"SBA" (space) message & send to 7575

آؤ میں تیرا نام بدلوں

بگا سنگھ عجیب کردار تھا۔ تقسیمِ ہند سے پہلے کے بزرگ بتاتے تھے کہ وہ ''پھڑیں‘‘ مارنے کا دلدادہ تھا۔ جہاں کوئی پہلوان اکھاڑا جیت جاتا‘ بگا سنگھ اکھاڑے سے باہر کھڑا ہو کر اس کی تعریف کرنے والے لوگوں کو پورے یقین سے بتاتا کہ یہ پہلوان میرا 'پٹھا‘ ہے۔ کسی نزدیکی ڈھوک یا آبادی میں نانگے ڈاکو ڈاکا مارنے آتے اور گاؤں لوٹ کر بھاگ جاتے۔ خبر پھیلتی اور بگا سنگھ تک پہنچ جاتی۔ بگا سنگھ فوراً منہ پر ہاتھ پھیرتا اور کہتا پورے پنجاب کے نانگے میرے شاگرد ہیں۔ راولپنڈی میں جے ڈی ہارڈی نامی ڈپٹی کمشنر کے بار ے میں کہتے ہیں کہ وہ اُردو بول اور سمجھ لیتا تھا۔ بگا سنگھ کے گاؤں کے نمبردار نے ڈی سی صاحب بہادر سے مخبری کی کہ ہمارے علاقے میں ایک آدمی اپنی بڑی بڑی وارداتوں کا کھلے عام پبلک میں بیٹھ کر 'اعترافِ جرم‘ کرتا ہے۔ اسی دوران ایک موہڑے میں تین اندھے قتل ہو گئے۔ بگا سنگھ تک جب اس واردات کی خبر پہنچی تو بگا سنگھ نے منہ پر ہاتھ مارا اور روٹین کا ڈائیلاگ بول دیا کہ دیکھ لینا اس میں بھی بگا سنگھ کا ہی نام آئے گا‘ میرا نام نہ آیا تو میرا نام بدل دینا۔ جے ڈی ہارڈی نے بگا سنگھ کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مار پارٹی بھیج دی۔ جے ڈی ہارڈی کی بھیجی ہوئی پولیس ریڈنگ پارٹی اس کے گاؤں جا پہنچی۔ گورا پولیس کی آمد کی خبر سن کر بگا سنگھ کی پھڑیں ہوا ہو گئیں۔ اس نے گلے میں کینٹھا ڈالا‘ منہ پر کالک مل لی اور بھیس بدل کر چڑھدے پنجاب کی طرف بھاگ نکلا۔
بگا سنگھ ایک Legendتھا یا محض ایک افسانوی کردار‘ یہ تو معلوم نہیں لیکن اتنا یقین سے کہا جا سکتا ہے وہ ایک ذہنیت یعنی Mentality ضرور تھا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر لمبی لمبی چھوڑنے والی ذہنیت۔ بگا سنگھ کی پھڑوں نے ہی اسے خود اختیاری جلا وطنی پر مجبور کیا۔ لیکن جاتے جاتے وہ اپنے پیچھے پھڑ بازی کی ایک پوری فصل چھوڑ گیا۔ آزادی کے 77 سال بعد بگا سنگھ کی روایت اپنے ہاں آرٹ آف گورننس بن چکی ہے۔
ذرا پیچھے چلیں تو آپ کو 1970ء کے عشرے کا چیف پھڑ باز ملے گا۔ افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلا ہوا تو اس نے پھڑ ماری کہ روس میں نے توڑا ہے۔ پاکستان کے کم خواندہ یا اُس وقت نیم خواندہ انفارمیشن پر سرکاری کنٹرول کے مارے ہوئے سماج کو ایسا تاثر دیا کہ جیسے سوویت یونین کو توڑنے کے لیے گوربا چوف نے پھڑ باز کی مُٹھی چاپی کے بدلے اس سے ملک توڑنے کا گُر سیکھا تھا۔ ایک طرف پھڑ باز صبح وردی‘ دوپہر جیکٹ اور شام کو شیروانی پہننا شروع ہوگیا۔ دوسری طرف ہمراہی پھڑ بازوں نے قوم کو بتایا کہ اب پاکستان میں اسلامی معاشی نظام اور نظامِ عدل پر مبنی انقلاب آنے کو کوئی مائی کا لعل نہیں روک سکتا۔ کبھی کبھی ایسا لگتا جیسے بگا سنگھ ترن تارن اور ماجھے مالوے سے بیزار ہوکر لہندے پنجاب میں واپس آ گیا ہے۔ چیف پھڑ باز نے جاتے جاتے اپنے پیچھے پھڑ بازی کی گھنی پنیری اُگا دی۔ دوسری تاریخی پھڑ اسی ٹیم کے مرکزی پھڑ باز نے ملک کے سنوارنے کے لیے لگائی۔ پھڑ کا عنوان تھا ''قرض اُتارو ملک سنوارو‘‘۔ ابھی قوم اس پھڑ کو سمجھنے اور اس سے سنبھلنے کے درمیان سوچ کے گھوڑے دوڑا ہی رہی تھی کہ راتوں رات تمام بینکوں سے فارن ڈیپازٹ اکاؤنٹس خالی ہو گئے۔ اگر آپ اس پھڑ اور مزید ایک اور پھڑ کو ملا کر پڑھیں تو آپ قرض اُترنے اور ملک سنورنے کے کھرے تک آسانی سے پہنچ جائیں گے۔ جس دور میں وطن عزیز کے کھاتا داروں کے فارن کرنسی اکاؤنٹس خالی ہوئے تھے‘ عین اسی دور میں محل نما مے فیئر اپارٹمنٹ‘ پارک ویو وَن‘ ایون فیلڈ پراپرٹیز خرید کر پاکستان ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوا تھا۔ یہ ان ملکوں کی صف ہے جسے ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ والے ہمارے مانیٹر پورے ادب سے First World Countries کے نام سے پکارتے ہیں۔
پھڑ بازی کا عہدِ ثالث اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کی انتخابی مہم سے شروع ہوتا ہے۔ جب رنگ بازوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے منہ پر ہاتھ پھیر کر یہ پھڑ ماری گئی کہ اگر میں نے اسی چوک میں اسے الٹا نہ لٹکایا‘ اس کا پیٹ پھاڑ کر چوری کے پیسے برآمد نہ کیے‘ اسے اُس کے شہر کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بدل دینا۔
تقدیر کا کرنا ایسا ہوا کہ پاکستان میں پھڑ بازی کی صنعت پھڑ سازی میں تبدیل ہو گئی۔ چنانچہ اسے سرکاری طور پر حکومت سازی کا ہنر مان لیا گیا۔ آج حال یہ ہے کہ ہم کرکٹ اور کرنسی دونوں کی ریٹنگ میں افغانستان سے کئی گنا نیچے ہیں۔ معاشی ترقی اور ایکسپورٹ سمیت ہر شعبے میں بھارت سے کوسوں پیچھے۔ پروڈکشن اور پاپولیشن کنٹرول میں بنگلہ دیش سے عشروں لیٹ۔ ایسے میں وزیراعظم نے ایسی بھرپور پھڑ ماری ہے جسے سوشل میڈیا نے 'پھڑ آف سنچری‘ بنا دیا۔ منہ پر ہاتھ پھیرا اور بھارت کو للکارتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے محنت کرکے بھارت کو پیچھے نہ چھوڑ دیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔
قارئینِ وکالت نامہ! محنت ہوتی کیا ہے‘ اس کی مثال امریکی ریاست مشی گن کے علاقے ڈیٹرائٹ (Detroit) میں کام کرنے والے ایک ینگ میکینک سے ملتی ہے جو روزانہ دس گھنٹے کام کرتا اور ہفتے کے گیارہ ڈالر کماتا تھا۔ یہ محنتی لڑکا گھر آتے ہی آدھی رات تک ایک نئی قسم کا انجن بنانے میں لگ جاتا۔ نوجوان کا والد کسان تھا‘ جو اس کوشش کوہمیشہ فضول سمجھتا۔ بس اس کی بیوی سرد راتوں میں گیس لیمپ لے کر انجن بنانے کے کام میں اس کی معاونت کے لیے ساتھ دیتی۔ پھر سال 1893ء آ گیا۔ جب یہ میکینک تیس سال کا ہوا تو اس کا کام مکمل ہو چکا تھا۔ ایک دن پڑوسیوں نے بڑی عجیب سی آواز سنی اور اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے باہر جھانکنے لگے۔ پڑوسی یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ نوجوان میکینک‘ جس کا ہر جگہ ہمیشہ مذاق بنایا جاتا رہا‘ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایسی گاڑی میں سوار ہے جو بغیر گھوڑوں کے چل رہی ہے۔ یہ نوجوان تھا ہنری فورڈ۔ اُس دن ڈیٹرائٹ کے لوگوں نے پوری دنیا بدل دینے والی ایک نئی ایجاد کا جنم دیکھا تھا۔ اس ایجاد نے انسانیت پر ترقی کے لاتعداد دروازے کھول ڈالے۔ جب سر ہنری فورڈ کی عمر 70 سال ہوئی تو اس سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو دوبارہ زندہ ہونے کا موقع مل جائے تو آپ کیا بننا چاہیں گے؟ ہنری فورڈ نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ میں کیا بنوں۔ بس گیس لیمپ اٹھانے والی بیوی کا ساتھ مانگوں گا اور کوئی نئی دریافت عالمِ انسانیت کے نام کر دوں گا۔
سوری‘ یاد نہیں رہا کہ 'پھڑ آف دی سنچری‘ نے ثابت کر دیا کہ اس کی ہدایت کاری اور تربیت سازی کا لیکچر سن کر بھارت کو کرکٹ میں مات ہو گئی۔ اسی لیے متبادل میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے! آؤ میں تیرا نا م بدلوں۔ اسی شور سے شہرِ اقتدار کی رُت بدل رہی ہے:
کب ایک ہی رُت رہی ہمیشہ؟
یہ ظلم کی فصل بھی کٹے گی
جب ہر شخص کہے گا قم بہ اذنی
مرتی ہوئی خاک جی اٹھے گی
لیلائے وطن کے پیرہن میں
بارود کی بُو نہیں رہے گی

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں