتخاب صحیح ثابت ہوتا ہے۔دہلی کی فوج اور افسران نے رضیہ کو تخت پر بٹھایا تھا چنانچہ صوبائی گورنر جو عام طور سے ترک حکمراں طبقے کے ایک طاقتور جزو ہوا کرتے تھے، فطری طور پر خود کو ذلیل اور نظر انداز کردہ محسوس کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے آغاز ہی سے رضیہ کو ان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رضیہ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ صورتحال کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کر سکتی تھی۔ اقتدار پر قابض ہونے کیلئے اس کا پہلا قدم ہی اس کی سیاسی شخصیت کی دلیل ہے۔ رضیہ کے اندر وہ تمام قابل ذکر خوبیاں موجود تھیں جن کا بادشاہوں کے اندر پایا جانا ضروری ہے، لیکن اس کا عورت ہونا اس کی سب سے بڑی دشواری تھی۔ رضیہ نے تخت نشین ہونے کے بعد تدبر سے کام لیا۔ بدایو، ملتان، جھانسی اور لاہور کے اقطاع دار، جو اس کے مخالف ہو گئے تھے ان کے درمیان میں ایسا اختلاف پیدا کیا کہ وہ آپس میں ہی لڑنے جھگڑنے لگے اور ان کی یکجہتی ختم ہو گئی۔ رضیہ کی اس ہوشمندانہ تدبیر سے اس کا وقار بڑھ گیا۔ اس نے حکومت کے نظام کی نئی تشکیل کرکے خواجہ مہذب الدین کو وزیر بنایا اور نئے نئے اقطاع دار مقرر کئے۔ اس کے بعد شاہی دربار کے افسران کی تقرری ہوئی۔ملک جمال الدین یاقوت کو امیر آخور (گھوڑے کے اصطبل کا داروغہ) مقرر کیا۔ ترکوں نے جمال الدین کی تقرری کی مخالفت کی کیوں کہ وہ ایک حبشی غلام تھا اور اس سے پہلے اس عہدے پر صرف ترک افسران ہی مقرر ہوتے تھے۔وفادار اور قابل اعتماد انتظامیہ کا عملہ مقرر کرنے کے بعد رضیہ نے معاملات پر براہ راست کنٹرول رکھنے کیلئے توجہ کی۔ وہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی، جبکہ امرا رضیہ کی مخالفت کر رہے تھے، کیونکہ وہ ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمراں کو تخت پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ رضیہ اگر پردہ میں رہتی تو ایسا ممکن نہیں تھا، جس تخت پر بیٹھتی تھی درباریوں اور عوام کے حصے سے ایک پردہ کے ذریعے علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ اس طرح کا بھی انتظام تھا کہ محافظ خواتین اس کے پاس کھڑی رہتیں اور ان لوگوں کے بعد رضیہ کے خونی رشتہ دار ہوتے۔ انتظام غیر مناسب ثابت ہو رہا تھا۔ لہٰذا اس نے زنانہ لباس ترک کردیا اور قباو کلاہ پہن کر عوام کے سامنے حاضر ہوئی۔ کھلے بند گھوڑے پر سواری کرتی اور دربار میں موجود رہ کر حکومت کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتی۔ بہادر اور دلیر ہونے کے علاوہ، وہ ایک کامیاب سپاہی اور جنرل بھی تھیں۔ سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑ میں مشاق تھی۔ اس کی وجہ سے ترکوں کی سلطنت کا وقار ہندوستان میں بڑھ گیا۔قطب الدین ایبک سے لے کر التتمش تک تمام سلاطین اپنے امراء کے سامنے تخت پر بیٹھنے سے جھجھکتے تھے، یعنی رضیہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی التتمش کے خاندان کے اور افراد اپنی شخصیت اور کردار کے لحاظ سے کمزور تھے، لیکن یہ صرف تنہا رضیہ ہی تھی جو اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنا پر سلطنت دہلی کی سیاست پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی رہتیں۔ طبقات ناصری کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ جلیل القدر، عاقل، عادل، کریم، عالم نواز، عدل گستر، رعیت پرور اور لشکر کش حکمراں تھیں۔

آج کا دن

آج کا دن

گوانتانامو بے کی فائلزگوانتانامو بے کی فائلز 24 اپریل2011ء میں دنیا کے سامنے آئیں اور کئی ایسے انکشافات ہوئے جنہوں نے پوری دنیا کو پریشانی میں مبتلا ء کر دیا۔ 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا گیا اور 2002ء میں گوانتانامو بے حراستی کیمپ قائم کیا گیا۔ دستاویزات میں قیدیوں کے بارے میں درجہ بندی کے جائزے اور انٹرویوز شامل تھے، جنہیں پینٹاگون کی مشترکہ ٹاسک فورس گوانتاناموبے نے لکھا تھا اور اس کا صدر دفتر گوانتانامو بے نیول بیس میں تھا۔ دستاویزات پر ''خفیہ‘‘ اور ''NOFORN‘‘ یعنی ایسی معلومات جو دوسرے ممالک کے نمائندوں کے ساتھ شیئر نہیں کی جاتیں کا نشان لگایا گیا تھا۔دستاویزات میں درج تھا کہ کس طرح سیکڑوں افراد کو بغیر کسی جرم کے کئی سال قید میںرکھا گیا۔برلن معاہدہ24اپریل1926ء کو جرمنی اور سوویت یونین کے درمیان برلن میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے مطابق دونوں ریاستیں غیر جانبداری اور عدم جارحیت کی پابند ہوں گی۔ اس معاہدے کے تحت جرمنی اور سوویت یونین نے پانچ سال کیلئے تیسرے فریق کی طرف سے ایک دوسرے پر حملے کی صورت میں غیر جانبداری کا عہد کیا۔ اس معاہدے نے جرمن اور سوویت معاہدے ''ریپالو 1922ء‘‘ کی توثیق کی۔29 جون 1926 ء کو برلن میں اس معاہدے کی توثیق کا تبادلہ ہوا اور یہ اسی دن سے نافذ العمل ہوا۔بشپس گیٹ دھماکہبشپس گیٹ بم دھماکہ 24 اپریل 1993ء کو ہوا، جب آئرش ریپبلکن آرمی نے لندن شہر کی ایک بڑی سڑک، بشپس گیٹ پر ایک خوفناک ٹرک بم دھماکہ کیا۔ ٹیلی فون پر دھمکیاں تقریباً ایک گھنٹہ پہلے بھیجی گئی تھیں جس کی وجہ سے حفاظتی اقدامات اٹھا لئے گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ دھماکے کی وجہ سے ہلاکتیں کم ہوئیں۔ اس دھماکے میں ایک نیوز فوٹوگرافر ہلاک اور 44 افراد زخمی ہوئے ۔ دھماکے نے قریبی چرچ کو تباہ کر دیا اور لیورپول سٹریٹ سٹیشن اور نیٹ ویسٹ ٹاور بھی تباہ ہو گئے۔دھماکے کے بعد بہت سی کمپنیوں نے حملوں یا اسی طرح کی آفات کی صورت میں ڈیزاسٹر ریکوری پلان متعارف کرایا۔ نقصان کی مرمت پر 350 ملین پاؤنڈز خرچ ہوئے۔ 1994ء میں جاسوسوں کا ماننا تھاکہ وہ ان افراد کی شناخت سے واقف ہیں جنہوں نے یہ حملہ کیا لیکن ان کی گرفتاری کیلئے ان کے پاس ثبوت موجود نہیں تھے۔وول ورتھ بلڈنگوول ورتھ بلڈنگ امریکہ میں ابتدائی طور پر بنائی جانے والی فلک بوس عمارتوں میں سے تھی جسے کاس گلبرٹ نے ڈیزائن کیا تھا ۔ یہ 1913ء سے 1930ء تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی، جس کی اونچائی 792 فٹ (241 میٹر) تھی۔ اس کی تعمیر کے ایک صدی سے زیادہ کے بعد تک یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی 100 بلند ترین عمارتوں میں سے ایک رہی۔  

23اپریل:کتابوں کا عالمی دن کتاب سے دوستی کیجئے!

23اپریل:کتابوں کا عالمی دن کتاب سے دوستی کیجئے!

کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے مگر افسوس کہ آج کے جدید دورمیں کتاب کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے۔ اس موبائل فون کی بدولت ہم اپنے اچھے دوست اور تنہائی کے بہترین ساتھی سے دور ہو رہے ہیں۔کتاب ہماری اخلاقی و معاشرتی تربیت کرتی ہے مگر ہماری آج کی نوجوان نسل کتاب سے فائدہ اٹھانے، اس کو پڑھ کر سیکھنے کی بجائے موبائل کی رنگینیوں میں کھوگئی ہے۔ نئی نسل کو کتاب سے دوستی اور پڑھنے کی طرف راغب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ''ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کے پاس اب کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا، حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں کتابوں نے ہی مرکزی کردار اد ا کیا ہے۔ دنیا جب لکھنے کے فن سے آشنا ہوئی تو شروع میں درختوں کے پتوں،چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیاگیا،جیسے ہی انسانی تہذیب نے ترقی کی ویسے ہی کتاب نے بھی ارتقاء کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں،درختوں کی چھال سے لے کر پرنٹنگ پریس اور پھر ای بکس تک کا سفرجاری ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ''جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے‘‘ بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی ہے ۔ مجموعی طور پر مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی کتاب سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں، اس کے مختصر اسباب، غربت، بے روزگاری کی وجہ سے عام پاکستانی اسی چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عالم کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے،دوسری طرف صاحب علم بے روزگار ہیں اور علم کی سرپرستی حکومت نہیں کرتی، پھر انفرادی طور پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے۔ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ ہمارے ہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے والے کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسے خبطی،کتابی کیڑا، پاگل کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے بھی کتاب بینی میں کمی آئی ہے ۔ پھر جدید طریقوں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے۔ اگر موضوع اچھا ہو تو کتاب آج بھی خریدی اور پڑھی جاتی ہے پاکستان میں زیادہ ترکتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں اور ان کی شاعری بھی اس قابل نہیں ہوتی اس لیے بھی رجحان کم ہے۔ پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی دیگر ممالک سے کم ہے اور پھر فلسفے، تاریخ، نفسیات اور سائنس پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا حل دیگر زبانوں کی کتابوں کے تراجم کی صورت میں نکالا جانا چاہیے۔ پاکستان میں کتاب سے دوری کے اسباب میں لائبریری کی کمی بنیادی وجہ میں سے ایک ہے ۔پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث کتابوں کے خریداروں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔پاکستان میں کتاب کا فروغ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا ، یورپ میں کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ،یہاں پر لوگ دوران سفر،انتظار گاہ میں اور فارغ اوقات میں کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔پاکستان میں اوّل تو کتابیں لکھنا مشکل ہے، اگر لکھی بھی جائیں تو ان کو پبلش کرنا مشکل ترین مرحلہ ہے۔اگر آپ کتاب لکھ کر چھپوالیں تو اسے مفت میں مانگا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ تھوڑے پیسے خرچ کر کے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے۔ 80فیصد لکھاری اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹ رہے ہیں، پاکستان میں صرف کتابیں لکھ کر گزر اوقات ممکن نہیں ہے۔کسی بھی معاشرے ،قوم ،ملک کی ترقی کا دارومدار علم پر ہوتا ہے اور علم کا کتاب پر ،تاریخ اس کی گواہ ہے ،یونان اور اس کے بعد مسلمانوں کا عروج جب دنیا جہاں سے کتابیںمسلمان خرید رہے تھے اور ان کو ترجمہ کر رہے تھے ، آج آپ دیکھ لیں مغرب میں کتاب دوستی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج مغرب ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ 30 برسوں سے کتاب بینی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں42فیصد کتابیں مذہبی، 32 فیصد عام معلومات یا جنرل نالج، 36 فیصد فکشن اور 07 فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ کتابوں سے دوری کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے اسلامی، سیاسی، مذہبی کلچر اور ادب سے بھی غیر مانوس ہونے لگی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میںہر سال23 اپریل کو کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی شروعات 1616ء میں سپین سے ہوئی، 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 23 اپریل کو ''ورلڈ بک ڈے‘‘ قرار دے دیا۔ ہم ایسے دن منانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جن سے قوم کا بھلا ہوتا ہو۔ کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ غم خوار ومددگار ثابت ہوتی ہے۔کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہے، جب انسان گردشِ ایام کے ہجوم میں الجھ کر مایوس ہوکر اندھیروں میں کہیں گم ہوجاتا ہے، زندگی کی خوبصورت نعمتوں سے فیض یاب نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتاب ہی اندھیروں میں روشنی لے کر امید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میںآ جاتا ہے اور اس روشنی میں خود کو سمجھنے لگتا ہے۔کتب بینی کیلئے ایسے اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس سے گھر کے بچوں سمیت ہرفرد کو مطالعہ کرنے میں دلچسپی ہو کتاب سے دوستی ہو۔ ماں باپ کو خود مطالعہ کرکے مثال قائم کرنی چاہیے۔ اپنے حلقہ احباب میں اچھی کتب کا ذکر مطالعہ ، تبصرہ ، تجزیہ کر کے شوق کو اُبھارنا چاہیے۔ہمارے اشاعتی اداروں کو اب ایک بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ معیاری کتب کے ساتھ ساتھ سستی کتابوں کو شائع کریں ، اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسل مایوس ہو کر دوبارہ گلوبل ویلج کی چکا چوند میں کہیں گم ہو جائے گی اور اسے ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔

دنیا کی پہلی خاتون ماہر فلکیات

دنیا کی پہلی خاتون ماہر فلکیات

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے شعری مصرعے ''ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے جرمن نژاد برطانوی خاتون کیرولین ہرشل نے دور بین کے شیشے صاف کرتے کرتے خلائوں کا مشاہدہ شروع کیاتو اس حیرت انگیز انوکھی دنیا کے کئی رازوںپر سے پردہ اٹھایا۔ ان کے مشاہدات آج بھی ماہر فلکیات کیلئے مشعل راہ ہیں۔ کیرولین ہرشل دنیا کی پہلی ماہر فلکیات خاتون ہیں۔ کیرولین ہرشل 16 مارچ 1750 کو ہینوور، جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ کیرولین ہرشل کے والدآئزک مقبول موسیقار تھے۔کیرولین پانچ بہن بھائی تھے جو کہ ریاضی، فرانسیسی اور موسیقی کی کا علم حاصل کر رہے تھے جبکہ کیرولین کی والدہ نے لڑکی ہونے کی وجہ سے اسے تعلیم دینا ضروری نہ سمجھی اور گھر کے کام کاج میں لگا دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کی طرح باقی بہن بھائیوں کے کام کرنے لگی۔ دس سال کی عمر میں کیرولین بیمار ہوگئی اس مہلک بیماری نے اس کی نشونما کو مستقبل طور پر روک دیا۔بیماری کے باعث ہرشل کی شادی نہ ہوسکی اور 22 سال تک اپنے والدین کے گھر ہی گھریلو ملازمہ کی طرح زندگی گزارتی رہی۔ ان دنوں ان کا بھائی ولیم تعلیم حاصل کرنے اور روز گار کے سلسلے میں انگلینڈ کیلئے روانہ ہوا تو کیرولین کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ ولیم موسیقی کا ماہر تھا اس لئے و لیم نے اپنی بہن ہرشل کیرولین کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور اس طرح ہرشل ایک ماہرپیشہ ور گائیکہ بن گئی ۔ولیم فلکیات کے علم کا بھی شوق رکھتا تھا۔اس نے فلکیات کے علم میں دلچسپی کی وجہ سے ایک طاقتور دور بین بنانا شروع کی۔ یہ ایک ایسی دوربین تھی جس سے وہ خلا میں گہرائی تک دیکھ سکتا تھا۔ ہرشل کیرولین بھی گھرکے کام کاج کے ساتھ ساتھ بھائی ولیم کی ٹیلی سکوپ بنانے میں مدد کرنے لگی۔ اس دوران ہرشل کو بھی خلائوں میں جھانکنے کا شوق پیدا ہوا اورزیاد ہ سے زیادہ وقت اپنے بھائی کے ساتھ گزارنا شروع کردیا اور ولیم کے فلکیاتی علم میں مدد کرنا شروع کر دی۔ ولیم نے ٹیلی سکوپ بنانے میں اتنی شہرت حاصل کی کہ اس نے موسیقار کی نوکری چھوڑ دی اور باقاعدہ طورپر دور بین بنانے اور فلکیات پر تحقیق شروع کر دی۔ ولیم نے 1781ء میں سیارہ یورینس دریافت کیا اور اس کے بعد اسے کنگ جارج III کے درباری ماہر فلکیات کا خطاب دیا گیا اور حکومت کی طرف سے باقاعدہ تنخواہ کا اعلان بھی کیاگیا۔ اکثر اوقات ولیم اپنے تیار کردہ ٹیلی سکوپ کے ذریعے سیڑھی پر کھڑے ہو کر خلاء کا مشاہدہ کرتا اور مشاہدے کے دوران جو نظر آتا وہ کیرولین ہرشل کو بتاتا اور وہ اسے قلمبند کرتی جاتی ۔ اس طرح ہرشل بھی فلکیات کے مشاہدے میں گہری دلچسپی لینے لگی۔ ولیم نے آسمان کا سروے شروع کیا۔ اپنی دوربین پر ایک سیڑھی پر کھڑے ہو کر، اس نے اپنے مشاہدات کیرولین کو بتا ئے۔ آخر کار، انہوں نے 2,500 نئے نیبولا اور ستاروں کے جھرمٹ کی ایک فہرست مرتب کی، جسے ''نیو جنرل کیٹلاگ‘‘ (NGC)کا نام دیا گیا۔ خلائوں میں بہت سی غیر تاریک اشیاء کی شناخت ان کے ''این جی سی نمبر‘‘ سے ہوتی ہے۔ کیرولین اکثر اپنے طور پر آسمان کا مطالعہ کرنے کیلئے ایک چھوٹا نیوٹنین سویپر استعمال کرتی تھی۔ 26 فروری 1783ء کو کیرولین نے ایک کھلا جھرمٹ دریافت کیا جسے آج ''این جی سی 2360‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیرولین ہرشل نے تین نئے نیبولا (دھندلے بادل جہاں ستارے بنتے ہیں) دریافت کئے۔یکم اگست 1786ء کو، کیرولین نے رات کے وقت آسمان سے آہستہ آہستہ سفر کرنے والی ایک چیز (دم دار ستارے )حرکت کرتے ہوئے دیکھی ۔ اس نے اگلی رات دوبارہ اس کا مشاہدہ کیا اور فوری طور پر دیگر ماہرین فلکیات کو خط کے ذریعے دم دار ستارے کی دریافت کے بارے آگاہ کیا تا کہ وہ بھی ان کے بتائے ہوئے خطوط پر خلاء کا مشاہدہ کرتے ہوئے مطالعہ کریں اوردم دار ستارے کو دیکھیں۔ دم دار ستارے کی دریافت کے بعد ہرشل کیرولین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ماہر فلکیات تسلیم کرلیا گیا۔ 1787ء میں، کنگ جارج III نے اسے ولیم کے اسسٹنٹ کے طور پر ملازم رکھا۔ اس طرح سائنسی خدمات کیلئے تنخواہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون ماہر فلکیات بن گئیں۔ 1786ء اور 1797ء کے درمیان اس نے آٹھ دم دام ستارے دریافت کیے۔ کیرولین نے اپنی اور ولیم کی ہر دریافت کی فہرست بنائی۔ کیرولین ہرشل کے شائع کردہ فلکیاتی کیٹلاگ میں سے دو آج بھی استعمال میں ہیں۔ ان کی چھیاسیویں سالگرہ پر ''کنگ آف پرشیا کے گولڈ میڈل آف سائنس‘‘ سے نوازا گیا۔ 1822ء میں ولیم کی موت کے بعد، کیرولین جرمنی واپس آگئیں اور نیبولا کے اپنے کیٹلاگ پر کام جاری رکھا۔ اس نے رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کا گولڈ میڈل حاصل کیا اور رائل سوسائٹی میں اعزازی رکنیت حاصل کی۔کیرولین ہرشل کا انتقال9 جنوری 1848ء کو ہوا۔ اس نے اپنے مقبرے کے پتھر پر یہ نوشتہ لکھا، جس میں لکھا ہے: "The eyes of her who is glorified here below turned to the starry heavens."  

آج کا دن

آج کا دن

ردھم کلب کی آگ''ردھم کلب کی آگ‘‘ یا ''نچیز ڈانس ہال ہولوکاسٹ‘‘ 23 اپریل 1940ء کی رات نچیز، مسیسیپی کے ایک ڈانس ہال میں لگنے والی آگ تھی، جس میں 209 افراد ہلاک اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔ سیکڑوں افراد عمارت کے اندر پھنس گئے۔ اس وقت، یہ ملککی تاریخ میں عمارت میں لگنے والی دوسری مہلک ترین آگ تھی۔ اسے امریکی تاریخ کی اب تک کی چوتھی سب سے مہلک کلب فائر کے طور پر درجہ دیا گیا ہے۔یوٹیوب پر پہلی ویڈیو جاری23اپریل 2005ء کو یوٹیوب پر پہلی ویڈیو ''می ایٹ دی ذو‘‘ اپ لوڈ کی گئی۔ 19 سیکنڈ کی ویڈیو میں یوٹیوب کے شریک بانی جاوید کریم کو دکھایا گیا ہے، جن کی عمر اس وقت 25 سال تھی۔ جاوید کریم کیلیفورنیا کے سان ڈیاگو چڑیا گھر میں دو ہاتھیوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ اسے کریم کے کیمرے پر اس کے ہائی سکول کے دوست یاکوف لیپٹسکی نے ریکارڈ کیا تھا۔ اسے ویب سائٹ کی تاریخ میں سب سے اہم ویڈیو کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ کئی مواقع پر جاوید کریم نے ویڈیو کو یوٹیوب کے کاروباری اقدامات پر تنقید کرنے کیلئے استعمال کیا ہے۔''سویوز 1‘‘ کی لانچنگ1967ء میں آج کے روز سوویت خلائی پروگرام ''سویوز 1‘‘ Soyuz-1)) کو لانچ کیا گیا۔ خلائی جہاز کرنل ولادیمیر کوماروف کو لے کر خلاء میں روانہ ہوا۔ ''سویوز 1‘‘ سویوز خلائی جہاز کی پہلی کریو فلائٹ تھی۔ پرواز تکنیکی مسائل سے دوچار ہوئی اور کوماروف اس وقت ہلاک ہو گیا جب ڈیسنٹ ماڈیول پیرا شوٹ کی خرابی کی وجہ سے زمین سے ٹکرا گیا۔ یہ خلائی پرواز کی تاریخ میں پرواز کے دوران ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔اصل مشن کا منصوبہ پیچیدہ تھا، جس میں ''سویوز2‘‘ کے ساتھ جڑنا اور زمین پر واپس آنے سے پہلے عملے کے ارکان کا تبادلہ شامل تھا۔ ویتنام جنگ : طلباء کا مظاہرہ1968ء میں ویتنام کی جنگ کے دوران آج کے روز نیو یارک شہر کی کولمبیا یونیورسٹی میں طلباء مظاہرین نے انتظامیہ کی عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور یونیورسٹی کو بند کر دیا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں مظاہروں کا سلسلہ اس سال دنیا بھر میں ہونے والے مختلف طلباء کے مظاہروں میں سے ایک تھا۔ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب طلباء نے یونیورسٹی اور ویتنام جنگ میں ریاستہائے متحدہ کی شمولیت کی حمایت کرنے والے ادارہ جاتی آلات کے درمیان روابط دریافت کیے اور ساتھ ہی قریبی مارننگ سائیڈ پارک میں تعمیر کیے جانے والے مبینہ طور پر الگ کیے گئے جمنازیم پر بھی ان کی تشویش پائی گئی۔ . مظاہروں کے نتیجے میں یونیورسٹی کی کئی عمارتوں پر طلباء کا قبضہ ہو گیا اور نیو یارک سٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے ہٹا دیا گیا۔ 

یادرفتگاں: معین اختر:ایک ہمہ جہت شخصیت

یادرفتگاں: معین اختر:ایک ہمہ جہت شخصیت

کچھ فنکار ایسے ہوتے ہیں جن کے فن کی ایک نہیں بلکہ کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ قدرت کی طرف سے انہیں جو صلاحیتیں عطا ہوتی ہیں وہ عمر بھر ان کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ یوں وہ لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں اورلوگ ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ معین اختر کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ٹی وی، ریڈیو، سٹیج اور فلم کے ایک مزاحیہ اداکار اور ایک باکمال کمپیئر تھے ۔ اس کے علاوہ وہ بطور فلم ہدایتکار، پروڈیوسر، گلوکار اور مصنف بھی اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔ ان کا کیرئر45برس سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے معین اختر 24دسمبر 1950ء کو پیدا ہوئے اوران کا تعلق ایک پڑھی لکھی سادہ فیملی سے تھا،ان کی فیملی کے زیادہ تر لوگ ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ سکول کے ایک ڈرامہ میں کام کر کے انہوں نے اپنے فنکارانہ کریئر کا آغاز کیا ۔ٹیلی ویژن پر ان کی پہلی انٹری 6 ستمبر 1966ء کو ہوئی۔انہوں نے سرکاری ٹی وی پر ایک ورائٹی شو میں شرکت کی۔ یہ ورائٹی شو پہلا یوم دفاع منانے کیلئے منعقد کیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے کئی ٹی وی ڈراموں، سٹیج شوز میں کام کرنے کے بعد انور مقصود اور بشریٰ انصاری کے ساتھ ٹیم بنا کر کئی معیاری پروگرام پیش کئے۔ انہوں نے کئی زبانوں میں مزاحیہ اداکاری کی ہے جن میں انگریزی، سندھی، پنجابی، میمن، پشتو، گجراتی اور بنگالی کے علاوہ کئی دیگر زبانیں شامل ہیں اور اردو میں ان کا کام انہیں بچے بڑے، ہر عمر کے لوگوں میں یکساں مقبول بناتا ہے۔وہ ایک بہترین اداکار بھی تھے۔ ٹی وی ڈراموں کے علاوہ انہوں نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا۔ انہیں ''روزی‘‘ کا کردار ادا کرنے پر بین الاقوامی شہرت ملی۔ یہ کردار انہوں نے ڈرامہ سیریل میں نبھایا تھا جس سے انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔اس ڈرامے میں انہوں نے ایک خاتون ٹی وی آرٹسٹ کا کردار ادا کیا۔ یہ ڈرامہ ہالی وڈ کی فلم ''Tootsie‘‘ سے متاثر ہو کر تیار کی گئی تھی جس کا مرکزی کردار ہالی وڈاداکار ڈسٹن ہوفمین (Dustin Hoffman)نے ادا کیا تھا۔ روزی کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ان کے یادگار کرداروں میں سے ایک تھا۔ ان کی دیگر مقبول ٹی وی سیریلز میں ''ڈالر مین‘‘، ''مکان نمبر 47‘‘، ''ہاف پلیٹ‘‘، ''فیملی 93‘‘، ''عید ٹرین‘‘، ''بندر روڈ سے کیماڑی‘‘، ''سچ مچ‘‘ اور ''آنگن ٹیڑھا‘‘ شامل ہیں۔ معین تھیٹر کے بانیوں میں سے ایک تھے اور انہوں نے بیشمار بامقصد ڈراموں میں ضیا محی الدین جیسی شخصیت کے ساتھ ڈرامے کئے ہیں ۔انہوں نے تھیڑ پر شیکسپیئر کے ڈرامے ''مرچنٹ آف وینس‘‘ میں شائی لوک کا کردار ادا کیا۔ہمسایہ ملک بھارت میں ان کے سٹیج ڈرامے ''بکرا قسطوں پر‘‘ اور ''بڈھا گھر پر ہے‘‘ بہت مقبول ہوئے تھے۔وہ ایک باکمال کمپیئر تھے اور ان کے ٹی وی پروگرامز بہت مقبول تھے۔ انہوں نے مشہور لوگوں کے بڑے زبردست انٹرویو کئے۔ ان میں پاکستان کے علاوہ بھارت کی معروف شخصیات بھی شامل ہیں۔ ان کے مداحین میں بالی وڈ کے لیجنڈ دلیپ کمار بھی شامل تھے۔ معین اختر1995ء میں شروع ہونے والے ٹی وی ٹاک شو'' لوزٹاک‘‘ میں 400سے زیادہ بار مختلف کرداروں میں نظر آئے۔ اس میں انور مقصود انٹرویو کرتے تھے اور معین اختر بڑی اہم شخصیات کاروپ دھارتے۔ ان میں لیجنڈ بھارتی اداکار دلیپ کمار، لتا منگیشکر اور مادھوری ڈکشٹ بھی شامل ہیں۔ معین اختر کا بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی کے روپ میں انور مقصود نے انٹرویو کیا اور ان کی کارکردگی کو انتہائی پسند کیا گیا۔ پھر وہ جاوید میاں داد کے روپ میں بھی سامنے آئے۔ طرح طرح کے کردار ادا کرنے میں انہیں خاصی مہارت حاصل تھی۔''لوزٹاک‘‘ ایک ایسا شو تھا جسے ہر شخص نے پسند کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معین اختر اور انور مقصود نے اس بات کی طرف بھر پور توجہ دی کہ ناظرین ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہیں۔ معین اختر کبھی کلرک بن کر سامنے آتے اور کبھی کسٹم آفیسر کے روپ میں ناظرین کو حیرت زدہ کر دیتے۔ وہ جس روپ میں بھی سامنے آتے تھے، ان کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ ناظرین انہیں دیکھ کر اس بات پر سوفیصد یقین کر لیں کہ انہوں نے کوئی روپ نہیں دھارا بلکہ وہ ایک حقیقت ہیں۔ معین اختر کچھ دیر کیلئے گیم شو'' کیا آپ بنیں گے کروڑ پتی‘‘ میں میزبان کے طور پر سامنے آئے۔ ان کے مقبول ترین ٹی وی شوز میں ''سٹوڈیو ڈھائی‘‘ اور سٹوڈیو پونے تین‘‘ شامل ہیں۔ معین اختر کی خوبی یہ تھی کہ ان کا مزاح فحاشی سے بالکل پاک تھا۔ یہ مزاح بہت اعلیٰ معیار کا تھا۔ معین اختر نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اپنے مداحین کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مزاحیہ اداکاری آسان کام نہیں۔ اگر آپ کی مزاحیہ اداکاری سے لوگوں کی دل آزاری ہو اور وہ آپ کو داد دینے کی بجائے کوسنا شروع کر دیں تو یہ بات اس فنکار کیلئے شرم ناک ہو گی۔ان کی حس مزاح بہت متحرک تھی اور اس کی کئی جہتیں تھیں۔ انہیں مختلف اداکاروں کی نقل اتارنے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے ہالی وڈ کے مشہور اداکار انتھونی کوئن کی نقل اتاری اور پھر سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی تقریریں انہی کے انداز میں سنائیں۔معین اختر نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا جن میں ''کالے چور‘‘ اور '' راز‘‘ شامل ہیں۔ معین اختر کئی بھارتی فنکاروں کے پروگراموں میں کمپیئر کی حیثیت سے سامنے آئے اور ان کے منفرد انداز کو ہمیشہ سراہا گیا۔ دلیپ کمار، متھن چکرورتی، گوندا اور قادر خان ان کے بہت بڑے مداح تھے۔ معین اختر نے بڑے کامیاب شوز کیے اور بڑی اہم شخصیات کو مدعو کیا۔ ان میں اردن کے شاہ حسین، گیمبیا کے وزیراعظم وائودی الجوزا، صدر ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل پرویز مشرف، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بالی وڈ لیجنڈ دلیپ کمار شامل ہیں۔ ان کے گیتوں اور البمز میں'' چھوڑ کے جانے والے، چوٹ جگر پہ کھائی، رو رو کے دے رہا ہے، تیرا دل بھی یوں ہی تڑپے، درد ہی صرف دل کو ملا، دل رو رہا ہے اور ہوتے ہیں بے وفا‘‘ شامل ہیں۔1972ء میں آپ کی شادی اپنی ایک کزن سے ہوئی، ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ انہوں نے حج کی سعادت بھی حاصل کر رکھی تھی۔ انہیں ان کے کام کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے ''پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ اور ''ستارہ امتیاز‘‘ سمیت متعددایوارڈ بھی دیئے گئے۔ 22اپریل 2011ء کو معین اختر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ معین اختر بین الاقوامی شہرت کے حامل فنکارتھے اور پوری دنیا میں ان کے مداح آج بھی موجودہیں۔  

وہ اشیاء جنہیں مستقل ساتھ رکھنے سے گریز کریں

وہ اشیاء جنہیں مستقل ساتھ رکھنے سے گریز کریں

بہت سی چیزیں ہم اپنے ساتھ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں جو ہر وقت ہمارے پرس یا جیب میں رہتی ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمیں وہ لازمی اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں کو اپنے ساتھ رکھنا اکثر خطرناک بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے ان چیزوں کو اپنے ساتھ رکھنے سے گریز کریں۔ وہ چیزیں کونسی ہیں، آئیے ان کے بارے میں بتاتے ہیں۔ پاس ورڈاگر آپ کو پاس ورڈ یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے تو یقیناً آپ انہیں لکھ کر اپنے پاس رکھتے ہوں گے۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے پاس ورڈز اس لیے ان کے بیگ میں محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنا بیگ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اپنا بیگ یا پرس بہت آسانی سے کھو سکتے ہیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ کوشش تو یہ کیجیے کہ اپنے پاس ورڈز یاد رکھیں،اگر ایسا نہیں کرسکتے توسمارٹ فون ایپس اس حوالے سے آپ کی بہت مدد کرسکتی ہیں۔ڈیبٹ کارڈکریڈٹ کارڈ کی طرح سکیورٹی نہ ہونے کی صورت میں ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے آپ کو چیزیں خریدتے وقت بہت دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے آپ اپنے خود کے پیسے خرچ کرتے ہیں اور اگر ڈیبٹ کارڈ چوری ہوجائے تو آپ کا فوری طور پر نقصان ہو سکتا ہے ۔ کارڈ کی گمشدگی کی صورت میں فوری طور پر ادارے کو مطلع کرکے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔لیپ ٹاپلیپ ٹاپ شاید آپ کے بیگ میں سب سے زیادہ وزنی شے ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق لیپ ٹاپ کا وزن آپ کے کندھے میں تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گردن، ریڑھ کی ہڈی اور کاندھے پر چوٹ بھی آسکتی ہے۔ اگر آپ کو اپنا لیپ ٹاپ کہیں لے جانا ہے تو کوشش کیجیے کہ ایسا بیگ استعمال کریں جس کا وزن بیگ خود اٹھاسکے اور آپ کو اسے صرف چلانا ہو۔بغیر لاک موبائل فونبہت سے لوگ اپنے موبائل کو ایک سادہ سا فون سمجھتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ ایک موبائل کمپیوٹر ہے جو صرف کال کرنے یا موصول کرنے کیلئے نہیں رہا۔ اپنے فون کو بغیر لاک کیے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں کو اس بات کی اجازت دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے فون میں موجود معلومات اور ڈیٹا بآسانی چرا لیں۔ خصوصاً آج کے دور میں موبائل کے اندر اہل خانہ کی ایسی تصاویر بھی ہوتی ہیں جو کسی کے ہاتھ لگنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ان تصاویر کو فوٹو شاپ میں ایڈٹ کرکے بلیک میلنگ اور غلط مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ موبائل میں پیچیدہ پاس ورڈ لگائیں۔چیک بکیہ اہم چیز ہے کیونکہ اگر چیک بک کے ذریعے کوئی آپ کو دھوکا دے تو پیسے کی واپسی کا امکان بہت معدوم ہوجاتا ہے، لیکن اگر آپ کے فراہم کردہ ثبوتوں کی روشنی میں یہ ممکن ہو بھی جائے، تب بھی پیسوں کی واپسی میں ایک ماہ تو لگ ہی جاتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ چیک بک اپنے ساتھ ہرگز نہ رکھیں۔ یا تو کسی اور تاریخ پر لوگوں کو پیسے دینے کی عادت ڈالیں یا پھر ضرورت کے تحت بس ایک یا دو چیک اپنی جیب میں رکھیں تاکہ نقصان کے امکان کم سے کم رہیں۔شناختی کارڈشناختی کارڈ درحقیقت انسان کیلئے بنیادی ضرورت ہے اور اگر یہ کھوجائے تو آپ کی زندگی کے بہت سارے کام رک جاتے ہیں۔ نہ آپ بینک کا کوئی کام کرسکتے ہیں، نہ سڑک پر گھوم پھرسکتے ہیں کیونکہ کبھی بھی کوئی پولیس والا آپ سے شناختی کارڈ کا تقاضا کرسکتا ہے، لہٰذا ان مشکلات سے بچنے کیلئے کوشش کریں کہ اصل شناختی کارڈ گھر پر ہی رکھیں۔ اگر بہت ضرورت ہے تو فوٹو کاپی ساتھ رکھیں۔پاسپورٹبیرون ملک سفر کرنے کیلئے پاسپورٹ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت جتنی زیادہ ہے، اس کا حصول اتنا ہی مشکل ہے اور خرچہ الگ۔ اس لیے ان تمام تر مشکلات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پاسپورٹ گھر پر ہی رکھا جائے اور یہ صرف اْسی صورت باہر لے جایا جائے جب اس کے بغیر کام کا انجام پانا ممکن نہ ہو۔

ناصر الدین محمود:درویش صفت بادشاہ

ناصر الدین محمود:درویش صفت بادشاہ

آج سے تقریباً سات سو پچھتر سال قبل دہلی میں غلام خاندان کا ایک شخص تھا جسے 1246ء میں ناصر الدین محمود کے نام سے امراء نے تخت پر بٹھایا جو کہ دراصل شمس الدین التتمش کا پوتا تھا۔ جب التتمش کا بیٹا شہزادہ ناصر الدین لکھنائونی میں منگولوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوا تو اس کی موت کے بعد اس کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا، جو اس کا سب سے چھوٹا لڑکا تھا، التتمش نے اپنے مرحوم بیٹے سلطان ناصر الدین کی محبت میں اپنے نوزائیدہ پوتے کا نام بھی وہی رکھا۔خاندانی اسباب کی بنا پر التتمش نے یہی چاہا کہ بچے کو اس کا پوتا نہیں بلکہ اس کا بیٹا شمار کیا جائے۔ وہ ایک درویش صفت بادشاہ تھا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اپنے عہد حکومت میں کبھی سرکاری خزانے کو ہاتھ نہیں لگایا اور قرآن شریف لکھ کر روزی کماتا تھا، اس کی پوری زندگی اولیا اور صالحین کا نمونہ تھی۔ زیادہ تر وقت عبادت اور تلاوت کلام پاک میں صرف کرتا۔ جس وقت دربار لگتا اس وقت وہ شاہی لباس زیب تن کرتا تھا اور دربار برخاست ہونے کے بعد اپنا سادہ لباس پہنتا۔ وہ خاص طور سے اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ اس کے لکھے ہوئے قرآن کے نسخے معمولی قیمت پر فروخت ہوں اور کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ وہ بادشاہ کے لکھے ہوئے ہیں۔ایک روایت کے مطابق ایک بار اس کی ملکہ کھانا پکا رہی تھی۔ توے سے روٹی اتارتے وقت اس کا ہاتھ جل گیا۔ تکلیف کی وجہ سے وہ سلطان کے پاس حاضر ہوئی بادشاہ اس وقت قرآن کی کتابت کر رہا تھا۔ ملکہ کو تکلیف میں دیکھ کر پوچھا: ''کیا بات ہے ملکہ! ہاتھ میں کیا ہوا‘‘؟بادشاہ نے کتابت چھوڑ دی اور دوا لے کر ملکہ کے جلے ہوئے ہاتھ پر لگا دی۔''جہاں پناہ! گھر میں کوئی نہیں ہے۔ دوسرے کام بھی کرنے ہیں۔ اب کھانا کون پکائے گا؟‘‘ ملکہ نے سوال کیا؟تم فکر نہ کرو، جب تک تمہارا ہاتھ ٹھیک نہیں ہوتا تمہارا ہاتھ میں بٹائوں گا‘‘۔''اپنے آپ پر یہ ظلم نہ کیجئے۔ میری مانیے۔ کچھ عرصے کیلئے ایک خادمہ رکھ لیجئے۔ جب میرا ہاتھ ٹھیک ہو جائے گا تو پھر سارا کام میں خود ہی کر لیا کروں گی‘‘۔''تم جان بوجھ کر انجان بنتی ہو۔ میں اتنی آمدنی کا مالک نہیں ہوں کہ خادمہ رکھ سکوں‘‘ حکومت کے کام سے ہی فرحت کم ملتی ہے۔ چھ ماہ میں مشکل سے ایک کلام پاک کی کتابت کر پاتا ہوں۔ اس ہدیے سے مشکل سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ اب ایسے میں خادمہ کیلئے گنجائش کہاں سے نکالوں‘‘؟''آپ یہ کیا فرما رہے ہیں؟ آپ بادشاہ وقت ہیں۔ شاہی خزانہ آپ کے قبضے میں ہے۔ اگر آپ اپنی واجب ضرورت کیلئے کچھ رقم لے لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟‘‘۔''بیگم: شاہی خزانہ رعایا کی امانت ہے۔ اسے خرچ کرنے کا حق مجھے نہیں یہ تو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کیلئے ہے، میں تو صرف ان کا امین ہوں‘‘۔سلطان کا جواب سن کر ملکہ خاموش ہو گئی۔کوئی افسانہ نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک نیک دل بادشاہ ناصر الدین محمود کی زندگی کی وہ حقیقت ہے، جس کا بیس سالہ دور حکومت تاریخ ہند میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے شاہی میں فقیری کی مثال پیش کی۔ اس نے دوسرے بادشاہوں کی طرح اپنے منصب سے ناجائز فائدہ کبھی نہیں اٹھایا۔ وہ تقویٰ،پرہیزگاری، خوش اخلاقی اور سادگی کا پیکر تھا۔ ایک روایت مشہور ہے کہ ایک بار کوئی امیر اس سے ملنے آیا۔ بادشاہ نے اسے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک کتاب دکھائی۔ امیر نے اس میں کچھ غلطیاں نکالیں اور درست کرنے کی التجا کی۔ بادشاہ نے اس کے مشورے پر ان الفاظ کے گرد حلقے بنا دیئے، لیکن جب امیر چلا گیا تو بادشاہ نے وہ حلقے مٹا دیے۔ درباریوں میں سے کسی نے حلقوں کے مٹانے کا سبب پوچھا توبادشاہ نے جواب دیا: ''دراصل یہ غلطیاں نہ تھیں، میرے دوست کو خود غلط فہمی ہوئی۔ چونکہ ایک خیر خواہ کا دل دکھانا مجھے پسند نہ تھا اس لئے ان کے کہنے پر میں نے الفاظ کے گرد حلقے بنا دیئے تھے۔ اب انہیں مٹا دیا‘‘اس دور کے سلطان کے خوش اخلاقی کا یہ حال تھا کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ نبی کریم ﷺ کا احترام اس قدر کرتا تھا کہ بلا وضو آپﷺ کا نام لینا بھی بے ادبی سمجھتا تھا۔ ایک بار اپنے درباری کو جس کا نام محمد تاج الدین تھا، صرف تاج الدین کہہ کر پکارا۔ درباری نے سمجھا کہ لگتا ہے سلطان مجھ سے خفا ہیں۔ اس لئے خوف سے کئی دن دربار میں حاضر نہ ہوا۔ سلطان کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اسے یقین دلایا کہ میں تم سے بالکل خفا نہیں ہوں۔ اس دن تمہارا پورا نام نہ لینے کی وجہ یہ تھی میں باوضو نہ تھا اور بغیر طہارت کامل کے لفظ''محمد‘‘ میں اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتا تھا۔التتمش کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں اور دوسرے دعوے داروں میں تخت و تاج کیلئے کافی کشمکش رہی۔ ناصر الدین محمود طبیعت کا نیک تھا۔ حکومت کی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھتا تھا۔ چنانچہ ان ہنگاموں سے بالکل الگ تھا۔ اس کے باوجود خود غرضوں کے بے جا انتقام کا شکار بنا اور قید کر دیا گیا۔قیدو بند کا زمانہ بھی اس نے صبرو استقلال سے گزارا۔ اس معذوری میں بھی اپنی معاش کیلئے اس نے کسی کا احسان لینا گوارا نہ کیا اور نہ اپنا وقت ہی ضائع ہونے دیا۔ اس تنہائی اور یکسوئی سے فائدہ اٹھا کر اس نے اپنی علمی لیاقت بڑھائی اور خوش نویسی سیکھ لی۔ اس کے بعد کتابیں لکھ کر گزر اوقات کرنے لگا۔ رعایا ایسے پرہیز گار اور خدا ترس بادشاہ سے خوش ہوئی۔ اللہ نے بھی اس کے تقویٰ کی لاج رکھی، اس پر اپنا فضل کیا اور حکومت کے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لئے۔ بلبن جیسا مدبر اور فرض شناس وزیر عطا فرمایا۔1266ء میں ہندوستان کا یہ درویش صفت، متقی،عبادت گزار اور سادہ لوح فرماں روا اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کو مروانے میں غیاث الدین بلبن کا ہی ہاتھ تھا۔ اس کا مزار دہلی میں یہی پال پور کے پاس سلطان غازی کے نام سے مشہور ہے۔

مچھر:انسانوں کا سب سے بڑا قاتل

مچھر:انسانوں کا سب سے بڑا قاتل

32 سال کی عمر میں آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرنے والے فاتح سکندراعظم کو '' فاتح عالم‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔تاریخ اس کے کارناموں اور فتوحات کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔تاریخ کی کتابوں سے مروی ہے کہ 12 سال کی عمر میں اس نے ایک ایسے جنگلی بدمست گھوڑے کو قابو کر لیا تھا جو بڑے بڑے شہسواروں اور گھوڑے سدھارنے والوں کو اپنے قریب پھٹکنے تک نہیں دیتا تھا۔''بیو سیفیلس‘‘ نامی یہ گھوڑا اس کے بعد ساری عمر اس کے ساتھ رہا۔ اس کی بہادری اور طاقت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ اس سے کسی نے پوچھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی دنیا کیسے فتح کر ڈالی ؟۔سکندر اعظم کا جواب تھا '' دشمنوں کو مجبور کیا کہ وہ میرے ساتھ دوستی کر لیں ، اور دوستوں کو یہ جرات ہی نہیں دی کی وہ میرے ساتھ دشمنی کر سکیں ‘‘۔ جہاں تک فاتح عالم سکندر اعظم کی موت کی توجیح کا تعلق ہے،مورخین اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔روایات کے مطابق اس کی موت ایک مچھر کے کاٹنے اور پھر ملیریا بخار میں مبتلا ہونے کے باعث ہوئی تھی۔ کیا یہ مقام حیرت اورمقام عبرت نہیں کہ ایک مچھر جو بظاہر ایک انسانی ناخن سے بھی چھوٹا ہوتا ہے ، چند دنوں کے اندر اندر فاتح عالم کو ، جس کے نام سے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں کانپ جایا کرتی تھیں، کو بے بس کر کے لقمہ اجل بنا دیتا ہے۔ نیشنل جیو گرافک کی ویب سائٹ نے بھی اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ سکندر اعظم کی موت مچھر کے کاٹنے کے باعث ہوئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسی ویب سائیٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ تین امریکی صدور جارج واشنگٹن ، ابراہم لنکن اور یولیسس گرانٹ کا بھی مچھر کاٹنے اور ملیریا کے باعث انتقال ہوا تھا۔مچھر انسانی زندگی کیلئے کتنا خطرناک ؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث یہی مچھر ہیں۔اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مچھر دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل ہے۔سالانہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباًبیس لاکھ افراد مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں ڈینگی، ملیریا اور پیلا بخار سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مچھروں کی 3500 اقسام پائی جاتی ہیں۔ان میں سے بیشتر اقسام انسانی زندگی کیلئے بے ضرر ہیں کیونکہ یہ پودوں پر رہتے ہیں اور ان کی خوراک پھلوں اور پھولوں کا رس ہوتاہے۔اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے صرف 6 فیصد مچھروں کی مادہ مچھر ہی اپنے انڈوں کی بڑھوتری کیلئے انسانی خون چوستی ہے۔جبکہ اس تعداد کے نصف کے برابر انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ آگے چل کر اس تحقیق میں یہ وضاحت بھی کی گئی کی اس کے باوجود بھی اس کی 100کے لگ بھگ اقسام ایسی ہیں جو انسانی صحت اور زندگی کیلئے خطرے کا سب بن سکتی ہیں۔ ماہرین اس نقطے پر متفق ہیں کہ دنیا میں پائے جانے والے حشرات میں انسانوں کو سب سے زیادہ خطرات مچھروں سے ہیں۔ ایک تحقیق میں مچھروں کو سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ان میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق زیکا وائرس کا سب سے زیادہ نشانہ کمسن بچے بنتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے2015ء میں ملیریا وائرس کا باعث بننے والی مچھروں کی ایک خطرناک قسم ''انو فیلیس گینس‘‘ کی نشاندہی کی تھی جو چھ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنی تھی۔ اسی طرح مچھروں کی ایک اور خطرناک '' ایڈیس گینس‘‘ نامی قسم کے بارے پتہ چلا ہے کہ یہ قسم بہت تیزی سے مغربی نیل وائرس ، ڈینگی وائرس ، پیلا بخار اور چیکونگونیا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ محققین کے مطابق پچھلے تین عشروں کے دوران''ایڈیس البو پیکٹس‘‘نامی مچھروں نے یورپ کے بیس سے زائد ممالک میں بڑی تیزی سے اپنے قدم جمائے ہیں جس کا سبب تیزی سے بڑھتے زمینی درجہ حرارت کو قرار دیا گیا ہے۔گرنیچ یونیورسٹی کے ماہر کا کہنا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی کو مچھروں سے پیدا ہونیوالی بیماریوں سے خطرہ ہے۔مچھروں سے جنم لینے والے امراض ہر سال دس لاکھ اموات کا سبب بنتے ہیں۔ مچھروں سے کیسے بچا جائے آسٹریلیا کے ایک جریدے ''دی کنفرمیشن‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مچھر ہمارے خون سے اہم غذائی اجزاء حاصل کرنے کیلئے انسانوں اور دیگر حیوانوں کو کاٹتے ہیں۔ پھر وہ ان غذائی اجزاء کو اپنے انڈے بنانے کے عمل میں استعمال کرتے ہیں۔ایک خون کی خوراک سے ایک مادہ مچھر تقریباً 100 انڈے دیتی ہے۔درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ممکنہ حد تک مچھروں سے بچا جا سکتا ہے۔٭...اپنے گھروں کے آس پاس اور اندر پانی کو کھڑا نہ ہونے دیں۔یہ مچھروں کی افزائش کا سب سے موزوں اور ترجیحی مقام ہوتا ہے۔٭...مچھروں کے موسم میں بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں،بالخصوض اندھیرے میں باہر کم سے کم نکلیں۔اس کے علاوہ گھر کے دروازے اور کھڑکیوں پر جالی لگوائیں۔ایک جدید ریسرچ میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گہرے اور سیاہ رنگ کے ملبوسات مچھروں کو اپنی طرف جلدی متوجہ کرتے ہیں۔ہلکے رنگ مچھروں کو تذبذب میں ڈال دیتے ہیں کہ آیا ان کا شکار آسان ثابت ہو سکے گا یا نہیں۔وہ ہلکے رنگ کی طرف لپکنے سے گریز کرتے ہیں۔٭...مچھروں کے موسم میں بغیر آستین یا نصف آستین پہننے سے اجتناب برتیں۔مچھر بھگانے کانسخہحال ہی میں میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کی مالیکیولر ویکٹر فزیالوجی لیبارٹری کی ایک ٹیم نے مچھروں کو بھگانے کے طریقوں بارے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کی تحقیق کے بعد مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔مچھر صدیوں سے بلکہ قبل از مسیح دور سے انسان کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے۔اس بات کا ثبوت تاریخ کی کتابوں میں رومی ، مصری اور میسوپیٹیمیا ادوار میں ملتا ہے جہاں اس دور کے لوگ مچھروں سے بچائو کیلئے دھواں پھیلا کر اور بعض جگہوں پر جسم پر کڑوا تیل ملنے کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔ لیکن جدید دور میں مچھروں کو بھگانے کیلئے اگرچہ متعدد نسخے آزمائے جاتے ہیں تاہم سب سے موثر طریقہ مختلف قسم کے ریپیلنٹس ہیں۔جو کوائل، سپرے ، لوشن اور کینڈلز پر مشتمل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ریپیلنٹس مچھروں کی سونگھنے اور چکھنے کی حس کو قابو کرلیتے ہیں جس سے مچھر سست اور نڈھال ہو جاتے ہیں۔''پیکار یڈن‘‘ ( Picaridin)یہ ایک کیمیکل کمپاؤنڈ ہے جس کا استعمال چھ گھنٹے تک مچھروں کو دور رکھتا ہے۔ یہ لوشن کی شکل میں جسم کے نمایاں حصوں یا کپڑوں پر لگایا جاتا ہے جس کی بو سے مچھر کچھ وقت کیلئے بے حس ہو جاتے ہیں۔ یہ کیمیکل سب سے پہلے 1980ء میں متعارف ہوا تھا۔ ڈی ای ای ٹییہ ایک کیمیائی مادے کا نام ہے جسے سب سے پہلے 1950ء میں امریکہ نے اپنی فوج کیلئے استعمال کیا تھا جسے ایک لمبے عرصہ تک جنگلوں میں رہنا تھا۔ یہ مچھر بھگانے کا ایک موثر طریقہ ہے اور اس کا دورانیہ بھی دوسرے کیمیائی مادوں کی نسبت طویل ہے۔ نیو میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کی یہ رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم نے بھی اس طریقہ کار کو زیادہ موثر قراردیا ہے۔ قدرتی تیلمچھر بھگانے کے مصنوعی تیل اور دیگر طریقے جب تک ایجاد نہیں ہوئے تھے اس وقت تک دنیا کے مختلف علاقوں میں قدرتی تیل جسم پر مل کر مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا تھا لیکن ان تیلوں میں قباحت یہ ہوا کرتی تھی کہ یہ مختصر دورانیے تک کارآمد ہوتے تھے۔ ان تیلوں میں دار چینی کا تیل ، لونگ کا تیل اور لیموں کا تیل قابل ذکر ہیں۔ 

حکایت سعدیؒ :اپنے آپ پر بھروسہ کرو

حکایت سعدیؒ :اپنے آپ پر بھروسہ کرو

کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا: ''پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا‘‘۔کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا: '' باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں‘‘۔اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا: ''میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے‘‘۔ کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا:گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی‘‘۔اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا:'' میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں، ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا‘‘۔کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا: '' بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔حاصل کلامدوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے، اپنا کام خود کرنا چاہیے۔

آج کا دن : اہم واقعات

آج کا دن : اہم واقعات

عالمی یوم ارض 22اپریل 1970کو دنیا میں پہلی بار عالمی یوم ارض منایا گیا اور اب ہر سال یہ دن باقاعدگی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ زمین کے قدرتی سسٹم کو درپیش خطرات سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کا آغاز 1962ء میں ماڈرن انوائرمینٹل موومنٹ سے ہوا تھا، جب اقوام عالم اندھا دھند صنعتیں قائم کر رہی تھی۔ اس باعث عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور بڑھتی ہوئی موسمی تبدیلیوں کے باعث زمین کئی علاقے متاثر ہونے لگے۔ اس مقصد کیلئے ہر برس یوم الارض منایا جانے لگا۔اس برس یہ دن ''پلینٹ بمقابلہ پلاسٹک‘‘ کے تھیم کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ ''پیرس معاہدہ‘‘ 2016ء میں آج کے روز ''پیرس معاہدہ‘‘ پر دستخط کئے گئے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہونے والے اس بین الاقوامی معاہدے کو ''پیرس ایکارڈز‘‘ یا ''پیرس کلائمیٹ ایکارڈز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف، موافقت اور مالیات کا احاطہ کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (UNFCCC) کے 195 ارکان اس معاہدے کے فریق ہیں۔ امریکہ 2020ء میں اس معاہدے سے الگ ہو گیا تھا لیکن 2021 میں دوبارہ اس میں شامل ہو گیا تھا۔ معاہدے کے مطابق ترجیحی طور پر اضافے کی حد صرف 1.5ڈگری سینٹی گریڈ ہونی چاہیے۔انڈونیشیا فضائی حادثہ''پین ایم فلائٹ 812‘‘ ہانگ کانگ سے لاس اینجلس کیلئے ایک طے شدہ بین الاقوامی پرواز تھی۔ 22 اپریل 1974ء کو یہ ہانگ کانگ سے 4 گھنٹے 20 منٹ کی پرواز کے بعد انڈونیشیا کے بالی کے ڈینپاسر میں نگورا رائے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز میں سوار تمام 107 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ انڈونیشیاکی سرزمین پر ہونے والا سب سے مہلک فضائی حادثہ قرار دیا جاتا ہے ۔ ''عرب اسرائیل جنگ‘‘ ''عرب اسرائیل جنگ‘‘ جسے ''پہلی عرب اسرائیل جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کے دوران 22اپریل 1948ء کویہودی افواج نے حائفہ شہر پر قبضہ کیا جو یروشلم اور تل ابیب کے بعد اسرائیل کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہ جنگ فلسطین میں خانہ جنگی کے بعد 1948ء کی فلسطین جنگ کے دوسرے اور آخری مرحلے کے طور پر شروع ہوئی۔جنگ باضابطہ طور پر 1949ء کے جنگ بندی کے معاہدوں کے ساتھ ختم ہوئی۔

عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

852ھ، خلیفہ عبدالرحمان دوئم کا دور تھا۔ جب خلیفہ عبدالرحمان نے اپنی سلطنت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے باصلاحیت اور ہنر مند افراد کو اپنی سلطنت میں بہترین جوہر دکھانے کی دعوت دی۔ ان گراں قدر افراد میں عباس ابن فرناس بھی شامل تھے۔ اسی مجمعے میں ایک شخص ارمن فرمن کا بڑا ذکر تھا جس نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ اس نے پرندوں کی مانند اڑنے کی صلاحیت حاصل کررکھی ہے۔ارمن نے اپنے دعوے کی تصدیق کیلئے ایک بھرے مجمعے کے سامنے اڑنے کا دعویٰ کیا اور یوں ایک دن کپڑے سے بنے چیل کے پروں سے مشابہ پروں کے ساتھ اس نے ایک بلند عمارت سے اڑنے کی کوشش کی۔ وہ بہت پراعتماد تھا لیکن پہلی ہی کوشش کے دوران وہ زمین پر آن گرا۔ابتدائی طور پر اسے زخم آئے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ کم از کم چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا۔ حاضرین محفل میں ایک شخص عباس ابن فرناس بھی تھے جو بڑے انہماک سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ان کے اندر پرندوں کی مانند اڑان بھرنے کی ایک نئی خواہش نے جنم لیا تو انہوں نے اٹھتے بیٹھتے پرندوں کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا۔کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا جب یہ پرندوں کی حرکات و سکنات پر نظریں جمائے نہ ہوتے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ عباس ابن فرناس کی یہ تحقیق 23 برس تک جاری رہی۔ اس دوران انہوں نے پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ''ایرو ڈائنا میکس‘‘ کا بغور مطالعہ کیا۔ عباس ابن فرناس کون تھے ؟عباس ابن فرناس، اندلس (مسلم سپین) کے شہر اذن رند اوندا میں 810 ء میں پیدا ہوئے۔ بنیادی طور یہ بربر نژاد تھے اور ان کا تعلق جنوبی سپین کے ضلع رونڈا سے تھاجبکہ بعدازاں یہ قرطبہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے عمر کا زیادہ حصہ بسر کیا۔ یوں تو ابن فرناس کی شناخت ایک موجد ، مہندس، طبیب، ماہر فلکیات، ماہر طبیعیات، کیمیا دان، ریاضی دان اور ایک شاعر کے طور پر ہوتی ہے لیکن یہ علم ریاضی ، طبیعیات ، پراسرار علوم اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان سے ایک واقعہ منقول ہے۔ ایک دفعہ ایک تاجر بلاد مشرق سے واپسی پر مشہور مسلمان عالم خلیل ابن احمد کی ایک کتاب ہمراہ لایا۔ یاد رہے کہ خلیل ابن احمد ، بغداد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ایک عالم ، شاعر اور ماہر لسانیات ہو گزرے ہیں جن کے کارہائے نمایاں میں عربی زبان کی پہلی لغت تیار کرنا بھی شامل تھا۔یہ کتاب سپین میں بالکل نئی تھی اور لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھی۔چنانچہ لوگوں نے اسے ابن فرناس کے سپرد کیا۔ ابن فرناس اسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئے اور چند ساعتوں میں اس کی ریاضیاتی ترکیب اور مطالب انتہائی مہارت سے حاضرین کو بیان کئے، جسے سن کر لوگ ان کی ذہانت اور قابلیت پر ششدر رہ گئے۔انہوں نے پانی کی گھڑی ایجاد کی ،کرسٹل بنانے کا فارمولا انہی کی ایجاد ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تجربہ گاہ میں شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنا ڈالا جس میں لوگ بیٹھ کر ستاروں اور بادلوں کی حرکات اوران کی گرج چمک کا مظاہرہ بھی دیکھ سکتے تھے۔علم ہئیت اور فلکیات کے حوالے سے اندلسی مسلمان سائنس دانوں میں علی بن خلاق اندلسی اور مظفر الدین طوسی کی خدمات لائق تحسین ہیں لیکن مورخین کے مطابق ان کامیابیوں میں عباس ابن فرناس کا حصہ کلیدی حیثیت یوں رکھتا ہے کہ فرناس نے اپنے گھر میں ایک کمرہ علم ہئیت اور فلکیات کی تجربہ گاہ کے طور پر وقف کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium ) کی بنیاد بنا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی سائنس کی ترویج اور ترقی کیلئے وقف کئے رکھی۔اسی لئے انہیں اپنے دور کا عظیم ترین عالم اور سائنسدان کہا جاتا تھا ۔ ا ن کی ایجادات اور اختراعات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ابن فرناس ایک ذہین اور ذرخیز ذہن کے مالک انجینئر تھے۔ اگرچہ قدیم یونانیوں اور مصریوں نے بھی بہت پہلے اڑنے والی مشین بنانے کی بارہا کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔اس لحاظ سے ابن فرناس دنیا کے وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اڑایا۔بعض ازاں البیرونی اور ازر قوئیل وغیرہ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابن فرناس کی اڑان بھرنے کی کوشش کن کن مراحل سے گزر کر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ابن فرناس نے اپنی ہر اڑان کے بعد کچھ نیا سیکھا اور ہر بار وہ اس میں تبدیلیاں کر کے اپنی غلطیاں دور کرتے رہے۔ تاریخی کتابوں میں پندھرویں صدی کے ، لیو نارڈو ڈاونچی کے طیارے کو عام طور پر دنیا کا پہلا طیارہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ابن فرناس نویں صدی عیسوی میں اپنے طیاروں کے ساتھ کامیاب پرواز کر چکے تھے۔ البتہ لیو نارڈو دا ونچی کے طیاروں کو دور جدید کے طیاروں کی ابتدائی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ہوا بازی کی شروعات عباس ابن فرناس نے اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ اڑان کا آغاز 852 عیسوی میں ایک بھرے مجمعے کے سامنے کیا تھا۔اپنی پہلی پرواز میں انہوں نے خود کو ایک لمبے کوٹ میں لپیٹ کر لکڑی سے بنائے گئے ایک تابوت نما ڈھانچے میں بند کر لیا۔ باہر کی جانب دونوں بازوں کو پھیلا کر اس نے ان سے پروں کا کام لیا کیونکہ اس کے مشاہدے کے مطابق پرندے بھی ایسے ہی اڑان بھرا کرتے ہیں۔یہ بہت پر اعتماد اور پر امید تھے۔ انہوں نے قرطبہ کی سب سے بڑی مسجد کے مینار پر چڑھ کر ہوا میں اڑنے کیلئے چھلانگ لگائی۔ اپنے پہلے تجربے میں وہ ناکام رہے لیکن خوش قسمتی سے چونکہ وہ نچلی سطح پر پرواز کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں معمولی چوٹیں آئیں ۔کچھ عرصہ بعد اپنے پہلے تجربے کی روشنی میں انہوں نے ایک نئے طیارے کی تیاری شروع کر دی۔ اس بار انہوں نے ریشم اور عقاب کے پروں کو استعمال کیا۔پرواز کیلئے اس مرتبہ ان کا انتخاب جبل العروس پہاڑ تھا جہاں ایک جم غفیر ان کی اڑان کا منظر دیکھنے کا منتظر تھا۔اس مرتبہ ابن فرناس نے اڑان بھرنے سے پہلے پروں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ نیچے کی جانب کودگئے۔ انہوں نے دس منٹ تک فضا میں رہ کر اڑنے کا مظاہرہ کیا اور باآسانی ایک کھلے میدان میں اپنے طیارے کو اتار لیا۔ لیکن اس مرتبہ نیچے اترنے کی کوشش میں وہ کمر کے بل نیچے گر گئے ، جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ کچھ عرصہ تک صاحب فراش رہے۔ اس وقت ان کی عمر ایک اندازے کے مطابق68 سال تھی اور یوں ابن فرناس اس تجربے کے بعد باقاعدہ طور پر دنیا کے پہلے ہوا باز بن گئے۔ اس مرتبہ غور و خوض کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ پرندے نیچے اترتے وقت اپنی دم کی جڑ کا سہارا لے کر اترتے ہیں اس لئے انہیں اپنے طیارے میں دم کا اضافہ کرکے اسے محفوظ بنانا ہو گا۔ ن کی اگلی کاوش اپنے گھر تیار کردہ طیارے میں دم کا اضافہ تھا جسے سالوں بعد داونچی نے من وعن نقل کر کے طیاروں میں باقاعدہ دم کو شامل کرکے مستقبل کی لینڈ نگ کو محفوظ کر لیا۔