"FBC" (space) message & send to 7575

اضطراب اور افسردگی کی شکار نسلیں

ترقی یافتہ دنیا کے چمکیلے شہروں میں‘ جہاں فلک بوس عمارتیں خوشحالی کی چمک سے جگمگا رہی ہیں‘ ایک خاموش بحران بھی سامنے آ رہا ہے۔ کامیابی کی چمکیلی سطح کے نیچے‘ لاکھوں لوگ ایک نادیدہ دشمن سے لڑ رہے ہیں۔ جدید زندگی کے لیے مواقع اور ترقی فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے اس نظام کو اضطراب اور افسردگی کنارے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ زندگی گزارنے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے جس سے زندگی میں توازن یا ذہنی سکون کم گنجائش ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سے معاشروں میں کامیابی کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔ محنت کو اکثر خوشی اور استحکام کا آخری راستہ قرار دیا جاتا ہے پھر بھی لاتعداد افراد کے لیے یہ راستہ ایک ٹریڈمل کی طرح محسوس ہوتا ہے جو ہر گزرتے سال کے ساتھ تیز ہوتا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متمول ممالک میں بھی زندگی کی بنیادی چیزیں مثلاً خوراک‘ نقل وحمل‘ صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور رہائش جیسی سہولتیں تیزی سے دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ جیسے جیسے قیمتیں بڑھتی جاتی ہیں اور اُجرتیں بڑھنا رک جاتی ہیں‘ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے کم سے کم معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔نیویارک‘ لندن اور ٹوکیو جیسے شہروں میں مکانوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں‘ جس سے بہت سے لوگ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ محض اپنے سروں پر چھت برقرار رکھنے کے لیے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ رہن یا کرایہ کی ادائیگی ماہانہ کمائی کا 30 ‘ 40 فیصد یہاں تک کہ 50 فیصد بھی خرچ کرا دیتی ہے‘ جس سے دیگر ضروریات کے لیے بہت تھوڑی رقم بچتی ہے۔ نقل وحمل کے اخراجات بھی ایک بڑا بوجھ ہیں‘ خاص طور پر شہری علاقوں میں‘ جہاں کار کا مالک ہونا بہت مہنگا ہے‘ دوسری جانب عوامی نقل وحمل کے ذرائع ناقابلِ بھروسا ہونے کے علاوہ مہنگے بھی ہیں۔ اور پھر کھانا‘ جو ایک بنیادی ضرورت ہے‘ اس کا خرچ بھی برداشت کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ صحت بخش غذائی اجناس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے‘ جس کے باعث محدود بجٹ والے افراد سستی اور کم غذائیت والی غذائی اجناس پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ نتیجہ‘ معیارِزندگی اور صحت کے ساتھ سمجھوتا‘تاکہ اس غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
تعلیم‘ جسے کبھی عظیم مساوات کے طور پر دیکھا جاتا تھا‘ اب بہت سوں کے لیے ایک مالیاتی پہاڑ کی مانند ہے۔ طلبہ کے قرضوں کی قسط حیران کن سطح پر پہنچ گئی ہے‘ جس سے نوجوان پیشہ ور افراد ادائیگی کے چکر میں پھنس گئے ہیں‘ یہ قرض پلان کئی دہائیوں پر محیط ہوتا ہے۔ والدین کے لیے بچوں کی دیکھ بھال اور سکولنگ کی لاگت میں بھی تناؤ بڑھ گیا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ مواقع جن کے حصول کے لیے انہوں نے خود اس قدر سخت جدوجہد کی تھی‘ اپنے بچوں کو کیسے فراہم کریں گے؟ صحت کی دیکھ بھال‘ یہاں تک کہ یونیورسل کوریج والے ممالک میں بھی ایک مستقل پریشانی بن چکی ہے۔ طویل انتظار کے اوقات‘ خصوصی دیکھ بھال کی کمی اور غیر متوقع طبی اخراجات کا خوف بہت زیادہ ہے۔ امریکہ جیسے ملکوں میں‘ جہاں ہیلتھ انشورنس ملازمت سے منسلک ہے ‘ آمدن سے زائد اخراجات ایک خاندان کے مالی معاملات کو خراب کر سکتے ہیں‘ اس سے ملازمت کرتے رہنے کا دباؤ مزید بڑھ رہا ہے جبکہ دماغی صحت پر پڑنے والے اثرات کا کوئی شمار نہیں۔ ذہنی صحت کی خدمات‘ اکثر ان لوگوں کے لیے ناقابلِ رسائی یا بہت مہنگی ہوتی ہیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس جدید بھول بھلیاں کی طرف جانے والوں کے لیے اب یہ پیغام واضح نظر آتا ہے کہ بھاری جذباتی اور جسمانی قیمت ادا کیے بغیر آرام دہ زندگی حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ یہ بے لگام دباؤ اضطراب اور افسردگی کو ہوا دیتا ہے کیونکہ امیدوں کے بوجھ تلے دبتے ہوئے بھی کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کی چند امیر ترین قوموں میں رہنا تناؤ‘ عدم تحفظ اور عدم قناعت کے خوف کے مترادف ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ چاہے وہ کتنی ہی محنت کر رہے ہوں‘ محض ساحلوں پر لہروں کو دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں؛ یعنی ایک لاحاصل اور بے نتیجہ کوشش۔ ترقی کا وعدہ ایک سراب کی طرح محسوس ہوتا ہے‘ جب ترقی کی سیڑھی کا ہر ایک قدم قرضوں‘ جلن اور مزید اشیائے ضروریہ کیلئے مسلسل جدوجہد میں دب جاتا ہے اس ماحول میں بنیادی ضروریات جیسا کہ آرام‘ فرصت اور اپنی ذات کی تکمیل کا بھی وقت قربان کر دیا جاتا ہے۔ جب ذہن یوٹیلیٹی بلوں اورگھر کے کرایے کی مسلسل بڑھتی ہوئی لاگت کے بارے میں فکر میں مبتلا ہو جائے تو آرام کے لیے بہت کم وقت ملتا ہے۔ اس سے رشتے متاثر ہوتے ہیں‘ تخلیقی صلاحیتیں مرجھا جاتی ہیں اور جینے کی خوشی روٹھ جاتی ہے۔
سوال مگر اب بھی باقی ہے: ہم اس مقام پر کیسے پہنچے جہاں کچھ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اس قدر شدید جدوجہد کر رہے ہیں؟ اس کا جواب کثیر الجہتی ہے‘ لیکن اس کا مرکز صارفیت اور غیر مارک شدہ سرمایہ داری کا انتھک مارچ ہے‘ جہاں کامیابی کو مادی دولت میں ماپا جاتا ہے اور انسانی قدر کو پیداواری صلاحیت سے جوڑا جاتا ہے۔ جدید معیشتوں کے ڈھانچے نے ایک ایسا نظام بنایا ہے جہاں افراد سے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور صلاحیتیں دینے کی توقع کی جاتی ہے جبکہ بدلے میں وہ بہت کم وصول کرتے ہیں۔ آپ کے پاس وقت کم ہوگا تو آپ کی آزادی بھی کم اور ذہنی سکون بھی کم ملے گا۔
یہ صرف ایک انفرادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ بھی ہے۔ حکومتوں اور کارپوریشنوں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ زندگی کی موجودہ رفتارجو مسلسل بڑھتی ہوئی ضرورت اور ان کی بڑھتی ہوئی لاگت سے چلتی ہے‘ ناپائیدار ہے۔ ایسے میں دماغی صحت کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ اسے اس بات میں ضم کیا جانا چاہیے کہ ہم اپنے معاشروں کو کس طرح بناتے اور برقرار رکھتے ہیں۔ اہم تبدیلی کے بغیرہم ایک ایسے مستقبل کو خطرے میں ڈالتے ہیں جہاں اضطراب اور ڈپریشن اگلی نسل کے لیے ایک تباہ کن قسم کی میراث ہوں گے اور اس سلسلۂ عمل میں آپ اپنے بچوں کے لیے کوئی زیادہ جائیداد نہیں‘ بہت کم چھوڑے جا رہے ہیں۔ میراث میں کیا ہو گا؟ ایک کمپنی‘ جو دیوالیہ ہو رہی ہو گی۔ بعض لوگ ان حقائق سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے مسائل پر قابو پانے کے لیے ذہن سازی‘ تھراپی یا دوائیوں سے مدد لیتے ہیں۔ کچھ کمیونٹیز اور سوشل سپورٹ نیٹ ورکس میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ لیکن یہ عوامل ایک گہرے زخم پر معمولی مرہم پٹی کے مترادف ہیں۔ حقیقی علاج توازن کی طرف تبدیلی میں مضمر ہے؛ ایک ایسی دنیا جہاں کامیابی کا حصول ذہنی اور جذباتی تندرستی کی قیمت پر نہیں ہوتا۔
اس وقت تک لاکھوں لوگ اس مہنگی دنیا میں آتے رہیں گے‘ اضطراب کی برف کو پگھلانے کے طریقے تلاش کرتے رہیں گے اور ایک ایسے معاشرے میں اپنے احساسِ نفس کا دوبارہ دعویٰ کریں گے جس نے زندگی گزارنے کے عمل کو ایک مسلسل اور مشکل جنگ بنا دیا ہے۔ زندگی آسودگی اور بحران سے زیادہ بے سکونی کی شکار ہے۔ ڈپریشن معمول کا حصہ ہو چکا‘ بے سکونی ایک عام سی بات ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں‘ لیکن ذرا مختلف طریقے سے۔وہ جس نظام زندگی کی طرف بڑھ رہا ہے اس نظام معیشت کا بلیو پرنٹ دیکھے بغیر اس کا خاتمہ بھی اسی طرزِ زندگی پر ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں