"FBC" (space) message & send to 7575

یہ لڑائی کون جیتا ہے؟

روس اور یوکرین کے درمیان تصادم محض دو قوموں کا تصادم نہیں بلکہ دو تاریخوں‘ دو شناختوں‘ جغرافیائی اور سیاسی عزائم کا تصادم ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس تنازع کا بیج 1991ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد ہی بویا جا چکا تھا۔ یوکرین‘ جو کبھی ایک اہم سوویت ریاست تھا‘ نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ یوکرین کی علیحدگی سے روس اپنے ایک اہم صنعتی‘ زرعی اور تزویراتی مرکز سے محروم ہو گیا۔ سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد یوکرین کا جھکاؤ مغرب کی جانب ہو گیا۔ یورپی یونین اور نیٹو میں شمولیت کے لیے یوکرین نے ان دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے غیر معمولی جھکاؤ کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جسے روس اپنے اثر و رسوخ کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھتا ہے۔
2014ء میں یوکرین اور یورپی یونین کے مابین ایسوسی ایشن ایگریمنٹ کا اقدام روس نواز صدر وکٹر یانو کووچ کی معزولی کا باعث بنا‘ جس نے ایک فلیش پوائنٹ کے طور پر کام کیا۔ اس معاہدے کے بعد روس نے یوکرین میں قیام پذیر روسی بولنے والی آبادیوں کے تحفظ کو جواز بناتے ہوئے کریمیا کو ضم کر کے اس اقدام کا فوری جواب دیا۔ اس کے بعد ڈونباس میں تنازع شروع ہوگیا جہاں ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے یوکرین کی افواج سے جنگ شروع کر دی۔ ایسوسی ایشن ایگریمنٹ جیسے معاہدوں اور دیگر سفارتی کوششوں نے یوکرین کے لیے امید کی کرن پیدا تو کی لیکن یہ کوششیں فائدہ مند ثابت نہ ہو سکیں۔2021ء کے آخر تک روس اور یوکرین کے مابین تناؤ آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ روس نے یوکرین کی سرحدوں کے ساتھ اپنی افواج جمع کرتے ہوئے نیٹو کو روس کی جانب اپنی توسیع کو روکنے کیلئے الٹی میٹم جاری کیا۔ مغربی طاقتوں نے روس کے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے یوکرین کی عسکری صلاحیت بڑھانے میں معاونت شروع کر دی۔ بالآخر 24 فروری 2022ء کو روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا جس کا مقصد یوکرین کو مغربی ممالک کے اثر و رسوخ سے نکال غیر جانبدار کرنا اور اس کی مستقل غیر جانبداری کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن روس کے اندازوں کے برعکس یہ جنگ طول اختیار کرتی گئی۔ بقول شاعر: مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ روس یوکرین جنگ بہت جلد ایک تباہ کن معاشی اور انسانی بحران میں بدل گئی۔ مغربی ممالک نے روس پر بے شمار پابندیاں عائد کر دیں‘ اس کے بڑے بینکوں کے اثاثے منجمد کر دیے۔ جوابی کارروائی میں روس نے یورپ کو قدرتی گیس کی سپلائی روک دی جس سے یورپ کو توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے یورپی کارخانے بند ہو گئے‘ اور شہریوں کو لہو جما دینے والی سردی میں گھریلو استعمال کیلئے بھی گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب یوکرین اور روس کی عالمی تجارت شدید متاثر ہوئی۔ یوکرین کا بنیادی انفراسٹرکچر بھی تباہ ہو گیا‘ اس کے شہر کھنڈرات کی شکل اختیار کرنے لگے‘ اس کی معیشت تباہ ہو گئی اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ اس کے باوجود مغربی ممالک سے ملنے والی مالی و عسکری امداد اور مستقل تعاون کے ساتھ یوکرین نے یہ جنگ جاری رکھی اور اپنے بہت سے علاقوں کو روس سے واگزار کروا لیا۔ غیرمعمولی طول اختیار کرنے والی اس جنگ نے دونوں ممالک کو معاشی اور عسکری طور پر بہت نقصان پہنچایا۔ اس جنگ کے عالمی اور سفارتی اثرات بھی بہت گہرے تھے۔ روس‘ جو کبھی عالمی سفارت کاری کا کلیدی کھلاڑی تھا‘ کو سفارتی محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ روس نے اس کا حل چین‘ ایران اور مغربی تسلط سے مایوس دیگر ممالک کے ساتھ مزید مضبوط تعلقات قائم کر کے نکالا۔ اس جنگ سے روایتی تجارتی اتحاد بھی بدل گئے۔ جرمنی‘ جو اپنی گیس کی تقریباً تمام ضروریات روس سے پوری کرتا تھا‘ توانائی کے متبادل ذرائع کے لیے جدوجہد کرتا نظر آیا‘ یہ جرمنی کی خارجہ پالیسی میں ایک تاریخی موڑ تھا۔ طویل عرصے سے غیر جانبدار رہنے والے ممالک جیسے سویڈن اور فن لینڈ کئی دہائیوں کے سٹریٹیجک توازن کو برقرار رکھتے ہوئے نیٹو کی رکنیت کی طرف بڑھے۔ دریں اثنا گلوبل ساؤتھ کی اقوام کو خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یوکرین جسے یورپ کی فوڈ باسکٹ کہا جاتا تھا‘ کی اناج کی برآمدات کا سلسلہ رکا ہوا تھا‘ جس سے خوراک کے عالمی بحران میں اضافہ ہوا۔ پرانی صفیں اور بساط الٹ گئی۔ دشمن دوست اور دوست دشمن بن گئے۔ نیٹو کے رکن ملک ترکیہ نے یوکرین کو ڈرون فروخت کرنے اور روس کیساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے ثالثی کی کوشش بھی کی۔ بھارت نے مغربی دباؤ پر معاشی عملیت پسندی کو ترجیح دیتے ہوئے رعایتی نرخوں پر روسی تیل خریدنا جاری رکھا۔ کبھی عالمی منظر نامے پر محتاط رویہ اختیار کرنیوالا پولینڈ یوکرین کا سب سے مضبوط اتحادی بن کر ابھرا جس نے لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کی اور ماسکو پر سخت پابندیوں کیلئے زور دیا۔
جب یہ جنگ تیسرے سال میں داخل ہوئی تو دنیا اس جنگ سے ہونے والی شدید تھکاوٹ کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ روس کو وسیع معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس پر اقتصادی پابندیاں توقع سے کہیں زیادہ سخت تھیں‘ اس کے مقابلے میں یوکرین اگرچہ امریکی اور مغربی تعاون کی وجہ سے لچکدار رہا لیکن اسے اس طویل جنگ کی وجہ سے کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی دوران دونوں ممالک کے مابین امن مذاکرات شروع ہوئے لیکن اعتماد کے فقدان کے باعث کامیاب نہ ہو سکے۔ دوسرے ممالک فیس سیونگ کیلئے باہر نکلنے لگے جس کیلئے لگتا ہے کہ سب بے تاب تھے‘ کیونکہ اس بے معنی‘ خود غرضانہ اور کھلے مفادات پر مبنی جنگ نے سب کی مفاد پرستی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
روس کے لیے یہ ایک منجمد تنازع ہے جسے وہ اپنی فتح کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یوکرین‘ جو مغربی امداد سے خوش ہے‘ اپنا کوئی علاقہ سرنڈر کیے بغیر اپنی خودمختاری کا دعویٰ کرنا چاہتا ہے۔ مغرب‘ نیٹو اور روس کے مابین براہِ راست تصادم کے حوالے سے بہت محتاط ہے۔ کچھ بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے یوکرین کی حمایت کرنے والے بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جنگ کا اختتامی نتیجہ ہمیشہ غیریقینی ہی ہوتا ہے‘ چاہے میدانِ جنگ کی تھکن ہو‘ معاشی تباہی ہو یا سفارتی پیش رفت ہو۔ جنگ بالآخر رک ہی جاتی ہے لیکن اس کے نشانات گہرے ہوتے ہیں جو جغرافیائی‘ سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کے علاوہ انسانی نسلوں تک اثرات چھوڑتے ہیں اور عالمی طاقت کی حرکیات اور اتحاد کو نئی شکل دیتے ہیں۔ اس عظیم المیے میں کوئی واضح فاتح نہیں ہے۔ پہلے سے بھی زیادہ ٹوٹی ہوئی‘ کمزور اور نازک دنیا ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہاں ساحر لدھیانوی کے یہ اشعار یاد آتے ہیں:
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے؍ جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی؍ بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو؍ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں؍ شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
جنگ سے ہونے والی تباہی اور بربادی کے نقصانات واضح ہیں‘ جو ہوتے ہوتے ہی پورے ہو پائیں گے۔ جب امن ناکام ہوتا ہے تو جنگ کیلئے راستہ بنتا ہے۔ امن دوست‘ ترقی پسند اور روشن خیال قوتیں ہر دور میں مزاحمت کرتی رہی ہیں۔ اس جنگ میں بھی یہی صورتحال تھی۔ امن پسند قوتوں نے جنگ کے خلاف مورچے بنانے کا سلسلہ جاری رکھا‘ مگر تاریخ کی کسی جنگ میں فتح اور شکست کا فیصلہ کبھی کسی ایک لڑائی سے نہیں ہوا۔ اس طرح کے فیصلے طویل تاریخی جنگوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یوکرین روس جنگ کوئی ایسی جنگ نہیں ہے جسے حتمی طور پر حق و باطل یا ترقی پسند اور رجعت پسند وقتوں کے درمیان لڑائی کا نام دیا جا سکے۔ یہ محض ایک چھوٹا سا معرکہ تھا۔ یہ لوٹ کھسوٹ اور دوسروں کے وسائل پر قبضے کی ایک کوشش تھی‘ جس کی ناکامی اور کامیابی کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں