"SBA" (space) message & send to 7575

بجلیوں کی زد میں آئے ہوئے لوگ

چلیے ایران کی ہی مثال لے لیں‘ ہمارا پڑوسی مسلمان ملک۔ جس کے اردگرد افغانستان کو شامل کرکے 22 امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ کویت میں پانچ‘ شام میں تین‘ عراق میں دو‘ قطر میں دو‘ سعودی عرب میں دو‘ عمان میں دو‘ ترکیہ میں دو‘ بحرین‘ عرب امارات اور اُردن میں ایک‘ ایک ڈکلیئر شدہ فوجی اڈّہ۔ بحرِ ہند میں ڈیگو گارشیا کا فوجی اڈہ ان کے علاوہ ہے جبکہ بحیرہِ احمر میں لڑاکا طیارہ بردار جہاز ٹرومین پہلے سے موجود ہے۔ ایسا ہی طیارہ بردار لڑاکا بحری جہاز کارل ونسن بھی خلیج کے پانیوں میں پہنچنے والا ہے۔ اس طرح کُل ملا کر یو ایس اے کے 25 فوجی اڈے ایران کے قرب وجوار میں ایسے ہیں‘ جن پر 70 ہزار کے قریب یو ایس آرمی کے جوان اور دو اڈوں پر ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود ایران کے صدر مسعود پزشکیان (Masoud Pezeshkian) نے کہا: امریکہ سے مذاکرات پیشگی شرائط پر ہرگز نہیں ہوں گے۔ ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے حملے کے ذکر پہ ایرانی صدر بولے: امریکہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر ہمیں پتھر مارنے کی دھمکیاں نہ دے۔ قارئینِ وکالت نامہ! اس صورتحال کا ذکر کرنا کسی ممکنہ جنگ کی حمایت ہرگز نہ سمجھا جائے‘ بلکہ اس کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ ایران خطے کا وہ واحد اسلامی ملک ہے جس پر آدھی صدی سے ہر طرح کی معاشی ناکہ بندی اور عالمی پابندیاں مسلسل عائد ہیں۔ ایران نے شاہِ ایران سے آزادی کے فوراً بعد پورے مغرب اور عربوں کی حمایت سے 8 سال کے طویل عرصے تک پڑوسی ملک عراق سے کامیاب جنگ لڑی لیکن اس جنگ میں نہ تو ایرانی قیادت کی سانس پھولی نہ ہی اُنہوں نے امریکہ بہادر کو مدد کے لیے پکارا۔ ایک ہم ہیں جو امریکی وینٹی لیٹر کو زمان و مکاں میں سب سے بڑا امکانِ حیات سمجھ بیٹھے۔
کہاں مقامِ سخن اور کہاں سیاستِ شب
کہاں یہ اشک کہاں تاجرانِ جشنِ طرب
کہاں رَجز کی بلندی‘ کہاں سِلے ہوئے لب
کہاں زمان و مکاں اور کہاں عراق و عرب
خلیجِ فارس کی اس صورتحال کا ایک تناظر اور بھی ہے۔ ایرانی شہنشاہیت کے خلاف امام خمینی کے کامیاب عوامی انقلاب کے بعد ایران اپنے قومی ایجنڈے سے پسپا کبھی نہیں ہوا‘ بلکہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ جس کا پہلا ثبوت لبنان کے اندر غاصب اسرائیل کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی مزاحمت منظم کرنا‘ شام میں فلسطینیوں کی آزادی کا عملی طور پر بیس کیمپ قائم کرنا اور عراق میں اُردن کے بارڈر سے فلسطین تک نہ ختم ہونے والی مزاحمت کو تحرک دینا ہے جبکہ بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے یمن کے حوثی قبیلے کو بحری محاذ پر سلطنتِ عثمانیہ کے بعد سب سے بڑی مزاحمت کار قوت بنانے جیسے پہاڑ نما معرکے بھی سر کر دکھائے۔ ایران کے نظامِ حکومت کو آپ جمہوریت سمجھیں یا کچھ اور کہہ لیں‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ ایران میں پوری پارلیمنٹ دھماکے سے اُڑا دی گئی اس کے باوجود ایرانی قیادت نے الیکشن ملتوی کرنے سے انکار کیا‘ جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی قوم کو فیصلہ سازی کے عمل میں منتخب نمائندوں کے ذریعے شامل اور انگیج کر کے رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ایران میں رجیم چینج کی ہر کوشش مغربی میڈیا کے شور شرابے کے باوجود ناکام ہوتی آئی ہے۔ اپنے ہاں رجیم چینج کے بعد بحیثیت قوم آج ہم کہاں پہنچ گئے‘ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے پاکستان کے سوا دنیا بھر میں سیاسی تھنکر اور صحافتی سکالر کھل کر بے لاگ آزادانہ تجزیے کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ تجزیہ Andrew Korybko نے کیا‘ جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے مگر پیکا ایکٹ میں ظالمانہ ترمیم آنے کے بعد اُسے یہاں نقل کر کے لکھا نہیں جا سکتا۔ ہاں البتہ ایک اور مغربی سیاسی تجزیہ کار نے امریکی نظام پر جو دلچسپ اور بامعنی تبصرہ کیا وہ آپ سے یہاں شیئر کرتا ہوں۔ اُمید ہے اس تجزیے میں ہمارے موجودہ نظامِ حکومت کا چہرہ آپ خود تلاش کر لیں گے۔
The American People are very much like the children of a mafia boss, Who do not know what there father does for a living, and don't want to know, but then wonder why someone just threw a firebomb through the living room window.
''امریکی لوگ بہت حد تک ایک مافیا باس کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں جو نہیں جانتے کہ اُن کے والد روزی روٹی کمانے کے لیے کیا کرتے ہیں‘ اور نہ ہی وہ یہ بات جاننا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر سوچتے ہیں کہ کسی نے اُن کے بیڈ روم کی کھڑی سے آگ لگانے والا بم اندر کیوں پھینکا؟‘‘
انگریزی کا محاورہ ہے Ignorance is bliss جس کا مطلب ہے کچھ نہ جاننا ایک نعمت ہے۔ میرے خیال میں اپنے اجتماعی مفادات کے لیے کچھ نہ جاننا اور نہ جاننے کی کوشش کرنا آخری جہالت اور اجتماعی زحمت ہے۔ موجودہ نظام ہے کیا‘ آئیے اسے شہرِ اقتدار میں تلاش کرتے ہیں‘ جس کے لیے پہلے دندان ساز ڈھونڈنا ضروری ہو گا۔
موجودہ نظام اور ڈینٹل کلینک: 1970ء کے عشرے سے دل دل پاکستان اور بانیٔ پاکستان حضرتِ قائداعظمؒ پر بننے والے پہلی اور آخری فلم کے لیے تحریکِ آزادی کا نغمہ ''جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی‘‘ گانے والے عالمی شہرت یافتہ گلوکار سلمان احمد کو پنجاب پولیس کے ایک تھانیدار نے ''تمغہ‘‘ جاری کیا ہے۔ اس طرف پھر آئیں گے پہلے دیکھ لیجیے کہ ''تمغے‘‘ جاری کیسے ہوتے ہیں‘ کن لوگوں کو تمغے دیے جاتے ہیں اور کیسے کیسے طریقے سے ان کی آبرو بڑھائی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال 23 مارچ 2025ء کے دن اسلامی جمہوریہ کے صدر نے شاندار کارکردگی پر ایک سول سرونٹ کو قومی ایوارڈ ستارۂ امتیاز سے نواز ا۔ مارچ کا مہینہ ختم نہیں ہوا تھا کہ وزیراعظم نے زرعی ترقیاتی کونسل کے اس سربراہ کو ناقص کارکردگی کی بنا پر معطل کر دیا‘ جس کی خبر میڈیا پر چلوائی گئی۔ اب چونکہ وطنِ عزیز میں ہم وطنوں کے لیے صرف ڈینٹل کلینک ہی بچا ہے جہاں آپ آزادی سے اپنا پورا منہ کھول سکتے ہیں‘ اس لیے ذرائع کی کہانی ناقابلِ اشاعت سمجھ لیں۔ گلوکار سلمان احمد نے بھی کوئی ناقابلِ اشاعت نغمہ گایا ہو گا جس پرستارۂ ایف آئی آر دینا ضروری سمجھا گیا۔
موجودہ نظام اور شعبۂ زراعت: فروری 2025ء کے رپورٹ شدہ حقائق نے بجلی کی رفتار سے بجلیوں کی زد میں آئے ہوئے زراعت پیشہ لوگوں کو بجلی کا جھٹکا دیا ہے۔ زراعت کے شعبے میں فرٹیلائزر کے آف ٹیک نمبرز کے مطابق یوریا کی سیل 37 فیصد کم ہوئی‘DAPکی 64 فیصد‘ جو فروری 2024ء سے اسی درجے پر ہے۔ حساب لگا لیجیے دو ماہ میں یوریا سیل 32 فیصد اورDAP بھی 43 فیصد ڈائون ہو گئی۔ شعبہ زراعت کو بھی شہباز سپیڈ لگ گئی۔ اطہر عباسی کے بقول:
یہ کون سا جہان ہے مکاں ہے دل نشیں‘ مگر
اے آسمان دیکھنا زمیں لہو لہان ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں