"SBA" (space) message & send to 7575

طائوس کو رقص کی پڑی ہے…

وہ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ حالات ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے اُسے صرف 17 سال کی عمر میں انٹرٹینمنٹ کیریئر جوائن کرنا پڑ گیا۔ ہمارے تھیٹر کی زبان میں آپ اُسے ڈھاری کہہ لیں۔ سکول میں کلاس فیلوز کو اُس کا حلیہ‘ حرکتیں‘ قد کاٹھ چارلی چپلن جیسا لگتا تھا؛ چنانچہ جلد ہی اُسے مزاحیہ اداکاری کے مقامی مقابلے KVN کامیڈی کمپٹیشن میں شرکت کا موقع مل گیا۔ رجیم چینج کے بادشاہ امریکہ بہادر نے یوکرین کے منتخب صدر Petro Poroshenko کے خلاف تیسرے درجے کے کامیڈی ایکٹر ولودیمیر زیلنسکی کو یوکرین کا اگلا صدر بنانے کے لیے گیم آف تھرون یا ہماری سیاسی لغت میں سائفر گیم چلا دی۔ یوکرینی عوام دیکھتے رہ گئے اور اُن کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر کا تختہ اُلٹ گیا جس کے نتیجے میں نچلے درجے کا یہی کامیڈین یورپ کے سب سے بڑے ملک کے صدر ہائوس میں گھس بیٹھا۔ اس کامیڈین صدر کے دور میں کریمیا‘ جو کسی زمانے میں ریاست کا حصہ ہوا کرتا تھا‘ اُس کا سارا علاقہ یوکرین کے ہاتھ سے نکل گیا۔ روس نے کریمیا کے پورے ریجن پر قبضہ کر کے اُسے رشین فیڈریشن میں باقاعدہ ضم کر لیا۔ امریکن ڈیمو کریٹک پارٹی کی حکومتوں‘ خاص طور پہ اس سلسلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے آخری امریکی صدر جو بائیڈن اور اُس کے بیٹے کو زیلنسکی اور اُس کے ملک کے کئی کاروبار بہت پسند آئے۔ صدر کے بیٹے تک براہِ راست رسائی کے بعد زیلنسکی روس کے خلاف امریکہ کا اہم اتحادی بننے کی مزاحیہ ایکٹنگ کرنے میں لگ گیا‘ وہ بھی عالمی سٹیج پر۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں پہنچنے کے ساتھ ہی زیلنسکی کے لیے امریکی سیاست کے ٹرمپ کارڈز بدل گئے۔ چنانچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی کو کَٹ ٹُو سائز کرنے کے لیے بیان داغا کہ یوکرین کے صدر ہائوس پر قابض شخص جس کا نام زیلنسکی ہے‘ یوکرین کا منتخب صدر ہرگز نہیں ہے بلکہ اس عہدے پر غاصب کے طور پہ بیٹھا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آتا اُسے کیا کہا جائے یہ ڈرائونا سفارتی ماحول صدر زیلنسکی کے لیے اعصاب شکن تھا۔
ولادیمیر پوتن کی قیادت میں روس کو امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین کے ملکوں نے انڈر ایسٹیمیٹ کیا۔ اُن کے خیال میں روس اب جنگ کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اسی برتے پر زیلنسکی نے 'یوکرین جنگ جیت رہا ہے‘ کا نعرہ لگایا تھا‘ جبکہ دوسری جانب پوتن نے سابق روسی ریاست یوکرین کے اندر سینکڑوں میلوں تک پیش قدمی شروع کر دی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یوکرین کی جنگ‘ مغربی ملکوں کی طرف سے وار پِلے بوائے مسٹر زیلنسکی ٹک ٹاک اور مغربی میڈیا پر زیادہ لڑتے آئے ہیں۔ گرائونڈ پر زیلنسکی کے ملک کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔ جس کا اظہار امریکہ کے موجودہ نائب صدر مسٹر جے ڈی وینس نے اوول آفس کی میٹنگ میں زیلنسکی کے منہ پر کیا۔ زیلنسکی ہر اعتبار سے ہارا ہوا جواری لگتا ہے لیکن اپنی سرزمین سے زیلنسکی کی وفاداری کا وقت آیا تو یوکرینی کامیڈین امریکی قیادت کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوا۔ اس کے نیشنلزم کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ خونریز رشین جنگ میں لت پت یوکرین سے جب اپنی معدنیات امریکی امداد کے بدلے امریکہ کے حوالے کرنے کا کہا گیا تو زیلنسکی نے صدر ٹرمپ کے ڈرافٹ کردہ معاہدے پر دستخط کر نے سے انکار کر ڈالا۔ یہ انکار کسی ڈپلومیٹک انداز میں نہیں ہوا بلکہ صدر زیلنسکی نے امریکہ کی پوری قیادت کے منہ پر لائیو میڈیا کوریج کے دوران امریکہ کی مرضی کا معاہدہ ماننے سے انکار کیا۔ اپنے وطن کے لوگوں کی معدنیات دبائو میں آکر دینے سے زیلنسکی کی یہ جرأتِ انکار اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ اس ایک واقعے نے ثابت کر دیا کہ اگر لیڈر ذرا سے بھی غیرت مند ہوں تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اُن کو بُرے سے بُرے حالات میں بھی بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک نہیں سکتی۔
یہ کوئی پچاس‘ سو سال پہلے کی بات نہیں‘ گزرے کل میں دو ایسے لمحات آئے جب پاکستان کے مردِ آہن ایسے زمیں بوس ہوئے کہ ساتھ قوم کو بھی شرمندہ کروا دیا۔ ایک تب جب پاکستان کا ایک مردِ آہن شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے سامنے دستِ سوال دراز کرتا ہے۔ مجھے چند ملین ڈالر دے دیں‘ میں نے دبئی اور برطانیہ میں اپنی رہائش گاہیں بنانی ہیں۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے ہاتھ پھیلانے کو شدید ناپسند فرمایا ہے۔ یہاں کوئی عام آدمی نہیں‘ ایک نیشن سٹیٹ کا بلا شرکتِ غیرے مالک کس پستی میں جا گرا۔ وہ لمحہ قوم کیسے بھول سکتی ہے جب ہمارے ایک ٹائیگر نے کیمروں کے سامنے اپنا پستول جنرل اروڑہ کے حوالے کیا۔ مر تو دونوں گئے اگر اُس پستول سے اروڑہ کو یا خود کو مار لیتا تو لوگ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیٹو کے آرمی چیف کو بھول جاتے‘ جس نے امریکی فوج کے سامنے سرنڈر کرنے کے بجائے اپنی رائفل کی Bayonet (تیز دھار چھرا) چھاتی میں گھونپ کر خودکشی کر لی تھی۔ گیدڑ کی سو سالہ زندگی میں اُسے تر نوالے کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ شاعر نے نجانے کسے مخاطب کر کے کہا:
سوچو تو تمہیں ملا بھی کیا ہے
اک لقمۂ تر قلم کی قیمت
غیرت کی فروخت کرنے والو
اک کاسۂ زر قلم کی قیمت
امریکہ کی فلم انڈسٹری ہالی وڈ جب سے حرکت کرنے والی آواز کے بغیر فلم بنانا شروع ہوئی‘ اُس نے فلسطینی دیہاتیوں اور بنی اسرائیل کے پہلوان گولایتھ کی جنگیں دکھانا شروع کر دیں۔ جہاں فلسطینی غاروں میں سے نکل کر حملہ کرتے اور گولایتھ تنِ تنہا انہیں شکست دے دیتا۔ پھر 1948ء میں یہ فلمیں حقیقت میں ڈھل گئیں۔ روس کے خلاف جہاد منظم کرنے کے لیے پہلے 1971ء میں عمر شریف کی فلم The Horseman ریلیز ہوئی‘ جس میں ایک ڈائیلاگ دی بِیسٹ شامل تھا۔ جس کے بعد ''دی بِیسٹ‘‘ کے نام سے افغانستان پر روسی مظالم کی دوسری فلم سامنے آ گئی۔ دونوں کا موضوع افغانستان اور روس کی جنگ تھا۔ یہ وہی جہاد ہے جو 30 سال تک چلتا گیا۔ 1970ء کے عشرے میں ہالی وُڈ کی ایک پرانی فلم مکیناز گولڈ (Mackenna's Gold) تھی۔ موضوع تھا دور دراز کے علاقوں میں سونے کی تلاش۔ پھر مغربی سرمایہ دار افریقہ پہنچ گئے۔ افریقہ کے کونے کونے میں سونے اور ہیرے کی کانیں بنائی گئیں۔ کئی عشروں بعد پتا چلا کہ افریقہ میں کھڈے باقی رہ گئے اور معدنیات گورے انویسٹر ساتھ لے گئے۔ کھڈوں والے یہ سارے ممالک آج بدترین خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ اب امریکہ کے انویسٹر اور تاجر صدر ٹرمپ صاحب ایشیا میں نئے یوکرین کی تلاش میں ہیں۔ عمران حکومت میں کراچی کے دو جزیروں اور سمندروں سے تیل نکلا تھا۔ ہمارے لیکویڈ گلوڈ کے وہ کنویں کس نے بند کروائے‘ اس پر دو وکالت ناموں میں پوری تفصیل روزنامہ دنیا کے انہی صفحات پر چھپی۔ بلوچستان سے نکلنے والے گولڈن ریکوڈک مائن اور سیندک کاپر پروجیکٹ نے صوبہ بلوچستان تو کیا‘ ایک ضلع اور ایک تحصیل کی بھی تقدیر نہیں بدلی۔ مغربی ملکوں کی انویسٹمنٹ اور پرو لیول ٹیکنالوجی چلتی پھرتی صلیب ہے۔
اک عمر سے عقل و صدق کی لاش
غاصب کی صلیب پر جڑی ہے
جنگل پہ لپک رہے ہیں شعلے
طائوس کو رقص کی پڑی ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں