"MMC" (space) message & send to 7575

الفرقان…(دوم)

نبی کریمﷺ نے انتہائی تضرّع‘ عاجزی اور انکسارکے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کیلئے فتح کی دعائیں مانگیں اور ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا: ''اے اللہ! (تین سو تیرہ نفوس پر مشتمل) اس چھوٹی سی جماعت کو اگر آج تُو ہلاکت سے دوچار کر دے گا تو پھر زمین پر کبھی تیری عبادت نہیں ہو گی‘‘۔ یہ بارگاہِ الوہیت میں امام الانبیاءﷺ کا مقامِ ناز تھا اور یہ بتانا تھا کہ تب سے لے کر آج تک اور آج سے لے کر قیامت تک اللہ کی زمین پر جو اللہ کی عبادت ہو چکی ہے‘ ہو رہی ہے‘ ہوتی رہے گی‘ درحقیقت وہ صدقہ ہے شہدائے بدر اور شرکائے بدر رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کہ انہوں نے اپنے خون سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی اور وہی اصل عاشقانِ مصطفیﷺ تھے۔
غزوۂ بدر کی جزئیات کا احاطہ یہاں مقصود نہیں ہے‘ کیونکہ کالم کی تنگ دامانی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ مقصد روحِ بدر سے اس دور کے مسلمانوں کو آگاہ کرنا ہے کہ دو لشکر جو بدر کے میدان میں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے‘ اس میں مہاجرین کی تعداد ساٹھ سے کچھ اوپر تھی۔ وہ تمام رشتے اور مادّی اسباب جو انسانوں کو باہم جوڑتے ہیں‘ مہاجرین صحابہ اور کفارِ مکہ کے درمیان موجود تھے۔ نسب کا رشتہ‘ خون کا رشتہ‘ وطن کا رشتہ اور زبان کا رشتہ‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جوڑنے والے تمام اسباب موجود تھے تو کس چیز نے ان کو باہم ٹکرایا۔ وہ نظریاتی ٹکرائو تھا‘ توحیداور کفر وشرک کا ٹکرائو تھا۔ غزوۂ بدر نے ہمیشہ کیلئے اس اصول کو طے کر دیا کہ نظریاتی اور اعتقادی رشتے پر سارے رشتے‘ قرابتیں‘ قُربتیں اور نسبتیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ اس جنگ نے عجب مناظر دکھائے جن کا مادّی اعتبار سے کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس امت کے امین مایۂ ناز سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے اپنے ہاتھ سے اپنے والد عبداللہ بن الجراح کو قتل کیا۔ جلیل القدر صحابی حضرت مصعب بن عمیرؓ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ بن الخطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت علیؓ اورحضرت حمزہؓ نے عتبہ‘ شیبہ اور ولید کو قتل کیا۔ آپﷺ کے چچا زاد حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب شہید ہوئے اور آپﷺ کے چچا عباس اور حضرت علیؓ کے بھائی عقیل‘ نوفل بن حارث اور حضورﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے شوہر ابو العاص بن الربیع جنگی قیدی بن کر گرفتار ہوئے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے: ایک بار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمنؓ نے اپنے والدِ ماجد سے کہا: غزوۂ بدر میں ایک موقع ایسا آیا کہ آپ میری تلوار کی زد میں تھے‘ میں چاہتا تو آپ کو قتل کر دیتا‘ لیکن باپ کی محبت آڑے آئی اور میں نے تلوار نہ چلائی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت ایمان افروز جواب دیا اور فرمایا: پیارے بیٹے! جب تم کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے اور میں غلامیِ مصطفی میں لڑ رہا تھا‘ اگر تم میری تلوار کی زد میں آتے تو میں تمہیں کبھی معاف نہ کرتا۔
ہم نے 'الفرقان‘ عنوان اس لیے رکھا ہے کہ آج ایمان کا دعویٰ کرنے والے بدر کے آئینے میں اپنے ایمان کا جائزہ لیں‘ کیونکہ وہ حق وباطل کے درمیان تمیز کی کسوٹی ہے‘ معیار ہے۔ اگر کوئی اس پر پورا اترتا ہے تو اس کا ایمان کامل ہے اور اگر کوئی اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو اسے اپنے ایمان وایقان کا جائزہ لینا چاہیے۔ آج اگر بدر کی روح مسلمانوں کی رگوں میں دوڑ رہی ہوتی تو صوبائیت‘ قومیت‘ لسانیت‘ علاقائیت اور رنگ ونسل کے سارے فتنے سر اٹھا نہ رہے ہوتے۔ امتِ مسلمہ اور ملتِ اسلامیہ پاکستان کے قالب کروڑوں میں ہوتے‘ لیکن ان کی رگوں میں بدر کی روح سرایت کیے ہوئے ہوتی اور ہمارے وطن کی سرزمین جو مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو رہی ہے‘ یہ مناظر ہمیں دیکھنا نہ پڑتے۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسلام اور شریعت کے نام پر اپنے دینی بھائیوں کی گردنیں اڑا رہے ہیں‘ جبکہ رسولﷺ نے فرمایا تھا: ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘ وہ اس پر (کبھی) ظلم نہیں کرے گا اور (نہ مشکل وقت میں) اُسے بے سہارا چھوڑے گا اور جو اپنے دینی بھائی کی حاجت روائی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کی کسی تکلیف کا ازالہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کا ازالہ فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا‘‘ (صحیح بخاری: 2442)۔
اسی طرح قرآنِ کریم بھی حق وباطل کیلئے معیار ہے‘ کسوٹی ہے‘ میزان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرائو‘ پس اگر اُن میں ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے گروہ سے جنگ کرو تاوقتیکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے‘ پھر اگر وہ (بغاوت کو ترک کرکے) اللہ کی شریعت کی طرف لوٹ آئے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرائو‘ بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ (الحجرات: 9)۔ اسلام نے انسانی جان کو بڑی قدر ومنزلت عطا کی ہے کہ ایک بے قصور انسان کی ناحق جان لینے کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ فرمایا: ''اسی سبب ہم نے بنو اسرائیل پر فرض کر دیا تھا کہ جس شخص نے قصاص یا زمین میں فساد برپا کرنے کے جرم کے بغیر کسی بے قصور شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک بے قصور شخص کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا‘‘ (المائدہ :32)۔
''رسول اللہﷺ منبر پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارا: اے لوگو! جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور (ابھی) ایمان تمہارے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوا‘ مسلمانوں کو ایذا نہ پہنچائو‘ انہیں عار نہ دلائو‘ ان کی پوشیدہ باتوں کے درپے نہ ہو جائو‘ پس بیشک جو اپنے مسلمان بھائی کے پوشیدہ راز کے درپے ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی پردہ دری فرمائے گا اور جس کے عیوب کو اللہ ظاہر کر دے‘ وہ رسوا ہو جائے گاخواہ وہ کجاوے میں بیٹھا ہو۔ نافع بیان کرتے ہیں: ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی نظر بیت اللہ پر پڑی تو انہوں نے کہا: (اے بیت اللہ!) تیری عظمت بے پایاں ہے‘ تیری حرمت عظیم ہے لیکن ایک (بے قصور) مسلمان (کے خونِ ناحق) کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے‘‘ (ترمذی: 2032)۔ قرآنِ کریم کی بھی یہی شان ہے۔ ارشاد ہوا: ''اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول آ گیا جو تمہارے لیے بہت سی ایسی چیزیں بیان کرتا ہے‘ جن کو تم اپنی کتاب میں چھپاتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر فرماتا ہے‘ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نورِ (نبوت) آیا اور ایک روشن کتاب‘ اللہ اس کے ذریعے سلامتی کے راستوں پر اُن لوگوں کو چلاتا ہے جو اُس کی رضا کی پیروی کرتے ہیں اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور اُن کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے‘‘ (المائدہ: 15 تا 16)۔ (2) ''دین (قبول کرنے میں) کوئی جبر نہیں ہے‘ بیشک ہدایت گمراہی سے خوب ممتاز ہو چکی تھی‘ سو جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا تو اس نے ایسا مضبوط دستہ پکڑ لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے‘‘ (البقرہ: 256)۔ (3) ''اور کہہ دیجیے! حق آ گیا اور باطل مٹ گیا‘ بیشک باطل کو (ہر صورت میں) مٹنا ہی تھا اور ہم اس قرآن میں وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کیلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کیلئے صرف خسارے میں زیادتی ہوتی ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 12)۔ (4) ''انسان پر یقینا ایک ایسا وقت آ چکا ہے جب اس کا نام ونشان تک نہ تھا‘ بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اُسے آزمائیں‘ پھر اُسے سننے والا اور دیکھنے والا بنا دیا‘ بیشک ہم نے اُسے راہِ راست کی ہدایت کی‘ (اب یہ اس پر ہے) کہ یا تو (ہدایت قبول کر کے اللہ کا) شکر گزار بندہ بن جائے اور یا (اسے ردّ کر کے اُس کا) ناشکرا بندہ بن جائے‘‘ (الدہر: 1 تا 3)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں