آج ارشد کو ہم سے بچھڑے ہوئے تین برس ہو گئے ہیں۔ اگر یہ ایک طبعی موت ہوتی تو شاید اب تک صبر آ گیا ہوتا‘ مگر جس طرح انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا‘ وہ منظر آج تک ذہن سے محو نہیں ہوتا۔ اتنا ظلم‘ اتنی سفاکی‘ آخر ان کا قصور کیا تھا؟ وہ اپنے ملک اور اداروں سے بے لوث محبت کرنے والے انسان تھے۔ وہ تو بس یہ کہتے تھے کہ کرپشن نہ کرو اور جمہوریت کو تسلسل کے ساتھ چلنے دو۔
ان تین برسوں میں میری تمام تر کوششوں کے باوجود ہمیں انصاف نہیں ملا‘ اسی لیے ہمارا یہ زخم آج تک ہرا ہے۔ جن سربراہانِ مملکت کو ہم قوم کے بڑوں کا درجہ دیتے ہیں‘ ان میں سے کسی نے کبھی میرے سر پر دستِ شفقت نہیں رکھا‘ البتہ عوام نے بے پناہ عزت و تکریم دی۔ میں پاکستانی عوام کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جن کی دعائیں اور اخلاقی حمایت ہمیشہ میرے ساتھ ہیں۔ لیکن گزشتہ تین برسوں میں ملنے والی تکالیف کی وجہ سے مجھ پر قبل از وقت بڑھاپا اُتر آیا ہے‘ آنکھوں میں اب کوئی خواب باقی نہیں رہا۔ میں ایک مشین کی طرح اپنے فرائض انجام دیتی ہوں مگر زندگی کو جی نہیں رہی۔ اہلِ خانہ کے چہروں پر بھی غم اور افسردگی کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ گھر میں خاموشی اور اداسی بسی ہوئی ہے۔ ارشد کی ہر چیز اپنی جگہ موجود ہے‘ بس وہ خود نہیں ہیں۔ دلجوئی کرنے والے بہت ہیں مگر ایسے زخم جلد نہیں بھرتے‘ اور جب انصاف نہ ملے تو یہ مزید ناممکن ہو جاتا ہے۔
ارشد شریف ایک انقلابی انسان تھے۔ وہ مصلحت یا لفاظی کے قائل نہیں تھے بلکہ سچ بولنے کو ہی اپنی اصل ذمہ داری سمجھتے تھے۔ تحقیقاتی صحافت سے وابستہ ہونے کے باعث ہر وقت مطالعے میں مصروف رہتے۔ حقائق کو ہمیشہ دستاویزات کیساتھ پیش کرتے‘ اسی لیے انکے دشمن زیادہ ہوتے گئے اور دوست کم۔ وہ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کے خواہاں تھے۔ انکے نزدیک پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ کرپشن تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جس دن کرپشن ختم ہو جائے گی‘ اس دن اس ملک کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ارشد کہا کرتے کہ اشرافیہ ملک کے وسائل لوٹ کر باہر لے جاتی ہے‘ ان کے بچے پُرتعیش زندگی گزارتے ہیں جبکہ عوام کے بچے ننگے پاؤں اور بھوکے پیٹ مشکلات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی زندگی کرپشن کے خلاف جدوجہد کیلئے وقف کر چکے تھے۔ اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا‘ وہ اپنی جان آزادیٔ صحافت‘ جمہوریت اور کرپشن کے خلاف جہاد میں قربان کر گئے۔
ان تین برسوں نے میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ میں نے رپورٹنگ کو خیرباد کہہ دیا اور گھر پر توجہ دینے لگی۔ ارشد اکثر کہتے تھے کہ اپنا ٹیلنٹ ضائع نہ کرو‘ اینکرنگ کرو یا لکھنا شروع کر دو۔ جب میں نے کالم نگاری شروع کی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ روزنامہ دنیا میں جب میرا کالم شائع ہوتا تو اخبار پڑھتے وقت ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ جاتی اور وہ فخر سے بتاتے: ''تمہارا کالم بھی شائع ہوا ہے‘‘۔ بطور صحافی میں ان کے سامنے بہت جونیئر تھی‘ مگر وہ میری کامیابیوں پر خوش ہوتے‘ میرا حوصلہ بڑھاتے‘ میرے ساتھ جشن مناتے۔ ان کے جانے کے بعد نہ لکھنے کو دل چاہا‘ نہ بولنے کو‘ نہ ہی اپنا خیال رکھنے کو۔
ارشد جب شہید ہوئے تو میں کووڈ سے صحت یاب ہو رہی تھی۔ چلنے پھرنے اور سانس لینے میں دشواری تھی۔ اسی دوران کچھ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے مجھ پر عدت کے دوران شادی کا الزام لگا دیا گیا‘ جس نے مجھے گہرے رنج میں مبتلا کیا۔ میں نے ایف آئی اے سے ان جعلی اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی درخواست کی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے بعد میں نے شکوہ شکایت چھوڑ دی۔ میں جب مارچ 2023ء میں عدت کے بعد پہلی بار گھر سے باہر نکلی تو جسمانی کمزوری اب بھی طاری تھی۔ چلتے وقت سانس رکنے لگتا‘ گلے میں جیسے پھندا لگ جاتا۔ میں اسی کشمکش میں تھی کہ اپنی صحت پر توجہ دوں یا اپنے شوہر کے انصاف کیلئے مقدمات لڑوں۔ انصاف کی اس جنگ میں ملک عزیز کے عدالتی نظام نے مجھے سخت مایوس کیا۔ تین برس بیت گئے‘ مگر ارشد شریف کے کیس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ ہم اہلِ خانہ اپنی مدعیت میں ایف آئی آر تک درج نہ کروا سکے۔ باقی تحقیقات یا پیش رفت پر کیا بات کروں؟ ان غموں کے باوجود میں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی‘ جس کا پھل کینیا میں ملا جہاں ہائی کورٹ نے تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ یہ ہمارے عدالتی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کینیا میں ہر ماہ ارشد شریف کے کیس کی سماعت ہوتی رہی‘ جبکہ یہاں تین سال گزرنے کے باوجود مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ جب کینیا کی جج نے مجھے بولنے کا موقع دیا تو میں رو پڑی کیونکہ مجھے اپنے ملک میں عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ یہاں تین چیف جسٹس بدل گئے‘ مگر ہم اہلِ خانہ انصاف نہ لے سکے۔
صحافیوں پر ہر دور میں ظلم ہوتے آئے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ اکثر صحافیوں نے اس پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر لی ہے مگر چند جری آوازیں اب بھی جمہوریت‘ آئین کی بالادستی اور آزادیٔ صحافت کیلئے برسرِ پیکار ہیں۔ مجھے موجودہ نظام سے کوئی امید نہیں کہ وہ ارشد شریف یا ہم اہلِ خانہ کیلئے کچھ کرے گا۔ مگر پھر بھی مجھے یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی صحافی ارشد شریف کے قتل کا معمہ حل کرے گا‘ اور اصل قاتل بے نقاب ہوں گے۔ قلم اور سچ بولنے کی طاقت کسی سے چھینی نہیں جا سکتی۔ ارشد کو بھی بہت دھمکیاں ملتی تھیں مگر وہ پروا نہیں کرتے اور اپنے کام میں لگے رہتے۔ انہوں نے کبھی سکیورٹی نہیں رکھی‘ نہ گارڈز‘ نہ بلٹ پروف گاڑی۔ ان کے پاس بیرونِ ملک کوئی جائیداد نہیں تھی‘ نہ کسی ملک کی شہریت حاصل کی۔ میں جب کہتی کہ اپنی حفاظت کا کوئی بندوبست کر لیں تو مسکرا کر کہتے: جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آ سکتی۔ میں یہ سن کر سہم جاتی مگر کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنا نفیس اور قابل انسان یوں بے دردی سے مارا جائے گا۔
ایک صحافی کا قتل پوری صحافتی برادری کے دلوں میں خوف بھر دیتا ہے۔ لوگ سچ بولنے اور لکھنے سے ڈرنے لگتے ہیں۔ معاشرے کو جمود میں نہیں دھکیلنا چاہیے‘ تنقیدی آوازوں کو بھی بولنے دینا چاہیے۔ نئی نسل اب اس شعبے میں آنے سے پہلے سوچتی ہے کہ کیا ہمارے ملک میں صحافت کرنا محفوظ بھی ہے یا نہیں؟ سچ بولنے والے کا مقدر گولی کیوں ہے؟ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ ریاست کی ترقی کیلئے اس کے تمام ستونوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے‘ لہٰذا صحافت کے ستون کو بھی مضبوط کرنا چاہیے۔ ارشد شریف کو انصاف دلانے کیلئے حاضر سروس ججوں پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ ساتھ ہی ان تمام صحافیوں کے اہلِ خانہ کو بھی انصاف دیا جائے جو سچ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک بیوہ کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جن میں تحفظ اور معاشی مشکلات سرفہرست ہیں۔ ان تین برسوں میں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہمارے ملک میں بیوہ کو کسی قسم کی رعایت حاصل نہیں۔ اسے ٹیکسوں‘ بلوں اور طبی اخراجات میں کوئی چھوٹ نہیں۔ کمانے والا شوہر تو رہا نہیں‘ ایسے میں ایک بیوہ اپنے محدود وسائل میں سب کچھ کیسے مینج کرے‘ یہ کوئی نہیں سوچتا۔ پارلیمان میں اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے کہ نہ صرف سرکاری ملازمین بلکہ ایک عام پاکستانی کی بیوہ کو بھی ٹیکس اور بلوں میں رعایت دی جائے‘ اسے ہیلتھ انشورنس فراہم کی جائے۔ شاید اس اقدام پر فوراً توجہ نہ دی جائے‘ مگر امید ہے کہ کبھی کوئی ایسی عوام دوست حکومت ضرور آئے گی جو اس حوالے سے عملی اقدامات کرے گی۔
وزیراعلیٰ خبیرپختونخوا سہیل آفریدی نے ''ارشد شریف شہید یونیورسٹی‘‘ بنانے کا اعلان کیا ہے‘ جس پر ہم اہلِ خانہ ان کے شکر گزار ہیں۔ امید ہے کہ جلد اس کا سنگِ بنیاد رکھا جائے گا۔