پاکستان نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے فقید المثال استقبال سے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک یک جان دو قالب ہیں اور دونوں ممالک مستقبل میں اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کیلئے تیار ہیں جو باہمی مفادات‘ ثقافتی اقدار کے فروغ‘ علاقائی استحکام اور معاشی خوشحالی کے حصول پر مبنی ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور ہنود و یہود گٹھ جوڑ کے تناظر میں صدر رجب طیب اردوان کا دورۂ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ رجب طیب اردوان مظلوم مسلمانوں کی طاقت اور ان کے حقوق کی ایک مضبوط آواز تصور کیے جاتے ہیں۔ مسلسل تین بار صدارتی انتخابات جیتنے والے طیب اردوان کی مثبت خارجہ پالیسیوں نے ترکیہ کو عالمِ اسلام میں کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ علاقائی تنازعات ہوں یا عالمی معاملات‘ انہوں نے ہمیشہ مثبت اور قائدانہ رویہ اختیار کیا۔ اس کالم میں دونوں ممالک کے سیاسی‘ عسکری اور تجارتی تعلقات کی مختلف جہتوں کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
صدر رجب طیب اردوان کے حالیہ دورۂ پاکستان نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کیا ہے۔ اس دورے میں دفاع‘ معیشت‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ تعلیم‘ صحت اور مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاقِ کرتے ہوئے دو طرفہ تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور 24معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے جن کا مقصد باہمی تجارت کا فروغ بتایا جا رہا ہے۔ اس دورے کے تناظر میں وفاقی دارالحکومت میں سیکٹر ایف ایٹ اور ایف نائن انٹر چینج کو صدر اردوان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے ۔ تجارتی تعلقات کے فروغ کے علاوہ ترکیہ نے کشمیر کے مؤقف پر ہمیشہ کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل370کے خاتمے پر رجب طیب اردوان نے اس بھارتی اقدام کی بھر پور مذمت کی تھی۔ترکیہ کے عالمی کردار کی بات کی جائے تو ترکیہ نہ صرف غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو امداد پہنچا رہا ہے بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں غزہ کے باسیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان نہ صرف سات اکتوبر 2023ء سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کے خلاف کھڑے ہیں بلکہ فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی میں بھی پیش پیش ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان نے اپنے دورے کے دوران دہشت گردی اور علاقائی عدم استحکام کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔ دونوں ملکوں کی مضبوط دوستی کو 77برس گزر چکے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ترکیہ پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ پاک ترک تعلقات مضبوط ثقافتی‘ سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر استوار ہیں۔ ہر مشکل گھڑی میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ 1955ء میں دونوں ملکوں نے سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (CENTO) میں شمولیت اختیار کی جس کو بغداد پیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ 1964ء میں علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD) کا قیام پاکستان‘ ترکیہ اور ایران کے مابین اقتصادی‘ ثقافتی اور تکنیکی تعاون کو فروغ دینے کی جانب اہم پیش رفت تھی۔ 1985ء میں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کے قیام نے دونوں کے مابین گہرے تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ 90ء کی دہائی میں دونوں نے قبرص اور کشمیر سمیت اہم بین الاقوامی امور پر سٹریٹجک اتفاقِ رائے قائم کیا۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں ترکیہ نے دوستی کا فرض بخوبی نبھایا اور پاکستان کی ہر ممکن مدد کی۔ 70ء کی دہائی میں بھی ترکیہ کا تزویراتی و سیاسی تعاون جاری رہا۔ مشرقی پاکستان کے بحران پر انقرہ نے پاکستان کو غیرمتزلزل سفارتی و فوجی حمایت فراہم کی۔ بدلے میں پاکستان نے بھی ترکیہ کی قبرص پر کھل کر حمایت کی۔ 1975ء میں ترکیہ پر پابندیاں عائد ہوئی تو پاکستان نے کھل کر اس کی مذمت کی۔ پاکستان نے 1979ء میں قبرص سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد کی مخالفت کی۔ 1980ء میں ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں اور 1988ء میں ملٹری کنسلیٹو گروپ کے قیام نے دونوں ملکوں کے تزویراتی تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔ 2002ء میں طیب ادروان کے ترکیہ کی وزارتِ عظمیٰ کا مسند سنبھالنے سے اس تعلق کو مزید تقویت ملی۔ بالخصوص 2003ء میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان اور وزیر خارجہ عبداللہ گل کے پاکستان کے دوروں سے دو طرفہ تعلقات میںمزید مضبوطی آئی۔اس رشتے کو مزید مستحکم کرنے کیلئے 2009ء میں ایک اعلیٰ سطحی تزویراتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
صدر رجب طیب اردوان کے ادوار میں پاک ترک تعلقات ہمیشہ غیر معمولی رہے ہیں۔ طیب اردوان پاکستان کے متعدد دورے کر چکے ہیں جو دونوں ملکوں کے مابین مضبوط رشتے کے عکاس ہیں۔ 2005ء میں آزاد کشمیر کے زلزلہ زدگان کی امدادکیلئے صدر اردوان کی جانب سے‘ جو تب ترکیہ کے وزیراعظم تھے‘ 15کروڑ امریکی ڈالر دیے گئے تھے۔ 2010ء میں جناب طیب اردوان کی اہلیہ نے اپنا قیمتی ہار سیلاب زدگان کو عطیہ کر دیا تھا۔ چھ فروری 2023ء کو ترکی میں آنے والے زلزلے کے بعد پاکستان نے بھی حقِ دوستی ادا کیا۔ زلزلہ متاثرین کی امداد کیلئے پاکستان کی طرف سے پاک فوج کے دو یونٹ‘ سینکڑوں ریسکیو اہلکار‘ خوراک اور ادویات پر مشتمل 100ٹن امدادی سامان فوراً ترکیہ پہنچایا گیا‘ جو یکجہتی کی اعلیٰ مثال ہے۔ 2018ء میں پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری 2.7ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ 2019ء میں پاکستان نے ترکیہ کو ویزا فری ٹریول لسٹ میں شامل کر لیا۔ 2015ء کے بعد سے دونوں ملکوں کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 2015ء میں دونوں ملکوں کا تجارتی حجم تقریباً 60کروڑ امریکی ڈالر تھا جو 2022ء میں بڑھ کر 1.2ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کی تاریخ بھی عشروں پر محیط ہے۔ 1988ء میں دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کو بڑھانے اور فوجی تربیت کیلئے پاک ترکیہ فوجی مشاورتی گروپ تشکیل پایا تھا۔ 2003ء میں طیب اردوان کے دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں میں ہائی لیول ملٹری ڈائیلاگ گروپ کی تشکیل بھی مضبوط تعلقات کا بڑا ثبوت ہے۔ 2004ء میں دہشت گردی اور منظم جرائم کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے اس اہم معاہدے کی توثیق کی گئی جس سے انسدادِ دہشت گردی میں معاونت ملی۔ 2018ء میں پاک بحریہ نے ترکی کے ایک اہم دفاعی مینو فیکچرر کے ساتھ شراکت داری سے ایک فلیٹ ٹینکر متعارف کروایا۔ 2018ء میں ہی ترکیہ کے ساتھ پاک بحریہ کو 30 ٹی 129لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کیلئے 1.5ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا جو بعد ازاں امریکی پابندیوں کی وجہ سے معطل ہو گیا۔ 2021ء میں پہلی اَپ گریڈڈ آبدوز کی فراہمی کے بعد 2023ء میں ترکیہ نے پاک بحریہ کیلئے دوسر ی اے جی او ایس ٹی اے 90جی کلاس آبدوز کو جدید بنانے کا کام کیا۔ اب ایک اور آبدوز کو جدید بنانے پر کام جاری ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان اور ترکیہ کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ جوائنٹ منصوبہ بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔دفاعی میدان کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقیں بھی کرتے ہیں جس میں اتاترک اور جناح سیریز مشقیں شامل ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی پر تعاون کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں کے مابین کئی معاہدات موجود ہیں۔ رجب طیب اردوان نے ہمیشہ‘ پہلے بطور وزیراعظم اور اب بطور صدر‘ پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط اورپائیدار بنائے ہیں۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ رجب طیب اردوان کے سٹرٹیجک وژن اور پالیسی اقدامات نے پاکستان اور ترکیہ کے مابین دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔