شہرِ خموشاں اور زندہ کہانیاں

اس بار پاکستانی قوم نے تقریباً پورا ہفتہ ہی عید منائی۔ حکومت کی جانب سے تو تین چھٹیاں تھیں مگر دو‘ تین چھٹیاں ساتھ ملا کر عید کے خوب مزے لیے گئے۔ عید کا تہوار جہاں خوشیاں لے کر آتا ہے وہیں یہ کچھ ایسی یادیں بھی ساتھ لے کر آتا ہے جو دل کو غمگین کردیتی ہیں۔ جو ہم سے بچھڑ گئے ان کی یادیں عید پر بہت مغموم کر دیتی ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر رِیلز دیکھ رہی تھی کہ جہاں لوگ عید کی خوشیوں کو وڈیوز کی صورت میں اَپ لوڈ کر رہے تھے وہیں دوسری طرف وہ اپنے پیاروں کی قبروں پر جاکر ان کو یاد کر رہے اور ان کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے۔ اسلام آباد میں دو مرکزی قبرستان ہیں۔ ایک ایچ ایٹ میں ہے اور دوسرا ایچ الیون میں۔ ایچ ایٹ قبرستان میں جگہ ختم ہونے کی وجہ سے یہاں اب تدفین کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔ کسی نے اگر اپنی جگہ مختص کر رکھی تھی تو اس کو یہاں تدفین کی جگہ مل گئی لیکن زیادہ تر میتیں اب ایچ الیون ہی جاتی ہیں۔ ایچ ایٹ کا قبرستان اپنے اندر ایک پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ یہاں پاکستان کے بڑے بڑے نام دفن ہیں‘ جن میں پروین شاکر‘ احمد فراز‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ ممتاز مفتی‘ قدرت اللہ شہاب‘ مولانا کوثر نیازی‘ منشا یاد‘ جوش ملیح آبادی‘ نسیم حجازی‘ طفیل نیازی‘ بیگم سرفراز اقبال‘ رحمان ملک‘ سرتاج عزیز اور دیگر شامل ہیں۔ یہاں زیادہ تر قبریں پکی ہیں لیکن گھاس اور جنگلی بوٹیاں جابجا اگی ہوئی ہیں جن کو صفائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس قبرستان کے چاروں طرف ایک بائونڈری وال ہے تاہم اس کو تزئین و مرمت کی ضرورت ہے۔ ایسی قبریں جہاں بہت عرصے سے لوگ نہیں آئے‘ سی ڈی اے کو چاہیے کہ ان کو خود ہی پکا کرا دے اور ان کی دیکھ بھال کرے۔ یہاں پر رات کو مناسب روشنی کے انتظامات کی بھی ضرورت ہے اور مالی‘ گارڈز اور گورکن کی تعداد کو بھی بڑھایا جانا چاہیے تاکہ قبروں کی ٹھیک طرح دیکھ بھال ہو سکے۔ اس کے ساتھ قبروں سے متعلق ڈیٹا آن لائن بھی موجود ہونا چاہیے تاکہ فاتحہ خوانی کیلئے آنے والوں کو قبریں آسانی سے مل جائیں۔ میں نے ایچ ایٹ میں گورکن سے پوچھا کہ کس کی قبر پر لوگ زیادہ آتے ہیں تو اس نے بتایا کہ پروین شاکر‘ احمد فراز‘ ممتاز مفتی‘ نسیم حجازی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قبر کا سب سے زیادہ پوچھا جاتا ہے۔ ایچ ایٹ میں موجود مسیحی قبرستان بھی انتظامیہ کی توجہ کا طلبگار ہے۔ یہاں نہ تو کوئی بائونڈری وال ہے نہ ہی پکے راستے۔ بارش کے دوران قبروں پر جانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسلام آباد کا دوسرا بڑا قبرستان ایچ الیون میں ہے۔ عام طور پر لوگ قبرستان میں جاکر خوف محسوس کرتے ہیں کیونکہ ملک میں زیادہ تر قبرستان انتظامیہ کی غفلت کا شکار ہیں مگر ایچ الیون قبرستان ایسا نہیں ہے۔ یہاں بڑے بڑے درخت لگے ہیں‘ پھول ہیں‘ پکے راستے ہیں اور زیادہ تر قبریں پکی ہیں۔ ہوا چلتی ہے تو پیڑ پودوں پر لگے پھول راستوں پر گر جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شہرِ خموشاں آنے والوں کا استقبال کر رہا ہے۔ میرا اس لیے یہاں اکثر جانا ہوتا ہے کہ میرے مرحوم شوہر ارشد شریف یہیں دفن ہیں۔ میں جب بھی ان کی قبر پر جاتی ہوں تو کوئی نہ کوئی شہری دعا کے لیے وہاں موجود ہوتا ہے۔ قبر پھولوں سے بھری ہوتی ہے۔ ارشد کو گلاب کی خوشبو بہت پسند تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ان کی قبر کو پھولوں سے ڈھانپ رکھا اور خوشبو سے معطر کر رکھا ہے۔ پھول فروش نے مجھے بتایا کہ یہاں سب سے زیادہ لوگ ارشد شریف شہید کے لیے پھول خرید کر قبر پر نچھاور کرتے ہیں۔ میں زیر لب مسکرا اٹھی مگر آنکھوں میں نمی تھی کہ دنیا سے جاکر بھی دنیا واسیوں کے کام آ رہا ہے۔ جب بھی میں وہاں جاتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ کچھ قبریں اپنے لواحقین کی وجہ سے ہر وقت صاف اور نئی نظر آتی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جہاں شاید برسوں سے کوئی نہیں آیا۔ اس قبرستان میں بھی بہت سے بڑے نام دفن ہیں۔ جن میں آغا ناصر‘ شبنم شکیل‘ انوربیگ‘ کنول نصیر‘ سائنسدان اشفاق احمد‘ روئیداد خان‘ مشاہد اللہ خان‘ ریحانہ ملک‘ شہید کانسٹیبل زبیر اور دیگر شامل ہیں۔ یہاں کچھ گمنام قبریں بھی ہیں‘ جن پر کتبے نہیں لگے ہوئے۔ ارشد شریف کے ساتھ قطار میں بچوں کی قبریں ہیں جن پر کوئی تختی نہیں لگی ہوئی۔ جب بھی اس لین پر نظر پڑتی ہے تو ان کی مائوں کا سوچ کر دل بے چین ہو جاتا ہے مگر جب یہ بات یاد آتی ہے کہ تمام شیر خوار بچے جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہوں گے تو پھر دل کو تسلی ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دو‘ ڈھائی برس میں قبرستان کے نئے حصے کو میں نے اپنی آنکھوں سے بھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پرانے حصے میں تو درخت اور سبزہ ہیں لیکن نیا حصہ اس سے محروم ہے۔ نئے حصے میں سہولتوں کا فقدان ہے۔ میں نے سوچا کہ ارشد کی قبر کے پاس واٹر کولر لگوا دوں تاکہ فاتحہ خوانی کے لیے آنے والوں کو ٹھنڈا پانی مل جائے مگر پتا چلا کہ قبرستان کے اندر بجلی نہیں ہے۔ صرف جنازہ گاہ اور پھولوں کی دکانوں تک بجلی کا جزوی بندوبست ہے۔ اگر کسی کو شام یا رات میں قبرستان جانا پڑے تو اسے بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ارشد کے کسی فین نے ان کی قبر پر سولر لائٹ لگا رکھی ہے‘ جو رات کو جل اٹھتی ہے اور وہاں روشنی ہو جاتی ہے لیکن باقی قبرستان اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے۔ یہاں پر لائٹس ہونی چاہئیں تاکہ کوئی بھی کسی بھی وقت فاتحہ خوانی کے لیے جا سکے۔ یہاں گھاس‘ پودے بھی مناسب کٹائی مانگ رہے ہیں۔ قبرستان کا نیا حصہ بالخصوص توجہ چاہتا ہے۔ ہر قبرستان میں پانی کے کولر اور بنچ ہونے چاہئیں تاکہ لواحقین آرام سے فاتحہ اور قرآن خوانی کر سکیں۔ اس کے علاوہ پولیس موبائل بھی ہر وقت موجود ہونی چاہیے جو جرائم پیشہ افراد پر نظر رکھے۔ اس قبرستان میں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ بچوں کو بھی قبرستان لانا چاہیے اور انہیں بتانا چاہیے کہ یہاں کوئی بھوت پریت نہیں رہتے‘ یہاں ہم جیسے انسان ہی دفن ہیں اور ایک دن ہم سب نے بھی یہاں آکر اپنے ابدی سفر پر روانہ ہونا ہے۔ صرف عید تہوار پر ہی کیوں‘ ہر ہفتے قبرستان کا ایک چکر لگانا چاہیے تاکہ ہمیں یہ یاد رہے کہ زندگی کی اصل منزل موت ہے ۔
لاہور کے ایک صحافی عابد خان قبرستانوں کے حوالے سے وڈیوز بناتے ہیں۔ وہ جس شہر بھی جاتے ہیں‘ سب کو وہاں کے قبرستانوں میں دفن مشاہیر کی قبروں کی زیارت کراتے ہیں۔ قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں‘ پھول ڈالتے ہیں اورقبروں کو صاف کرتے ہیں۔ ان وڈیوز کے ذریعے ہی میں نے مشہور سکالر ڈاکٹر اسرار احمد‘ نعت گو شاعر مظفر وارثی‘ شاعر منیر نیازی‘ اداکار علاء الدین‘ سلطان راہی‘ مظہر شاہ‘ ننھا‘ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد اور گلوکارہ زبیدہ خانم کی قبریں دیکھی ہیں۔ ان وڈیوز میں لاہور کے مختلف قبرستانوں کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ نہ تو وہاں صفائی کے کوئی خاص انتظامات نظر آئے اور نہ ہی قبروں کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام تھا۔ ہر طرف مٹی‘ آلودگی اور شکستہ قبریں۔ اکثر میں تو پکا راستہ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے بہت بار نشاندہی کی کہ قبرستان میں نشہ باز ہوتے ہیں‘ یہاں لوگ جادو ٹونا بھی کرتے ہیں مگر کوئی پرسانِ حال نہیں‘ کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ ایسے قبرستانوں کو دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ ہر طرف ٹوٹ پھوٹ‘ کچرے کے ڈھیر‘ مشکوک افراد اور دعا خوانی کیلئے آنے والوں کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ انتظامیہ کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہے کہ جہاں لوگ ابدی نیند سو رہے ہیں کم از کم اس جگہ کو تو صاف ہونا چاہیے۔ اس جگہ کو جرائم پیشہ افراد کا گڑھ نہیں بننا چاہیے۔ وہاں جادو ٹونا نہیں ہونا چاہیے۔ صفائی نصف ایمان ہے لیکن یہ نہ ہی ہمارے بازاروں میں‘ نہ سیاحتی مقامات پر اور نہ ہی قبرستانوں میں نظر آتی ہے۔ شہر خموشاں میں بہت سے کہانیاں کتبوں پر رقم ہیں۔ خود بھی جائیں اور نئی نسل کو بھی وہاں لے کرجائیں تاکہ وہ موت کی حقیقت‘ اپنے ملک کی تاریخ اور ہیروز سے آگاہ رہیں۔ یہاں بہت سے لوگ انصاف کے منتظر بھی ہیں۔ دیکھتے ہیں زندہ لوگوں کی طرف سے کب ان کو اور ان کے لواحقین کو انصاف ملتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں