"KMK" (space) message & send to 7575

پارلیمنٹ بہرحال سپریم ہے!

ایمانداری کی بات ہے کہ اگر میرے پاس اپنی زکوٰۃ‘ خیرات اور صدقات کی مانند ٹیکس کے طور پر سرکار کو ادا کی گئی اپنی رقم کو اپنی مرضی سے تقسیم کرنے کا مکمل طور پر نہ سہی‘ صرف ایک مد میں خرچ کرنے سے روکنے کا اختیار ہوتا تو میں اپنے ٹیکس ریٹرن کے گوشوارے میں لکھ دیتا کہ سرکار میری ٹیکس کی مد میں ادا کی گئی رقم کو جہاں مرضی آئے صرف کرے‘ تاہم اس رقم کو حکمرانوں کے اللوں تللوں‘ وزرا مشیروں کی مراعات اور سینیٹ و اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور سہولتوں پر خرچ کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔
ویسے تو الحمدللہ میری ادا کی گئی ٹیکس کی رقم کا بیشتر حصہ تقریباً اسی قسم کے بیکار‘ بے معنی اور فضول کاموں میں خرچ ہوتا ہے مگر میں یہ انتخاب صرف ترجیحی بنیادوں پر کرتے ہوئے اپنے پارلیمانی نمائندوں کو اس بریکٹ میں ڈال رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے ادا کردہ ٹیکس کی باقی رقم کسی معقول کام میں صرف ہو رہی ہے۔ مسئلہ محض کم اور زیادہ خرابی کا ہے۔ یقین کریں کہ جب ہمارے عوامی نمائندے اور وزیر مشیر وغیرہ اپنی ہی تنخواہ میں از خود اضافہ کرتے ہیں تو مجھے کئی طرح کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ لوگ پہلے ہی کچھ کیے بغیر تنخواہ وصول کر رہے ہیں‘ اوپر سے مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ دوسری یہ کہ ان لوگوں کو اُن عوام‘ جن کے یہ نمائندہ ہونے کے دعویدار ہیں اور جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں‘ کا رتی برابر احساس نہیں کہ عام آدمی اس ملک میں کس طرح گزارہ کر رہا ہے۔ تیسری یہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے اکثریت کو تنخواہ وغیرہ کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی وہ تنخواہ کی رقم سے گھر کا کچن چلاتے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو اسمبلی اور سینیٹ کے ٹکٹ خریدنے‘ پارٹی لیڈروں کو فنڈ کے نام پر بھتہ دینے اور الیکشن کمپین کی مد میں کروڑوں روپے اس طرح اڑا دیتے ہیں جس طرح دولتمند باپ کے مرنے کے بعد اس کی نالائق اولاد اس کی جمع شدہ دولت کو اڑاتے ہوئے رتی برابر خیال نہیں کرتی۔
کسی نے ایک لطیفہ نما واقعہ گھڑ رکھا ہے تاہم وہ اس صورتحال سے سو فیصد مطابقت رکھتا ہے اس لیے لکھ رہا ہوں۔ کہتے ہیں کہ کوئی بندہ کسی ایسے محکمے میں ملازم ہو گیا جہاں رشوت کی رقم بڑی ایمانداری اور باقاعدگی سے باہم تقسیم ہوتی تھی۔ روزانہ کا روزانہ حساب ہوتا تھا اور ہر اہلکار کو پہلے سے طے شرح فیصد کے مطابق اس کا حصہ مل جاتا۔ انسپکٹر ٹائپ اس اہلکار کو مہینے میں اتنی رقم مل گئی جو اس کے گریڈ کے مطابق مروجہ تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس کا خوشی اور مسرت سے برا حال تھا۔ اس نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اسے ایک مہینے میں اتنے پیسے مل جائیں گے۔ اب ہوا یوں کہ نوکری کا پہلا مہینہ ختم ہو گیا اور اگلے مہینے بھی وہی صورتحال تھی کہ روزانہ اسے اس کا حصہ مل جاتا تھا۔ دیگر ناجائز آمدنی والے معاملات کی مانند یہاں بھی حصے داروں میں رشوت کی تقسیم بڑی ایمانداری سے ہوتی تھی۔ جب دوسرے مہینے کے کئی دن گزر گئے تو کیشیئر نے اس سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ وہ ابھی تک تنخواہ لینے کیوں نہیں آیا‘ صرف اس کی وجہ سے ابھی تک تنخواہ کے رجسٹر کا ماہانہ کھاتہ بند نہیں ہو سکا۔ اس اہلکار نے کیشیئر کی بات کو نہایت تعجب سے سنا اور پھر حیرانی سے پوچھا کہ اچھا!یہاں تنخواہ بھی ملتی ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ فائلوں کو ادھر سے اُدھر لے جانے اور ان پر نفع بخش احکامات حاصل کرنے والے معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ترقیاتی کاموں میں معدودے چند استثنات کے علاوہ ارکان کی اکثریت کو اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز میں سے ٹھیکیداروں کے ساتھ طے شدہ حصہ ہی کافی سے زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ بعض کاریگر ارکان اپنا ہی ٹھیکیدار کھڑا کرکے اس میں سے مزید دودھ نچوڑ لینے کا جو کارنامہ سرانجام دیتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے۔
سیاست اب خدمت وغیرہ جیسے متروک نظریات سے بہت آگے جاتے ہوئے ایک نہایت نفع بخش کاروبار بن چکی ہے اور اس پر ہونے والا سارا خرچہ اخراجات کے بجائے سرمایہ کاری کی مد میں آتا ہے۔ جس طرح کسی ٹول پلازے کا ٹھیکہ لیتے وقت ٹھیکیدار اس ٹول پلازے سے گزرنے والی ٹریفک اور اس سے ہونیوالی متوقع آمدنی کا حساب لگا کر ٹھیکے کی بولی لگاتا ہے‘ بالکل اسی طرح ہمارے ارکانِ اسمبلی کی اکثریت جیتنے کے بعد ہونیوالی کمائی کا حساب لگا کر بے دریغ خرچ کرتے اور جیتنے کے بعد اپنا سارا خرچہ مع منافع وصول کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی کیا جانے والا سارا خرچہ ''مالِ مفت دل بے رحم‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔ بھلا خون پسینے اور محنت سے کمائی جانے والی حلال کمائی کو کون اس طرح محض توقعات کی بنیاد پر خرچ کرتا ہے؟
بی اے میں ہمیں سیاسیات کا مضمون پروفیسر سیف الرحمان مرحوم پڑھاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے‘ بڑے شاندار استاد تھے اور کتابی علم کو غیر کتابی مثالوں سے سمجھانے کے فن سے آشنا تھے۔ ریاست کا باب پڑھاتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ریاست کے چار بنیادی ستون؛ اقتدارِ اعلیٰ‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔ ان میں سے سب سے لازمی اور ضروری ستون اقتدارِ اعلیٰ ہے۔ مغرب کی سیکولر ریاستوں میں اقتدارِ اعلیٰ وہ اصلی اور آخری طاقت ہے‘ جس سے کوئی اور طاقت بالاتر نہیں ہوتی۔ یہ اقتدار ریاست کو اندرونی طور پر قانون بنانے‘ نافذ کرنے اور بیرونی طور پر آزاد فیصلے کرنے کا حق دیتا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے اس عمر اور محدود علم کے ساتھ اس تصور کو سمجھنا ممکن نہ تھا۔ سیف الرحمان صاحب کہنے لگے: اسلامی ریاست میں اقتدارِ اعلیٰ کا تصور علمِ سیاسیات کے عام تصور سے مختلف ہے۔ اسلامی ریاست میں حاکمِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور ریاستی نظام قرآن وسنت کے تابع ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے: ''ان الحکم الا اللہ‘‘ (حکم صرف اللہ کاہے)۔پھر مقننہ کے بارے میں بتایا کہ اس سے مراد Legislative یعنی پارلیمنٹ ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ کا کام آئین وقانون سازی اور ان میں ترامیم وبہتری لانا ہے۔ پھر کہنے لگے: ہماری ریاست میں تمام تر خرابیوں کی بنیادی وجہ جاہل‘ نااہل‘ نالائق‘ بے ایمان اور ذاتی مفادات کے غلام اراکین اسمبلی ہیں جو قانون وآئین سازی کے علاوہ دنیا کا ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے ان کو ذاتی فائدہ ہو۔ ان کی اسی نالائقی‘ نااہلیت اور کمزوری کے باعث طاقت کا مرکز سول انتظامیہ کے بجائے مقتدرہ کے پاس چلا گیا ہے۔ یہ آج سے پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ آج پچاس سال بعد میں اپنی مقننہ یعنی پارلیمنٹ پر نظر دوڑاتا ہوں تو پروفیسر سیف الرحمان کی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ حالات پہلے سے بھی بدتر ہیں۔ مقننہ پہلے سے بھی بے وقعت ہے۔ قانون سازی کا حال پہلے سے بھی کہیں پتلا ہے۔ ترامیم کا معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے اور ان ترامیم کا مرکز ومحور مخلوقِ خدا کے بجائے وہ لوگ ہیں جو پہلے سے ہی آئین وقانون سے ماورا ہیں۔ عدل کا ادارہ عوام کے بجائے افراد کو تحفظ دینے پر مامور ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے لیکن عالم یہ ہے کہ صدرِ پاکستان کے جاری کردہ آرڈیننسز کی تعداد پارلیمنٹ کے پاس کردہ قوانین سے زیادہ ہے۔ ارکانِ اسمبلی حاضر ہونے سے زیادہ حاضری الاؤنس لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں پارلیمنٹ جو کام سب سے زیادہ محنت‘ جانفشانی اور لگن سے کرتی ہیں وہ آئینی ترامیم ہوتی ہیں‘ جن پر پارلیمنٹ کے اندر گھنٹوں اور دنوں نہیں بلکہ ہفتوں‘ مہینوں تک بحث وتمحیص ہوتی ہے تب جاکر کہیں معاملات تکمیل کے مرحلے پر پہنچتے ہیں۔ ہمارے ہاں ساری محنت دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ کو بھی ترمیم کا اصل مسودہ پاس ہونے کے بعد دکھایا جاتا ہے۔
ویسے تو ملکِ عزیز میں ناکام اداروں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے تاہم اگر مجھے کسی ادارے کو نالائقی میں ٹاپ کرنے کا گولڈ میڈل دینے کا اختیار ہو تو میں یہ تمغہ ملکِ عزیز کی پارلیمنٹ کو دوں گا کیونکہ کچھ بھی ہو‘ پارلیمنٹ بہرحال سپریم ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں