آئی ایم ایف کا معاشی شکنجہ

پاکستان صدر ایوب خان کے دور میں بھی مقروض تھا اور آج بھی مقروض ہے لیکن تب ہر پاکستانی پر اوسطاً 60روپے قرضہ تھا مگر آج ہر پاکستانی تین لاکھ دو ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے سات ارب روپے کا موجودہ قرض پروگرام تقریباً پانچ فیصد شرحِ سود پراور چینی بینکوں سمیت دیگر مالیاتی اداروں سے سات سے آٹھ فیصد شرحِ سود پر قرضہ لیا گیا ہے۔ 2024ء کے اختتام تک فی کس قرضوں کے بوجھ میں سالانہ بنیادوں پر 15فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ قرض پر زیادہ سود کی ادائیگیوں اور شرحِ مبادلہ میں کمی کے اثرات مجموعی قرض میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ملکی قرضہ 62.9ٹریلین روپے سے بڑھ کر 72.3ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کا قرضوں پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اس وقت غیرملکی قرضوں کا مجموعی حجم تقریباً 130ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
قرضوں کے چنگل سے نکلنے کیلئے برآمدات‘ ٹیکس وصولی اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ ناگزیر ہے لیکن بے پناہ کوششوں کے باوجود حکومت کو برآمدات کا طے شدہ ہدف حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح حکومت رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کیلئے طے شدہ ٹیکس ہدف بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کیلئے 6009 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا تھا جبکہ ایف بی آر اس مدت میں صرف 5623 ارب روپے کا ٹیکس جمع کر سکا۔ملکی معیشت کو زک پہنچانے والے ان عوامل کے علاوہ گزشتہ 20 برسوں میں دہشت گردی کے باعث ملکی معیشت کو 150 ارب ڈالر کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ماضی کے تجربات‘ موجودہ معاشی حالات اور مستقبل کے امکانات کو نگاہ میں رکھیں تو اس بات کا دور دور تک امکان دکھائی نہیں دیتا کہ پاکستان یہ قرض ادا کر پائے گا۔ وفاقی وزارتِ اقتصادی امور کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ‘ سات ارب 72 کروڑ 59 لاکھ ڈالر سے زائد قرض لینے والی سرفہرست حکومت رہی ہے۔ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے جس نے مجموعی طور پر آئی ایم ایف سے چھ ارب 48 کروڑ ڈالر قرض لیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت تقریباً سوا تین سال میں آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔پرویز مشرف کے نو سالہ دور میں پاکستان کے قرضوں میں تقریباً 3200 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت کئی بیرونی کمرشل بینکوں سے قرض لے چکا ہے لیکن یہ قرض ادا کیسے کرنا‘ اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرض لینے والے حکمران اپنے دورِ اقتدار کے بعد گھروں کو جا چکے لیکن پاکستان عوام سالہاسال سے یہ قرض ادا کر رہے ہیں۔ ان قرضوں کی وجہ سے عوام کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ ملک کی تقریباً 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘ 80 فیصد کے قریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے‘ ڈھائی کروڑ کے قریب بچے سکول سے باہر ہیں‘ 44 فیصد بچوں کو مناسب خوراک دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے عمر کے تناسب سے ان کے قد نہیں بڑھ رہے۔ اگرچہ موجودہ حکمران یہ دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ یہ قرض اتاریں گے لیکن عملی صورت یہ ہے کہ وہ بھی پرانا قرض ادا کرنے کے بجائے نیا قرض لے رہے ہیں۔ 2024ء کے دوران پاکستان کے صرف ملکی قرضوں کا حجم 72ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ بیرونی قرضے ہماری آزادی‘معیشت اور مستقبل کی قیمت ہیں۔ ہماری تمام اقتصادی اور معاشی پالیسیوں پر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے ذریعے امریکہ کو تسلط حاصل ہے۔ پاکستان نے پہلی بار 1958ء میں جب آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا تب ایک ڈالر تین روپے کا تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد جب ملکی بیرونی امداد بند ہوئی تو ڈالر سات روپے کا ہو گیا مگر اس دوران بھی پاکستان کے مالی حالات بہتر تھے اور قرضوں کی ادائیگی ہو سکتی تھی ۔ تقریباً 67برسوں میں پاکستان 23بار آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے۔ آئی ایم ایف پر اتنے زیادہ انحصار کی وجہ سے ہی ہماری تمام اقتصادی اور معاشی پالیسیوں پر آئی ایم ایف کو تسلط حاصل ہے۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ ادھر آئی ایم ایف کی قسط آئی اُدھر اس عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط کی وجہ سے عوام پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا۔
موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے سامنے ایک تو یہ راستہ ہے کہ ہم آ ئی ایم ایف اور امریکہ کے سامنے مکمل طور پر سرنڈر کر دیں‘لیکن کیا ایسا کرنے سے ہماری اقتصادی حالت بہتر ہوجائے گی یا ہمارے قرضے معاف کر دیے جائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ یہ غلامی کا راستہ ہے جس پر چلنے کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے عقیدے‘نظریے اور آزادی سے محروم ہونا پڑے گا۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ جب تک ہماری معیشت مستحکم نہیں ہو جاتی ہم یہ قرض ادا کرنے سے معذرت کر لیں اور اپنی تمام تر توجہ معاشی بحالی اور استحکام کی جانب مبذول کریں۔ معاشی استحکام کیلئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ معاشی سمت کا تعین اور ایک مربوط معاشی پالیسی ہے۔ ماضی میں کوئی مربوط معاشی پالیسی نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھاری قرضوں کے باوجود ہمارے معاشی مسائل کم ہونے میں نہیں آ رہے۔ اب تو چھوٹے سے چھوٹا بینک بھی کسی مربوط منصوبہ بندی کے بغیر قرض نہیں دیتا تو سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک ہمیں یہ قرض کیوں دیتے رہے؟ اس کی بڑی وجہ ہماری اقتصادی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا تھا۔ ان قرضوں کے عوض وہ ہم سے ایسی اقتصادی پالیسیاں بنواتے رہے جن سے ہم اُن کے قرضوں کے چنگل سے نہیں نکل سکے اور ان قرضوں سے ہمارے ہاں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو ا۔ کون بتا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے 22بار لیا جانے والاقرضہ کہاں خرچ ہوا؟ کوئی کسی کو پوچھنے والا ‘ کسی کا احتساب کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں احتساب کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ احتساب کم اور ذاتی انتقام زیادہ تھا جس سے احتساب کا عمل بھی مشکوک ہو چکا ہے۔ ہمارے اقتصادی دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے قرضے دینے سے انکار کیا تو ہمیں ڈیفالٹ قرار دے کر دنیا میں تنہا کر دیا جائے گا‘برآمدات نہیں ہوں گی‘ایل سیز نہیں کھلیں گی‘یہ دانش بھی مغرب سے ہمارے ہاں آ ئی ہے۔یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ ہماری برآمدات ختم ہو جائیں گی۔بر آمدات کا سلسلہ چین‘ افغانستان‘ایران اور دیگر اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔ جن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ اس طرح پاکستان کیلئے ایک نیا تجارتی بلاک وجود میں آسکتا ہے۔ہمارا سب سے زیادہ خرچ تیل پر ہوتا ہے جس کے بدلے ہم تیل پیدا کرنے والے ممالک کو چاول‘گندم اور دیگر غذائی اجناس برآمد کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے اقتصادی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ معیشت سنبھل رہی ہے لیکن یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔عوام معاشی بد حالی اور بے روزگاری کے ہاتھوں خود کشی کر رہے ہیں۔یہ کیسی معاشی بہتری ہے؟معیشت کا احیا تو کجا الٹا ہماری آزادی وبقاخطرے میں ہے ۔ اگر ہم سسک سسک کر ذلت سے جینا نہیں چاہتے تو ہمیں قرضوں کی سازش کا شکار بننے سے صاف انکار کرنا ہوگا۔ ہم اپنے ایمان‘نظریے اور آزادی سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ہمارے حکمرانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں‘امریکی معاشی پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں یا اپنی مظلوم مگر غیرت مند قوم کو ملکی معاشی استحکام کیلئے کام میں لائیں۔ درمیان کا کوئی راستہ موجود نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں