مدد کے منتظر سیلاب متاثرین

قیامِ پاکستان سے دیکھا جا رہا ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ملک میں سیلاب آجاتا ہے اور عوام کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کہنے کو تو ہم زرعی ملک ہیں‘ پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے اور ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے لیکن پھر بھی ہم سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جس کے ذریعے ایسی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کیا جا سکے؟
کوئی ڈیم بنانے کی بات کرے تو بڑی تعداد میں لوگ اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ اگر ڈیم اتنے ہی برے ہوتے اور ماحول و دریاؤں کے دشمن ہوتے تو بھارت اور چین نے اتنے ڈیم کیوں بنا رکھے ہیں؟ اگر کسی ایک آدھ منصوبے پر تنازع ہے تو کم از کم چھوٹے ڈیموں پر ہی کام شروع کر دیا جائے تاکہ ہمارے کسانوں کی زمینیں پانی میں نہ ڈوبیں۔ حالیہ سیلاب ملک میں پہلا سیلاب نہیں ہے‘ پچھلی تین دہائیوں میں ایسا شدید سیلاب نہیں دیکھا گیا۔ پہلے زمانے میں تو ٹیکنالوجی نہیں تھی‘ اس لیے بارشوں کی پیشگی اطلاع نہیں ہوتی تھی لیکن اب تو موسم کی پیش گوئی نو‘ دس ماہ پہلے ہی کر دی جاتی ہے‘ اور اس بار بھی کی گئی تھی مگر پھر بھی کسی نے تیاری نہیں کی۔ محکمۂ موسمیات نے اپریل ہی میں رواں برس معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے بروقت حفاظتی اقدامات کا انتباہ جاری کر دیا تھا لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ سینیٹر عون عباس بپی نے حکومت کو آگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے ان کی بات نہ سنی۔ وہ بار بار ایوانِ بالا میں خبردار کرتے رہے کہ اگست کے آخر میں جو صورتحال ہوگی اس کے لیے اقدامات کیے جائیں‘ عوام اور کسانوں کو بچایا جائے مگر کسی نے ان کی بات پر توجہ نہ دی۔ جس وقت تیاری کرنا چاہیے تھی‘ اس وقت حکمران بیرونی دوروں پر تھے۔ شاید اسی لیے بارش اور سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری کوئی خاص تیاری نہ تھی۔
بلا شبہ قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا لیکن بہتر منصوبہ بندی سے ان کے اثرات اور نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ انسانی جانیں بچانے کیلئے بروقت اقدامات کیے جا سکتے ہیں‘ مگر ہمارے ملک میں ایسا بھی نہیں ہوتا۔ ابھی جون میں مون سون سیزن کا آغاز ہی ہوا تھا کہ دریائے سوات میں طغیانی کے باعث 17سیاح دریا میں بہہ گئے اور کوئی انہیں بچانے نہ آیا۔ اسی طرح جب پنجاب میں بارشیں شروع ہوئیں اور دریاؤں میں طغیانی آئی تو عوام کو بچانے والا کوئی موجود نہ تھا۔ راوی نے اپنی پرانی گزرگاہ پر سے قبضہ چھڑایا اور رہائشی آبادیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ سیلاب میں پھنسے افراد کو نجی کشتی مالکان نے بھی ریسکیو کے نام پر دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا ہے۔
کچھ عرصہ قبل جب میں لاہور گئی تھی تو شاہی قلعے کے شیش محل میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں دیکھ کر رک گئی۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہاں سے شاہی خاندان راوی کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ اب تو یہاں سے دوبین سے بھی راوی نظر ہی نہیں آتا‘ اگر راوی کبھی اپنے پرانے راستے پر لوٹ آیا تو کیا ہوگا؟ سارا سال بھارت راوی کے پانی پر قابض رہتا ہے جس سے یہ دریا ایک نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ لیکن مون سون میں یہ اپنے جوبن پر آجاتا ہے۔ہمارے ہاں اس حوالے سے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ یہاں چونکہ مثالی جمہوری نظام موجود نہیں اس لیے ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ حکمران جانتے ہیں کہ اگر وہ کچھ نہ بھی کریں تو بھی صاف بچ نکلیں گے کیونکہ انصاف اور احتساب کا نظام سست روی کا شکار ہے۔ اگر عوام کے ووٹوں سے کوئی نمائندہ اسمبلی میں پہنچے تو وہ عوام کو جواب دہ ہوگا لیکن جب سب کچھ ڈیل اور ڈھیل سے طے ہو تو کوئی کام نہیں ہوتا۔ ملک عزیز میں اس وقت یہی حال ہے۔ حکومت اور بیوروکریسی عوام کی خدمت کے بجائے ٹک ٹاک بنوانے میں مصروف ہیں۔ حکمرانوں اور اعلیٰ افسران کی آمد پر سیلاب زدہ علاقوں میں نمائشی کیمپ لگائے جاتے ہیں جو ان کے جانے کے فوراً بعد اکھاڑ دیے جاتے ہیں۔ اشرافیہ پر بھی ٹک ٹاک کا جنون طاری ہے۔ کوئی کشتی میں بیٹھ کر وِیلاگز بنا رہا ہے‘ کوئی گاڑیوں سے اترتے ہوئے وڈیو بنوا رہا ہے‘ کوئی متاثرین کو تیس تیس روپے کے چپس دے کر تصویریں بنوا رہا ہے‘ کوئی اپنے تصویر والے لفافے میں سو روپے کی اشیا ڈال کر اپنی تعریفیں کروا رہا ہے۔ اگر فلاحی ادارے ایسا کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اپنے ڈونرز کو ثبوت دکھانا چاہتے ہیں کہ امداد صحیح جگہ پہنچی لیکن حکمران ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اگر جیب سے خرچ کیا جا رہا ہوتا تو اور بات ہوتی لیکن عوام کے وسائل‘ ان کے پیسوں پر خودنمائی اور ذاتی تشہیر کرنا کہاں کی عقلمندی اور کہاں کا قانون ہے؟ہمارے ملک کے سیاسی خانوادے ارب پتی ہیں‘ انہوں نے ذاتی حیثیت میں سیلاب متاثرین کو کتنی امداد دی ہے؟ اپنے ذاتی عطیات پر خودنمائی کریں یا خود ستائشی لیکن سرکاری خزانے سے تعریف یا مدح سرائی اخلاقی اور قانونی طور پر درست نہیں۔
اگر ان نمائشی اقدامات سے دل بھر جائے تو عوام کی حقیقی مدد بھی کر دی جائے۔ اگرچہ پنجاب کے زیادہ تر سیلاب متاثرہ علاقوں سے پانی اتر چکا ہے لیکن اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک لرزہ خیز تصویر چھوڑ گیا ہے۔ گاؤں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں‘ کھیت بنجر ہو گئے ہیں اور لوگ بے سروسامانی کا شکار ہیں۔ بے گھر خاندان کھلے آسمان تلے پڑے ہیں‘ ان کے مویشی ہلاک ہو چکے ہیں اور روزگار کے ذرائع ختم ہو گئے ہیں۔ زراعت اور لائیو اسٹاک ہماری فوڈ سکیورٹی ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گندم کی فصل کے حوالے سے ناقص حکومتی پالیسی پہلے ہی کسانوں کی کمر توڑ چکی ہے‘ اب مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے کو ہے۔متاثرین کو کھانے‘ ادویات‘ کپڑوں‘ چادروں‘ عارضی چھتوں‘ نقدی اور دیگر ضروری سہولتوں کی ضرورت ہے۔ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ کریں‘ وہ پہلے ہی صدمے اور خوف کا شکار ہیں۔ کھانا یا کوئی اور امداد دیتے ہوئے ان پر کیمروں کیساتھ حملہ آور نہ ہوں۔ حکومت چاہے تو ایک ماہ کا راشن‘ یوٹیلیٹی بلوں میں رعایت اور نقدی دے کر ان کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔اگر سیلاب متاثرہ علاقوں میں جلد بحالی کا کام جلد شروع نہ کیا گیا تو وہاں وبائی امراض پھیل جائیں گے۔ سیلاب سے لوگوں کی املاک اور انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں حاملہ خواتین کو ضروری طبی امداد میسر نہیں۔خواتین کو مخصوص ضروریات بھی خواتین امدادی کارکنان کے ذریعے فراہم کی جانی چاہئیں۔
حکومت کے ساتھ ساتھ فلاحی اداروں‘ مخیر حضرات‘ صنعتکاروں‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور شوبز انڈسٹری کو بھی سیلاب متاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔ انہیں صاف پانی‘ خوراک‘ ادویات‘ کپڑے‘ خیمے‘ چادریں‘ مچھر دانیاں‘ نقدی اور بچوں کیلئے دودھ درکار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب سے ملک میں لگ بھگ ساٹھ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ صرف پنجاب میں 47 لاکھ اور خیبرپختونخوا میں 16 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اقوام متحدہ نے سیلاب متاثرین کیلئے 50 لاکھ ڈالر اور غیر سرکاری تنظیموں کے لیے 15 لاکھ ڈالر جاری کیے ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد سیلاب اب سندھ میں بربادی مچا رہا ہے۔سیلاب تو تباہی مچا کر گزر گیا‘ لیکن اب غذائی قلت‘ غربت اور مہنگائی کا طوفان دستک دے رہا ہے۔ان حالات میں اگر حکومت نے بھی سیلاب متاثرین کا ساتھ نہ دیا تو اور کون دے گا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں