پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال اور خاص جغرافیائی اہمیت کی حامل ایسی سر زمین ہے‘ جس میں چار موسم‘ معدنیات اور دھاتوں کے وافر وسائل موجود ہیں۔ بلوچستان سے لے کر پنجاب تک یہ سرزمین قیمتی پوشیدہ خزانوں سے بھری ہوئی ہے۔ بلوچستان میں اب تک تقریباً 40انتہائی قیمتی معدنیات کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ پچاس سے سو سال تک ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ان میں تیل‘ گیس‘ سونا‘ تانبا‘ یورینیم‘ کولٹن‘ خام لوہا‘ کوئلہ‘ انٹی مونی‘ کرومائٹ‘ فلورائٹ‘ یاقوت‘ گندھک‘ گریفائٹ‘ چونے کا پتھر‘ کھریا مٹی‘ میگنائٹ‘ سوپ سٹون‘ فاسفیٹ‘ درمیکیولائٹ‘ جپسم‘ المونیم‘ پلاٹینم‘ سلیکاریت‘ لیتھیم اور اربوں ڈالر کی کئی دوسری قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔ 1952ء سے گیس اور کوئلے کی بھاری مقدار بھی بلوچستان سے نکالی جا رہی ہے۔ ان قدرتی وسائل کیلئے بہتر مینجمنٹ سسٹم کا قیام ناگزیر ہے۔ اس مقصد کیلئے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ بدعنوانی کا خاتمہ بھی بہت ضروری ہے۔ ملکی معدنی وسائل پر نہ صرف اشرافیہ کی گرفت ہے بلکہ یہ معدنیات نکالنے والی بیشتر کمپنیاں بھی مفاد پرست عناصر اور بدعنوان افسران کی ملکیت ہیں۔ ملکی آئین میں جہاں معدنی وسائل کے مالکانہ حقوق فراہم کیے گئے ہیں وہاں تیل اور گیس کے لیے ایک متفقہ ملک گیر معدنی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ بدنصیبی تو یہ ہے کہ ان میں سے کچھ معدنیات آج بھی ناقابلِ رسائی ہیں اور ابھی تک انہیں نکالا ہی نہیں جا سکا۔ گزشتہ78برسوں سے معدنیات کے حوالے سے قومی پالیسی کنفیوژن کا شکار رہی ہے۔ ملک میں 1960ء کی دہائی میں قدرتی وسائل کی دریافت کا آغاز ہوا تھا۔ ان میں بیش قیمت ذخائر درج ذیل ہیں:
کوئلہ: پاکستان میں کوئلے کے تقریباً 185بلین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن ان ذخائر سے جو کوئلہ نکالا جاتا ہے اس میں سلفر اور راکھ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے‘ اس لیے ان ذخائر سے مقامی ضرورت کا 12فیصد کوئلہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اگر پاکستان میں کوئلے کے وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ان سے اگلے 30سالوں میں تقریباً ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔امریکہ اپنی بجلی کی کل پیداوار کا 80‘ چین 70اور بھارت 50فیصد حصہ کوئلے سے پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی مجموعی پیداوار کا بمشکل ایک فیصد ہے۔ حکومت اگر کوئلہ سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار میں اضافے کی طرف توجہ مرکوز کرے تو عوام کو سستی بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔
تانبا: تانبا پاکستان میں پایا جانے والا قدرت کا ایک اور تحفہ ہے۔ تانبا عام طور پر سلفائیڈز‘ آکسائیڈز اور کاربونیٹ میں پایا جاتا ہے۔ چٹانوں میں تقریباً دو فیصد تانبا ہوتا ہے جو انہیں ان کی اقتصادی قدر کے لحاظ سے قیمتی بناتا ہے۔ پاکستان میں یہ چاغی‘ سیندک‘ ریکوڈک‘ قلات‘ لسبیلہ اور ژوب میں پایا جاتا ہے۔ چاغی اور لسبیلہ میں پایا جانے والا تانبا معیار کے اعتبار سے دنیا میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
سونا: پاکستان کے پاس اربوں ڈالر کے سونے کے وسائل ہیں۔ پاکستان میں سونے کی بڑی کانیں بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہیں۔ ریکوڈک میں تانبے کے ساتھ ساتھ سونے کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔ ریکوڈک کو ایک اندازے کے مطابق 1200ٹن سونے کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا سونے کا ذخیرہ قرار دیا جا رہا ہے جس میں سے 255 ٹن ثابت سونا ہے۔ سیندک میں بھی سونے کے 63سے 83ٹن ثابت شدہ ذخائر موجود ہیں۔ یہ منصوبہ چاغی میں 286 کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے پہلے مرحلے کی فیزبیلٹی رپورٹ مکمل ہو چکی ہے اور کان کنی کا آغاز رواں سال میں ہو جائے گا۔ تاہم ریکوڈک منصوبے سے سونے اور تانبے کی پیداوار 2028 ء میں شروع ہو گی۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں 2028ء سے دو لاکھ چالیس ہزار ٹن تانبا اور تین لاکھ اونس سونا سالانہ نکالا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں ریکوڈک کان سے سالانہ چار لاکھ ٹن تانبا اور پانچ لاکھ اونس سونا نکالا جائے گا۔ اس منصوبے سے پاکستان معدنی کان کنی کے شعبے میں دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آئے گا۔خام لوہا: لوہا ان پانچ اعلیٰ معدنیات میں سے ایک ہے جو ملک میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں مختلف اندازوں کے مطابق خام لوہے کے 1.4بلین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ کالا باغ ذخائر لوہے کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں۔ چنیوٹ سے بھی 2015ء میں 500ملین ٹن خام لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ ان دریافت شدہ ذخائر میں سے 60سے 65 فیصد ہائی گریڈ لوہا ہے۔ یہ ذخائر بڑی اقتصادی اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس وقت پاکستان میں لوہے کی سالانہ پیداوار مقامی ضروریات کے مقابلے میں کم ہے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی کے نوکنڈی قصبے میں بھی لوہے کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ ذخائر سنجرانی آتش فشاں سے جڑے ہوئے ہیں۔
قیمتی پتھر: پاکستان میں مختلف اقسام کے جواہرات موجود ہیں جن میں سے کچھ دنیا بھر میں انتہائی نایاب ہیں جن میں پیریڈوٹ‘ ایکوامیرین‘ مختلف رنگوں کے پکھراج‘ زمرد‘ روبی‘ باسٹناسائٹ‘ زینو ٹائم‘ اسفینی‘ ٹورمالائنز اور کوارٹز کی دیگر اقسام شامل ہیں۔ 1979ء میں ملک میں قائم کردہ Gemstones Corporation نے ان پتھروں کو نکالنے‘ تلاش کرنے اور استعمال میں لانے کیلئے کافی کام کیا لیکن اس کارپوریشن کو 1997ء میں ختم کر دیا گیا۔ اب یہ معاملات ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف رَف اینڈ اَن پولش قیمتی اور نیم قیمتی دھاتوں کے تحت نمٹائے جاتے ہیں۔ مذکورہ جواہرات زیادہ تر شمالی علاقہ جات‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پائے جاتے ہیں ۔
جپسم: پاکستان میں جپسم کے تقریباً 92فیصد ذخائر خیبرپختونخوا میں پائے جاتے ہیں اور اس کا تخمینہ 5.5بلین ٹن ہے۔ کے پی کے میں جپسم کی تقریباً 70 کانیں ہیں جہاں سے سالانہ 4.2ملین ٹن جپسم حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی صنعت کو سپورٹ کرتا ہے جس میں پلاسٹر‘ پلاسٹر بورڈز‘ مٹی کنڈیشنگ جپسم پاور‘ سیمنٹ‘ ڈینٹل پلاسٹر‘ آرتھوپیڈک ایپلی کیشنز جیسے پٹیاں اور گوج‘ جپسم لیمپ اور دیگر آرائشی مصنوعات شامل ہیں۔ کرومائٹ: کرومائٹ سٹین لیس سٹیل‘ پینٹ‘ نیکروم اور دیگر کیمیکلز کی تیاری کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں کرومائٹ کے ذخائر ٹیکٹونک پلیٹوں پر پگھلے ہوئے مادے کے اخراج کی وجہ سے پائے جاتے ہیں۔
قدرتی وسائل کے اس تفصیلی جائزے کے بعد کہا سکتا ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ اسے قدرتی وسائل سے مالا مال بناتا ہے۔ بدقسمتی سے تکنیکی پسماندگی اور جدید پالیسیوں کے فقدان کی وجہ سے ہم ان وسائل سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا پائے ہیں۔
پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا چھ لاکھ مربع کلو میٹر کا رقبہ معدنیات کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہاں 92معروف معدنیات ہیں جن میں سے 52کا تجارتی استعمال ہو سکتا ہے۔ معدنیات کا شعبہ اس وقت پاکستان کے جی ڈی پی میں صرف 3.2فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ اگر حکومتوں نے اس جانب توجہ دی ہوتی تو آج ہم عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر نہ ہوتے۔ دیر آید درست آید کے مصداق ہماری عسکری و سیاسی قیادت نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے کہ ملک میں موجود ان پوشیدہ خزانوں کو معاشی ترقی و خوشحالی کیلئے بروئے کار لایا جائے گا۔ بلاشبہ خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے زیراہتمام پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025ء کا کامیاب انعقاد معدنی ترقی کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہو گا اور معدنیات اور کان کنی کے شعبوں کی ترقی اور برآمدات کے فروغ سے ملکی معیشت کے استحکام میں بھی مدد ملے گی۔