نویں پارے کے شروع میں قومِ شعیب علیہ السلام کے سرکش سرداروں کی اس دھمکی کا ذکر ہے کہ اے شعیب! ہمارے دین کی طرف پلٹ آؤ‘ ورنہ ہم تمہیں اور تمہارے پیرو کاروں کو جلاوطن کر دیں گے۔ شعیب علیہ السلام نے اللہ سے التجاکی کہ اے اللہ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے‘ پھر اُن پر قومِ ثمود کی طرح عذاب نازل ہوا اور وہ ایسے نیست و نابود ہوئے کہ جیسے کچھ تھاہی نہیں۔
نویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الاعراف سے ہوتا ہے۔ آغاز میں حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ اُن کی قوم کے لوگ مال کی محبت میں اندھے ہو کر حرام و حلال کی تمیز بھلا چکے تھے۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اُنہیں پورا تولنے اور پورا ماپنے کا حکم دیا تو انہوں نے ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیرو ی کی تو گھاٹے میں پڑ جائو گے۔
رسول کریمﷺ سے کفار طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے، جب فرشتے ہمارے پاس اتر کر آئیں یا برزخ و آخرت کے بارے میں آپ جو باتیں ہمیں بتاتے ہیں، ہمارے جو لوگ مرچکے ہیں، وہ زندہ ہو کر آئیں اور آپ کے دعوؤں کی تصدیق کریں، قرآن مجید نے بتایاکہ اُن کی یہ ساری باتیں جہل پر مبنی اور انکارِ حق کیلئے محض بہانے بازی ہے۔
آٹھویں پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا کھڑا کر دیتے تو بھی وہ ایمان لانے والے نہیں تھے، سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب مشرکینِ مکہ اور کفارِ عرب نے رسول کریمﷺ سے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کیا۔
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: جب نبی کریمﷺ کے اصحاب نجاشی کے پاس پہنچے اور انہوں نے قرآنِ کریم پڑھا اور ان کے علماء اور راہبوں نے قرآنِ مجید سنا‘ تو حق کو پہچاننے کی وجہ سے ان کے آنسو بہنے لگے۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے ساتویں پارے کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نرم دل اور ایمان شناس عیسائیوں کی جماعت کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے تو حقیقت کو پہچاننے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں۔۔۔
اسلام برائی کی تشہیر کو پسند نہیں فرماتا‘ مگر مظلوم کی داد رسی کیلئے ظالم کے خلاف آوازبلند کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت 150 میں بتایا کہ جو لوگ ایمان لانے میں اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں یا بعض رسولوں پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں یا ایمان اور کفر کے مابین کوئی درمیانی راستہ تلاش کریں‘ یہ سب لوگ پکے کافر ہیں۔
قرآن پاک کے چھٹے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غلط بات کو پسند نہیں کرتا‘ مگر یہ کہ اگر کوئی مظلوم شخص اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت سلمان فارسیؓ سے راویت کرتے ہیں، کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخر دن میں وعظ فرمایا! ’’اے لوگو تمھارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں قیام تطوع (یعنی سنت) جو اس میں نیکی کا کوئی کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں 70 فرض ادا کیے۔
تراویح میں تلاوت تیز ی اور روانی سے پڑھنے کی شرعی حیثیت سوال: ماہ رمضان المبارک میں جو حافظ صاحبان نماز تراویح میں قرآن سنانے کیلئے مقرر کئے جاتے ہیں،جب عشاء کی فرض نماز پڑھاتے ہیں تو قرات آرام سے کرتے ہیں، اسی طرح وتر بھی آرام سے پڑھاتے ہیں۔ جب تراویح شروع کرتے ہیں تو لہجہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک ہی سانس میں سورۃ الفاتحہ پڑھ کر آمین تک پہنچ جاتے ہیں اور جب قرآن شریف سنانا شروع کرتے ہیں تو اتنی تیزی سے پڑھتے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں سکتے کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مزمل میں فرمایا کہ ’’قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو‘‘ کیا تیزی سے پڑھنا اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا ہم جو قرآن سننے کیلئے کھڑے ہیں ہمیں کچھ ثواب ملے گا؟
پانچویں پارے کے شروع میں محرماتِ قطعیہ کے تسلسل میں یہ بھی بتایا کہ جب تک کوئی عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہے‘ اس سے نکاح حرام ہے، یہاں تک کہ اگر شوہر نے طلاق دے دی ہو تو عدت کے اندر نکاح اور واضح الفاظ میں نکاح کا پیغام دینا بھی حرام ہے۔ البتہ عدت کے بعد عورت اپنی رضامندی سے دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔
چوتھے پارے کے آخر میں ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ پانچویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چُنی جانے والی عورتوں کے اوصاف کا ذکر کیا کہ نہ ان میں بُرائی کی علت ہونی چاہیے اور نہ غیر مردوں سے خفیہ مراسم پیدا کرنے کی بری عادت۔
چوتھے پارے کی پہلی آیت میں بیان ہوا کہ نیکی کا مرتبۂ کمال یہ ہے کہ اپنے پسندیدہ اور محبوب مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ رسول اللہﷺ اونٹ کا گوشت کھاتے تھے اور اونٹنی کا دودھ نوش فرماتے تھے‘ اِس پر یہود نے اعتراض کیا کہ اونٹنی کا گوشت اور اُس کا دودھ شریعتِ ابراہیمی سے حرام چلا آ رہا ہے، رسول اللہﷺ نے یہود کو چیلنج کیا کہ اگر تمہارا دعویٰ سچا ہے تو تورات لے آؤ اور اُس میں یہ حکم دکھا دو‘ ورنہ یہ اللہ پر تمہارا افترا ہے کیونکہ شرعی طور پر کسی چیز کو حرام قرار دینا اللہ عزّوجل کا حق یا اُس کے اختیار سے اس کے رسول کا حق ہے۔
چوتھے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے‘ جب تک اس چیز کوخرچ نہیں کرتے‘ جو تمہیں محبوب ہے اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو‘ اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔
تیسرے پارے کے شروع میں اس امر کا بیان ہے کہ اس حقیقت کے باوجودکہ اللہ تعالیٰ کے تمام نبی اور رسول علیہم السلام معزز و مکرم ہیں اور ان کی شان بڑی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں ایک کیلئے دوسرے کے مقابلے میں فضیلت اور درجے کی بلندی رکھی ہے۔ آیت 254 میں فرمایا کہ قیامت کے دن (نیکیوں کا) لین دین‘ دوستی اور سفارش نہیں چلے گی اور کفار ہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ قرآن کی عظیم آیت جو ’’آیۃ الکرسی‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ یہ آیاتِ قرآن کی سردار ہے۔