انتظامی اکائیوں کے طور پر صوبوں کا تصور قدیم تہذیبوں سے رائج ہے۔ رومی سلطنت‘ سلطنتِ فارس‘ یہاں تک کہ ابتدائی چینی خاندانوں نے بھی وسیع علاقوں کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کے لیے صوبائی نظام کا استعمال کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس گورننس ماڈل کو بہتر کیا گیا اور آج بہت سے ممالک انتظامیہ کی بنیادی اکائیوں کے طور پر خطوں‘صوبوں یا ریاستوں کی تقسیم پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم‘ تیزی سے عالمگیریت‘ ڈیجیٹل گورننس اور سماجی وسیاسی حرکیات کی تبدیلی کے دور میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا یہ روایتی صوبائی ماڈل گورننس کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گورننس کے نئے ماڈل اور طریقے متعارف ہو چکے اور گورننس کے طریقوں میں اس ارتقائی عمل کو پاکستان جیسے ممالک میں بھی متعارف کرایا جا سکتا ہے؟
تاریخی طور پر صوبے بڑی سلطنتوں اور قوموں پر حکومت کرنے کے لاجسٹک چیلنج کے جواب کے طور پر ابھرے۔ صوبوں کا بنیادی کام اختیارات کو غیر مرکزی بنانا تھا‘ جو مرکزی کنٹرول کو برقرار رکھتے ہوئے مقامی انتظامیہ کی اجازت دیتا۔ مثال کے طور پر قدیم روم میں صوبے دور دراز علاقوں کے انتظام‘ ٹیکس جمع کرنے اور امن وامان کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اسی طرح جنوبی ایشیا میں مغل سلطنت نے اپنے تسلط کو انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا جسے ''صوبہ‘‘ کہا جاتا۔ ہر ایک پر شہنشاہ کی کمان کے تحت ایک مقامی منتظم کی حکومت ہوتی۔ نوآبادیاتی ادوار کے دوران برطانیہ‘ فرانس اور سپین سمیت یورپی طاقتوں نے بھی اپنی کالونیوں کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے لیے صوبوں کا استعمال کیا۔ غیر آبادکاری کے بعد بھی بہت سی نئی آزاد قوموں نے استحکام برقرار رکھنے کے لیے صوبائی ڈھانچے کو برقرار رکھا۔ آج صوبے اسی طرح کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ صوبے مقامی گورننس کو فعال کرتے‘ انتظامیہ کو ہموار کرتے اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ قومی پالیسیوں کو نچلی سطح پر مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔ آج بھی متعدد ممالک صوبائی یا ریاستی گورننس ماڈل کے تحت کام کر رہے ہیں۔
کینیڈا‘ پاکستان‘ بھارت‘ چین‘ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ حکمرانی کے لیے صوبوں پر انحصار کرتے ہیں۔ مذکورہ ممالک میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ سب برطانوی نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے۔ ان میں تبدیلی کا عمل بہت ہی سست رفتار رہا۔ ان میں تبدیلی کے باب میں ایک انجانا خوف پایا جاتا ہے اور یہ خیال عام ہے کہ تبدیلی کا عمل انتظامی معامالات کو بگاڑ سکتا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ‘ جرمنی اور برازیل جیسی وفاقی ریاستوں میں صوبوں یا ریاستوں کو خودمختاری حاصل ہے‘ جو تعلیم‘ صحت اور بنیادی ڈھانچے پر قانون سازی کو خود کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس فرانس اور جاپان جیسی وحدانی ریاستیں مضبوط مرکزی اتھارٹی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور صوبے خودمختار اداروں کے بجائے انتظامی توسیع کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ صوبو ں پر مبنی انتظامی ڈھانچے مقامی فیصلہ سازی اور مرکزی حکومتوں پر بیورو کریٹک بوجھ میں کمی سمیت کئی فوائد کے حامل ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ کئی چیلنجز بھی لاتے ہیں‘ جیسے صوبائی خودمختاری پر سیاسی تنازعات‘ حکمرانی کے ڈھانچے کی نقل اور وسائل کی تقسیم میں نااہلی وغیرہ۔ مزید برآں کچھ ممالک میں صوبائی حکومتیں بدعنوانی اور بدانتظامی کا مرکز بن جاتی ہیں‘ جس سے قومی حکمرانی مزید کمزور ہوتی ہے۔
روایتی صوبائی ماڈل اگرچہ بہت لحاظ سے مؤثر ہے لیکن اسے عصری حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ دنیا نے ٹیکنالوجی‘ کمیونیکیشن اور گورننس کے طریقہ کار میں نمایاں ترقی دیکھی ہے جو بعض صوبائی کاموں کے طریقہ کار کو بدل سکتی یا اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ بہتر ڈیجیٹل گورننس کے اس دور میں ڈیجیٹل انتظامیہ میں ترقی کے ساتھ بہت سے بیورو کریٹک کام جو روایتی طور پر صوبوں کے ذریعے سنبھالے جاتے تھے اب آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ طریقہ اخراجات کو کم کر سکتا اور کارکردگی کو بڑھا سکتا ہے۔ اس سے لچکدار انتظامی حدود بھی قائم ہو سکتی ہیں۔ صدیوں پرانی صوبائی سرحدوں پر سختی سے ڈٹے رہنے کے بجائے متحرک‘ ضروریات پر مبنی انتظامی تقسیم پر غور کرنا چاہیے‘ جو معاشی اور آبادیاتی حقائق کی عکاسی کرتی ہو۔ گورننس کے نئے ماڈل اپنانے سے احتساب اور کارکردگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بدعنوانی کو روکنے کے لیے صوبائی حکومتوں کی شفافیت کے اعلیٰ معیار قائم ہو سکتے ہیں۔ کارکردگی پر مبنی گورننس ماڈل کو نافذ کرنے سے کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ علاقائی تعاون کے ماڈل اپنا کر چھوٹے انتظامی ڈویژن والے ممالک بین الصوبائی اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے علاقائی تعاون کے فریم ورک تلاش کر سکتے ہیں۔
بہت سے ممالک اب بھی حکومت کے لیے صوبوں پر انحصار کرتے ہیں۔ مختلف جائزوں کے مطابق دنیا کی تقریباً 70 فیصد قوموں میں صوبائی یا ریاستی سطح پر انتظامیہ کی کوئی نہ کوئی شکل موجود ہے‘ تاہم سب ایک ہی طرزِ حکمرانی کی پیروی نہیں کرتے۔ وفاقی ریاستیں جیسے امریکہ‘ کینیڈا اور بھارت اپنے صوبوں اور ریاستوں کو اہم اور بنیادی خودمختاری دیتی ہیں‘ جبکہ برطانیہ اور چین جیسے ممالک سخت مرکزی کنٹرول برقرار رکھتے ہیں۔ ان مختلف ماڈلز میں اہم سبق یہ ہے کہ ایک ماڈل سب کیلئے موزوں نہیں ہوتا۔ ہر ملک کو اپنے صوبائی طرزِ حکمرانی کے ڈھانچے کو اپنے منفرد سماجی وسیاسی منظر نامے کے مطابق بنانا چاہیے۔ پاکستان کا اپنا ایک منفرد سیاسی وسماجی منظر نامہ ہے‘ جو نئے صوبے یا ریاستیں تشکیل دینے کا متقاضی ہے۔ نئے صوبوں کی تشکیل کا تصور آبادی کے کسی ایک دھڑے کی طرف سے نہیں آ رہا بلکہ غور کیا جائے تو یہ سماج کی تمام پرتوں اور طبقات کا مطالبہ ہے۔ صوبوں کا انتظامی ڈھانچہ ماضی میں بھی بدلتا رہا اور مستقبل میں بھی اس میں تبدیلی کے امکانات ہیں‘ لیکن اس تبدیلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ فیصلہ سازی میں سست رفتاری ہے۔ حکمران اشرافیہ ایسے فیصلے کرنے میں بہت تاخیر کر دیتی ہے جن کی وجہ سے ان فیصلوں کی اہمیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔
اگرچہ یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ صوبوں نے تاریخی طور پر حکمرانی میں ایک اہم کردار ادا کیا لیکن وقت آ گیا ہے کہ قومیں اپنے انتظامی ڈھانچے پر نظر ثانی کریں۔ تیز رفتار تکنیکی ترقی‘ اقتصادی باہمی ربط اور ابھرتے ہوئے سیاسی منظر ناموں سے متعین دور میں پرانے صوبائی ماڈلز پر ڈٹے رہنا ترقی کے سفر میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اب ایسے انتظامی ڈھانچے تشکیل دینے چاہئیں جن میں صوبائی انتظامیہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے ترقی کے لیے ایک قوت بنے۔ ایسے لچکدار ڈھانچے جن میں ڈیجیٹل گورننس اور کارکردگی کو بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہوں تاکہ حکومت فرسودہ نظاموں کے تحفظ کے بجائے ترقی اور خوشحالی کا راستہ اختیار کرے۔ حتمی مقصد ایک ایسا گورننس کا ڈھانچہ تشکیل دینا ہو جو اکیسویں صدی کی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو اور شمولیت‘ شفافیت اور اقتصادی ترقی کو فروغ دے۔ پاکستان کے معاشی‘ سیاسی اور سماجی تناظر میں نئے صوبوں اور ریاستوں کا قیام ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس عمل سے اقتدار اور اختیار عوام کو منتقل ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے‘ جو دھرتی کے اصل وارث ہیں اور جو اپنی دھرتی پر موجود وسائل کے بھی مالک ہیں۔ جس دھرتی پر وہ آباد ہیں اس کے وسائل اور اختیار تک اگر ان کی پہنچ نہیں تو پھر جمہوریت اور رائے دہی کا سلسلۂ عمل ایک بیکار کی مشق ہے۔ نئے صوبوں اور ریاستوں کی تشکیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ طاقتور اشرافیہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ضرورت سے زیادہ اختیارات اور طاقت ہے۔ اس طاقت کا غلط استعمال کوئی راز کی بات نہیں۔ اسی طاقت اور اختیار کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے یہ لوگ ہر تبدیلی کے خلاف کمر بستہ رہتے ہیں۔