آئی ایم ایف سے ٹیرف کا فرق کم کرنے کی منظوری ملنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا جس کے مطابق گھریلو صارفین کے لیے 7روپے 41پیسے اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی 7روپے 69پیسے سستی ہو گئی ہے۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی 45روپے پانچ پیسے فی یونٹ ہے جو کمی کے بعد 37روپے 64پیسے فی یونٹ ملے گی۔
بجلی کے نرخوں میں واضح کمی خوش آئند ہے۔ اس کے نتیجے میں بھاری بلوں کے ستائے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملے گا‘ جو وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ بے تحاشا مہنگائی نے لوگوں کے کس بل نکال دیے ہیں۔ پچھلا سارا موسم گرما بھی صارفین یہ شکایت کرتے رہے کہ بجلی بہت مہنگی ہے اور بھاری بل ادا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ بھی ہوتا رہا کہ بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے لوگوں کو اپنی کچھ چیزیں بھی فروخت کرنا پڑیں۔ بجلی ٹیرف میں کمی کے تازہ فیصلے کے بعد لوگوں کے لیے بجلی کے بل بھرنے میں کچھ آسانی ہو گی لیکن ظاہر ہے کہ مہنگی بجلی کے اثرات اپنی جگہ قائم اور برقرار رہیں گے۔
معاملہ یہ ہوا کہ بجلی مہنگی تو آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہوئی تھی لیکن سارا نزلہ آئی پی پیز پر گرا‘ جو گرنا بھی چاہیے تھا۔ کئی سوال ہیں جن کے جواب سامنے آنا عوام کو حقائق سے آگاہ رکھنے اور تاریخ کا رُخ درست سمت میں رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ حالات کو اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے ضرورت کا قرض لینے کے لیے اس کی کڑی بلکہ ایک حد تک عوام کُش شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہیں؟ کیوں اقتصادی حالات اور معاشی معاملات کو وقت رہتے درست نہیں کیا گیا؟ کیوں قومی معیشت کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا؟ اتنا زیادہ دیوار کے ساتھ کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کو ہم ایک بڑا کارنامہ سمجھنے لگے ہیں؟ سب سے اہم سوال یہی ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرے تک پہنچانے کے ذمہ دار کون ہیں؟ ان کی نشاندہی ملک کو حقیقی ترقی کی منزل کی جانب لے جانے کے لیے ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ کیوں حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا گیا کہ قومی بجٹ تیار کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان آتی ہے؟ وہ بتاتی ہے کہ پاکستان کیا کرے تو اس کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ کیوں؟ ہمارے اپنے اندر اتنی صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ اپنے مالی اور معاشی معاملات کو سنبھال سکیں؟ اس حوالے سے تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کی مصروفیات کو منظر عام پر نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نہ مصروفیات کا پتا چلے گا‘ نہ کوئی تنقید کرے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
وزیراعظم نے بتایا ہے کہ ہماری یعنی حکومتی ٹیم نے آئی پی پیز سے مذاکرات کیے‘ جس کے بعد 3696ارب روپے جو مطلوب تھے وہ اب ادا نہیں کرنا پڑیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آئی پی پیز کی اوسط ادائیگی 15سال تک 3696ارب روپے تھی اور یہ رقم ٹیم نے بچا لی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معیشت کُش اور عوام دشمن معاہدے کس نے کیے تھے؟ اور کیا سوچ کر کیے تھے؟ یہاں واویلا کیا جاتا ہے کہ پی آئی اے اور سٹیل ملز جیسے ادارے قومی معیشت پر بوجھ ہیں۔ کیا بغیر ایک یونٹ بجلی پیدا کیے آئی پی پیز کو پوری استعداد کے مطابق ادائیگی سے بڑا دھوکا بھی اس قوم کو دیا جا سکتا ہے؟ اسی سے متعلق ایک سوال یہ ہے کہ جو بات چیت آئی پی پیز کے ساتھ اب کر کے ریلیف حاصل کیا گیا ہے‘ اس سے پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ کیوں کسی حکومت یا حکمران کو خیال نہیں آیا کہ قومی سرمایہ بے دریغ ضائع ہو رہا ہے‘ اس کو بچایا جانا چاہیے؟
ساتھ ہی وزیراعظم نے یہ کہا کہ آئی ایم ایف کے ہوتے ہوئے سبسڈی نہیں دی جا سکتی‘ آئی ایم ایف کے قرض کی وجہ سے اس قوم کے 800ارب روپے سالانہ ڈوب جاتے ہیں‘ سمجھتا ہوں کہ ہم سب سیاستدانوں اور اداروں کو 800ارب روپے جمع کرنا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ محصولات میں 35فیصد اضافہ کرنے جا رہے ہیں جو آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے مقابلے میں کم لیکن گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا: اگر ہم 35فیصد زائد محصولات جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہمارے قرض کم ہو جائیں گے بلکہ ہمیں نیا قرض بھی آسانی سے مل سکے گا۔ اب ان کی محصولات میں 35فیصد اضافے سے پتا نہیں کیا مراد ہے؟ یہ محصولات درآمدات پر لاگو ہوں گی‘ برآمدات پر ہوں گی یا اس کے لیے ایک بار پھر عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جائے گا؟ یہاں 18فیصد جی ایس ٹی دینا مشکل ہو رہا ہے‘ 35فیصد کا تو سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بجلی کی قیمت کم کر کے محصولات کی مد میں لوگوں پر ہی مزید بوجھ ڈالنے کی تیاریاں تو نہیں ہیں؟ حکومت کی جانب سے اس کی وضاحت ہو گی تو ہی پتا چلے گا کہ اس 35فیصد محصولات کا کیا مطلب ہے۔
وزیراعظم نے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ 2393ارب روپے یعنی دو کھرب 393ارب روپے کا گردشی قرضہ ہے‘ اور اس کا بھی انتظام کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اگلے پانچ سال میں یہ گردشی قرضہ ختم ہو جائے گا بشرطیکہ ہم اپنا چال چلن تبدیل کریں۔ اور یقین کریں اس بشرطیکہ کا سن کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اب اردو دان کہتے ہیں کہ یہ محاورہ غلط لکھا اور پڑھا جاتا ہے اور اصل محاورہ یہ ہے کہ نہ تو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی‘ یعنی رادھا کے ناچنے کے لیے نو من تیل کی ضرورت نہیں ہے۔ اب میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ نو من تیل کی طرف توجہ دوں‘ رادھا کی طرف یا رادھا کے ناچنے کی طرف‘ کیونکہ میرا ذہن تو ''بشرطیکہ‘‘ پر اٹکا ہوا ہے۔ اس بشرطیکہ نے ہی تو اب تک سارے معاملات خراب کیے رکھے ہیں۔ بشرطیکہ کی وجہ سے ہی قومی معیشت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے باہر نکل آنے کے باوجود آئی سی یو میں نظر آتی ہے۔ اس بشرطیکہ نے ہی پی آئی اے کو ڈبویا‘ سٹیل ملز کو تباہ و برباد کیا اور ریلوے بھی اسی کی وجہ سے کمزور ہوئی پڑی ہے۔ یہ بشرطیکہ نہ ہوتا تو پتا نہیں ہم ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ بشرطیکہ والی شرط کبھی پوری نہ ہو سکی اور ہم آج بھی وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں 77سال پہلے کھڑے تھے۔
میری باتوں کی سمجھ نہیں آئی تو یہ سن لیجئے کہ وزیر توانائی نے بتایا ہے کہ 7.41روپے کا ریلیف عارضی ہے۔ اگر یہ ریلیف عارضی ہے تو پھر اتنا شور کیوں ہے؟