قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے یہ کہنا کہ انہوں نے تصوف کی آڑ میں دنیاوی فوائد یا اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کی کوشش کی‘ سراسر بے بنیاد ہے کیونکہ انہوں نے اپنی ذات کے روحانی پہلو کو ہمیشہ چھپا کر رکھا۔ دورانِ ملازمت تو خاص طور سے اسے پوشیدہ رکھا۔ ان کے دو تین انتہائی قریبی دوستوں کے علاوہ شاید ہی کسی کو اس بارے کچھ علم ہو۔ بیشتر لوگوں کو اس کا علم 'شہاب نامہ‘ کے مطالعہ سے ہوا اور کتاب کی طباعت کے دوران ہی شہاب کی وفات ہو گئی تھی۔
ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد قدرت اللہ شہاب کو دوبارہ ملازمت کے کئی مواقع ملے مگر انہوں نے لو پروفائل انداز میں خاموشی سے زندگی گزار دی۔ وہ چاہتے تو ذوالفقار علی بھٹو اور پھر ضیاء الحق کے دور میں کوئی اہم منصب حاصل کر سکتے تھے۔ ضیاء الحق نے تو انہیں تعلیم کے حوالے سے اہم ذمہ داری سونپنے کا اعلان بھی کر دیا تھا لیکن قدرت اللہ شہاب نے معذرت کر لی۔ اگر قدرت اللہ شہاب کے ذہن میں ''مذہبی ٹچ‘‘ سے فائدہ اٹھانے والی کوئی بات ہوتی تو اس سے اصل فائدہ ضیاء الحق کے دور میں اٹھایا جا سکتا تھا مگر شہاب نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اپنی مالی مشکلات کے باوجود وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی سرکاری عہدہ لینے سے انکاری رہے۔جیسا کہ پچھلے کالم میں بھی ذکر ہو چکا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل یحییٰ خان سے مخاصمت کی وجہ سے حکومت نے تین برس تک قدرت اللہ شہاب کی پنشن بند رکھی‘ جس کی وجہ سے انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران ان کے حالات اس قدر خراب تھے کہ انہیں کئی بار دن میں ایک مرتبہ کھانا کھانا پڑتا۔ یہاں تک کہ جب ناکافی خوراک کی وجہ سے ان کی بیوی علیل ہوگئیں تو قدرت اللہ شہاب کے پاس ان کے علاج کے پیسے بھی نہ تھے۔ وہ اور ان کے اہلِ خانہ کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے میلوں پیدل سفر کرتے۔ بیوی کے علاج کے لیے پیسے نہ ہونے کا واقعہ ہی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی ذات کے روحانی پہلو سے کبھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔
قدرت اللہ شہاب چے گویرا تھے نہ انہوں نے کبھی ایسا کوئی دعویٰ کیا۔ انہوں نے کبھی انقلابی ہونے کا اعلان کیا اور نہ ہی کوئی سماج سدھار تحریک چلائی‘ نہ ہی کبھی سیاست میں حصہ لیا۔ ان کا تو ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں تھا۔ وہ ایک سول سرونٹ تھے‘ ایک اچھے‘ دیانت دار سول سرونٹ! انہوں نے ہمیشہ اپنی یہی پہچان بتائی‘ کبھی روحانیت کا بھی دعویٰ نہیں کیا۔ دورانِ ملازمت تو خیر یہ مسئلہ کھبی اُٹھا ہی نہیں‘ ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد بھی قدرت اللہ شہاب نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی ذات کے روحانی پہلو سے انکار کیا اور کہا کہ ''یہ ممتاز مفتی کی محبت اور فسانہ طرازی ہے‘‘۔ واضح رہے کہ شہاب نامہ کا آخری باب ''چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ جو تصوف پر ہے‘ وہ سب سے آخر میں لکھا گیا تھا اور شہاب صاحب کی زندگی میں یہ مواد شائع نہیں ہوا تھا۔ شہاب صاحب کی ذات کا روحانی پہلو اُن کی وفات کے بعد ہی سامنے آیا تھا لہٰذا اس پہلو سے فائدہ اٹھانے والا الزام ہی ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہاب نامہ پر سب سے زیادہ تنقید اس کے آخری باب ''چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ پر ہی ہوتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اس میں اپنے روحانی تجربات کا احوال بیان کیا ہے۔ شہاب کے بقول ایک پُراسرار نادیدہ سلسلے سے ان کی روحانی رہنمائی ہوئی‘ شہاب نے اس بزرگ کو اپنی کتاب میں ''نائنٹی‘‘ کا نام دیا جو پُراسرار طریقوں سے ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو اگر کتاب میں بیان نہ کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتی کہ تصوف کی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے لوگوں کے لیے ایسی چیزوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ تصوف سے تعلق رکھنے والے البتہ ان باتوں پر نہیں چونکتے کیونکہ تصوف میں اہم نکتہ تعلیمات کا ذریعہ نہیں بلکہ تعلیمات ہوتی ہیں۔ اس باب میں ویسے شہاب نے تصوف کی جو تعریف بیان کی‘ وہ درست اور ہر قسم کے بدعات اور رسومات وغیرہ سے پاک ہے۔ قدرت اللہ شہاب کرشموں اور کرامات کے بجائے شریعت کے تابع تصوف کی تلقین کرتے ہیں‘ ان کے بقول اصل مقصد ہی شریعت کی پابندی کرنا ہے اور تصوف صرف انسان کی کپیسٹی بلڈنگ کرتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب کے آخر میں چند دعائیں بھی بیان کی ہیں مگر مجموعی طور پر وہ وظائف کی حوصلہ شکنی کرتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری محنت کرنے اور پھر رب سے دعا کی تلقین کرتے ہیں۔ ناقدین کے برعکس شہاب نامہ کا آخری باب روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت مفید اور معلومات افزا ہے۔
شہاب نامہ کا ایک باب ''بملاکماری کی بے چین روح‘‘ ایک ہندو لڑکی بملا کماری کے بھوت کے حوالے سے ہے۔ اس میں ایک آسیب زدہ مکان میں رات گزارنے کا احوال بیان کیا گیا ہے‘ جس میں شہاب کے بقول کسی بھوت نے انہیں بے حد تنگ کیا۔ شہاب نے اس واقعہ کی بہت دلچسپ روداد بیان کی ہے۔ شہاب کے بقول‘ رات کو گرامو فون یکایک بجنا شروع ہوجاتا۔ شہاب نے تجربے کے طور پر کلمہ شریف کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر گراموفون پر رکھا تو آواز رُک گئی۔ پھر کلمہ کا اردو ترجمہ لکھ کر رکھا مگر آواز نہ رکی لیکن جب انہوں نے عربی میں لکھ کر رکھا تو بجتا ہوا گرامو فون بند ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا اس باب پر بھی اعتراض ہے کہ یہ ناقابلِ فہم اور غیر سائنسی بات ہے۔ ان لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے مگر ہم لوگوں نے جنوں‘ بھوتوں کے اس سے زیادہ واقعات سن رکھے ہیں۔ بے شمار لوگوں کو ذاتی تجربات بھی ہوئے ہوں گے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر ہزار صفحات سے زیادہ پر مشتمل 'شہاب نامہ‘ جیسی ضخیم تاریخی کتاب ہی کو رد کر دیا جائے۔ ناقدین اس باب کو نظر انداز کر کے بھی آگے چل سکتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ شہاب نامہ نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ اس کے آخری باب سے ہزاروں لوگ روحانیت کی طرف مائل ہوئے۔ ان سب باتوں سے ہٹ کرشہاب نامہ پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد‘ چوتھے گورنر جنرل اور پہلے صدرِ مملکت اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے دور اور محلاتی سیاست کو سمجھنے کا اہم ذریعہ ہے۔
شہاب نامہ میں ایسا بہت کچھ ہے جو کتاب کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ شہاب نامہ کی اسی غیر معمولی مقبولیت اور پذیرائی ہی نے شاید حاسدین کا ایسا طبقہ پیدا کیا جس کے دل میں شہاب کے مرنے کے چالیس سال بعد بھی ٹھنڈک نہیں پڑی۔ ذاتی نظریات اور خیالات سے ہٹ کر شہاب نامہ اور اس کا روحانیت والا باب جب تک پڑھا جاتا رہے گا‘ ایک خاص مکتبِ فکر ہمیشہ شہاب کو ملامت کا نشانہ بناتا رہے گا۔ اس مکتبِ فکر کے لوگوں کا ایک خاص عقیدہ اور نظریہ ہے‘ جو ان کو اس سوچ کا حق دیتا ہے مگر کتاب کی مکرر اشاعت مصنف کے اس روحانی پہلو کو بار بار اجاگر کرتی رہے گی جو ایک کامیاب مصنف کا خواب ہوتا ہے۔ کشمیر کے خوبصورت اور سرسبز پہاڑوں کے سائے میں بیٹھ کر ایک پُراسرار ماحول میں حکمرانی کے امور سے لے کر روحانیت جیسے نازک معاملات پر غور وفکر بلاشبہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔
پاکستان میں سرکاری ملازمتوں کے دوران یا بعد ازاں کتابیں لکھنے کا عام رواج ہے۔ اس طرح کے مصنفین کی ایک طویل فہرست ہے۔ کچھ نے مارشل لاء کے دوران طبع آزمائی کی ہے۔ خود مارشل لاء لگانے والے بھی کچھ ایسی کوششیں کر چکے ہیں۔ اس سب کتب کو اہم تارِیخی کتب میں شمار کیا جاتا ہے اور کسی کی بھی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔