"FBC" (space) message & send to 7575

سماج میں مساوات کی جدوجہد

ایک ایسا دور‘ جس میں ٹیکنالوجی بجلی کی رفتار سے معاشرے کو نئی شکل دیتی ہے اور عالمی بحران پرانے اصولوں کو ختم کر رہے ہیں‘ ایسے ماحول میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا نوجوان ایک گہری اخلاقی اور سیاسی تبدیلی کے مرکز میں کھڑے ہیں یا ان کی جدوجہد محض ذاتی کامیابی کے لیے ہے؟ کیا یہ طاقت کی حرکیات‘ مادیت پرستی اور نظام کی عدم مساوات کے غلبہ والی دنیا میں انسانی اقدار کی بحالی کی کوئی نئی جنگ ہے؟
تبدیلی کی ہوائیں بے لگام ہیں لیکن نوجوانوں کا جذبہ بھی ایسا ہی ہے جو بغیر کسی سوال کے‘ ٹوٹے ہوئے نظام کے وارث ہونے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کی لڑائی عمانویل کانٹ کی حکمت کی بازگشت ہے‘ جس نے ایک بار کہا تھا ''انسانیت کی ٹیڑھی لکڑی سے‘ کوئی سیدھی چیز کبھی نہیں بنی‘‘۔ نوجوان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جو دنیا انہیں وراثت میں ملی ہے وہ ناقص ہے۔ یہ نسلوں کے لالچ‘ تعصب اور خوشنودی سے جڑی ہوئی ہے۔ پھر بھی وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ یہ ٹیڑھ پن ان کے مستقبل کا تعین کرے۔ اس کے بجائے وہ ابھرتے ہیں‘ پرانے نظام کی داغدار باقیات سے کچھ نیا بناتے ہیں۔
جدید نوجوانوں کی جدوجہد ایک طاقتور تضاد میں جڑی ہوئی ہے: وہ پہلے سے کہیں زیادہ جڑے ہوئے ہیں‘ پھر بھی اقتدار سے دور ہیں۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں‘ پھر بھی کم بااختیار ہیں۔ ان سے لامتناہی امکانات کا وعدہ کیا گیا ہے‘ پھر بھی انہیں کم ہوتے مواقع کا سامنا ہے۔ اس تناؤ میں ایک نیا اخلاقی شعور ابھرتا ہے‘ جو منافع پر ہمدردی‘ سہولت پر انصاف اور پروپیگنڈے پر سچائی کو اہمیت دیتا ہے۔ جان سٹورٹ مل کے الفاظ آج بھی اتنے ہی زوردار طریقے سے گونجتے ہیں جتنے کہ 19ویں صدی میں‘ جب انہوں نے کہا تھا ''ایک ریاست کی قدر طویل مدت میں‘ اس کی تشکیل کرنے والے افراد کی قدر ہوتی ہے‘‘۔ نوجوان اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی حکومتیں‘ ادارے اور معیشتیں صرف اتنی ہی اخلاقی ہیں جتنے کہ انہیں چلانے والے لوگ‘ لہٰذا وہ ایسے نظام میں غیر فعال حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں جو ان کی آوازوں کو نظرانداز کرتا ہے۔
انسانی اقدار کے لیے اس نسل کی جدوجہد ہر محاذ پر نظر آتی ہے۔ ماحولیاتی کارکن کارپوریشنوں اور حکومتوں سے جوابدہی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نوجوان ماہرین یکساں خود مختاری اور صنفی مساوات کے لیے لڑتے ہیں۔ طلبہ کی آمریت اور نظام کی بدعنوانی کے خلاف ریلیاں۔ نسلی ناانصافی اور معاشی عدم مساوات کو چیلنج کرنے کے لیے نچلی سطح پر تحریکیں اٹھتی ہیں۔ یہ تمام جدوجہد ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ سب ایک بنیادی اخلاقی قوت کے ذریعے چلتی ہیں جو سرحدوں کو بھی عبور کر جاتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ جوانی کا آئیڈیلزم عمر کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتا ہے‘ لیکن اگراس بار اس کے برعکس ہوتا ہے تو کیا ہوگا؟ اگر انسانی اقدار کے لیے نوجوانوں کی غیر متزلزل وابستگی ایک دیرپا تبدیلی کی تحریک بن جائے‘ جو فرسودہ نظاموں کو تیار یا ٹوٹ پھوٹ پر مجبور کر دے تو؟انسانیت کی اخلاقی اور سیاسی ترقی کبھی جامد نہیں رہی۔ یہ بحران کے لمحات میں آگے بڑھی ہے‘ جو ایک بہتر دنیا کا تصور کرنے کے لیے کافی ہے۔ آج کے نوجوان اس ہمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی جدوجہد ایک یاددہانی ہے کہ ترقی کا عمل نہ تو خودکار ہے اور نہ ہی ناگزیر۔ یہ ایک لڑائی ہے اور یہ ان لوگوں کی لڑائی ہے جو کسی بہتر چیز پر یقین کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔جیسا کہ فلسفی انتونیو گرامچی نے ایک بار مشاہدہ کیا تھا ''پرانی دنیا مر رہی ہے‘ اور نئی دنیا پیدا ہونے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے؛ یہ جو وقت ہے‘ یہ عفریتوں کا وقت ہے‘‘۔ لیکن شاید وہ عفریت ناگزیر نہیں ہیں۔ شاید نوجوانوں کے عزم اور جدوجہد سے ایک بہتر دنیا ابھرنے کی منتظر ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آیا وہ اس کے لیے لڑیں گے؟ وہ پہلے ہی جدوجہد میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا باقی دنیا ان کی سنے گی؟ سوال سننے‘ سوچنے اور سوال کرنے کا ہے۔ دنیا میں بے شمار سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے ہی انسان علم کی جستجو میں رہا ہے۔ علم فتح اور جدوجہد کا نعرہ نیا نہیں ہے۔ اس نعرے نے انسانی ارتقا کے ساتھ ساتھ ترقی کی ہے۔ نشوونما پائی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان اپنے ماحول کے ساتھ پیچیدہ رشتے رکھتا تھا۔ وہ اپنے ماحول میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتا تھا۔ اسے اپنے تحفظ اور سکیورٹی اور تحفظ سے جڑے ماحول سے خطرہ تھا یا وہ اس سے خطرہ محسوس کرتا تھا؛ چنانچہ انسان نے اپنے لیے اس ماحول کو اور خود کو بدلنا شروع کر دیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا انسان اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا۔ ماحول کے اندر ہونے کے باوجود اس کو بدلنے کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ خود انسانی آبادیوں اور بستیوں کے اندر سے دو قسم کی تحریکیں اٹھنے لگیں۔ ایک انسان دوست تحریکیں تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو انسان دوست اور محبت کرنے والے لوگ تھے۔ یہ اچھائی کا جواب اچھائی سے دیتے تھے۔ لیکن اس اچھائی اور برائی کے ڈانڈے کسی مذہب سے نہیں بلکہ عمومی انسانی بھلائی سے ملتے تھے۔ ماحول آہستہ آہستہ بدلتا چلا گیا۔ جن لوگوں نے اس بندر با نٹ میں حصہ لیا تھا انہوں نے نئے سرے سے تشکیل پانے والی بندر بانٹ میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ سماج کی تشکیل نئے خطوط پر شروع ہو گئی۔ اس ماحول کے نتیجے میں جو لوگ طاقتور گروہوں کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے وہ سخت گیر طبقات کی شکل اختیار کر کے ایک نئی طبقاتی روپ میں ابھرے۔ استحصالی اور ظالم طبقات نے طاقت اور جبر کا ماحول پیدا کر کے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا جہاں غریب طبقات کے لیے مشکل زندگی باقاعدہ اور منظم ماحول میں ڈھل گئی۔ صدیوں پر محیط اس تشدد آمیز اور خوفناک ماحول میں زندگی ایک نیا رخ اختیار کرنے لگی‘ جہاں عام انسان کے لیے زندہ رہنا ایک دشوار کام تھا۔ آخرکار وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف دنیا کے چپے چپے پر جدوجہد کی ایک باقاعدہ فضا بنتی چلی گئی۔ اس فضا سے مختلف تحریکوں نے جنم لینا شروع کیا اور یہ فضا کسی ایک شہر تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کے سائے بڑھتے بڑھتے پوری دنیا میں پھیل گئے۔ یہاں سے سماج نے اگلی انگڑائی لی جس کے نتیجے میں انسان دوست اور انسان دشمن تحریکوں نے دوبارہ ایک نیا نظام تخلیق گیا اور اپنے اپنے ماحول کے مطابق انسانیت دوستی یا ظلم وجبر کا راستہ اختیار کیا۔ جہاں ظلم وجبر کے لیے ساز گار ماحول تھا وہاں ظلم وجبر کا غلبہ رہا۔ جہاں انسان دوستی کا ماحول تھا وہاں دوسرا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا جلد بازی ہو گی کہ انسان اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے یا پھر وہ اپنے ماحول سے جو کچھ لیتا ہے وہ زندگی میں اس کے راستوں کا تعین کرتا ہے۔ یہاں بات ہو رہی تھی نوجوان نسل اور افتادِ طبع کی‘ نیزیہ کہ کیا انسان اپنی زندگی کے راستوں کا خود انتخاب کرتا ہے؟ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہے یا نہیں؟ کیا انسان اپنی جدوجہد کے راستوں کا انتخاب خود کرتا ہے یا اس کا ماحول؟ کیا انسان زندگی میں ہمہ وقت تبدیلی کا خواشمندہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں