وہ ایک سکھی گھرانے میں پیدا ہوا۔ 1960ء تا 80ء کے عشروں میں بچوں کو تعلیم وتربیت کے لیے انگلستان بھیجنا خالہ جی کا گھر نہیں تھا‘ اس کے باوجود عمران خان کی تعلیم انگلستان میں ہوئی جہاں اُن کی بہن علیمہ خان بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہی تھیں۔ اُن دنوں آج کے طرّم خان نو دولتیے دیسی سکولوں میں مقامی زبانوں میں انگریزی سیکھا کرتے تھے۔ عمران خان اُس دور میں انگلستان سے پاکستان تک مردانہ وجاہت والے ہیرو کے طور پر پہچانے جا رہے تھے۔ ظاہر ہے اس ماحول میں آزاد عیدیں گزارنے کی عادت پکی ہو جاتی ہے۔ تبھی لوگ کہتے تھے یہ دس دن بھی جیل میں نہیں گزار سکتا۔ 2025ء کی میٹھی عید عمران خان اڈیالہ جیل کی کال کوٹھڑی میں گزار رہے ہیں۔ اس دوران اُنہیں بھگانے والے کئی بار بھاگ چکے۔ ڈرانے والے تھک ہار چکے اور گرانے کا زعم رکھنے والے بار بار گرے ہیں۔پچھلے ہفتے‘ اڑھائی تین ہفتے کے وقفے کے بعد میری عمران خان سے تفصیلی ملاقات ہوئی‘ جس کا واحد موضوع قوم کی بدترین معاشی حالت‘ روز بروز بگڑی ہوئی امن عامہ کی صورتحال‘ آئین کی پامالی سے بحالی تک کے منصوبے موضوعِ بحث رہے۔ قوم کا کپتان پہلے سے کہیں زیادہ جوان‘ پُرعزم اور ریلیکس لگا۔ قیدِ تنہائی کے لیے بس یوں سمجھیے ''بر پشمِ قلندر‘‘ کی زندہ وتابندہ تصویر لگا۔ عمران خان آپ کو عید مبارک‘ آپ کے عزم وحوصلے کو عید مبارک۔ وہ عید جس پر آپ پسِ دیوارِ زنداں قید پاکستانیوں کے ساتھ مل کر اجتماعی نمازِ عید سے محروم ضمیر کے قیدی ہیں۔ جو کہتے تھے عمران جیل کے خوف سے انگلستان بھاگے گا اُنہیں اطلا ع ہو‘ عمران خان کی قیدِ تنہائی 600 دن مکمل ہونے کے بعد ساتویں سنچری بنانے کی طرف گامزن ہے۔ اسی لمحے مجھے پاکستان کی کامیاب اشرافیہ اور ناکام سماج یاد آتا ہے۔ ساتھ ہی روسی سکالر اور معروف مصنف ایٹون چیخوف بھی۔ جن سے پوچھا گیا: آپ کے نزدیک ناکام معاشرے سے کیا مراد ہے؟ چیخوف صاحب نے جواب دیا: ناکام معاشروں میں ہر ایک دانش مند ذہن کے خلاف ہزاروں احمق ذہن اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ہر باشعور لفظ کے مقابلے میں ہزاروں جاہلانہ الفاظ گھڑے جاتے ہیں۔ معاشرے سے بڑھ کر اگر ریاست کی سطح پر دیکھیں تو فیصلہ سازی کرنے والے بے وقوف لوگوں کی اکثریت ہو گی۔ پھر کہا: بے وقوف وہ ہوتے ہیں جو دلیل کی طاقت کے بجائے جسمانی طاقت یا ملی بھگت یا سازش سے ناکام سماج میں ذہین لوگوں کو متنازع بناتے پھرتے ہیں۔ پھر اسی طرح کی خوشامدی ٹولیاں اور نااہلوں کے جتھے طاقت پر براجمان ہوں گے۔ چیخوف کے مطابق: جس ریاست میں یہ ساری باتیں ایک جگہ اکٹھی ہو جائیں تو جان لیں‘ آپ ایک انتہائی ناکام سماج کی بات کر رہے ہیں۔ ہماری قوم کے گزرے ہوئے 77 سالوں کی ساری عیدیں جمع کریں تو ہمیں حکمران اشرافیہ سے نا کام ریاست تک گھسیٹ کر لانے والے اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے۔ نام ہی کافی ہے۔
قارئین وکالت نامہ چلئے ذرا غور سے دیکھتے ہیں‘ حکمران اشرافیہ مافیا اور نا کام ریاست کی زبانِ حال سے چیختی ہوئی پِری عید ہلکی پھلکی کارروائیاں۔ جو مقامی بھی ہیں اور بین الاقوامی بھی۔ جن پر تاریخ اور جغرافیے کی بھی پابندیاں عائد نہیں ہو سکتیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے آپ کی ہنسی پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی عید مبارک کہنے پر۔
حکمرانوں کی پِری عید قومی کارروائی: گھنٹی بار بار بچ رہی تھی۔ مانا پھنیئر مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے اُٹھا اور دروازے پر جا پہنچا۔ باہر بڑی عمر کی ایک معزز خاتون کھڑی تھی۔ مانے پھنیئر کو لگا ماہِ رمضان مبارک میں زکوٰۃ کے بہانے کوئی عید مانگنے والی مائی ہے۔ اس سے پہلے کہ مانا پھنیئر کچھ بولتا‘ خاتون سوال ڈال دیتی ہیں۔ بیٹے! کیا آپ کو ستارۂ امتیا ز ملا ہے؟ حیرانی ویرانی کے مارے ہوئے مانے پھنیئر نے کہا: نہیں تو۔ مانے پھنیئر کا یہ جواب سنتے ہی خاتون نے جواباً کہا: اچھا بیٹے۔ یہ کہتے ہی خاتون واپس چل پڑی۔ پیچھے سے آواز لگائی: خیریت تھی بڑی بی؟ خاتون پلٹ کر کہتی ہے: بس بیٹے پتا کرنے آئی تھی کہ ستارۂ امتیاز سے اکیلی میں ہی محروم رہ گئی ہوں یا اڑوس پڑوس میں کوئی اور بھی ہے‘ جسے ستارہ نہیں ملا۔ کالم یہاں پہنچا تھا کہ موبائل فون پہ نوٹیفکیشن کی گھنٹی بجی۔ پلیز ایک منٹ ٹھہریے میں چیک کر لوں۔
حکمرانوں کی پرِی عید عربی کارروائی: ابھی ابھی عربستان سے ایک دوست نے عرب نیوز کی لیڈی اینکر کی وائرل وڈیو بھجوائی ہے۔ جو انتہائی قیمتی برانڈڈ جوتے‘ نکٹائی‘ شرٹ‘ راب اور کوٹ پتلون میں ملبوس وزیراعظم شہباز شریف سے انٹرویو کر رہی ہیں۔ اینکر کے سوال عربی میں تھے‘ شہباز شریف کے جواب انگریزی میں۔ وائرل وڈیو کے عربی سوالات کا لفظ بہ لفظ ترجمہ اور انگریز ی جواب کا ٹیکسٹ پڑھئے اور سر پکڑئیے یا عیدی‘ یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔عربی سوال: آپ کی حکومت نے سعودی عرب سے ایک بار پھر مزید قروض (یعنی قرضے) مانگے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہم اب بھی آپ کے نفقات الملکیہ (بادشاہوں کی طرز کے اخراجات) دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے خاندان سمیت ثلاثین (یعنی 30 افراد) کو ہمراہ لا کر رمضان مبارک میں سر کاری اخراجات پر عمرہ ادا کیا ہے۔ کیا قرض مانگنے والے اس طرح کے اخراجات کر سکتے ہیں؟ اہم سوال یہ ہے ایک طرف آپ کی حکومت نے پھر سے سعودی عرب سے مزید قرض کی فراہمی کی درخواست کی ہے مگر قرض مانگنے کے لیے آپ نے شاہی اخراجات اور اتنے لوگوں کا وفد سرکاری خرچ پر عمرہ کرنے کے لیے کیوں بنایا؟ یہ بات عربوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سوالوں کا ترجمہ آپ نے پڑھ لیا۔ میں اس کی تشریح میں نہیں جانا چاہتا۔ بین الاقوامی قرض خور حکومت کے چنیدہ شہباز شریف نے حرف بہ حرف جواب ان لفظوں میں دیا:I would say......ahh, It does not reflect well, ahh it does not go well.۔سرکاری اخراجات کے عمرہ زائرین واپس پہنچے۔ حکومتی ترجمان نے کہا سعودی عرب سے ریالوں کی بارش پہنچنے والی ہے۔
حکمرانوں کی پِری عید چینی کارروائی: ایسی کابینہ جس میں شامل حکمران شوگر مل مالکان ہیں اُنہوں نے 130 روپے کلو پر چینی کی برآمد کی اجازت منظور کی۔ پھر ونڈّ کھائو تے کھنڈّ کھائو کا فارمولا اپناتے ہوئے چینی کی قیمت 175 روپے کلو پر پہنچا کر کمیٹی کمیٹی کھیلنا شروع کر دیا۔ چینی بنانے والوں نے خود ہی اس کی قیمت 165 روپے پر فکس کی۔ اس طرح میٹھی عید کے موقع پر پاکستان کے لوگوں کو مہنگے میٹھے سے پرہیز کا عملی پیغام بھیجا۔ جو یہ ہے: چینی آپ کی صحت اور دولت دونوں کی دشمن ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ پاکستانی حکمران میٹھی عید کے بارے میں بین الاقوامی طور پر ترقی یافتہ ہیں۔ جس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگاکہ پاکستان نے UAE سے چینی درآمد کر لی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں پہ گنا تو کیا گنڈیری بھی نہیں ملتی۔
حکمرانوں کا پِری عید دو قومی نظریہ: رمضان میں حکمرانوں نے عید کو میٹھا کرنے کیلئے فیصلہ کیا عوام سے سولر یونٹ 10 روپے کا خریدیں جبکہ آئی پی پیز کو بغیر بجلی بنائے 70 روپے یونٹ کی قیمت ڈالروں میں ادا کریں۔ عید مبارک کا سرکاری پیغام کہتا ہے پیکا ایکٹ 24 کروڑ عوام میں سے صرف اور صرف 23 کروڑ 90 لاکھ لوگوں پر لاگو ہو گا۔ 12 لاکھ افراد کی بھاری تعداد پیکا ایکٹ سے بَری ہو گئی۔
مایوسیوں کے مارے عام لوگوں کی عید کو حسرتوں کی مبارک باد
کاش کہ خوشیاں بِکتی ہوتیں؍ اور دکھوں کا ٹھیلا ہوتا؍ ایک ٹکے میں آنسو آتے اور محبت چار ٹکے میں؍ پانچ ٹکے میں ساری دنیا؍ مفت ہنسی اور مفت ستارے؍ چاند بھی ٹکڑے ٹکڑے بکتا خواہش نام کی چیز نہ ہوتی