گرگٹ بھی شرمندہ ہے۔ وہ محاورے جیسے مطلب کے وقت گدھے کو باپ بنانا‘ دنیا مطلب دی او یار وغیرہ سب پیچھے رہ گئے ہیں۔ انتہائی منافع بخش کاروباری افراد صرف پاکستان کے دو تین عدد سیاسی خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ امریکہ کا نام آئے تو آپ انہیں خاندانِ غلاماں کہہ لیں۔ غلامی کی اس ذہنیت کا مظاہرہ جنرل اسکندر مرزا کے مارشل لاء میں شروع ہوا۔ مارشل لاء لگانے والا خود تو برا کہلایا لیکن وہ سہولت کار اور خدمت گزار‘ جوتیاں چٹخانے والے جنہوں نے جھک کر اس کی جوتیاں اٹھائیں اور بار بار چمکائیں وہ بطلِ حریت ٹھہرے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دس سالہ مارشل لاء میں ہر طرح کے مالشی اور پالشی قائداعظم کے جمہوریہ پر قابض ہوتے چلے گئے۔ ایوب خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور برا‘ مگر اس مارشل لاء کے ان سہولت کارو ں کا کوئی ذکر نہیں کرتا جن کی چوتھی نسل آج پاکستان کے قابض اقتدار ی مافیا کو لیڈ کر رہی ہے۔ یحییٰ خان بہت ہی برا‘ لیکن وہ جنہوں نے اس سے نفاذِ شریعت کا مسودہ بنوایا اور اس کے نیچے اقلیم اختر (جنرل رانی) کی خوشامدوں کے ذریعے اقتدار پایا‘ ان کی تیسری نسل آج بھی اقتدار میں ہے اور یہ سارے جمہوریت پسند ہیں۔ ضیا الحق کی آمریت میں وزارتیں‘ مفت کے قرضے‘ پلاٹ‘ مارشلائی عہدے اور ہر طرح کے مفادات‘ اتنے کہ جن سے بدہضمی ہو جائے‘ اٹھانے والے اسلام پسند اور ترقی پسند آج جنرل ضیا کے نام سے دور بھاگتے ہیں۔ ایسے جیسے نہ وہ ضیا کو جانتے ہیں اور نہ ہی ضیا کا نام پہچانتے ہیں۔ ان کی بھی دو نسلیں اقتدار میں ہیں اور تیسری نسل پورے اختیار میں۔
12 اکتوبر 1999ء کے روز زمین سے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوا میں معلق جنرل مشرف کو ڈِس مِس کرنے کا حکم دینے والے نواز شریف نے بقلم خود جنرل مشرف کے ہوائی جہاز کو بھرپور عزت دی۔ جس کے ذریعے جدہ کے سرور پیلس میں پہنچ کر شاہی مہمان نوازی کے ذریعے خوب باآبرو ٹھہرے۔ یادش بخیر! اسی زمانے میں مُلا ملٹری الائنس کو بھی اقتدار کی فرمائشی دیگ گفٹ کی گئی تھی۔ جس کے بدلے میں سیاست کے اسلام پسندوں نے باوردی جرنیل کو عزت دی اور دھاندلی کے ذریعے جیتی ہوئی نشستوں کو اس کے ووٹ کی لونڈی بنا دیا۔ اسی لیے جنرل مشرف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پوری رعونت سے بات کی مگر سچ یوں بولا: تم مجھے یہ بتاؤ! میں یا میرا کوئی جرنیل کب چل کر کسی سیاستدان کے پاس گیا ہے۔ یہ سیاستدان خود چل کر ہمارے پاس آجاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم آپ کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ نواز شریف پی آئی اے کے چارٹرڈ طیارے میں سرکاری خرچ پر جدہ پہنچے تھے۔ پھر سرکاری خرچ پر انہیں پاکستان واپس لایا گیا۔ نواز شریف کا نعرہ تھا: ووٹ کو عزت دو۔ یہ نعرہ لگنے کے بعد جس قدر ووٹ کی عزت بے آبرو ہوئی ہے اسے دیکھ کر آبرو فروشی کے بازار بھی کانپ اٹھے ہیں۔ پھر اسی خاندان کی ایک لیڈر نے یہ کہہ کر ووٹ کی آبرو کو آسمان تک پہنچایا کہ میرے پاس سب کی وڈیوز ہیں‘ یاد رکھو وڈیوز کھل گئیں تو کوئی نہیں بچے گا۔ جس کے بعد پاکستان میں وڈیو کو عزت دو کا سونامی آگیا۔ وڈیو بنانے والے ہوں یا وڈیو بنوانے والے‘ دونوں نے مل کر شراکتِ اقتدارکی نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔
نواز گروپ کی جانب سے عزت دو کا اگلا مرحلہ امریکہ کے الیکشن میں ہر لحاظ سے معذور و مجبور جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد سامنے آیا۔ آلِ شریف اور اقتدارِ شریف دونوں نے مل کر سابق امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ پر اتنا تبریٰ کیا جیسے ٹرمپ نے پاکستان میں اگلا الیکشن لڑنا تھا۔ رجیم 47 میں بیٹھے ہوئے وزیروں نے تو حد کر دی۔ کسی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاگل ہے‘ کسی نے کہا وہ عمران جیسا دیوانہ ہے‘ کوئی بولا ٹرمپ دوبارہ آگیا تو اس سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا مگر پھر بھی ٹرمپ دوبارہ آ گیا۔ ان وزیروں نے اپنے ہاتھوں سے بکھیری ہوئی کالک اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے منہ پر مَل دی۔ ٹرمپ مخالف ٹویٹس نہ صرف ڈیلیٹ ہوئیں بلکہ دوبارہ صدر بننے کے بعد صدر ٹرمپ کی اتنی تعریف ہوئی جتنی تعریف شادی کے موقع پر ویل ملنے پر 'بھاگ لگے رہن‘ والے کرتے ہیں۔ دو دن پہلے نواز شریف کیمپ سے تازہ خبر آئی ہے کہ ٹرمپ ساڈا بھائی اے۔ اس خبر کی وجہ نے پاکستان کی جیو پولیٹکل سیاست کی گہرائی کو سمجھنے والے حلقوں میں پریشانی کی لہر دوڑا دی ہے‘ جن میں بہت سے باخبر اور سنجیدہ لوگ بھی شامل ہیں۔ اس بروقت پریشانی کی تین وجوہات ہیں:
پریشانی کی پہلی وجہ: دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی پراکسی جنگیں اس پریشانی کی پہلی وجہ ہیں۔ ضیا الحق نے روس کو فتح کرتے کرتے پاکستان میں مذہبی منافرت‘ لسانی اور علاقائی شدت پسندی‘ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا جال بچھا دیا۔ جس کے نتیجے میں سیستان کے بارڈر سے ڈیرہ اسماعیل خان تک پاکستان کی ہزاروں کلو میٹر لمبی مغربی سرحد آج بھی بے یقینی سے بھرپور اور مسلسل جنگ کی کیفیت میں ہے۔ ایک ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ جس میں کم و بیش ایک لاکھ پاکستانی شہری بشمول ریاستی اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔ عمران خان کے زمانے میں ایک سنجیدہ کاوش کے ذریعے ان پراکسی جنگوں سے ہونے والے نقصان کا اندازہ آٹھ ٹریلین امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ نقصان براہِ راست عوام سے پورا کیا جاتا۔ بڑے طبقات اس نقصان کی زد میں کبھی نہیں آئے۔
پریشانی کی دوسری وجہ: حال ہی میں امریکہ کے حوالے کیے جانے والے ایک مطلوب مجرم کی خبر ہے ۔ پاکستان میں کسی ملک کو بھی مطلوب مجرم کوحوالے کرنے کے ضابطہ فوجداری کے اندر ایک پورا چیپٹر موجود ہے۔ جنرل مشرف نے خود اپنی کتاب میں اعتراف کر رکھا ہے کہ اس نے ملک کے آئین اور قانون کو روند کر سینکڑوں پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا۔ سرزمینِ وطن کی سالمیت اور دستور پر یقین رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس مجرم کے بدلے پاکستان کو عافیہ صدیقی کی واپسی کی ڈیل کرنی چاہیے تھی۔ الزام کوئی بھی ہو‘ کسی ملک کو شفاف قانونی طریقہ اختیار کیے بغیر مجرم حوالے کرنے کی تاریخ اپنے ہاں بڑی تاریک ہے۔
پریشانی کی تیسری وجہ: یہ اسحاق ڈار کی جانب سے دیا گیا بیان ہے کہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے پارٹنر ہیں۔ اتنی جلدی امریکی سیٹی پر ناچنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ٹرمپ خود یوکرین کی جنگ سے جان چھڑوا رہا ہے۔ جنگ ریاست کے لیے کاروبار نہیں ہوتا۔ جنگ ریاست کے شہریوں کی ڈھال ہوتی ہے۔ اس موقع پر شہباز شریف کا بیان ڈار سے بھی زیادہ مایوس کن رہا ہے۔ یہ بیان کم اور ایک نئی امریکی جنگ میں کودنے کی کوشش زیادہ ہے۔