لہو لہو فلسطین… (1)

فلسطین ایک مقدس سرزمین ہے‘ تین مذاہب کے نشانیاں‘ تہذیب اور مقدس مقامات یہاں موجود ہیں۔ یہ سرزمین بے شمار انبیاء کرام کی جائے پیدائش اور مسکن رہی ہے۔ اتنی مقدس سرزمین پر آج قتلِ عام جاری ہے اور نہتے مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ ان کا کیا قصور ہے‘ کیا اس سرزمین پر پیدا ہونا ہی ان کا قصور ٹھہرا کیونکہ اسرائیل ان کی تمام زمین ہڑپنا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کی نااتفاقی اور ان کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمیشہ اسرائیل کو فائدہ ہوا۔ آہستہ آہستہ اسرائیل فلسطین کے خطے پر قبضہ کرتا اور اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرتا چلا گیا جبکہ مسلم ممالک آپس میں لڑتے مرتے رہے اور فلسطین کی مدد نہیں کر سکے۔ اسرائیل نے گزشتہ چند سالوں نے جتنی تباہی غزہ میں مچائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس شہر کو مکمل کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ فلسطینی‘ جو اس خطے کے اصل وارث ہیں‘ وہ کیمپوں میں محبوس ہیں۔ ان کے علاقے ان سے چھینے جا رہے ہیں۔ اب جب لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد وہ اپنے علاقوں میں لوٹ رہے ہیں تو اسرائیل نے اچانک سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے شہریوں پر دوبارہ بمباری شروع کر دی ہے۔ پوری امتِ مسلمہ ایک خاموش تماشائی کی طرح یہ مناظر دیکھ رہی ہے۔ چند روز قبل سحری کے وقت ہونے والا حملہ اتنا شدید تھا کہ نہتے فلسطینیوں کی بڑی تعداد اس کی زد میں آ گئی۔ شیر خوار اور کم سن بچوں سمیت متعدد افراد ان حملوں میں شہید ہوئے۔ گزشتہ تین دن میں اسرائیل 600 کے لگ بھگ فلسطینیوں کو شہید کر چکا جن میں 200 بچے شامل ہیں۔ یہ سراسر نسل کشی ہے‘ تاہم دنیا فلسطین کے معاملے پر مکمل بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سرزمین پر سب سے زیادہ حق فلسطینیوں کا ہے‘ کوئی بھی ان سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔عالمی برادری کی بے حسی عروج پر ہے اور فلسطینیوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ اسرائیل نے ان کے علاقے چھین کر ایک طرح سے انہیں محصور کر دیا ہے۔ امتِ مسلمہ میں کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ یہاں تک پاکستان میں بھی فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔
اگر ہم فلسطین کی قدیم تاریخ دیکھیں تو اس خطے سے عقیدت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دل کرتا ہے کہ انسان جہاز میں بیٹھے اور جلدی سے ان سب مقامات کی زیارت کرے اور قبلہ اول پر سربسجود ہو جائے۔ تاہم اسرائیل فلسطین تنازع کی وجہ سے یہ ممکن نہیں۔ البتہ ہر مسلمان کا دل تڑپتا ہے کہ وہ ان مقدس مقامات کی زیارت کرے۔ اس خطے کا قدیمی نام 'ارض کنعان‘ تھا۔ بعد میں اس کا نام فلسطین ہو گیا۔ اس مقدس خطے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو آبادکیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام‘ جن کا لقب اسرائیل تھا اور انہی سے بنی اسرائیل نامی قوم وجود میں آئی۔ بنی اسرائیل میں بہت سے پیغمبر آئے۔ حضرت یوسف‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت ہارون‘ حضرت دائود‘ حضرت سلیمان‘ حضرت زکریا‘ حضرت یحییٰ‘ حضرت عیسیٰ علیہما السلام۔ تمام انبیاء کرام نے اللہ کے حکم پر اس قوم کی رہنمائی کی اور ان کو توحید کی دعوت دی۔ تاہم بنی اسرائیل ہر چیز میں مین میخ نکالا کرتی تھی۔ بار بار اللہ کے دین سے پھر جاتی تھی۔
عیسائیوں‘ یہودیوں اور مسلمانوں‘ تینوں مذاہب میں یکساں مقدس تابوتِ سکینہ بھی شاید اسی سرزمین پر کہیں موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات موجود ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے پیغمبر حضرت طالوت اور بادشاہ جالوت کا پورا قصہ بیان ہوا ہے اور یہ کہ کس طرح تابوتِ سکینہ بنی اسرائیل کو واپس ملا اور حضرت طالوت کی وفات کے بعد حضرت دائود علیہ السلام بنی اسرائیل کے حاکم بن گئے۔ اس کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکمرانی کی اور اللہ کے پیغام کو عام کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہی بیت المقدس کی تعمیر مکمل کرائی اور اس کی تعمیر میں جنات نے بھی حصہ لیا۔ اسی تعمیر کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام رحلت فرما گئے لیکن جنوں اور انسانوں کو ایک سال تک نہیں پتا چلا اور وہ بیت المقدس کی تعمیر میں مصروف رہے۔ بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد حضرت سلیمان جس عصا کے سہارے کھڑے تھے‘ اس کو دیمک چاٹ گئی۔ اس طرح ان کی وفات کا علم ہوا۔ تب تک تابوتِ سکینہ وہاں موجود تھا لیکن بعد میں بابل کے بادشاہ بخت نصر کے حملے کے دوران یہ کہیں کھو گیا۔ اس حملے میں معبد (ہیکلِ) سلیمانی یعنی بیت المقدس کو بھی شدید نقصان پہنچااور اس کی صرف ایک دیوار باقی رہ گئی۔ یہودی آج بھی تابوتِ سکینہ کو ہر حال میں کھوجنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تابوت ان کو شان وشوکت اور طاقت کی نئی معراج پر لے جائے گا۔
بیت المقدس میں حضرت زکریا اور حضرت مریم علیہما السلام کی محراب بھی موجود ہیں۔ اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ بیت المقدس میں بیک وقت تین مذاہب کے مقدسات موجود ہیں۔ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجد الاقصیٰ۔ اس کے علاوہ گنبد الصخرہ‘ مسجد عمر‘ دیوارِ براق‘ قبہ معراج‘ قبہ جبرائیل‘ مصلیٰ مروانی اور گنبد یوسف وغیرہ اہم مقامات ہیں۔ یہودیوں کی دیوارِ گریہ ان کی عبادت کی جگہ ہے۔ اسی کو مسلمان دیوارِ براق کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی سرنگ‘ کنیسہ خرابا، کنیسہ اسرائیل‘ چار سفاردی کنیسہ جات بھی ان کے اہم مقامات ہیں۔ عیسائیوں کیلئے حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش اور اس سے منسوب گرجا‘ کلیسائے مقبرۂ مقدس‘ راہِ غم اور سینٹ جیمز کلیسا معتبر مقامات ہیں۔
اسلامی دور کے آغاز میں بھی اس خطے کی بہت اہمیت تھی۔ رسول اللہﷺ کو جب نبوت سے سرفراز کیا گیا تو اس وقت بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ قرآن پاک میں اس کا بھی ذکر موجود ہے۔ بعد ازاں قبلہ تبدیل کر کے خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر کر دیا گیا۔ جس وقت یہ وحی آئی‘ اس وقت رسول اللہﷺ جس مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے‘ وہ مسجد آج ذوالقبلتین (دو قبلوں والی مسجد) کہلاتی ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے معجزاتی طور پر جب رسول اللہﷺ کو معراج کا سفر کرایا تو پہلے آپﷺ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ حضرت جبرائیل نے وہاں ایک پتھر میں سوراخ کر کے براق کو وہاں باندھ دیا۔ وہ مقام براق آج بھی موجود ہے۔ آپﷺ نے وہاں تمام انبیاء کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ یہ سعادت بھی اس خطے کو ملی کہ اس نے تمام انبیاء کرام کی قدم بوسی کی۔ یہیں سے معراج کے آسمانی سفر کا آغاز ہوا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ پر مسجد کی تعمیر کی گئی۔ اتنی مقدس سرزمین ہونے کے باوجود یہ جگہ جنگ وجدل کا حصہ بنی رہی۔ اب بھی یہی صورتحال ہے۔ خاص طور پر 'ٹیمپل مائونٹ‘ کیونکہ ہرکوئی اس مقدس سرزمین کو اپنا بنانا چاہتا ہے۔ 1967ء کی جنگ میں یہ علاقہ اردن سے اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا اور یہ تنازع مزید سنگین ہو گیا۔ اسرائیل یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے مگر بیشتر ممالک اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مشرقی یروشلم مقبوضہ فلسطین کا حصہ ہے۔ اس علاقے کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ یہاں دورِ بنی اسرائیل‘ یونانی دور‘ آرمینائی دور اور بازنطینی دور کی لاتعداد نشانیاں موجود ہیں۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں