"SBA" (space) message & send to 7575

ہجر یا صبحِ دوامِ زندگی…

اس ابدی حقیقت پہ میرا کامل ایقان ہے کہ مالکِ ارض وسما جو بھی انسان کے لیے کرتے ہیں وہ آدمی کے حق میں بہترین ہوتا ہے۔ یہ الگ بات‘ کبھی کبھی چیزوں یا واقعات کی ترتیب ہمیں دیر سے سمجھ آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ مالک کی مہربانی کا قدرت کے فیصلوں میں ہستی لم یزل کے غلاموں کے لیے بھلائی اور خیر کا پہلو نہ ہو‘ کھلا یا پوشیدہ۔ یہ سال 2011ء کے اخیر کی بات ہے ‘جب یوں لگ رہا تھا کہ پورے پاکستان کے پاور فل‘ فل پاور کے ساتھ میرے در پے ہو گئے۔ آصف زرداری کے خلاف بحیثیت صدرِ پاکستان امریکہ کے اعلیٰ حکام کو ملکی معاملات میں مداخلت کرنے اور انہیں مقتدرہ سے در پیش خطرات سے بچانے کے موضوع پر خط لکھنے پہ میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا۔ اس فرمائشی سکینڈل کی رونمائی کے لیے نواز شریف نے کالا کوٹ پہنا اور سپریم کورٹ کی سیڑھیاں چڑھ کر بنچ نمبر 1 میں پہنچ گئے۔ پہلے دن کی کارروائی سے یوں لگ رہا تھا جیسے پیپلز پارٹی کا اقتدار اور صدرِ پاکستان‘ آج گیا یا کل گیا۔ یوں تلخ ترین ماحول میں رات وفاقی کابینہ کی میٹنگ طلب ہوئی‘ اس سے پہلے ہی میں وزارتِ قانون وانصاف سے استعفیٰ دے چکا تھا مگر اصرار کر کے مجھے کیبنٹ میں ''سپیشل انوائٹی‘‘ کے طور پر بلایا گیا۔ جہاں پہ پاکستان کی مقتدرہ کو راضی کرنے کے لیے حکومتی گرینڈ جرگہ بھیجنے کی پہلی تجویز آئی۔ دوسری تجویز خاتون وزیر نے دی‘ تجویز کیا تھیMe, Myself and I والی عرضداشت تھی۔ موصوفہ نے فرمایا: مجھے فوراً یو ایس اے بھیج دو۔ وہاں جا کر میں سب کی ٹلیّاں کھڑکا دوں گی۔ ایسے ہی کسی ہوائی قلعے پر کھڑے ہو کر ہوائی حملے کرنے کے ہوائی منصوبے سُن کر صدر صاحب چڑ گئے۔
اسی اثنا میں صدر کا موڈ دیکھ کر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر زرداری سے کہا: بابر صاحب کو سُن لیتے ہیں۔ میری پیش کردہ تجویز منظور ہوئی اور اگلے دن میرے ہمراہ پانچ وفاقی وزیروں نے پی آئی ڈی آبپارہ میں میمو گیٹ کی مبینہ سازش کے پرخچے اُڑانے والی پریس کانفرنس منعقد کر دی۔ شام کو وہ چیف جسٹس‘ جس کو بعد از ریٹائرمنٹ صدر بنانے کی ایڈوانس گارنٹی ملی ہوئی تھی‘ نے سوموٹو کی ایک درخواست منگوائی اور پانچ وزرا کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کر دیے۔ صبح میں لاہور آ گیا جہاں ایک انگریزی اخبار کے سینئر رکن نے بتایا کہ پریس کانفرنس کے بعد آپ کی حکومت نے آپ کو بیچ ڈالا ہے۔ میرے خلاف یہ ڈیل کروانے کے لیے ملتان سے سپریم کورٹ میں اُس وقت کے ایک سابق سینئر جج کا نام مرکزی کردار کے طور پہ لیا گیا۔ دوسری جانب شریف برادران پورے اہتمام سے ہر پریس ٹاک میں میرا ذکر کرتے اور جواباً میں اُنہیں تختِ لاہور کا للکارا سناتا۔ انہی دنوں اسلام آباد سے نکلنے والے ایک اُردو روزنامے‘ جس کے ایڈیٹر حامد میر بھی رہے‘ کے مالک میرے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ کو تربیلا کے ایک فقیر حمید خان یاد کرتے ہیں‘ آپ اُنہیں ضرور مل آئیں؛ چنانچہ میں قافلے کی صورت میں پیر مسعود چشتی جو تب وفاقی سیکرٹری قانون تھے اور چند وکلا اور بیورو کریٹ دوستوں کو لے کر وہاں گیا۔ ہمارا قافلہ غازی بروتھا نہر کے کنارے کنارے چلتا ہوا عمر خانہ گائوں پہنچا۔ ایک جنگلی توت‘ دھریک کے دو درخت‘ سامنے بھینسیں اور دھنی نسل کے بیل بندھے ہوئے تھے۔ چند چارپائیاں ایک برآمدے کے باہر پڑی تھیں جن کے کونے میں توت کے ساتھ ایک کمرہ تھا۔ میں کمرے کے اندر پہنچا۔ سامنے لال سرخ‘ حلیم چہرے والے طویل قامت فقیر حمید خان بیٹھے تھے۔ مجھے اپنے ساتھ چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کمرے کی چھت ڈانواں ڈول تھی۔ چار میں سے دو دیواروں پر بڑی دراڑیں‘ ایک پیڈسٹل فین‘ فقیر کی کل کائنات نظر آئی۔ باہر ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی چارپائیوں والے برآمدے میں سائیکل‘ موٹر سائیکل‘ گاڑی روک کر کھانا کھانے کے لیے بیٹھ رہا تھا۔ جہاں مٹی کی بڑی پراتوں میں دال اور تنور کی روٹیاں اجتماعی طور پر رکھی جا رہی تھیں۔ میرے لیے بھی ایک پرات میں دال‘ روٹی اندر لائی گئی۔ فقیر حمید خان صاحب ہندکو میں کہنے لگے: پیاز کا ایک بوٹا توڑ کے لائو۔ اس دوران مجھے بلانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میرے لنگر کی روٹیاں پکانے والی مائی صاحبہ نے آپ کو ٹی وی پر دیکھا اور مجھے کہا آپ کو یہاں ضرور بلائیں۔ اس انکسار‘ عاجزی اور فقر کی انتہا تب سامنے آئی جب مجھے پتا چلا کہ جو کھانا میرے ساتھیوں‘ سٹاف اور گارڈز وغیرہ کو پیش کیا گیا وہی کھانا میں نے کھایا۔ حیثیت یا دولت وہاں حفظِ مراتب کی وجہ نہیں تھی۔ لمبی گفتگو شام کی چائے تک ہوتی رہی۔ میں نے اُٹھنے کی اجازت مانگی‘ ساتھ ہی سوال کر دیا: فقر کی بنیاد کیا ہے؟ جواب ملا ''دوجیاں واں عزت دیویں‘ کسے آں خالی ہتھ نہ موڑیں۔ جیڑا آوے اُساں چاہ روٹی بناں ونجن نہ دیویں‘‘۔ تصوف سے تعلق رکھنے والے بزرگوں میں بظاہر ناخواندہ حمید خان سے جب میں نے خیر کی دعا کی درخواست کی تو انہوں نے میرے دائیں ہاتھ میں ہاتھ ڈالا اور میری زندگی کی مختصر مگر جامع ترین دعا کی۔ اللہ وارث ہوئی آء‘ کوئی خوف نہ کریں‘ شیر تے چڑھ کے ونج۔ پھر مجھے گلے لگایا اور تھپکی دی۔ واپسی کے راستے پر اٹک کے ایک دوست نے مزید چائے پینے کے لیے روک لیا۔ ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا: شیر پر چڑھ کے جائو کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جواب دیا: شیر کوئی گھر میں کھونٹے سے بندھی سواری نہیں جس پرکمبل ڈالا اور چڑھ بیٹھے‘ اوّل تو شیر کسی کو اپنے اوپر بیٹھنے دے گا نہیں‘ پھر اگر شیر پر کوئی سوار ہو تو اس کو کوئی مائی کا لعل ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ میرے دعا گو فقیر ایک سو پندرہ (115) سال سے زیادہ عمر گزارنے کے بعد مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ فقیرکی فاتحہ کے لیے پہنچا تو اُن کے بیٹے نے بیٹھنے کے لیے مجھے اپنے والد کی چارپائی پیش کی۔ فقیر کا لنگر اب بھی مخلوقِ خدا کے لیے ہر روز پکتا ہے۔ گھر سے تھوڑے فاصلے پر ان کی مرقد پر دعا کے لیے گیا تو یوں لگا:
بلّھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
تقریباً انہی دو ہفتوں کے اندر اندر لاہور میں ایسی ہی ہجر وفراق کی مجلسوں میں جانا ہوا۔ ایک برادرم کامریڈ فرخ سہیل گوئندی کی والدہ کی رحلت۔ گوئندی صاحب کی بیگم ریما بھابھی لبنان سے ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی میرے زیادہ قریب ہیں یا میں اُن کے‘ ہر ملاقات میں یہ مخمصہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ماں کی خدمت میں فرخ اور ریما نے تابع فرمانی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اُن دونوں کو ساتھ بٹھا کر ان کے گھر کے لان میں مَیں نے عدالتی مقتول‘ شہید وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دلانے کے لیے ریفرنس فائل کرنے کا اعلان پریس کانفرنس میں کیا۔ چند روز بعد میرے زمانہ طالبعلمی کے دوست سپریم کورٹ کے سابق جج اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عظمت سعید شیخ بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔ میں نے ان کے جنازہ میں شرکت کر کے مرحوم کو دوستی کا خراج پیش کیا۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر کو ہم پیار سے قانون کا FM Radio کہتے تھے۔ آپ ایک سوال کا بٹن دبائیں‘ جسٹس کھوکھر مشہور فیصلوں کے جواب سنانا شروع کر دیتے تھے‘ صفحہ گن گن کر۔ اُن سے آخری ملاقاتArbitration Centre کے بعد اسلام آباد کلب میں بنچ پر ہوئی۔ حضرت علامہ اقبال اس ہجر کو نئی تعبیر دے گئے:
موت کو سمجھے ہے غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی‘ صبحِ دوامِ زندگی

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں