صنفی بنیادوں پر تشدد

جنگ و جدل کی صورت میں مرد اور خواتین دونوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں لیکن گھریلو تنازعات میں زیادہ تر خواتین ہی نشانہ بنتی ہیں۔ آج کی جدید دنیا میں بھی خواتین بڑی تعداد میں استحصال کا شکار ہیں اور انہیں چپ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہی چپ اکثر آگے چل کر ان کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
گھریلو تشدد یا ہراسانی ایک بڑھتی ہوئی سماجی برائی ہے‘ جس کے خلاف ہمارے معاشرے میں وہ حساسیت نہیں پائی جاتی جو ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین تشدد یا ہراسانی کا سامنا کرتے ہوئے پہلے تو بولتی نہیں‘ اگر ہمت کر کے کوئی آواز اٹھائے تو فوراً وِکٹم بلیمنگ شروع ہو جاتی ہے کہ ضرور اسی نے ہی کچھ کیا ہو گا جس وجہ سے یہ سب ہوا۔ جو اصل ایشو ہوتا ہے کہ عورت کے ساتھ اس کے شوہر‘ بھائی‘ باپ‘ کولیگ یا دوست نے جو بہیمانہ سلوک کیا ہوتا ہے‘ وہ معاملہ دب جاتا ہے۔ ہر واقعے کی تاویلیں تلاش کی جاتی ہیں کہ ضرور عورت ہی کا قصور ہو گا۔ حالانکہ کسی بھی صورتحال میں کسی مرد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی عورت پر ہاتھ اٹھائے یا اسے ایذا دے۔ یقینا ہمارے معاشرے میں ایسے مرد بھی ہیں جو خواتین کو دیکھ کر احتراماً اپنی نشست چھوڑ دیتے ہیں اور نظریں نیچی کر لیتے ہیں۔ ایسے بھائی بھی ہیں جو تمام عمر محنت کرکے اپنی بہنوں کا جہیز بنا کر ان کی شادیاں کرتے ہیں۔ ایسے باپ بھی ہیں جو کڑی دھوپ میں محنت مشقت کرکے اپنی بچیوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔ ایسے شوہر بھی ہیں جو خود سے پہلے اپنی شریکِ حیات کو نوالہ پیش کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے سے کمزور پر ظلم کرتے اور سفاکیت کی انتہا کر دیتے ہیں۔
حال ہی میں ثانیہ زہرا کیس میں ثانیہ کے شوہر کو اس کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ ثانیہ صرف بیس سال کی تھی جب اسے قتل کیا گیا۔ اس کے دو چھوٹے بچے تھے اور وہ حاملہ بھی تھی۔ اگر ثانیہ کے والد اپنی بیٹی کے انصاف کیلئے ڈٹ کر کھڑے نہ ہوتے تو شاید اس بے قصور کو بھی انصاف نہ ملتا۔ سسرال والوں نے اسے قتل کرکے اس واقعے کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی مگر اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ انہوں نے ملی بھگت سے ثانیہ کو قتل کیا۔ اس کیس میں ثانیہ کے شوہر کو پھانسی اور دیور اور ساس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ثانیہ اُس گھر کی بہو‘ دو بچوں کی ماں تھی۔ نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی لیکن اس کے باوجود سسرال والوں نے بہیمانہ طریقے سے اسے قتل کر دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ نفرت‘ حسد اور بغض کی آگ انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ اگر سسرال والوں کو اس سے کوئی مسئلہ تھا یا ناچاقی تھی تو اسے میکے بھیجا جا سکتا تھا لیکن کسی بے قصور کی جان لینا انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت عمل ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسدادِ جرائم کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر روز 137خواتین اپنے ہی عزیز و اقارب کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ 2024ء میں 50ہزار خواتین کو ان کے گھر والوں یا قریبی افراد نے قتل کیا۔ کل ملا کر 63ہزار خواتین صرف ایک سال میں قتل ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو اچانک نہیں قتل کیا جاتا‘ اس کے پیچھے برسوں کی نفرت‘ دھمکیاں‘ ہراسانی‘ جبر‘ حاکمیت اور بدسلوکی کارفرما ہوتی ہے۔ نور مقدم کیس ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح ظاہر جعفر نے اس معصوم کا گلا کاٹ کر اسے قتل کیا۔ یہ سب انتہائی خوفناک تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے انسانی حقوق سے متعلق ایک تقریب میں نور مقدم کے والدین سے ملاقات ہوئی۔ وہ نور اور ارشد شریف کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ ان کے گھر میں نور کا کمرہ آج بھی ویسے ہی ہے‘ جیسا اس کی زندگی میں تھا‘ بس اب کمرے میں نور نہیں ہے۔ ایسے حادثات میں گھر والوں کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے‘ وہ کبھی اس صدمے سے باہر ہی نہیں نکل پاتے۔ اسی طرح کراچی کی بچی دعا زہرا کو جب اغوا کیا گیا تھا تو اس کے والد نے ہمت نہیں ہاری۔ برین واش کرکے دعا کو وہ گینگ اپنے ساتھ لے گیا تھا مگر اس کے والد نے اپنی بیٹی کو نہ صرف اس گینگ کے چنگل سے نکالا بلکہ اب وہ بچی تعلیمی مراحل طے کر رہی اور کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ اگر اس کے والد اسے واپس نہ لاتے تو نجانے وہاں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔ ایسے کیسز میں ریاست کو مدعی بننا چاہیے اور ظالم کا ہاتھ روکنا چاہیے تاکہ کمزور مظلوم کو انصاف مل سکے۔
ہمارے ہاں پسند کی شادی کا رواج کم ہے‘ زیادہ تر ارینج میرج ہوتی ہیں۔ اگر شوہر یا سسرال والے برے مل جائیں تو جہیز کے طعنے‘ شکل وصورت پر طنز‘ وزن پر جملے بازی‘ خاندان پر باتیں‘ ہر بات پر روک ٹوک روزمرہ کا معمول بن جاتا ہے۔ ماں باپ سے ملنے سے روکا جاتا ہے‘ فون اور ٹی وی کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان بچیوں سے پورا دن گھر کا کام کرایا جاتا ہے۔ کتنی ہی لڑکیاں اسی وجہ سے شادی کے پہلے سال اسقاطِ حمل کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان مظالم سے بھی جب دل نہیں بھرتا تو پھر ایک دن خبر آتی ہے کہ لڑکی چولہا پھٹنے‘ جھلسنے یا کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئی یا اس نے خودکشی کر لی۔ یہ سب بہانے ہوتے ہیں‘ حقیقت میں اسے قتل کیا جاتا ہے۔ اگر واقعتاً خود کشی ہو تو بھی یہ قتل ہی ہوتا ہے کہ لڑکی کو ذہنی طور پر صدمے پہنچا کر اس نہج تک پہنچایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے۔ لڑکیاں اگر ''پہلا تھپڑ‘‘ روک دیں تو وہ ساری زندگی مار کھانے سے بچ سکتی ہیں۔
ہر سال 25نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن منایا جاتا ہے۔ اس سال آف لائن اور آن لائن تشدد کے خلاف سولہ دن کا ایکٹو ازم منایا جا رہا ہے۔ اس مہم کیلئے ''Orange the World‘‘ کا سلوگن دیا گیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں صنفی بنیادوں پر تشدد کے خاتمے کا پیغام دینا ہے۔ 25نومبر سے 10دسمبر تک آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے شعور بیدار ہو۔ خواتین پر تشدد کی کئی اقسام ہیں: ہراسانی‘ تشدد‘ اغوا‘ جنسی زیادتی‘ گھریلو تشدد‘ جبری شادی‘ جبری اسقاط حمل‘ باڈی شیمنگ‘ دھمکیاں‘ ونی‘ سوارہ‘ کارو کاری‘ سٹاکنگ‘ چھیڑ چھاڑ‘ قید کرنا‘ وڈیوز بنانا‘ گالیاں دینا‘ نجی معلومات لیک کرنا‘ بلیک میلنگ‘ نفسیاتی اذیت‘ مساوی حقوق سے محرومی وغیرہ۔ ان کے علاوہ مالیاتی اثاثوں پر قبضہ‘ وراثت سے محرومی‘ کم تنخواہ‘ پیسے ہڑپ لینا‘ پسند کی شادی کا حق نہ دینا‘ یہ سب بھی صنفی ظلم ہے۔ بیٹی کو قبل از پیدائش یا پیدا ہونے کے بعد قتل کر دینا‘ غیرت کے نام پر قتل‘ جسم فروشی پر مجبور کرنا‘ انسانی سمگلنگ؛ یہ سب بھی خواتین کے استحصال کی شکلیں ہیں۔ اگر آن لائن ہراسانی کی بات کریں تو خواتین کو سوشل میڈیا پر گالیاں دینا‘ ان کی کردار کشی اور بہتان تراشی کے علاوہ سائبر بُلنگ‘ غیراخلاقی پیغامات‘ ڈوکسنگ اور غیرمہذب میمز وغیرہ کا سلسلہ بھی عام ہو چکا ہے۔ عام خواتین تو ان کا شکار ہوتی ہی ہیں‘ پاکستان میں سب سے زیادہ صحافی خواتین اور سماجی کارکنان اس کی زد میں آتی ہیں۔ حال ہی میں دو خواتین صحافیوں کے خلاف ایک منظم مہم چلائی گئی۔ ایک کی ڈیپ فیک وڈیو بنائی گئی اور دوسری کے نام سے جعلی ٹویٹس پھیلائے گئے۔ ایسے ٹرینڈز اور ٹرولنگ خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر کم پوسٹ کرنے یا کمنٹس بند کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس صورتحال میں وہ خوف بھی محسوس کرتی ہیں۔
ہمیں اپنے معاشرے میں مل کر خواتین کو تحفظ دینا ہو گا۔ گھریلو تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں اور اسے روکیں۔ اگر کوئی خاتون ہمت کرکے اپنی داستان بیان کرے تو اس پر سوال اٹھانے کے بجائے اس کی مدد کریں۔ ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنا ہو گی تاکہ خواتین کے خلاف جرائم کا سلسلہ روکا جا سکے اور انہیں کام کرنے‘ جینے اور سانس لینے کیلئے ایک محفوظ معاشرہ فراہم کیا جا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں