"SBA" (space) message & send to 7575

ڈاکٹرز کو عزت دو

یہ اختیار تو شہنشاہِ انگلستان چارلس دی تھرڈ کے پاس بھی نہیں ہے‘ نہ ہی مشرقِ وسطیٰ کی کسی بڑی بادشاہت کے تخت پر براجمان شخصیت کے پاس‘ مگر پاکستان میں تھڑیے سے نو دولتیے تک اور سنگل سٹوری فلیٹ سے کئی براعظموں میں جائیدادوں کے مالک بننے والے یہ اختیار استعمال کر رہے ہیں۔ بے رحمی کے ساتھ اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ۔ آپ ٹھیک سمجھے‘ میں مردم آزاری ایکٹ کی بات کر رہا ہوں جو ہمارے سماج اور راج نیتی‘ دونوں کے لیے کرپشن کے بعد دوسرا بڑا کینسر بن چکا ہے۔
پاکستان فیڈرل ری پبلک ہے جس کے ایگزیکٹو آرگن کو آئین پبلک سرونٹ کہتا ہے۔ پبلک سرونٹ کی کارکردگی جانچنے کے دو قانونی معیار سول سرونٹس ایکٹس میں دیے گئے ہیں‘ جس کے دو علیحدہ علیحدہ عنوانات ہیں۔ یہ قانون E and D رولزکے نام سے وضع کیا گیا۔ ان رولز کی پشت پر آئین کا پارٹ نمبر XII باب نمبر 1 کھڑا ہے جسے Services کا ٹائٹل دیا گیا ہے۔ سروس آف پاکستان میں تین سروسز شامل ہیں۔ پہلی‘ سروس آف پاکستان‘ سول سروس آف پاکستان۔ دوسری‘ Essential سروس آف پاکستان۔ سول سروس آف پاکستان جس کی بابت دستور کے آرٹیکل 240‘ آرٹیکل241 اور آرٹیکل242 سول سروس کا پورا میکانزم فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح سے پاکستان کی آرمڈ فورسز کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 243 میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کی وضاحت کی گئی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 244 کا ٹائٹل 'اوتھ آف آرمڈ فورسز‘ کی تفصیل میں بنایا گیا ہے۔ دستور کے آرٹیکل 245 میں فنکشنز آف آرمڈ فورسز بیان کئے گئے ہیں۔
تیسری‘جوڈیشل سروس آف پاکستان ہے جسے آئین کے آرٹیکل 175 میں تین درجوں میں تقسیم کر کے تشکیل کیا گیا ہے۔ ان تینوں قسم کی سروسز کے لیے دستور نے رولز بنانے کی اجازت متعلقہ ایگزیکٹو آرگن کو دے رکھی ہے۔ اوپر سول سروس کو ضابطے میں لانے کے لیے جن 'ای اینڈ ڈی رولز‘ کا ذکر آیا ہے ان میں ای کا مطلب ایفیشنسی اور ڈی کا مطلب ہے ڈسپلن۔
قارئینِ وکالت نامہ! آج کا موضوع پاکستان کے معزز ترین‘ مسیحائی کرنے والے شعبے کی عزت اور مقام کے بارے میں ہے۔ بس اتنا کہنا کافی رہے گا کہ ڈاکٹرز کی کارکردگی یا ان کا نظم و ضبط جانچنے کا اختیار متعلقہ صوبائی محکمہ ہیلتھ یا وفاقی محکمہ ہیلتھ کے مجاز افسران کے پاس ہے اور بس۔ حکمرانوں کو یہ بات کھلے ذہن سے سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی وزیر‘ مشیر‘ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے پاس براہِ راست کسی میڈیکل آفیسر سے لے کر ہسپتال کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ یا ایم ایس سے اس بابت کوئی سوال کرنے کا سرے سے اختیار نہیں ہے۔ نہ تو 1973ء کے دستور کی رُو سے اور نہ ہی اس کے ماتحت بننے والے قانون‘ رولز اور ریگولیشن کے تحت ایسا کوئی براہِ راست اختیار وزیر‘ مشیر‘ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے پاس ہے۔ ڈاکٹرز کے احتساب کے لیے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن کی شراکت سے ایک سے زیادہ قانون بنائے گئے ہیں‘ جو ڈاکٹرز کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی جانچ پڑتال کا طریقہ اور واضح دائرہ کار رکھتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت پبلک سروس میں عام آدمی کے لیے مسیحائی کی خدمات سر انجام دینے والے کی باز پُرس کا مکمل طریقہ سروس لاز میں درج ہے‘ جس کے مطابق سب سے پہلے پبلک سروس میں موجود ڈاکٹر کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا۔ شوکاز نوٹس کا جواب لینے کے بعد ڈاکٹر صاحبان کو ایک چارج شیٹ پکڑائی جائے گی۔ پھر ایک انکوائری کمیٹی بیٹھے گی جہاں کسی ڈاکٹر کی جانب سے نظم وضبط کی خلاف ورزی یا کارکردگی میں لیت ولعل کی تحقیقات ہوں گی۔ جس پہ الزام لگایا جائے اُس ڈاکٹر کے خلاف زبانی اور تحریری گواہ ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔ ڈاکٹر کو خود یا بذریعہ وکیل اُن گواہوں پر مکمل جرح کرنے کی اجازت ہو گی۔ اس سارے پراسیس کو مکمل کرنے کے بعد انکوائری کمیٹی ڈاکٹر کے خلاف ڈسپلن اور قانون کے تحت ایکشن تجویز کرے گی۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ڈاکٹر کو انکوائری کمیٹی ازخود نہ معطل کر سکتی ہے‘ نہ نوکری سے نکال سکتی ہے اور نہ ہی اُس کی گرفتاری کا حکم دے سکتی ہے۔ دستوری قانون کے تحت اس کاروائی کا اگلا مرحلہ Authorized Officer یعنی افسرِ مُجازکے پاس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ داخل کرنے کا آتا ہے۔ 1973ء کے دستور کے آرٹیکل 10A اور سول سروس لاز میں واضح طور پر درج ہے‘ پھر مجاز اتھارٹی پرسنل Hearing کے لیے الزام علیہ ڈاکٹر کو طلب کرے گی۔ اس ذاتی حیثیت میں شنوائی کی پوری کارروائی تحریر کی جائے گی۔ پھر ڈاکٹر کے خلاف الزام کی نوعیت کے مطابق سرزنش‘ ڈی موشن یا کوئی دیگر سزا سنائی جا سکتی ہے‘ جس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہے۔ اوپر دیے گئے اس پراسیس کو آئینی پٹیشن میں ہائی کورٹس کے روبرو چیلنج کرنے کا حق بھی موجود ہے۔ اس سب کے بعد ڈاکٹر اپنے خلاف کسی کارروائی کو سپریم کورٹ کے پاس ایک نہیں‘ دو جگہ لے جا سکتا ہے۔ پہلا اپیل یا پٹیشن میں‘ دوسرا آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی یا ری ویو پٹیشن میں۔
اگلے روز لاہور میں ایک ہسپتال کے سربراہ کو جس سلوک کا سامنا کرنا پڑا اسے دستور کی زبان میں 'سٹریٹ جسٹس‘ کہا جائے گا۔ باقاعدہ کیمرے لگا کر‘ میڈیا پہ براہ راست بریکنگ نیوز چلا کر‘ ڈاکٹر کی یا ہسپتال کی اصلاح کا یہ طریقہ کس قانون میں لکھا ہوا ہے؟ یادش بخیر نواز شریف نے کھلی کچہری میں اپنے منظورِ نظر اکٹھے کر کے اُن کے سامنے پنجاب کے سرکاری ملازمین کو نہ صرف ڈانٹا بلکہ ہتھکڑیاں بھی لگوا دیں جس کے خلاف متاثرینِ شریف راج کو عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا پڑے۔ شہباز شریف نے وڈے بھاء جی سے آگے بڑھ کر پبلک سرونٹس کو پبلک میں معطل کرنے کے اعلان کیے۔ ہمارے حکمران ڈاکٹروں کو عزت کیوں نہیں دیتے‘ اس سوال کے جوابات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ جن کے لیے سوئٹزرلینڈ‘ انگلستان اور امریکہ کے ہسپتال سرکاری پٹرول پر اُڑنے والے ہوائی جہازوں سے دو قدم کے فاصلے پر ہوں اُنہیں قوم کو یاد کرا کے احساس دلانا پڑے گا کہ ڈاکٹرکو عزت دو۔ خدا کرے کہ میری ارض پاک پر وہ وقت آئے جب حکمران بھی سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرانے جائیں‘ اس طرح انہیں ڈاکٹروں کی قدر ضرور آئے گی۔ اینٹی ڈاکٹرز مہم سے شہ پا کر لاہور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کچھ عرصہ پہلے جو اُدھم مچایا گیا اُس کی دل آزار وڈیوز سے شعبہ طبّ پہلے سے مجروح ہے۔ لوئی میک نیس نے کہا تھا:
ابھی میں پیدا نہیں ہوا ہوں‘ مری سنو
مجھ کو ایسے انسان سے بچائو‘ جو بھیڑیا ہے
اور ایسے انسان سے بھی
جو یہ سمجھ رہا ہو کہ وہ خدا ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں