امریکی سینیٹرز نے پاکستان کے عوام پر براہِ راست ٹیکس لگا دیا۔ یعنی جو اختیارات پاکستان کے عوا م کو حاصل تھے‘ وہ ایک بل کے تحت امریکی عوام کو حاصل ہو گئے ہیں۔ ایسا امریکی آئین اور قانون کے تحت ہوا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ یہ ہوا کیسے؟ دوسرا سوال‘ اور یہ سوال تھوڑا پیچیدہ ہے‘ مگر بہت ہی دلچسپ ہے۔ یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں اس میں سوائے معدودے چند ممالک کے باقی سب میں جمہوری نظامِ حکومت رائج ہے۔ جو اس کو حقیقی جمہوریت نہیں مانتے‘ وہ بھی اس نظام کو جمہوریت ہی کہنے پر مجبور ہیں یا وہ اسے ''خود ساختہ جمہوری نظام‘‘ کہتے ہیں۔ گویا کم و بیش ساری دنیا اس نظام کو جمہوری نظام کہنے پر ہی مجبور ہے۔ لیکن اس تصور نے اس سارے نظام بلکہ نظامِ حکومت کے تصور کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ دنیا میں رائج مختلف نظاموں کو سیاسی‘ سماجی اور مذہبی بنیادوں پر بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی بنیادوں پر خود ساختہ نظاموں کی ایک طویل فہرست بن جاتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب دنیا میں ان سے زیادہ سنجیدہ نظاموں کی ایک طویل فہرست بننے والی ہے جن کو چلانے والے کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ نئے نظام بنانے والوں اور ان کو چلانے والوں کی فہرست کو ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بہت طویل ہو جائے گی اور اس کے لیے کالم کا دامن تنگ تر ہے‘ مگر اس قصے کا نچوڑ یہ ہے کہ ایسا کبھی ہوا نہیں ہے۔ امریکہ میں ظلم‘ جبر‘ تشدد‘ قتل اور غارت کے بازار تو گرم ہوتے رہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا‘ ووٹر کوئی اور ہو‘ امیدوار کوئی اور ہو‘ اور ان کی نمائندگی کا دعوے دار کوئی اور بن کر آیا ہو۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اب وہاں ایسا ہی ہوا۔ امریکی سینیٹر جے ولسن نے ایسا کر دکھایا۔ امریکی آئین کی ایک شق کے مطابق انہوں نے پاکستانی عوام کو یہ کر کے دکھایا کہ پاکستان میں آئین‘ قانون‘ ووٹ کا حق‘ یعنی اصل حقِ نمائندگی کا حق عوام کے پاس ہے‘ لیکن پاکستان میں عوام کی نمائندگی کے فیصلے عوام نہیں بلکہ کچھ اور لوگ کرتے ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے کوئی ووٹ نہیں مانگتا۔ کوئی ان کی خارجہ اور دیگر پالیسیاں نہیں بناتا۔ پالیسیاں اوپر بنتی ہیں اور ان کا اطلاق نیچے ہوتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں پالیسیاں اوپر بنتی ہیں اور ان کے بارے میں فیصلے بھی اوپر ہی ہوتے ہیں۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں پاکستان پر سابق وزیراعظم کی گرفتاری سمیت انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کچھ عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا بل پیش کیا گیا ہے۔ 'پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ کے نام سے یہ بل 24 مارچ کو جنوبی کیرولائنا سے کانگریس کے ریپبلکن رکن جو ولسن اور کیلیفورنیا سے ڈیموکریٹ جمی پنیٹا نے پیش کیا‘ جسے مزید غور و خوض کے لیے ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور اور عدالتی کمیٹیوں کو بھیج دیا گیا ہے۔ اس بل میں یو ایس گلوبل میگنیٹسکی ہیومن رائٹس اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بل کے مسودے میں امریکی انتظامیہ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی مخالفین کو مبینہ طور پر دبانے میں ملوث افراد کی نشاندہی کرے۔ اس بل میں درج ہے کہ ان افراد پر پابندی عائد کی جائے جو پاکستان میں سیاسی حریفوں کو قید کرنے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
اس بل سے پہلے بھی امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی سے متعلق ایسے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔گزشتہ برس امریکی ایوانِ نمائندگان کے 60 سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے سابق صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں ان پر زور دیا تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کویقینی بنانے کے لیے پاکستانی حکومت پر واشنگٹن کا اثرو رسوخ استعمال کریں۔لیکن اس خط کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
تاہم دوسری طرف اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بات کی جائے تو انہوں نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک پاکستان کے معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے ابھی تک عمران خان سے متعلق کوئی بات کی ہے۔ کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے پاکستان کا ذکر ضرور کیا‘ تاہم یہ ایک شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک دہشت گرد کی گرفتاری سے متعلق تھا۔چھ مارچ کو کانگریس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے اگست 2021ء میں کابل ایئرپورٹ پر حملے کے ملزم کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔
جو ولسن‘ جنہوں نے ایوانِ نمائندگان میں پاکستان ڈیمو کریسی ایکٹ نامی بل پیش کیا ہے‘نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس بل سے متعلق لکھا کہ اس میں یہ واضح ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی امریکہ کی پالیسی ہے۔جو ولسن ایوان نمائندگان کی خارجہ امور اور آرمڈ سروسز کی کمیٹیوں کے ایک اہم رکن ہیں۔ وہ ریپبلکن پالیسی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔جوولسن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرے رکن ڈیموکریٹ جیمز ورنی پنیٹا ہیں جو امریکی بحریہ کے سابق انٹیلی جنس افسر رہ چکے ہیں۔جو ولسن کچھ عرصے سے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی سے متعلق متحرک ہیں۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد پوسٹوں میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں‘ وہ بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کو سیاسی قرار دیتے ہیں۔ جو ولسن نے ریپبلکن سٹڈی کمیٹی کے سربراہ آگسٹ پلگر کے ساتھ مل کر گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ وہ بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی قیادت سے بات کریں۔جو ولسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر خط جاری کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اور آگسٹ پلگر وزیر خارجہ مارکو روبیو پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو بحال اور عمران خان کو رہا کروایا جائے۔
جو ولسن اور عمران خان دونوں امریکہ اور پاکستان کی رولنگ اشرافیہ کے انتہائی با اثر اور طاقتور رکن ہیں اور مستقبل قریب میں دونوں کے تعلقات میں مزید گرم جوشی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان جس پٹڑی پر قدم جما چکے ہیں‘ اگر وہ اگر مستقبل قریب میں بھی اس پٹڑی پر قدم جمانے اور عالمی اشرافیہ کا حصہ بننے کی پوزیشن میں رہے تو ان کے عالمی اشرافیہ خصوصاً امریکی سیاستدانوں سے جڑے رہنے کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے‘ اور یہ بات کوئی قرین قیاس نہیں کہ وہ اشرافیہ کا حصہ بن جائیں۔ ان حالات میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اور سیاست امکانات کا ہی نام ہے۔