"IYC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی پر کیسے قابو پایا جائے؟

ہمارے ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ رونما ہو گیا ہے اور قومی قیادت ایک بار پھر مل بیٹھ کر کچھ بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔ یوں تو گزشتہ دو دہائیوں میں ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات وقفے وقفے سے مسلسل ہو رہے ہیں‘ کبھی ان میں کچھ کمی آ جاتی ہے اور کبھی اضافہ ہو جاتا ہے‘ لیکن 15اگست 2021ء کو افغان طالبان کے کابل پر قابض ہو جانے کے بعد سے دہشت گردی کی جو لہر شروع ہوئی ہے وہ کچھ الگ نوعیت کی ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
پاکستان میں مختلف ادوارِ حکومت میں دہشت گردی اور کالعدم ٹی ٹی پی پر قابو پانے کے لیے کئی مسلح آپریشن کیے گئے۔ ان آپریشنوں کے دوران ٹی ٹی پی کے بہت سے دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان چلے گئے تھے۔ وہاں پہلے سے غیر ملکی قبضے کے خلاف برسر بیکار افغان طالبان نے انہیں نہ صرف خوش آمدید کہا اور پناہ دی بلکہ ٹی ٹی پی کی شمولیت سے افغان طالبان کی طاقت میں اضافہ بھی ہو گیا۔ غالباً یہی اضافہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور افغان طالبان کے کابل پر قابض ہونے کا سبب بنا۔ لیکن ہوا یہ کہ کابل کو اپنے قبضے میں کرنے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے اسے کھلی چھٹی دے دی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کی ہر طرح سے تائید و حمایت اور امداد کرنا شروع کر دی۔ افغان طالبان کی شہ پا کر کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے لگے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان وارداتوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
افغان طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے بعد امریکہ تو افغانستان سے نکل گیا لیکن اس نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کے لیے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے والے پاکستان کا کیا بنے گا۔ امریکہ نے 2001ء سے 2021ء تک بیس سال جدید دور کی سب سے طویل اور سب سے مہنگی جنگ لڑی‘ جس میں مختلف وجوہات کی بنا پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہزاروں فوجی‘ ٹھیکے دار اور دوسری خدمات سرانجام دینے والے افراد ہلاک ہوئے۔ یہ جنگ مہنگی ترین اس حوالے سے تھی کہ اس پر امریکہ کے 2300ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ اس جنگ کے آخر میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین جو معاہدہ ہوا وہ دوحہ معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت افغان طالبان نے ضمانت دی تھی کہ مستقبل میں کسی بھی طرح کے بین الاقوامی حملوں کے لیے افغانستان کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ نہ ہی افغانستان سے کسی ہمسایہ ملک پر حملہ ہو گا۔ علاوہ ازیں افغانستان القاعدہ جیسے کسی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کو پناہ نہیں دے گا اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے گا‘ لیکن ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ آج افغانستان القاعدہ‘ ٹی ٹی پی‘ بی ایل اے‘ آئی ایم یو (The Islamic Movement of Uzbekistan)‘ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور آئی ایس کے پی (The Islamic State-Khorasan Province) کے لیے ایک محفوظ جنت بن چکا ہے۔ افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کی موجودگی علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کو ٹی ٹی پی‘ بی ایل اے اور آئی ایس کے پی کے دہشت گرد حملوں میں ڈرامائی اضافے کا سامنا ہے۔ افغانستان میں امن و امان کی صورت حال ابتر ہے اور روز بروز مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس ساری صورتحال میں جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے وہ پاکستان ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ ماضی قریب میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات کی طرح جعفر ایکسپریس ٹرین کو یرغمال بنانے کے سانحہ کے قلابے بھی افغانستان اور بھارت سے مل رہے ہیں۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے بتایا ہے کہ مشرقی پڑوسی پاکستان میں دہشت گردی کا مین سپانسر ہے‘ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بھارتی میڈیا جعلی اے آئی وڈیوز کے ذریعے پروپیگنڈا کرتا رہا اور دہشت گردوں کی پروپیگنڈا وڈیوز دنیا کو دکھاتا رہا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق دہشت گردی کی اس پوری کارروائی کے دوران دہشت گرد افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے مسلسل رابطے میں تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ میں امن و امان کی صورت حال پر اعلیٰ سطح کے اجلاس میں صوبے کے معاملات پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو ترقی کا سفر رک جائے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی ہے جبکہ اس واقعے کے دوران ٹریس شدہ کالز میں افغانستان سے رابطوں کا سراغ ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سرحد پار سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کے بیرونِ ممالک رابطے تھے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے الزامات کی تردید کر دی ہے اور کہا ہے کہ اس حوالے سے موجود مسائل حل ہونے چاہئیں۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ دہشت گردی کا باعث بننے والے مسائل حل ہوں گے تو ہی خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔ پاکستان بھارت پر الزام عائد کرتا رہے اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا جاتا رہے‘ دوسری جانب پاکستان ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پناہ دینے اور انہیں پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے سہولت فراہم کرنے کے تناظر میں افغان انتظامیہ کو مطعون کرتا رہے اور افغان انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے احتجاج یا درخواست کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا رہے تو ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے مسئلے کا حل اسی وقت ممکن ہو گا جب ان تمام عوامل پر توجہ مبذول کی جائے گی جو اس خطے میں دہشت گردی کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ عوامل کیا ہیں؟ ان پر اگلے کالم میں بات کروں گا۔
اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدہ کیا تھا تو امریکہ کو ہی افغان طالبان کو اس معاہدے کا پابند رہنے پر مجبور کرنا چاہیے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کی ان معاملات میں دلچسپی‘ جس کا شکار ان دنوں پاکستان ہے‘ کم ہی ہے۔ وہاں ایک نئی انتظامیہ برسر اقتدار آ چکی ہیں جس کی دلچسپیاں اور ترجیحات مختلف ہیں۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت ضرور کی جاتی ہے‘ پاکستان کو اس سلسلے میں ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے لیکن افغان طالبان کو دوحہ معاہدے کا پابند رہنے کے لیے غالباً ایک بار بھی نہیں کہا گیا۔ صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ امریکہ 2021ء میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑا گیا اربوں ڈالر کا اپنا اسلحہ واپس لینا چاہتا ہے لیکن افغان طالبان اسے یہ اسلحہ واپس کرنے کے لیے بھی تیار نظر نہیں آتے۔ چنانچہ یہ بات گہرے دکھ کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ اگر افغان طالبان کی جانب سے من مانیوں اور دہشت گردوں کی حمایت کا سلسلہ اسی طرح بلا روک ٹوک جاری رہا تو خدانخواستہ اس خطے میں ایک اور نئی جنگ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں