"IYC" (space) message & send to 7575

Déjà vu … (4)

پرویز مشرف کا ایک منتخب حکومت کو ہٹا کر اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا جمہوریت پسندوں کو اچھا تو نہیں لگا لیکن جب انہیں تمام تر معاملات کا مختارِ کل بنا دیا گیا تو عوام نے بھی یہ سوچ کر خود کو دلاسا دیا کہ ممکن ہے اب حالات ٹھیک ہو جائیں‘ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے اور ملک معاشی لحاظ سے ترقی کرنے لگے۔ لیکن یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ردِعمل میں پاکستان میں شروع ہونے والی دہشت گردی کی شدید لہر نے امن وامان‘ سکون وتحفظ اور ترقی کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیے۔ کچھ سیاستدانوں نے پرویز مشرف کے زیر سایہ حکومت میں یہ سوچ کر عافیت تلاش کرنے کی کوشش کی کہ شاید اسی طرح سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہیں کھل جائیں گی لیکن یہ خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکا۔ نہ تو حکومت کا حصہ بننے والوں کو سیاسی سکون میسر آ سکا اور نہ اقتدار سے باہر بیٹھے لوگوں اور سیاستدانوں ہی کو یقین کی منزل مل سکی۔ دوسری جانب ممکن ہے کہ پرویز مشرف نے سوچا ہو کہ فوج کی سربراہی کے ساتھ ساتھ ریاست کی صدارت بھی اپنے پاس ہے تو اب فکر کس بات کی۔ لیکن ان کی بے فکری اس وقت ختم ہوتی نظر آئی جب ان سے وردی اتارنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا‘ اور وردی اترتے ہی حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ انہیں چند ہی مہینوں بعد صدارت سے بھی مستعفی ہونا پڑا۔
مشرف کی صدارت کے دوران ہونے والے 2007ء کے انتخابات‘ جو بعد ازاں ملتوی ہو کر فروری 2008ء میں منعقد ہوئے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی متحدہ اور مشترکہ حکومت قائم ہوئی‘ جیسی اس وقت ہے۔ 18اگست کو پرویز مشرف نے دوپہر تقریباً دو بجے ٹیلی وژن پر قوم سے ایک طویل خطاب کیا۔ اپنے اس خطاب کے اختتام پر انہوں نے اپنے استعفے کا اعلان کیا اور گارڈ آف آنر لے کر ایوانِ صدر سے رخصت ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بیرونِ ملک خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔ دراصل یہ اس متحدہ حکومت کی قوت ہی تھی جس کا سامنا نہ کر پانے کی وجہ سے پرویز مشرف کو صدرِ مملکت کے عہدے سے الگ ہونا پڑا۔
پرویز مشرف رخصت ہوئے تو قوم نے امید کی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مشترکہ حکومت اب تک پیدا ہونے والے تمام مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی‘ لیکن یہ امید بر نہ آئی اور ججز بحالی ایشو پر دونوں پارٹیاں جلد ہی الگ ہو گئیں اور اپنی اپنی سیاست کرنے لگیں۔ پھر بھی لوگوں کی امید قائم رہی کہ عوام کی منتخب حکومت قائم ہوئی ہے تو ان کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور ان کے لیے ترقیاتی کام بھی ہو سکیں گے۔ یہ کہ حکومت کو اگر اس کی آئینی میعاد پوری کرنے کی مہلت دی گئی تو معاشی استحکام کا دیرینہ خواب پورا ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے گی۔ اس حکومت نے اپنی آئینی مدت تو یقینا پوری کی لیکن عوام کے بہت سے دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ نہ تو مہنگائی کم ہوئی‘ نہ معاشی ترقی ہو سکی اور نہ ہی قرضوں سے نجات کا کوئی بندوبست ہو سکا۔ یہ سارا عرصہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین سیاسی کھینچا تانی کا دور رہا۔ جمہوریت کے حوالے سے حالات میں کچھ بہتری آئی کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی آئینی میعاد پوری کی اگرچہ اس دوران برسر اقتدار آنے والا کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ معیشت میں کچھ بہتری آئی لیکن اتنی نہیں جتنی آنی چاہیے تھی۔
11مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ اس نے 166سیٹیں جیتیں۔ پیپلز پارٹی کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا پڑا کیونکہ اس کے حصے میں صرف 42سیٹیں آئی تھیں۔ اس الیکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک بڑی تبدیلی یہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف ملکی تاریخ میں پہلی بار 35 سیٹیں جیت کر قومی اسمبلی کا حصہ بنی تھی۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور 2008ء سے پہلے ہونے والے انتخابات میں اسے کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی تھی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے آتے ہی انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا دیا اور کہا کہ 35پنکچر لگائے گئے ہیں۔ تب عمران خان نے مطالبہ کیا تھا کہ لٹمس ٹیسٹ (Litmus test) کے طور پر صرف چار انتخابی حلقوں کے نتائج کی جانچ پڑتال کر لی جائے۔ اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں‘ لیکن ان کا یہ مطالبہ فوری طور پر تسلیم نہ کیا گیا۔ کچھ عرصہ واویلا اور احتجاج کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے 14سے 17اگست تک سونامی مارچ یا تحریک آزادی شروع کر دی۔ یہ مارچ جب اسلام آباد پہنچا تو عمران خان نے اسے دھرنے کی شکل دے دی جو 17دسمبر 2014ء تک یعنی 126دن جاری رہا۔ اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ اس دھرنے کی وجہ سے ملک و قوم کو بھاری معاشی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ پی ٹی آئی اسے اپنے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔ 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا خوفناک سانحہ نہ پیش آ جاتا تو پتا نہیں دھرنا مزید کتنا عرصہ چلتا۔
16دسمبر 2014ء کی صبح دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے 132طالب علموں سمیت 141افراد کو شہید کر دیا تھا۔ اس واقعہ میں چھ کے چھ دہشت گرد جہنم رسید کر دیے گئے جبکہ 121بچے شدید زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پاک فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کر دیا گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا۔ اس ایکشن پلان پر ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کے بعد اتفاقِ رائے ہوا تھا۔ اس ایکشن پلان پر کتنا عملدرآمد ہوا‘ یہ ایک الگ معاملہ ہے جس پر پھر کبھی بات کریں گے‘ البتہ 126دن کے دھرنے کے باوجود مسائل ویسے کے ویسے رہے‘ سیاسی بھی اور اقتصادی بھی۔ اسی دوران پاناما لیکس سامنے آ گئیں اور وزیراعظم نواز شریف سمیت بہت سے لوگوں سے اس حوالے سے پوچھ گچھ شروع ہو گئی۔ اسی کیس میں نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ عظمیٰ بلکہ پارٹی کی سربراہی سے بھی ہٹا دیا گیا اور شاہد خاقان عباسی ملک کے نئے وزیراعظم بن گئے۔ ایک دفعہ پھر ایک منتخب وزیراعظم اپنی میعاد پوری نہ کر سکا۔ نواز شریف سڑکوں پر تیسری بار یہ سوال اٹھاتے نظر آئے کہ مجھے کیوں نکالا؟ لیکن انہیں اس سوال کا جواب کہیں سے نہ مل سکا۔ ایک بار پھر معاشی ترقی کا خواب بکھر گیا۔ ایک بار پھر وہی صورتحال سامنے آ گئی جیسی اس سے پہلے کئی بار آ چکی تھی‘ جس کا خمیازہ ملک و قوم پہلے کئی بار بھگت چکے تھے۔ ملک وہیں کھڑا نظر آیا جہاں کئی دہائیوں سے کھڑا تھا۔ اس ملک کے عوام کی تبدیلی‘ ترقی اور تعاون کی خواہش پھر پوری نہ ہو سکی۔ ایک اور حکومت نے اپنی آئینی میعاد پوری کی جسے ملک میں جمہوریت کے استحکام سے تعبیر کیا گیا‘ لیکن الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے ہنگام یہ سوال اپنی جگہ قائم رہا کہ آیا واقعی ملک میں جمہوریت کی جڑیں مستحکم اور گہری ہوئی ہیں یا کمزور اور غیر مستحکم؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں