ملک نازک دور سے گزر رہا ہے

مجھے کتب بینی کا بہت شوق ہے۔ میرے والد صاحب ‘اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے ‘ مرحوم چچا اور ارشد شریف مرحوم میرے لیے بہت سی کتابیں لایا کرتے تھے۔ میری اپنی ایک ذاتی لائبریری ہے جس میں سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ اخبارات کا مطالعہ بھی میری بچپن سے عادت ہے اور ادارتی صفحہ اور عالمی خبریں میری پسندیدہ ہوا کرتی تھیں۔ اب بھی ایک تاریخی آرکائیو میرے پاس موجود ہے۔ پڑھنے کے شوق ہی نے لکھنے کا شوق پیدا کیا اور بچپن میں ہی بچوں کے صفحات پر لکھنا شروع کر دیا۔ میں اگر اپنی زندگی پر ایک نظر ڈالوں تو حافظے میں کچھ چیزیں بہت اچھی طرح محفوظ ہیں۔ جیسے اخبارات کی شہ سرخیوں میں ایک خبر بار بار سامنے آتی رہی: ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘ یقینا اب بھی گزر رہا ہے۔ یہ خبر لگ بھگ ہر دور میں شائع ہوتی رہی اور مختلف حکمرانوں اور سیاسی شخصیات نے اس کا برملا اظہار کیا۔ اسی طرح ''قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ اور ''عوام قربانی دیں‘‘ جیسے نعرے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ ہر دور میں سنائی دیتے رہے۔ نوے کی دہائی میں قرض اتارو ملک سنوارو مہم میں لوگوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے تھے مگر نہ قرضہ اترا نہ ملک سنورا۔ قوم نے ہر نازک دور میں سیاسی اشرافیہ کا ساتھ دیا لیکن مشکلات صرف قوم ہی کے حصے میں آئیں۔
ملک اور عوام واقعی نازک دور سے گزرے تھے اور اب بھی گزر رہے ہیں لیکن اشرافیہ پہلے بھی خوش باش تھی‘ اب بھی ہے اور آگے بھی خوش باش ہی رہے گی۔ جو اِن میں کروڑ پتی تھے وہ اب ارب پتی ہو چکے ہیں۔ پہلے ایک باوردی گارڈ‘ ایک پجارو اور ایک پولیس موبائل رعب و دبدبے کیلئے کافی ہوتی تھی مگر اب ان کی چال ڈھال میں عجیب سا غرور آگیا ہے۔ اب بڑے بڑے ڈالے رکھے ہوئے ہیں‘ دو تین کروڑ سے کم کی گھڑی نہیں پہنتے‘ گارڈز کا ایک جھرمٹ ساتھ چلتا ہے۔ اسلحے کی نمائش‘ لاکھوں روپے مالیت کے جوتے اور قیمتی شالیں؛ یہ سب اشرافیہ کا سٹارٹر پیک ہے‘ اس کے علاوہ لوکل اور انٹرنیشنل جائیدادیں؛ فیملی کی بیرونِ ملک مستقل سکونت۔ ان کی خواتین کو دیکھیں تو مہنگی لگژری گاڑیاں‘ را سلک کے سوٹ‘ شیفون کے دوپٹے‘ دس لاکھ والی پشمینہ یا شاہ توش شال‘ پچاس لاکھ والی گھڑی‘ پانچ قیراط ہیرے والے کڑے اور انگوٹھیاں۔ اب بات بہت آگے جا چکی۔ کروڑوں کے بیگ‘ دس لاکھ کے جوتے‘ تین لاکھ والا سکارف ...ان سب لوازمات کے ساتھ عوام کو صبر کی تلقین اور غریبوں کیلئے مگرمچھ کے آنسو ۔
پاکستانی اشرافیہ کی خوشحالی اور ملک کی بدحالی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کرپشن‘ اقربا پروری‘ قرضے معاف کرانا‘ اپنی ملوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے پالیسیاں بنوانا‘ غلط وقت پر درآمد اور برآمد‘ ٹیکس چوری۔ جرائم کی فہرست بہت لمبی ہے۔ چینی سکینڈل اور گندم سکینڈل تو محض چند مثالیں ہیں۔ پھر آپ نے یہ بات بھی محسوس کی ہو گی کہ جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو پاکستان میں رہتے ہیں لیکن جیسے ہی تخت پلٹتا ہے‘ خود ساختہ جلاوطن ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک نیا رجحان یہ آیا ہے کہ بڑے عہدوں پر فائز لوگ مدتِ ملازمت پوری کرتے ہی بیرونِ ملک روانہ ہو جاتے ہیں۔ اشرافیہ کے اس سٹارٹر پیک میں کچھ عرصہ سے ٹک ٹاک نے بھی انٹری دے دی ہے۔ کچھ بھی ہو؛ غمی ہو یا خوشی‘ یہ ٹک ٹاک ضرور بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ ارکانِ اسمبلی ڈرون کے ہمراہ اسمبلی میں آتے ہیں۔ جب تک ان کی آمد اور گفتگو کی وڈیو ریکارڈ ہو کر مختلف گانوں کے ساتھ ٹک ٹاک پر نہ لگ جائے‘ ان کا کام شروع نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے خود کبھی دکھ یا غریبی دیکھی ہی نہیں‘ وہ دوسروں کا دکھ کیسے محسوس کریں گے؟ انہیں کیسے خبر ہو گی کہ عوام دو وقت کی روٹی یا بجلی گیس کے بل کیسے ادا کرتے ہیں۔ اس پر آئے روز پھر یہ کہنا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک اور عوام تو نازک دور سے گزر رہے ہیں لیکن اشرافیہ تو خوش باش ہے۔
حال ہی میں آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں جاری کرپشن نے ترقی کا راستہ بند کر دیا ہے۔ اداروں میں ہونے والی بدعنوانی نے ملک کو جی ڈی پی کے 6.5 فیصد کے برابر نقصان پہنچایا ہے۔ یہ رپورٹ حکومت نے تین ماہ تک ہولڈ کرنے کے بعد مجبوری میں جاری کی ہے ورنہ ایک ارب ڈالر سے زائد کی آئی ایم ایف قسط نہ ملتی۔ یہ رپورٹ جولائی میں آئی ایم ایف نے حکومت کے حوالے کی تھی مگر حکومت کی طرف سے جاری نہیں کی گئی۔ پاکستان میں بدعنوانی کا حجم کتنا وسیع ہے کہ اس کے مکمل اندازے تک آئی ایم ایف بھی نہیں پہنچ سکا۔ گزشتہ دو برسوں میں حکومتی دعووں کے مطابق 5300 ارب روپے کرپشن کی ریکوری ہوئی ہے‘ اگر یہ ریکوری ہے تو کرپشن کا حجم کتنا ہو گا‘ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں شوگر مافیا‘ منی لانڈرنگ‘ جعلی اکاؤنٹس‘ غلط سرکاری پالیسیوں‘ عدلیہ کی کمزوری‘ سرکاری رقوم کے ضیاع اور سرکاری طاقت کے ذاتی مفاد میں استعمال کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف ہی کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے اور آئندہ برس جون تک یہ شرح 8.9 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ نظام کو درست کرنے کیلئے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری طور پر نافذ کرے۔ شفافیت بڑھائی جائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ اگر پاکستان یہ اصلاحات تین سے چھ ماہ کے اندر نافذ کر دے تو آئندہ چند سال میں جی ڈی پی میں 6.5 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستانی معیشت کے بارے میں کہا ہے کہ بیرونی طلب اور تجارتی صورتحال غیر یقینی رہے گی۔ اسی طرح عالمی بینک کے مطابق پاکستان کا بڑا طبقہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے‘ جن میں پانی‘ نکاسیِ آب‘ کھانا‘ رہائش اور سستی توانائی شامل ہیں۔ 2022ء سے غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2024ء میں غربت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
معاشی بحران کے ساتھ سیاسی بحران بھی پاکستان کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کسی بھی وزیراعظم کو یہاں پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے گئے۔ سیاسی قیدی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ عوام بددل اور ناامید ہوتے جا رہے ہیں۔ شہری کا بچہ گٹر میں گر جائے یا سڑک پر کچلا جائے‘ اسے انصاف نہیں ملتا۔ اگر پاکستان میں منصفانہ نظام نافذ نہ کیا گیا تو حالات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ معاشی بحران‘ مہنگائی‘ عدم برداشت اور بیروزگاری ہمارے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ تجارتی خسارہ‘ گردشی قرضہ‘ قرضوں پر بڑھتا سود‘ افراطِ زر‘ زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر‘ کم جی ڈی پی نمو اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات؛ کیا پاکستان موجودہ پالیسیوں کے ساتھ ان مسائل کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ دوسری طرف مشرق اور مغرب میں جنگ کے مسلسل بڑھتے خطرات پاکستان کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں ملک میں سیاسی استحکام کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ایک پارٹی کو دیوار سے لگا کر ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت ہمیں شفاف مالیاتی اور سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔ ہمارے حکمران جتنے امیر ہیں‘ ملک اتنا ہی غریب ہے۔ عوام پر مزید ٹیکس لگانے کے بجائے اشرافیہ کو اپنے خرچوں میں کمی کرنا ہو گی۔ اپنے ظہرانوں‘ عشائیوں‘ پرائیویٹ جیٹ دوروں اور پروٹوکول میں کمی لائی جائے تبھی شاید کچھ بات بنے۔ ہمارے معاشرے کو معاشی اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ اگر عوام اور اشرافیہ کے لیے انصاف کا دہرا معیار یونہی قائم رہا تو حالات مزید بدحالی کا شکار ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں