اندرا گاندھی نے 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘ لیکن 54سال بعد بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے سے یہ واضح ہو گیا کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ اور قائم و دائم ہے‘ اور قائداعظم کی قوم دو ملکوں‘ پاکستان اور بنگلہ دیش میں آباد ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی غداری‘ اگرتلہ سازش‘ بھارتی دہشت گردی‘ مکتی باہنی‘ سب کچھ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے۔ تاریخ کا انصاف دیکھیے کہ پاکستان توڑنے کی سازش بھارتی شہر اگرتلہ میں تشکیل پائی‘ اور اس سازش کے مجرم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ملک چھوڑ کر اپنے آقاؤں کے پاس بھارت پہنچی تو اس کا طیارہ اگرتلہ ہی لینڈ ہوا تھا۔ آج ڈھاکہ کی گلیوں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں۔ 71ء میں مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے والوں کی اولادیں موجودہ تناظر میں دو قومی نظریے کیلئے لڑ رہی ہیں۔ وہ جان گئے ہیں کہ ان کا اصل دشمن کون ہے‘ اسی لیے تو وہاں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگے ہیں۔ افواجِ پاکستان آج سرخرو ہو گئی ہیں اور ان پر لگائے سب الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ جن کے باپ دادا 71ء میں افواجِ پاکستان کے خلاف تھے وہ آج پاکستان کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ دشمن جان لے کہ بھائی چارہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ بنگالی طلبہ کی جرأت اور حب الوطنی کو سلام کہ جنہوں نے پانچ اگست 2024ء کو حسینہ واجد کی آمرانہ حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ طلبہ نے بتا دیا کہ اصل غدار کون ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی بڑھتی قربتیں اکھنڈ بھارت پر کاری ضرب ہیں۔ بھارت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں کہ اس کا ناپاک منصوبہ ناکام ہو گیا ہے جس کے ذریعے اس نے 1971ء میں دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا۔
بھارت ایک بار پھر سانحہ 71ء دہرانے کی سازش کر رہا ہے۔ آج بھارتی سر پرستی میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک اور مکتی باہنی پھل پھول رہی ہے۔ بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کو بھارتی کرکٹ لیگ سے نکالنے‘ یہاں تک کہ بنگلا دیش میں فوجی کارروائی کے مطالبات بھی کھلے عام کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب الحمدللہ! بنگلہ دیش نے دو قومی نظریے کو تسلیم کر لیا ہے۔ محمد یونس کے برسراقتدار آنے کے بعد بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ بھارتی ایجنٹ شیخ حسینہ واجد کے فرار کے بعد بنگلہ دیش میں قائم ہونے والی عبوری حکومت نے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی قربت بڑھائی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر اُتر آیا ہے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ بھارت کیلئے بہت بڑی ناکامی ہے‘ اب وہاں پاکستان کی حمایت میں نعرے لگ رہے ہیں‘ جس سے ہمارا ازلی دشمن آپے سے باہر ہو گیا ہے۔ بھارت بنگلہ دیش کو اپنی طفیلی ریاست بنانے کے عزائم رکھتا تھا‘ لیکن شاید وہ یہ بھول گیا تھا کہ بنگلہ دیش حریت کے متوالوں کی سرزمین ہے۔ مشرقی پاکستان کے رہنماؤں اور قائدین کی خدمات ہماری قومی سیاسی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خاں کے گھر پر رکھی گئی۔ قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی اے کے فضل الحق کا تعلق بھی بنگال سے تھا‘ انہیں شیرِ بنگال کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بنگال کے دیگر قائدین میں خواجہ ناظم الدین کا نام بہت اہم ہے‘ وہ قائداعظم کے بعد پاکستان کے گورنر جنرل بنے۔ انہوں نے نہایت وقار اور متانت کے ساتھ ملک کی قیادت کی۔ حسین شہید سہروردی بھی تحریک پاکستان کے مجاہدین میں شامل تھے‘ ان کا تعلق بھی بنگال سے تھا۔
ہندوستان جس طرح معرکۂ حق میں پاکستان کے ہاتھوں اپنی شکست کو ہضم نہیں کر پا رہا‘ اسی طرح اگست 2024ء میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی اقتدار سے محرومی کے بعد سے بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اب تو بنگلہ دیش میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ بھارت کو اب اپنی چکن نیک خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ میانمار کی اراکان ریاست سمیت بھارت کی چکن نیک میں شامل سیون سسٹرز‘ شمال مشرقی ریاستوں میگھالیہ‘ منی پور‘ تری پورہ‘ میزورم‘ حتیٰ کہ مغربی بنگال کے کچھ حصوں بشمول آسام کو گریٹر بنگلہ دیش کے نقشے میں شامل کرنے پر مودی حکومت تلملا رہی ہے‘ گودی میڈیا یہ واویلا مچا رہا ہے کہ بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان بننے کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے آئندہ عام انتخابات میں بھارت مخالف سوچ کے حامل نوجوان رہنماؤں کے بھاری تعداد میں کامیاب ہونے کے امکانات روشن ہیں‘ شاید اسی لیے بنگلہ دیش کے نوجوان رہنما بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی 'را‘ کے نشانے پر ہیں۔ بھارت عوامی لیگ کی قیادت کی خاطر انہیں باری باری راستے سے ہٹا رہا ہے۔ طالب علم رہنما عثمان ہادی کا قتل اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ عثمان ہادی نے اگست 2024ء کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ اور آئندہ عام انتخابات میں وہ ڈھاکہ سٹی کے حلقہ نمبر آٹھ سے نیشنل اسمبلی کا امیدوار تھا۔ بنگلہ دیش نے احتجاجاً نئی دہلی میں اپنی قونصلر خدمات معطل کر دی ہیں۔ بھارت کو یقین ہے کہ اب بنگلہ دیش میں جو بھی حکومت اقتدار میں آئے گی‘ اس کے حق میں نہیں ہو گی۔ عوامی لیگ کا زوال شروع ہو چکا ہے‘ حسینہ واجد کو ڈھاکہ کی مقامی عدالت پھانسی کی سزا سنا چکی ہے اس لیے حسینہ واجد اور مودی گٹھ جوڑ سازشیں بنانے میں مصروف ہیں کہ بنگلہ دیش میں انتشار پھیلے اورکسی طرح ان انتخابات کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ لیکن سٹوڈنٹ لیڈر عثمان ہادی کے قتل کے بعد بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے خلاف غم وغصہ مزید بڑھ گیا ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔
آج بنگال میں ہندوتوا کے گماشتوں پر گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔ ہندوستانی سیاستدان ششی تھرور نے اپنی پارلیمانی رپورٹ میں کہا ہے کہ 1971ء کے بعد اب ہندوستان کیلئے بنگلہ دیش میں سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جو ہندوستان کی سکیورٹی کیلئے بھی بڑا چیلنج ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ خطے میں دہشت گردی کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1971ء میں پاک بھارت جنگ سے قبل بھارت نے اپنی دہشت گردانہ پالیسی کے تحت مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی۔ آج وہ بنگلہ دیش میں خونریزی کروانا چاہتا ہے‘ جبکہ بھارتی جارحیت پر اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سات مئی کو بھارت نے پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر الزام تراشی کی اور پھر جارحیت کا ارتکاب کرکے نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹرکی بھی صریحاً خلاف ورزی کرکے پاکستان پر جنگ مسلط کی۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی‘ پہلگام فالس فلیگ اور سات مئی کو پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق اپنی رپورٹ میں پاکستانی مؤقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن سندور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھا‘ بھارت پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ اور یہ کہ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی غیرقانونی ہے‘ پانی کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کو مطلع کیا تھا کہ وہ آرٹیکل 51کے تحت دفاع کا حق رکھتا ہے۔ رپورٹ میں بھارتی اصطلاح ''Held in abeyance‘‘ کو بھی مبہم قرار دیا گیا اور کہا کہ اس فیصلے سے پانی‘ خوراک‘ روزگار‘ صحت‘ ماحول اور ترقی کے حقوق براہِ راست زد میں آتے ہیں۔بھارت کی عالمی سطح پر سبکی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا میں سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اور بنگلہ دیش مشترکہ‘ بہتر اور محفوظ مستقبل کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں اور آنے والے وقت میں یہ دونوں ممالک مسلم اتحاد کے رول ماڈل ہوں گے۔