اوورسیز پاکستانیز کنونشن

مدتوں سے سمندر پار پاکستانیوں اور حکمرانوں کے درمیان ایک ہارٹ ٹو ہارٹ تبادلۂ خیال کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ بارہا ایسی کانفرنس کیلئے بیرونِ ملک مقیم ہم وطنوں کی طرف سے مطالبہ بھی ہوا مگر عملاً اس کی نوبت نہ آئی۔ 15اپریل کو اسلام آباد میں جو اوورسیز پاکستانیز کنونشن منعقد ہوا اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔
اس کنونشن کے مقاصد کے بارے میں مختلف نوعیت کے مثبت و منفی تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک دیرینہ آرزو پوری ہوئی اور اسے سالانہ بنیادوں پر جاری رہنا چاہیے۔ کنونشن میں وزیراعظم پاکستان نے معیشت کی مضبوطی اور بہتری کا ذکر کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ آرمی چیف‘ موجودہ حکومت اور اوورسیز پاکستانیوں کو دیا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاکستان کے موجودہ سیٹ اَپ اور اوورسیز پاکستانیوں کے درمیان اعتماد سازی کیلئے بہت اچھی باتیں کیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانی ہمیشہ اپنا سر فخر سے بلند رکھیں کیونکہ آپ ایک عظیم اور طاقتور ملک کے نمائندے ہیں۔
ہم اس سے پہلے بھی ان صفحات میں ایک دو بار یہ لکھ چکے ہیں کہ پاکستانی اُس بدو کی مانند ہیں کہ جو خیمے سے تو نکل جاتا ہے مگر خیمہ کبھی اس کے اندر سے نہیں نکلتا۔ پاکستانی امریکی بن جائے‘ یورپی بن جائے‘ آسٹریلین‘ جاپانی بن جائے یا سعودی و کویتی بن جائے‘ پاکستان کا ذکر آتے ہی اس کے دل کا جلترنگ بجنے لگتا ہے۔ لب پہ پاکستان کا نام آ جائے تو اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ 28مئی 1998ء کو جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو ساری دنیا میں پاکستانی فخر سے سر اٹھا کر چلنے لگے۔ تب ہم راتوں رات عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کے طور پر ساری مسلم دنیا کیلئے رول ماڈل بن گئے۔ ہم بھی بیس برس سے اوپر اوورسیز پاکستانی رہے ہیں۔ اُس وقت ہم سعودی عرب میں تھے۔ ہمارے عرب بھائی کہتے تھے کہ ایٹمی قوت آپ کے پاس‘ جمہوری سیاست آپ کے پاس‘ اعلیٰ تعلیم آپ کے پاس اور سب سے بڑھ کر سچی دینی حمیت و عقیدت بھی آپ کے پاس ہے۔
ایٹمی قوت بننے کے بعد پاکستان نے درست سمت میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے اقتصادی قوت کو اپنا اگلا ہدف قرار دیا تھا مگر پھر ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت قائم ہو گئی اور میاں نواز شریف کو بھی ''اوورسیز پاکستانی‘‘ بننا پڑا۔ لہٰذا پھر ملک کی سمت کسی اور طرف ہی موڑ دی گئی۔ آج پاکستان کے ایک مستحکم اقتصادی قوت بننے کے امکانات ایک بار پھر روشن دکھائی دے رہے ہیں۔ 2024ء میں اوورسیز پاکستانیوں نے 34.1ارب ڈالر پاکستان بھیج کر سالانہ ترسیلاتِ زر میں نیا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ 2023ء کے مقابلے میں ترسیلاتِ زر میں یہ 32 فیصد اضافہ تھا۔ مارچ 2025ء کے مہینے میں سمندر پار پاکستانیوں نے چارارب ڈالر ملک میں بھیجے‘ جو اَب تک ان کی طرف سے ایک ماہ میں پاکستان بھیجی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ لیکن اس سے حکومت کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اب اوورسیز پاکستانی عمران خان کے بجائے موجودہ حکومت کے ساتھ چل پڑے ہیں‘ حقیقت پسندی نہیں۔
کنونشن سے خطاب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دلی جذبات کی ترجمانی کی۔ انہوں نے قائداعظمؒ کے الفاظ میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور اہلِ وطن کو یقین دلایا کہ ہم اسے ضرور آزاد کرائیں گے۔ انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے بھی اوورسیز پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی دس نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا مگر اہلِ حکمت و دانش کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مستقل امن اور خوشحالی کیلئے سیاسی مذاکرات بھی از بسکہ ضروری ہیں۔
کنونشن کے موقع پر وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تیز رفتار انصاف کی فراہمی کیلئے علیحدہ عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا۔ کنونشن میں وفاقی چارٹر یونیورسٹیوں میں پانچ فیصد اور میڈیکل کالجوں میں سمندر پار پاکستانیوں کے بچوں کیلئے 15فیصد کوٹے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ اُنہیں وڈیو لنک کے ذریعے شواہد کی ای ریکارڈنگ کی سہولت دینے کا بھی اعلان ہوا۔ ان اعلانات میں سے ایک اہم ترین اعلان یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو فائلرز کے طور پر ٹریٹ کیا جائے گا۔ اگرچہ میں ان دنوں ملک سے باہر ہوں مگر مجھے ثقہ اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے کنونشن کی کارکردگی کی خبریں ملتی رہی ہیں۔ ہیوسٹن‘ امریکہ سے تعلق رکھنے والے طاہر جاوید صاحب نے بتایا کہ کنونشن کے شرکا خود آئے تھے‘ لائے نہیں گئے تھے۔ طاہر جاوید نے وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خطابات کو سراہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب کبھی وطن کو ہماری ضرورت پڑی اور ہمیں پکارا گیا تو ہم نے لبیک کہا‘ لیکن اگر ہمیں نہ بھی پکارا جائے تب بھی ہم آگے بڑھ کر خدمتِ وطن کیلئے اپنا فرض ادا کریں گے۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ملائیشیا میں ممتاز بزنس مین محمد اقبال نے بھی کنونشن میں شرکت کی۔ وہ پاک ملائیشیا بزنس فور م کے کئی برس سے ایگزیکٹو ممبر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کے کونے کونے سے اس کنونشن میں شرکت کیلئے آنے والے اوورسیز پاکستانی سب اپنے اپنے خرچ پر آئے۔ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں کہ اُن کی آمد و رفت کا کسی نے بندوبست کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے جو اچھے اور مفید اعلانات کیے ہیں‘ ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔
جناب وزیراعظم کے خوش نما اعلانات اپنی جگہ مگر ان اعلانات سے بڑھ کر بنیادی نوعیت کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی سفارت خانوں کا عمومی کلچر نوکر شاہی کا ہے۔ سفارت خانوں کے افسران اپنے آپ کو عوام کا خادم نہیں حاکم سمجھتے ہیں اور سمندر پار پاکستانیوں کو محکوم کا درجہ دیتے ہیں۔ البتہ جب کوئی عبیدالرحمن نظامانی جیسا دلِ درد مند رکھنے والا افسر کسی سفارت خانے میں آتا ہے (جیسا کہ ہم نے انہیں پاکستانی سفارت خانہ جدہ میں دیکھاتھا) تو وہ اپنے آپ کو خادمِ خلق سمجھتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کی دل و جان سے خدمت و معاونت کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بڑے بڑے کنونشنوں اور تقریبات سے ذرا ہٹ کر طب‘ مالیات‘ آئی ٹی‘ مصنوعی ذہانت‘ گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے بھی اوورسیز پاکستانیوں کے تجربات و مشاہدات سے فائدہ اٹھائے۔ ہمیں من حیث القوم طرزِ کہن پہ اڑنے کا رویہ یکسر ترک کر دینا چاہیے۔
مصر میں کئی دہائیوں سے اوورسیز مصریوں کیلئے ''معاش‘‘ کا ایک قابلِ تقلید ماڈل جاری ہے۔ معاش سے مراد پنشن ہے۔ ہر مصری اوورسیز کو بیرونِ ملک سے اپنی کمائی کا ایک حصہ پنشن سکیم میں ادا کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ کئی برس بعد وطن واپس لوٹتا ہے تو اسے بھی اپنے ملک کے سرکاری ملازمین کی طرح باقاعدہ پنشن ادا کی جاتی ہے۔ ہمارے اوورسیز پاکستانی‘ کہ جن میں محنت کش اور سفید پوش دونوں شامل ہیں‘ اپنی بیرونِ ملک ملازمت کے دوران شہنشاہ بن کر خرچ کرتے ہیں اور جب بیرونِ ملک سے بے روزگار ہو کر وطن واپس آتے ہیں تو گداگر بن کر پھرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں مصری بھائیوں کی طرح ''معاش‘‘ کی سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس کوئی تھوڑی بہت جمع پونجی ہوتی ہے تو وہ سرکاری سرپرستی اور رہنمائی کے بغیر اسے تجارت وغیرہ میں لگاتا ہے تو ناتجربہ کاری کی بنا پر بالعموم نقصان اٹھاتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت سنجیدگی کا اظہار کرے گی تو ہم اسے مصری ''معاش پراجیکٹ‘‘ کی تفصیلات و جزئیات سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کی مفید تجاویز کا خیر مقدم کرے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں