"FBC" (space) message & send to 7575

خارجہ پالیسی کا بانجھ پن

پاکستان نے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں امریکہ اور چین کے مابین ملاقات کا اہتمام کر کے عالمی سفارتکاری میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آج کے حالات میں پاکستان کوئی ایسا کارنامہ کیوں نہیں کر سکتا‘ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی بانجھ پن کا شکار ہو کر ناکام ہو چکی ہے؟ آئیے امریکہ اور چین کے پہلے رابطے کے باب کا جائزہ لیں جس میں افسانے زیادہ اور حقائق کم ہیں اور کچھ لوگ اس آڑ میں ایک ڈکٹیٹر کو عظیم شخصیت قرار دے کر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان پہلا با ضابطہ رابطہ 1971ء میں خفیہ سفارتکاری کے ذریعے ہوا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین ایک بڑی سفارتی پیشرفت ہوئی۔ پہلی اعلیٰ سطحی براہِ راست ملاقات جولائی 1971ء میں ہوئی‘ جب امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے خفیہ طور پر بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران کسنجر نے چینی وزیراعظم چو این لائی سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات پر تبادلۂ خیال ہوا۔ ملاقات کے اہم موضوعات میں دشمنی کا خاتمہ سب سے اہم موضوع تھا۔ دونوں فریق دہائیوں کے عدم تسلیم اور سرد جنگ کی دشمنی کے بعد تناؤ کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا چاہتے تھے۔ سوویت یونین دونوں ممالک کے لیے ایک مشترکہ خطرہ تھا۔ امریکہ اور چین نے سوویت توسیع پسندی کا مقابلہ کرنے میں مشترکہ دلچسپی دکھائی۔ اس ملاقات کے دوران چین نے تائیوان کے چین کا اٹوٹ انگ ہونے پر اپنے مؤقف پر زور دیا جبکہ امریکہ نے بیجنگ کے خدشات کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا شروع کیا۔
تجارتی اور اقتصادی تعلقات بھی اس ملاقات کا اہم موضوع تھے۔ مستقبل میں دوطرفہ تعلقات کے ممکنہ شعبے کے طور پر اقتصادی تعاون پر بھی بات چیت ہوئی اور مستقبل کے سفارتی اقدامات پر بھی بات چیت ہوئی۔ ہنری کسنجر کے دورے نے 1972ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے تاریخی دورۂ چین کی راہ ہموار کی۔ بلاشبہ یہ امریکہ اور چین کے مابین پہلا بڑا سفارتی آغاز تھا۔1949ء میں چینی کمیونسٹ انقلاب کے بعد سے دونوں ممالک کا کوئی براہِ راست رابطہ نہ تھا۔ ہنری کسنجر کی ملاقات نے فروری 1972ء میں صدر نکسن کے دورۂ چین کی راہ ہموار کی جو بالآخر امریکہ اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے کا باعث بنا۔
اس ملاقات میں سہولت کاری کے لیے کچھ دیگر فریق بھی شامل تھے جن میں فرانس اور رومانیہ قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں نے اس سفارتی پیشرفت کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے بھی ایک ثالث کے طور پر کام کیا۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین پیغام کی ترسیل میں سہولت کاری کی لیکن اس سے زیادہ پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کے اس وقت پاکستان میں مارشل لاء نافذ تھا جبکہ امریکہ اُس وقت دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار بنا ہوا تھا اور یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ وہ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا چیمپئن ہے اور دنیا میں کہیں بھی جمہوریت کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اس وقت پاکستان مغربی سامراجی بلاک کا حصہ تھا اور سوویت یونین کی مخاصمت میں بہت آگے بڑھ چکا تھااس کے باوجود امریکہ پاکستان کو عالمی سیاست میں اس کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
پاکستان نے ہنری کسنجر کے چین کے خفیہ دورے کو ''پاکستان کے دورے‘‘ کا رنگ دے کر اور اسے بیجنگ کے لیے خفیہ طور پر پرواز کی اجازت دے کر اس کا انتظام کیا۔ اس سفارتکاری میں پاکستان کی شمولیت اہم تھی کیونکہ اس کے چین اور امریکہ‘ دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ امریکہ اور چین کے مابین تعلقات سرد جنگ میں ایک اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلی تھی جس نے امریکہ‘ چین اور سوویت یونین کے درمیان طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا۔ چین اور امریکہ کے مابین پہلے رابطے کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والا ملک یقینا پاکستان ہی تھا۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان نے امریکہ اور چین کے مابین ایک ثالث کے طور پر کام کیا جس نے اعلیٰ سطح کے سفارتی تبادلوں کا بندوبست کرنے میں مدد کی جو بالآخر 1972ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے چین کے تاریخی دورے پر منتج ہوئی۔
البتہ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ اس ملاقات میں بہت بڑا کردار پنگ پانگ ڈپلومیسی کا تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ''پنگ پانگ ڈپلومیسی‘‘ اپریل 1971ء میں امریکہ اور چین کے ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ملکوں کے دوروں کا تبادلہ ہے‘ جس نے کئی دہائیوں کی دشمنی کے بعد چین اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کی بنیاد رکھی۔ اس کی ابتدا جاپان میں اکتیسویں عالمی ٹیبل ٹینس چیمپئن شپ کے دوران امریکی اور چینی ٹیبل ٹینس کھلاڑیوں کے دوستانہ مقابلے سے ہوئی‘ جہاں چینی ٹیم نے امریکی ٹیم کو چین کے دورے کی دعوت دی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو پنگ پانگ ڈپلومیسی کے کلیدی سہولت کار چین کے وزیراعظم خود ہی تھے جنہوں نے امریکی ٹیبل ٹینس ٹیم کو دورۂ چین کی دعوت کی ذاتی طور پر منظوری دی۔ دوسرا بڑا کردار ہنری کسنجر کا تھا جو اس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر تھے۔ انہوں نے صدر نکسن کے دورے کا انتظام کرنے کے لیے جولائی 1971ء میں خفیہ طور پر پاکستان کے راستے چین کا سفر کیا۔ پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے پردے کے پیچھے رہ کر بیجنگ اور واشنگٹن میں پیغام رسانی کا کردار ادا کیا۔ کسنجر کے خفیہ دورۂ چین کو طے کرنے کے لیے بھی یحییٰ خان نے ذاتی طور پر دونوں فریقوں سے رابطہ کیا۔ یہ سفارتی پیشرفت بالآخر فروری 1972ء میں صدر نکسن کے دورۂ چین کا باعث بنی۔
امریکہ اور چین کے تعلقات کی بحالی پر کچھ لوگ یحییٰ خان کے کردار کو تاریخی قرار دے کر سارا کریڈیٹ ایک ڈکٹیٹر کو دینا چاہتے ہیں‘ اور سوال کرتے ہیں کہ پاکستان آج کے دور میں ایسا کوئی کردار کیوں نہیں ادا کر سکتا؟ اس سوال کے کئی جوابات ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ زمانہ بدل چکا ہے‘ یہ تبدیلی کوئی معمولی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرد جنگ کی بساط اٹھائی جا چکی ہے۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ ان نئی صف بندیوں میں بے انتہا کوشش کے باوجود پاکستان خود کو شامل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے کے باوجود خود کو پوری طرح امریکی بلاک سے علیحدہ کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ اب چین اور امریکہ کے تعلقات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ ان میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو رہا ہے‘ جو پہلی سرد جنگ سے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے امکانات ہیں‘ جو دنیا میں تباہی اور بربادی کے نئے طریقے اختیار کر سکتی ہے۔ اس جنگ میں صرف وہ ملک ہی شمولیت اور شراکت داری کر سکتے ہیں جو معاشی طور پر خوشحال ہوں۔ پاکستان قرضوں کے خوفناک جال میں پھنسا ہوا ہے اور معیشت بحرانوں کا شکار رہتی ہے۔ دیگر ملکوں میں لڑائی لڑنے کے لیے فوجیں بھیجنے کے عمل اور رواج میں اب کمی آتی جا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے‘ ان حالات میں پاکستان کے لیے عالمی صف بندی میں اپنے لیے جگہ بنانا ایک مشکل کام ہے۔ دنیا میں ملکوں اور ریاستوں کے مابین تعلقات 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اب مادیت پسندی نظریات اور اخلاقیات کی جگہ لے رہی ہے۔ اگر آپ کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے تو لینے کی توقع ایک فضول خواہش ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں