میں نے 2010ء میں جب پہلی بار سیلاب کی کوریج کی تو اس وقت مجھے شدت سے احساس ہوا کہ کسی آفت کے فوراً بعد آنے والی مصیبت اصل میں کہیں زیادہ کٹھن اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے باوقار افراد کو میں نے سیلاب زدگان کے کیمپوں میں اپنی خودداری اور عزتِ نفس کو بچاتے ہوئے کھانے‘ صاف پانی اور تن چھپانے کے کپڑوں کے لیے جدوجہد کرتے دیکھا۔ بچے بیمار تھے‘ بھوک سے بلک رہے تھے۔ بزرگ صدمے اور موسم کی شدت کے ساتھ لڑ رہے تھے اور خواتین و مرد نم آنکھوں کے ساتھ امداد کی لائنوں میں کھڑے تھے۔میری سوچ وہاں رک گئی کہ کیا حکومت‘ مخیر حضرات‘ دوست ممالک اور این جی اوز تصویریں اور وڈیوز بنائے بغیر مشکل میں پھنسے انسانوں کی مدد نہیں کر سکتے؟ تب بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور آج بھی یہی منظر نظر آتا ہے۔ میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ کوریج کے دوران لانگ شاٹ رکھوں اور فیچر سٹوری کرتے ہوئے کسی متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر نہ ہو۔ اس سیلاب کی ہولناکی اور تباہ کاریاں آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔
سیلاب متاثرین میں آٹا‘ گھی اور دالیں وغیرہ تو مفت تقسیم کی جا رہی تھیں لیکن وہاں کھانا پکانے کا انتظام موجود نہ تھا۔ نہ برتن تھے‘ نہ چولہے‘ اور خیموں میں آگ جلانا بڑے حادثے کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ کچھ لوگ سڑکوں پر بیٹھے تھے‘ کچھ خیموں میں جبکہ کچھ کو سکولوں کی عمارتوں میں عارضی پناہ ملی ہوئی تھی۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک طرف پرانے جوتوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے کیونکہ ملک کے مختلف حصوں سے شہریوں نے متاثرین کے لیے استعمال شدہ سامان بھیج دیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے بیشتر افراد خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے‘ محض قسمت کی ستم ظریفی نے انہیں اس حال تک پہنچا دیا تھا۔ مجھ سے بات چیت کے دوران کچھ افراد نے کہا: ابھی ہم خوف اور صدمے کا شکار ہیں‘ ہماری نقدی‘ فون اور کپڑے سب سیلاب میں بہہ گئے اور ملبے میں دب گئے ہیں۔ پانی کے ساتھ پتھر بھی ہم پر گرے مگر اللہ نے زندگی بچا لی۔ ہم کوئی فقیر نہیں‘ جیسے ہی رشتہ داروں کو علم ہو گا کہ ہم زندہ ہیں‘ وہ ہمیں لے جائیں گے۔ لیکن امداد کے نام پر پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹے جوتے دے کر لوگ ہمیں مزید رنجیدہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ امداد وصول کرتے ہوئے ہم ان کے ساتھ تصاویر اور وڈیوز بھی بنوائیں۔
میں نے دیکھا کہ پھٹے پرانے کپڑوں سے وہ اپنے جسم ڈھانپنے سے قاصر تھے اور ٹوٹے جوتے چلنے میں سہولت کے بجائے ان کیلئے اذیت کا باعث بن رہے تھے۔ میں نے کئی کیمپ دیکھے‘ کئی سکولوں‘ مساجد اور ہالوں میں بھی متاثرین کو پناہ دی گئی تھی۔ ان علاقوں میں اسہال‘ ہیضہ اور آشوبِ چشم کی وبائیں پھیل چکی تھیں۔ بچے خارش اور دانوں سے بھر گئے‘ خواتین نہا نہیں سکتی تھیں۔ ان کے پاس صابن‘ تولیے اور سینیٹری پیڈز تک موجود نہ تھے۔ ان کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے اور سروں پر مکمل چادریں بھی نہیں تھیں۔ بڑوں کیلئے تو کھانے کی تقسیم کا عمل کسی نہ کسی طرح جاری تھا مگر چھوٹے بچے دودھ کیلئے بلک رہے تھے۔ کچھ لوگ خوف اور صدمے سے اتنے نڈھال تھے کہ ہر آہٹ پر چونک جاتے۔ مجھے لگا تھا کہ ان کی آباد کاری‘ صحت اور بحالی پر بھرپور توجہ دی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ کہانیاں فراموش کر دی گئیں کیونکہ بطورِ قوم ہماری یادداشت کمزور ہے۔
پھر 2022ء میں ایک اور بدترین سیلاب آیا۔ اشرافیہ مہنگے جوتے اور چشمے پہن کر جہازوں میں فضائی معائنہ کرتی رہی۔ سوئٹزرلینڈ تک میں چندہ جمع کرنے کے دعوے ہوئے لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ ہماری اشرافیہ اور حکومت کا عمومی رویہ یہی ہے کہ متاثرین کو ایک جوس کا ڈبہ‘ ایک چپس کا پیکٹ اور آٹے کا تھیلا دے کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ذمہ داری پوری ہوگئی حالانکہ ریسکیو سے ریلیف اور پھر ری ہیبلی ٹیشن تک ‘ یہ ایک طویل مدتی عمل ہے۔
جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو متاثرہ انسان کو خوف گھیر لیتا ہے‘ اسے ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہمدردی اور کسی ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنا گھر‘ مال و دولت کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے وقت میں صرف مالی نہیں بلکہ جذباتی سہارا بھی درکار ہوتا ہے۔ اسے کھانے‘ پانی اور ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ وباؤں سے بچاؤ کیلئے عارضی غسل خانے اور جراثیم کش سپرے ضروری ہوتے ہیں۔ سانپ‘ بچھو اور موذی حشرات کے کاٹنے کی ویکسین لازمی ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز کی ٹیمیں متاثرین کے چیک اپ کیلئے جاتی ہیں‘ مفت ادویات دیتی ہیں اور رضاکار کھانا‘ پانی اور کمبل فراہم کرتے ہیں۔ نقدی سے بھی مدد کی جاتی ہے۔ ان کو جلد از جلد کیمپوں سے گھروں میں منتقل کرنی کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ حکومت‘ این جی اوز اور مخیر حضرات مل کر کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ موجودہ سیلابی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ سب سے پہلے تو یہ کہ جو لوگ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے واقف نہیں‘ وہ براہِ راست امداد لے کر نہ جائیں بلکہ ان فلاحی اداروں کو عطیہ دیں جو وہاں پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ اگر خود جانا چاہتے ہیں تو موسم کی شدت سے اپنی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے سفر کریں۔ متاثرین کو سب سے پہلے کھانا‘ پانی‘ ادویات‘ خیمے‘ چادریں اور کپڑے درکار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹارچ‘ موم بتیاں‘ ترپال اور خشک خوراک بھی ضروری ہے۔ پکا ہوا کھانا اتنا دیں جتنا وہ ایک وقت میں استعمال کر سکیں کیونکہ ان کے پاس فریج یا خوراک ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ اس لیے خشک خوراک جیسے چنے‘ بسکٹ‘ کھجور‘ خشک دودھ‘ پتی‘ رس‘ او آر ایس اور وٹامن کی گولیاں زیادہ بہتر ہیں۔ اگر پکا ہوا کھانا دینا ہو تو ڈسپوزایبل برتن بھی ساتھ ہوں۔ جب متاثرین کو عارضی پناہ گاہ مل جائے تو چولہے اور برتن کے ساتھ راشن دیا جا سکتا ہے۔ پانی کی فراہمی کے ساتھ پانی صاف کرنے والی گولیاں بھی فراہم کی جائیں۔ متاثرین کو جراثیم کش صابن‘ زخم صاف کرنے والی ادویات‘ پٹیاں اور درد کش دوائیں مہیا کی جائیں۔ کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں وہ اپنے فون چارج کر سکیں تاکہ اپنے پیاروں سے رابطہ کر سکیں۔ چونکہ خیبرپختونخوا کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں سردی ہے‘ اس لیے رضائیاں‘ کھیس‘ گدے اور چادریں بھی ضروری ہیں۔ صاحبِ ثروت افراد تیار سوپ کے پیکٹ‘ ٹِن فوڈ‘ چاکلیٹ‘ ڈرائی فروٹ‘ پیکٹ دودھ اور کلین واٹر بھی دے سکتے ہیں۔ مچھر دانی اور جالیاں بھی اہم ہیں کیونکہ برسات کے بعد ڈینگی اور ملیریا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
خواتین اور بچوں کیلئے الگ پیکٹ بننے چاہئیں جن میں ڈائپرز‘ لفافے اور سینیٹری پیڈز وغیرہ شامل ہوں۔ خشک ایندھن مثلاً مٹی کا تیل‘ ماچس اور لالٹین بھی مہیا کی جائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ امداد دیتے وقت متاثرین کی وڈیوز یا تصاویر نہ بنائی جائیں تاکہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ اگر ڈونرز کو دکھانے کیلئے وڈیو یا تصویر ضروری ہو تو پہلے اجازت لی جائے اور متاثرین کے چہرے بلر کیے جائیں۔ ان علاقوں کے لوگ پردے کے حوالے سے حساس ہیں‘ اس لیے اگر خواتین امدادی کارکن بھی ہوں تو پردہ دار خواتین کیلئے سہولت ہو جائے گی۔ عطیہ دیتے وقت سامنے والے کی حیثیت کو نہیں بلکہ اپنی استطاعت کو دیکھیں۔ اس وقت ہمارے سینکڑوں بہن بھائی مدد کے منتظر ہیں جبکہ صوبائی حکومتیں لفظی جنگ میں مصروف ہیں۔ مجھے چند ایک تنظیموں پر مکمل اعتماد ہے اور میں عطیات انہی کو دیتی ہوں تاکہ مستحقین تک مدد پہنچ سکے۔ تاہم آپ چاہیں تو اپنی مرضی سے خود بھی امداد پہنچا سکتے ہیں یا کسی معتبر ادارے کو نقد عطیہ بھی دے سکتے ہیں۔