"SBA" (space) message & send to 7575

ایک شام صاحبزادہ ساجد الرحمن کے نام

موبائل فون کی گھنٹی بجی‘ سکرین پر میرے گرائیں دوست‘ فیصل مسجد کے پیش امام صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحب کا نام ظاہر ہوا۔ فون اٹینڈ کیا‘ کہنے لگے: پچھلی ملاقات کہوٹہ لاء کالج میں ہوئی‘ سال مکمل ہونے کو ہے‘ میں سال پورا نہیں ہونے دوں گا‘ آپ کل میرے گھر افطاری کریں۔ میں نے ہامی بھر لی۔ ہمیشہ کی طرح اپنائیت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں بولے: چشم ما روشن دلِ ما شاد۔ میں جان بوجھ کر افطاری سے پون گھنٹہ پہلے شہر کی جدید رہائشی بستی میں جا پہنچا۔ صاحبزادہ صاحب اپنے بیٹے صاحبزادہ عزیر ایڈووکیٹ کے ساتھ پورچ میں بازو کشادہ کیے کھڑے تھے۔ صاحبزادہ صاحب سے تعلق اب تیسری نسل تک آن پہنچا ہے‘ الحمدللہ۔
صاحبزادہ صاحب کے ہاں جاتے ہوئے میں اپنے بڑے بیٹے بیرسٹر عبداللہ کو بتا رہا تھا کہ صاحبزادہ ساجد الرحمن سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے‘ وہ تین باتوں کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ پہلا ذکر 1974ء کی تحریک ختم نبوت کا ہوتا ہے۔ تب میں اسلام آباد فیڈرل گورنمنٹ کے واحد کالج سے گریجویشن کر رہا تھا۔ کہوٹہ میں تحفظ ختم نبوت موومنٹ نے جلوس نکالا۔ جہاں مین بازار کے مشہورِ زمانہ قریشی چوک میں جلسہ عام سے صاحبزادہ ساجد الرحمن کے والد مرحوم و مغفور حضرت خواجہ محمد یعقوبؒ اور میں نے خطاب کیا۔ خواجہ صاحب نے خطاب کے بعد وہاں موجود انتظامیہ سے کہا: مجھے پکڑ لو بھائی‘ گرفتار کرو‘ ہم ناموسِ محمدﷺ کے لیے آئے ہیں‘ بھاگنے کے لیے نہیں۔ دوسرا واقعہ ٹھیک11سال بعد کا ہے۔ یہ 1985ء کا سال تھا جب میں اور راجہ ظفرالحق صاحب شام ڈھلے بگھار شریف پہنچے۔ تب مٹور موڑ سے بگھار شریف تک سڑک کچی تھی۔ بارشی موسم میں پھسلن والی روڈ‘ جو علاقے کی سب سے اونچی پہاڑی پہ زِگ زیگ کی شکل میں گھومتی ہوئی وادیٔ بگھار میں جا اُتری۔ پیر صاحب علمی موتی اور لنگر کھل کر بانٹتے تھے۔ ہمارے لیے ایک برآمدے میں روشنی کا انتظام کیا گیا جس کے باہر بکرے ذبح ہونا شروع ہوئے۔ ملگجی روشنی میں پیر صاحب نے میرا نام لیا اور فرمائش کی: آپ کی تقریروں کے بڑے چرچے ہیں۔ مہمانوں سے جس مرضی موضوع پہ خطاب کریں۔ میں نے بزرگوں کے حکم کی تعمیل کی۔ تیسرا واقعہ میری وفاقی وزارتِ قانون کے دور کا ہے۔ جس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نیچے سی ڈی اے بھی آتا ہے۔ تب فیصل مسجد کی امامت‘ خطابت اور مینجمنٹ کا فریضہ صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحب کے ذمہ تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے فیصل مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے کہا۔ ادائیگی صلوٰۃ کے بعد صاحبزادہ صاحب مجھے مارگلہ پہاڑ کے ساتھ مسجد کے اندر آنے والے کٹاؤ کا بارشی پانی والا راستہ دکھانے کے لیے لے گئے۔ ساتھ ہی انکشاف کیا کہ اتنی بڑی مسجد میں مردوں کے لیے صرف آٹھ وضو خانے ہیں اور خواتین کے لیے بھی صرف آٹھ ہی مختص ہیں۔
ان دنوں اسلام آبادکے دو اداروں کے افسران پر میڈیا میں نیوز سٹوریز چھپ رہی تھیں کہ وہ فیصل مسجد کا قیمتی سنگ مرمر ذاتی استعمال کے لیے اُٹھا لے گئے ہیں۔ نمازیوں کے لیے سنگلاخ پتھروں اور کھردرے سیمنٹ پر چلنا عذاب ہوتا تھا۔ صاحبزادہ صاحب نے جس گہرائی اور قلبی لگاؤ سے فیصل مسجد کے ناتمام پروجیکٹ کی طرف توجہ دلائی‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ یہ کام ابھی سے میرے ذمے ہو گیا۔ افطاری والے دن بھی صاحبزادہ صاحب نے ڈرائنگ روم میں پہنچتے پہنچتے پہلے دو واقعات بیرسٹر عبداللہ کو سنا ڈالے۔ پھر علمی موضوعات پر افطار تک گفتگو چلتی رہی۔ صاحبزادہ عزیر ایڈووکیٹ کے تین ساتھی‘ جو پی ایچ ڈی سکالر ہیں‘ اور میرا ایک شاگرد حافظ عبدالرافع ایڈووکیٹ بھی دیگر چند احباب کے ساتھ محفل میں موجود تھے۔ نماز کی ادائیگی کے لیے گھرکے اندر بغلی گلی کی طرف نماز کے لیے مخصوص جگہ پر نماز ادا کی۔ پھر ساتھ والے سِٹنگ روم میں بیٹھ گئے۔ صاحبزادہ صاحب نے فیصل مسجد کے ناتمام پروجیکٹ کی بقیہ ہڈ بیتی داستان سناتے ہوئے کہا: بابر صاحب کے جانے کی اگلی صبح فیصل مسجد کے گمشدہ سنگ مرمر کی برآمدگی شروع ہو گئی۔ بارش کے پانی کا راستہ بندکرنے کے لیے دو بڑے لان مسجد اور مارگلہ پہاڑی کے درمیان بنائے گئے اور واٹر ڈرینج کے راستے بھی تعمیر ہوئے۔ صاحبزادہ صاحب فرماتے گئے: الحمدللہ سنگ مرمر کے راستوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اسی تسلسل میں فیصل مسجد میں اس وقت سے مرد حضرات کے لیے 82 وضو خانے اور خواتین کے لیے بھی برابر تعداد کے وضو خانے تعمیر ہو کر چل رہے ہیں۔
وطنِ عزیز کے جدید سماج میں اگر آپ کسی کے 19 کام سنوار دیں‘ اس کی مدد کریں اور بیسواں کسی وجہ سے نہ ہو سکے تو انیس کام گئے کھوہ کھاتے۔ آپ کی فردِ عمل میں یاد رہنے والا کام وہی ہوتا ہے جو کسی وجہ سے ہونے سے رہ گیا۔ صاحبزادہ صاحب نے جس کھلے دل سے میرے ادا کیے ہوئے فرض کو یاد رکھا ہے وہ ان کے بڑا آدمی ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ دو‘ اڑھائی سال پہلے صاحبزادہ صاحب نے اسی گھر میں محفل منعقد کی‘ جس میں فیصل مسجد والا واقعہ سنانے کے بعد پوٹھوہاری میں کہا ''یا تے بندہ وزیر نہ ہووے‘ کدے وزیر بنے تے فیر بابر اعوان جہیا‘‘۔ صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحب نے درگاہ بگھار شریف اور کہوٹہ شہر کے پنجاڑ چوک پر دو بہترین علمی درسگاہیں‘ بڑی مساجد سمیت تعمیر کروائی ہیں۔ درگاہ بگھار شریف میں لڑکیوں کے کالج کے افتتاح کے وقت بھی انہوں نے مجھے گفتگو کے لیے بلایا تھا اور کہوٹہ کی درسگاہ میں بھی۔ صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحبِ کتاب ہیں‘ مجھے معلوم تھا لیکن دل خوش کر دینے والا انکشاف تب سامنے آیا جب صاحبزادہ صاحب نے مجھے اور بیرسٹر عبداللہ کو اپنی کتابوں کے دو علیحدہ علیحدہ سیٹ پیش کیے۔ ان کی اپنے والد خواجہ محمد یعقوب صاحب کے بارے میں تصنیف پڑھ چکا ہوں۔ اسلامی معاشرے کی تاسیس و تشکیل ان کی دوسری کتاب ہے۔ دو جلدوں میں خطبات اس کے علاوہ ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘ حیات و افکار کے عنوان سے دو جلدوں کی کتاب بھی کمالِ مہربانی سے پیش کی۔ مگر موضوعات کے اعتبار سے سب سے ہٹ کے ان کی تحقیقی تصنیف ''اُندلس کی اسلامی میراث‘‘ ہے دو ضخیم جلدوں پر مشتمل۔ کہوٹہ قدیم زمانے میں وادیٔ قاہرو کہلاتا تھا۔ ہوتھلہ کے تین مواضعات‘ بڑا گاؤں‘ ہوتھلہ اور بَن میں ہمارے خاندانی قبرستان ہیں۔ دل چاہتا ہے کسی دن اپنے مہربان کالم نگار فاروق عالم انصاری کو ساتھ لے کر اپنے اجداد کے عربستان سے تاریخ ساز ہجرتوں کے سفر اور مختلف قبائل سے تعلقات کو قلم بند کرواؤں۔ مردم آزاری کے مرض کو روکنے والی چند درگاہوں میں سے ایک بگھار شریف میرا اثاثہ ہے۔
کر دیے ترک قبیلوں نے جنوں کے رشتے
زخم کس طرح بھریں‘ چاکِ جگر کیسے سِلیں؟
سرحدیں آگ کا میدان بنی بیٹھی ہیں
اے غزالانِ چمن اب کے ملیں یا نہ ملیں
مل کے بیٹھیں بھی تو جانیں کوئی کیا بات کہے
رشتۂ جام و سبُو یاد رہے یا نہ رہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں