"FBC" (space) message & send to 7575

شہاب کی یاد

آج کل قدرت اللہ شہاب کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے فرمائش کی ہے کہ میں بھی اُن کی کتاب پر کچھ لکھوں۔ مدتوں بعد اگرچہ یہ ایک عجیب فرمائش ہے۔ یہ فرمائش غالباً اس لیے کی گئی کہ اس کتاب میں کچھ کہانیاں کشمیر کے تناظر میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ قدرت اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں ہے۔ فرمائش کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قدرت اللہ شہاب گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے‘ جو اُس وقت غالباً ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا۔ اس کے علاوہ قدرت اللہ شہاب سے میرا کوئی نظریاتی یا روحانی تعلق نہیں ہے۔ کشمیر سے تعلق بھی دور کی کوڑی لانے والی بات ہے۔ قدرت اللہ شہاب ایک سرکاری ملازم‘ مصنف اور صوفی مفکر تھے‘ جو اپنی خود نوشت ''شہاب نامہ‘‘ کی تصنیف و تخلیق کے لیے مشہور ہوئے۔ قدرت اللہ پاکستانی بیوروکریسی میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور اسکندر مرزا‘ ملک غلام محمد اور ایوب خان سمیت کئی پاکستانی رہنماؤں کے ماتحت رہے۔ ان کی تحریروں بالخصوص شہاب نامہ نے پاکستانی ادب اور ثقافت پر دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔
شہاب نامہ ایک خودنوشت سوانح عمری ہے جو قدرت اللہ شہاب کی زندگی‘ سول سروس میں اُن کے کیریئر اور پاکستان کے سماجی وسیاسی ماحول پر ان کے تاثرات کا بھرپور بیان فراہم کرتی ہے۔ کتاب کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ابتدائی زندگی: شہاب نے اپنے بچپن‘ تعلیم اور ابتدائی اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے تقسیم ہند سے قبل کے سماجی وثقافتی حالات کا احوال بیان کیا ہے۔ کتاب کا بڑا حصہ برطانوی ہندوستان اور بعد میں پاکستان میں بطور بیورو کریٹ شہاب کے تجربات کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ وہ سول سروس میں درپیش چیلنجوں‘ بدعنوانی اور سازشوں کے ساتھ ساتھ اس وقت کی اہم سیاسی شخصیات کے ساتھ اپنی بات چیت کا احوال فراہم کرتا ہے۔ کتاب کا آخری حصہ قدرت اللہ شہاب کے روحانی تجربات اور تصوف اور تصوف کے ساتھ ان کی وابستگی کو بیان کرتا ہے۔ یہ حصہ خاص طور پر متنازع ہے کیونکہ شہاب نے مختلف صوفیانہ واقعات اور روحانی ہستیوں سے ملاقاتوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔
شہاب کی داستان ذاتی یادداشتوں‘ تاریخی بیانات اور روحانی عکاسی کے امتزاج پر مشتمل ہے۔ کتاب دلچسپ گفتگو کے انداز میں لکھی گئی ہے جو کتاب کو وسیع سامعین کے لیے پُرکشش بناتی ہے۔ وہ جن موضوعات کو دریافت کرتے ہیں‘ ان میں قومی شناخت اور گورننس کے حوالے سے شہاب پاکستان میں قومی تعمیر کے چیلنجز کی عکاسی کرتے ہوئے سیاسی قیادت اور بیورو کریسی پر تنقید کرتے ہیں۔ بدعنوانی اور دیانتداری کے باب میں وہ سول سروس میں اخلاقی زوال پر بات کرتے ہیں جو انہیں ایمانداری اور عوامی خدمت کے اپنے عزم سے متصادم کرتا ہے۔ تصوف شہاب کی زندگی کا مرکزی موضوع ہے‘ خاص طور پر بعد کے ابواب میں وہ مافوق الفطرت تجربات اور ایک روحانی رہنما کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتا ہے‘ جو قارئین اور ناقدین کے درمیان تنازع کا باعث رہا ہے۔
شہاب نامہ کو مانا بھی گیا اور اس پر بڑے پیمانے پر تنقید بھی ہوئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ شہاب کی پیش کردہ کچھ کہانیاں‘ خاص طور پر جو اُن کے صوفیانہ تجربات سے متعلق ہیں‘ حقیقت سے بہت دور ہیں اور ان میں اعتبار کا فقدان ہے۔ نقادوں کا دعویٰ ہے کہ آیا یہ بیانات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں یا مکمل طور پر فرضی ہیں۔ اس طرح سوانح عمری کی مجموعی تخلیق پر شک پیدا کرتے ہیں۔ اس کتاب کا سب سے متنازع پہلو شہاب کے صوفیانہ تجربات کا بیان ہے‘ جیسا کہ روحانی ہستیوں کے ساتھ ان کی بات چیت اور مافوق الفطرت واقعات۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کہانیاں ناقابلِ فہم ہیں اور کتاب کے عقلی اعتبار کو چیلنج کرتی ہیں۔ کچھ مبصرین شہاب کے تاریخی بیانات کی درستی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ ان کی داستان متعصبانہ ہو سکتی ہے۔ اس تنقید کے باوجود شہاب نامہ پاکستانی ادب میں ایک اہم تصنیف ہے۔ سرکاری افسر کے طور قدرت اللہ شہاب ایک جری اور نڈر افسر تھے۔ زندگی کے کئی اہم مواقع پر وہ جرأت سے کھڑے ہو گئے۔ قیام پاکستان سے قبل وہ بنگال میں اس علاقہ میں مجسٹریٹ تھے‘ جو قحط زدہ تھا‘ شہاب نے سرکاری گودام قحط زدگان کیلئے کھول دیے تھے‘ حالانکہ اس کی پاداش میں ان کی نوکری جا سکتی تھی‘ جیل بھی ہو سکتی تھی۔
شہاب کے ناقدین کا خیال ہے کہ انہوں نے ایوب خان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنی روحانیت کو استعمال کیا اور مذہبی ٹچ کے ذریعے اپنی اہمیت بنائی۔ مگریہ بات غلط ہے کیونکہ ایوب خان کوئی مذہبی آدمی نہیں تھا۔ وہ ایک ماڈرن سیکولر آدمی تھا۔ وہ نہ تو خود مذہبی تھا اور نہ ہی وہ مذہبی لوگوں یا روحانی شخصیات یا روحانیت وغیرہ کو پسند کرتا تھا۔ ایوب خان کو تصوف کی سمجھ تھی اور نہ ہی کوئی ''بابا‘‘ اس کیلئے اہمیت رکھتا تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنے روحانی پہلو کو ہمیشہ چھپا کر رکھا۔ دورانِ ملازمت تو خاص طور سے اسے پوشیدہ اور لو پروفائل رکھا۔ اس کے دو تین انتہائی قریبی دوستوں ممتاز مفتی‘ اشفاق احمد وغیرہ کے سوا شاید ہی کسی کو علم ہو۔ اس کے قریبی دوستوں میں احمد بشیر جیسا مارکسسٹ اور ابن انشا‘ جمیل الدین عالی وغیرہ بھی شامل تھے جو تصوف میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سوشل میڈیا پر ایک الزام شہاب کے خلاف یہ بھی لگا کہ ایوب خان کے دور میں اس نے بطور سیکرٹری مادرِ ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی۔ مگر یہ بات خلافِ واقعہ اور بے بنیاد ہے۔ قدرت اللہ شہاب مادرِ ملت اور ایوب خان کے صدارتی الیکشن سے دو سال پہلے ہالینڈ میں سفیر بن کر جا چکا تھا۔ ایوب کی صدارتی مہم میں شہاب پاکستان آیا ہی نہیں۔ جنگ ستمبر 1965ء میں بھی شہاب ہالینڈ میں تعینات تھا۔ شہاب جب ڈپٹی کمشنر تھا تب محترمہ فاطمہ جناح وہاں گئیں تو شہاب نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا ‘ اس کی تصاویر اخبارات میں چھپیں۔
اخبارات کے مطابق ایوب دور کے تین ماہ بعد ہی رائٹرز گلڈ قائم ہوئی‘ اس میں اپنے وقت کے تقریباً تمام بڑے ادیب شامل تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق پہلے اجلاس میں شریک تھے‘ شاہد احمد دہلوی‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ سید وقار عظیم‘ شوکت صدیقی‘ غلام عباس‘ اشفاق احمد‘ احمد راہی‘ شیخ ایاز‘ امیر حمزہ شنواری‘ ناصر کاظمی‘ منیر نیازی بلکہ قرۃ العین حیدر بھی شامل تھیں۔ بعد میں قرۃ العین حیدر بھارت چلی گئیں۔ گلڈ میں رائٹ اور لیفٹ کی نامور شخصیات تھیں‘ فیض احمد فیض‘ احمد ندیم قاسمی سے لے کر حفیظ جالندھری اور نسیم حجازی تک ہر مکتبِ فکر موجود تھا۔ گلڈ کے بارے میں تب یہ مشہور تھا کہ ایوب خان کیلئے یہ ادیبوں کو پھانسنے کا جال ہے۔ آج جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماسوائے اکا دکا ادیب کے‘ کسی نے ایوب خان کیلئے اس طرح کام نہیں کیا۔ ان میں سے کچھ آج بھی زندہ ہیں اور ایوب خان کی سیاست کا دفاع کرتے ہیں۔ گلڈ پر امریکی مفادات کا اسیر ہونے کا الزام بھی لگا حالانکہ لیفٹ کے کئی ممتاز لوگ اس میں شامل تھے اور خود شہاب چینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ امریکی اسی وجہ سے شہاب سے نالاں تھے۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے تین برس تک شہاب کی پنشن بند رکھی اور شہاب کو نہایت مشکل حالات میں گزارا کرنا پڑا۔ فوجی حکومت نے شہاب کو انگلینڈ سے اغوا کرانے کی کوششیں بھی کیں۔ شہاب کے حالات اس قدر خراب تھے کہ انہیں کئی بار دن میں ایک مرتبہ کھانا کھانا پڑتا۔ خراب مالی حالات اور ناکافی خوراک کی وجہ سے اُن کی بیوی بیمار پڑ گئیں‘ ان کے گردے خراب ہو گئے۔ شہاب کے پاس علاج کے پیسے بھی نہیں تھے۔ بروقت اور مناسب علاج نہ ہونے سے عفت شہاب محض بیالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں