اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی شدید موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کو ہر حوالے سے متاثر کر رہی ہیں۔ ماضی قریب میں آنے والے تباہ کن سیلابوں کی مثال دی جا سکتی ہے جو شدید بارشوں کا نتیجہ تھے اور خشک سالی کے جاری موسم کو بھی مثال بنایا جا سکتا ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کے پیدا کرنے میں پاکستان کا اپنا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ہمارا ملک متاثر سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم نے اپنے داخلی معاملات ٹھیک رکھنے کی بھی کوئی ٹھوس‘ جامع اور دوٹوک کوشش نہیں کی۔ آج ہم اپنے خالی ہوتے ڈیموں کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کم و بیش پچاس برسوں میں کوئی قابلِ قدر یعنی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا جا سکا اور اس سامنے کی بالکل زمینی حقیقت کے باوجود نہیں کیا جا سکا کہ ایک بڑا آبی ذخیرہ عنقا ہونے کی وجہ سے ہر سال 29 ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے جس کی مالیت سالانہ 21ارب ڈالر بنتی ہے۔ جو ممالک سمندر کے کنارے واقع ہیں ان میں سے زیادہ تر کو کسی نہ کسی مقدار میں پانی سمندر میں بہانا پڑتا لیکن ان کے بہائے گئے پانی اور پاکستان کے ضائع کیے گئے پانی میں خاصا فرق ہے۔ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح 8.6 ملین ایکٹر فٹ ہے جبکہ پاکستان کتنا پانی ضائع کرتا ہے یہ میں نے بتا ہی دیا ہے۔ پانی کی تقسیم کے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق ملک کے دریائی سسٹمز میں اس وقت پانی کی 40 فیصد سے زائد کمی ہے اور اپریل کے مہینے میں صرف پینے کے لیے پانی کی تقسیم ہو گی جبکہ مئی کے آغاز میں صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا اور پھر ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ خریف کی فصلوں کے لیے پانی کی تقسیم کیسے کرنی ہے۔یہ نایاب واقعہ ہے کہ واٹر ریگولیٹر نے ماہانہ بنیادوں پر پانی کے اخراج کے پیرامیٹرز شروع کیے ہیں حالانکہ ماضی میں ایک سیزن کے دوران تین حصوں میں پانی کی تقسیم کی مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے جو موجودہ دور میں ظاہر ہے کہ بہت کم ہے کیونکہ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ باقی پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ جو صورتحال بیان کی یا جن معاملات کا ذکر گزشتہ کالم میں کیا تھا‘کیا ایسے نہیں تھے کہ ملک میں ایک بڑے آبی ذخیرے کی تعمیر کا ڈول ڈالا جاتا؟ تمام تر ضرورتوں‘ تمام تر تنگیوں اور تمام تر مسائل کے باوجود ماضی کے حکمرانوں نے اس ایشو پر وہ توجہ نہیں دی جس کی ضرورت تھی۔ یہ سوچیے کہ اگر ایک بڑا آبی ذخیرہ ہوتا تو کیا آج ہم حیرت سے اس طرح ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہوتے جس طرح اس وقت تک رہے ہیں؟ ایک بڑا آبی ذخیرہ ہوتا تو کیا خریف کی فصلوں کے حوالے سے ہم بحیثیت قوم اتنے ہی پریشان ہوتے اور اگر ایک بڑا آبی ذخیرہ پچھلے پچاس برسوں کے دوران ہم نے تعمیر کر لیا ہوتا تو بجلی کی قیمتوں کو لے کر اتنے ہی پریشان ہوتے جتنے اس وقت ہم ہیں؟
کوئی بھی ڈیم جب بنتا ہے تو ماہرین تمام تر معاملات اور اعداد و شمار کا جائزہ لے کر اس کی ایک میعاد مقرر کرتے ہیں کیونکہ پہاڑوں میں ہونے والی بارشوں اور پگھلنے والے گلیشیرز سے بننے والا پانی اپنے ساتھ ریت‘ پتھر‘ کیچڑ اور گارا بھی لاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈیم کے پیندے میں یہ مٹی اور گارا جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جتنا یہ مواد اکٹھا ہوتا ہے اتنی ہی ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ منگلا اور تربیلا ڈیموں کے ساتھ بھی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کم ہوتی گنجائش کا بھی تقاضا تھا کہ ملک میں ایک بڑے آبی ذخیرے کی تعمیر کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جاتا‘ سوچا ہی نہ جاتا‘ عملی اقدامات کیے جاتے لیکن دوسرے بہت سے معاملات اور مسائل کی طرح اس ایشوپر بھی روایتی تساہل سے کام لیا گیا‘ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
جب بھی ایک بڑے آبی ذخیرے کی تعمیر کی ضرورت کا ذکر ہوتا ہے ذہن فوراً کالا باغ ڈیم کی طرف جاتا ہے کہ کتنا شاندار اور گیم چینجر منصوبہ تھا جس کو جھوٹی انا اور من گھڑت اعتراضات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ پہلے بھی کسی کالم میں اس ڈیم کی تفصیلات بیان کی تھیں۔ یہ منصوبہ ایسا بیش قدر اور عالی شان ہے کہ ایک بار پھر اس کے کچھ خدوخال کا جائزہ لینے پر مجبور ہوں۔ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو منگلا اور تربیلا کے ڈیڈ لیول پر آ جانے کے باوجود اس وقت ہمارے پاس 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہونا تھا اور اس پانی سے 50 لاکھ ایکڑ فٹ رقبہ سیراب ہونے کی امید ہوتی۔ خریف کی فصل کے پانی کی کوئی پریشانی نہ ہوتی کیونکہ یہ وافر دستیاب ہوتا۔ اس ڈیم سے پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی دو ڈھائی روپے فی یونٹ کے حساب سے بنائی جا رہی ہوتی اور ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی شرائط کو بنیاد بنا کر ایک بار بجلی بے تحاشا مہنگی کرنے کے بعد قیمت میں کمی کی طفل تسلیاں نہ دے رہے ہوتے۔
یہ سب کہنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ عالمی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے‘ ہم نے خود بھی اپنے ساتھ اچھا نہ کرنے کی شاید قسم اٹھا رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی ہم اپنی آنکھیں نہیں کھولیں گے؟ اب بھی پانی کی شدید قلت کو پیشِ نظر رکھ کر کوئی مناسب فیصلہ نہیں کریں گے؟ اگر ارباب بست و کشاد واقعی سامنے آنے والے ان حالات سے پریشان ہیں اور اگر وہ واقعی خود کو اور آنے والی نسلوں کو خشک سالی اور قحط (خدانخواستہ) جیسی صورتحال سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں فوراً کالا باغ ڈیم کی فائلوں کو الماریوں میں سے نکال کر ان پر پڑی گرد صاف کرنی چاہیے اور اس معاملے کو قومی قیادت کے سامنے رکھنا چاہیے۔ اگرچہ وقت خاصا بیت چکا ہے اور پلوں کے نیچے سے خاصا پانی گزر چکا ہے پھر بھی اگر اتفاقِ رائے پیدا ہو جائے تو اگلے پانچ چھ برسوں میں ہم پانی اور خوراک میں خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی پیدا کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔اگر یہ گرد نہ جھاڑی گئی تو آنے والے ماہ و سال مزید تشویشناک اور کشیدہ معاملات لے کر آئیں گے۔ اب بھی ڈُلے بیراں دا کجھ نئیں وگڑیا، لیکن اگر مزید تاخیر کی گئی تو پھر معاملات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔(ختم)