چند روز قبل ٹویٹر (ایکس) سکرول کرتے ہوئے اس خبر پر نظر پڑی کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں دھماکا ہوا ہے۔ یہ دھماکا لال قلعے کے قریب میٹرو سٹیشن کے پاس ہوا تھا‘ جس میں 13 افراد ہلاک اور 20 کے قریب زخمی ہوئے۔ پاکستانی عوام اس پر افسوس کا اظہار کرنے لگے۔ مجھے بھی شدید افسوس ہوا‘ بھلے دونوں ممالک میں جنگ ہو چکی اور سفارتی تعلقات بھی اچھے نہیں لیکن انسانی جانوں کا ضیاع قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے۔ اس بار بھارتی میڈیا اپنی ہی حکومت پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔ ابھی اس واقعے کی شور تھما بھی نہیں تھا کہ دو سانحات پاکستان میں ہو گئے‘ جنہوں نے حساس افراد کو شدید رنجیدہ کر دیا۔ ایک وانا کیڈٹ کالج پر دہشت گردوں کا حملہ اور دوسرا اسلام آباد کچہری میں خودکش حملہ۔ یہ بہت ہی دلخراش اور ہولناک واقعہ تھا۔ ان خبروں نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا جب پاکستان میں متواتر حملے ہوتے تھے۔ کبھی خودکش حملے‘ کبھی بم دھماکا‘ کبھی بارودی سرنگیں اور کبھی ٹارگٹ کلنگ۔ پاکستانیوں نے دہشت گردی میں بہت زخم اٹھائے ہیں۔ اسی ہزار کے قریب شہریوں اور اہلکاروں نے اس دہشت گردی میں جامِ شہادت نوش کیا‘ اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا‘ لاکھوں افراد معذور ہوئے‘ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے بھی لاکھوں میں تھے۔ منگل کو جب اسلام آباد کچہری میں خودکش دھماکا ہوا تو سب دکھ ہرے ہو گئے۔ وہ سب پرانی یادیں سامنے آ گئیں جو ماضی کے دریچوں میں عارضی طور پر مدفون ہیں۔ ایک ڈر سا لگنے لگا کیا دوبارہ سے وہ دور واپس آ رہا ہے؟ ہجوم میں کہاں پتا چلتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے‘ کون نہیں۔ دہشت گردوں نے ہمارے سکولوں‘ کالجوں‘ مساجد‘ دفاتر‘ پارکس‘ سرکاری و نجی املاک کو بلاتفریق نشانہ بنایا ہے۔ ہر طرف خوف کی فضا تھی۔ پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے آہستہ آہستہ اس عفریت کا مقابلہ کیا اور مؤثر عسکری آپریشنز نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ ملک میں امن وامان بحال ہوا اور رونقیں لوٹ آئیں۔ البتہ اُن کے زخم نہ بھر سکے جنہوں نے اپنے پیارے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کھوئے تھے۔ کچھ زخم کبھی نہیں بھرتے‘ انسان بس وقت کے ساتھ چپ ہو جاتا ہے یا صبر کر لیتا ہے لیکن وہ بھولتا نہیں۔ جب دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو ایسا حملہ کبھی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ بچوں کو کون نشانہ بناتا ہے؟ یہ ایسا سانحہ تھا کہ پوری قوم اشکبار تھی اورعوام دشمن سے بدلہ لینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ ضربِ عضب ایک کامیاب آپریشن تھا‘ جس میں ہمارے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے مادرِ وطن کا دفاع یقینی بنایا۔ اس کے بعد طویل عرصہ تک امن رہا تو ہم سب بھی بھول گئے تھے کہ کبھی ہم غلط فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے کتنے غیرمحفوظ تھے۔ جب ملک میں امن قائم ہوا تو ایک ہی دعا نکلتی تھی کہ اب دہشت گردی لوٹ کر نہ آئے۔ وانا کیڈٹ کالج پر حملہ مجھے دوبارہ 2014ء میں لے گیا جب بزدل دشمن نے ہمارے بچوں کو سکول میں گھس کر نشانہ بنایا تھا۔ ماں باپ نے اپنے بچوں کو پڑھنے بھیجا تھا لیکن وہ مرتبہ شہادت پہ سرفراز ہو گئے۔ میں آج بھی اے پی ایس شہدا کے خاندانوں سے رابطے میں ہوں۔ وہ ابھی تک 16 دسمبر 2014ء کے غم سے نہیں نکل سکے۔
جب وانا کیڈٹ کالج پر حملے کی خبر آئی تو دل ڈوبنے لگا کہ ایک بار پھر بچے نشانے پر ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی سے 525 کیڈٹس کو ریسکیو کر لیا۔ ایک طرف سے یہ اطمینان ملا کہ بچے محفوظ ہیں مگر دوسری طرف سے یہ خبر آ گئی کہ اسلام آباد کچہری میں خودکش حملہ ہوگیا ہے۔ ایسے افسوسناک مناظر دیکھنے کو ملے کہ بیان سے باہر ہیں۔ میں سارا دن اپنے آنسو صاف کرتی رہی کہ ان پر کیا گزری ہوگی‘ ان کے لواحقین پر کیا بیت رہی ہو گی۔ اب زندگی ان کیلئے یکسر تبدیل ہو جائے گی۔ ان معصوم شہریوں کے بارے میں سوچتی رہی جو ایک نارمل دن کی طرح گھر سے نکلے تھے مگر اچانک ایک بم دھماکا ان کی سانسوں کی ڈوری توڑ گیا۔ ان کے گھر والے اب کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار پائیں گے۔ کتنے ارمان اور کتنی خوشیاں اس سانحے میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئیں۔ خودکش حملہ آور نے پولیس وین کے سامنے خود کو اڑایا تھا‘ جس کی زد میں شہری‘ سائلین‘ وکلا اور پولیس اہلکار آئے تھے۔
اسلام آباد حملے پر مجھے لگا کہ اتنے بڑے سانحے پر شاید ایک دن کا قومی سوگ ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اشرافیہ ظہرانے اور عشائیے دیتی رہی۔ شہرِ اقتدار میں شادیانے بجتے رہے اور کسی نے معمول کی سرگرمیوں کو معطل نہیں کیا۔ کسی بھی مسلمان کی موت پر تین دن کا سوگ کیا جاتا ہے اور قومی سانحے پر ایک دن کا سوگ ہوتا ہے۔ شہرِ اقتدار میں خودکش حملہ ایک قومی سانحہ ہے مگر اشرافیہ کے چہرے پر کوئی دکھ اور تاسف نظر نہیں آیا۔ البتہ عام شہری دکھی رہے اور اسلام آباد میں فضا سوگوار رہی۔ شہری اشکبار فضا میں اپنے پیاروں کی تدفین کرتے رہے۔ اس سانحے میں ایک وکیل زبیر اسلم بھی شہید ہوئے۔ وہ حال ہی میں ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ کے وکیل بنے تھے اور اسی خوشی میں اپنے دوستوں کا منہ میٹھا کرانے جی الیون کچہری آئے تھے۔ وہ مٹھائی کھلا کر واپس جا رہے تھے کہ اجل کا بلاوا آ گیا۔ جب کوئی سانحہ ہو تو حکومت کو لواحقین اور زخمیوں کی داد رسی کرنا چاہیے مگر یہاں حکومت کی زیادہ دلچسپی اس بات میں رہی کہ ستائیسویں ترمیم بہ آسانی منظور ہو جائے اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیم سیریز پوری کرکے واپس جائے۔ اس خودکش حملے کے بعد سری لنکن کرکٹ ٹیم واپس جانا چاہتی تھی لیکن اب شہر میں کرفیو لگا کر میچز کرائے جا رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا اور اسی دن شام کو ایوانِ صدر میں عشائیہ دیا گیا۔ اگلے روز برطانوی بادشاہ کی سالگرہ منائی گئی‘ پھر شہر میں ایک میلہ سجایا گیا۔ کیا ہم اتنے بے حس اور حملوں‘ بم دھماکوں سے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ خودکش حملے میں شہید ہونے والے 12 افراد کے درد کو محسوس ہی نہیں کر پا رہے۔ یہ درست ہے کہ کسی کے جانے سے دنیا نہیں رکتی لیکن ایک دن کا علامتی سوگ کرنے میں کیا حرج تھا؟ ہمارے حکمران اگر شہید ہونے والوں کے جنازوں کو کندھا دیتے‘ ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے اور زخمیوں کو علاج میں معاونت فراہم کرتے تو کیا جانا تھا؟ مگر شاید سب اپنی اپنی زندگی میں بہت مصروف ہیں۔
اب خبریں آ رہی ہیں کہ خودکش حملہ آور کا سر مل گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ یہاں تک پہنچا کیسے‘ اس کے سہولت کار کون ہیں؟ محض آپریشنز سے دہشت گردی کا سر نہیں کچلا جا سکتا۔ ہمیں انتہا پسندوں کیلئے ہمدردی رکھنے والے عناصر کی بھی سرکوبی کرنا ہو گی۔ اس کے ساتھ قومی اتحاد بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سپیکر کے پی اسمبلی بابر سواتی اور وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے امن جرگے کا انعقاد کیا ہے‘ جس میں تمام اہم شخصیات اور جماعتوں نے شرکت کی۔ ہمیں اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اتحاد پیدا کرے۔ ایسے جرگے وفاقی سطح پر منعقد کر کے افغانستان وفد بھیجا جائے تاکہ ان کے ساتھ معاملات کو بہتر کیا جا سکے۔ ہم بیک وقت دو ہمسایوں کے ساتھ جنگ کا محاذ نہیں کھول سکتے۔ یقینا ہم میں جنگ کا جذبہ ہے اور حال ہی میں ہمیں بھارت کے خلاف تاریخی فتح نصیب ہوئی ہے مگر ہم مستقل حالتِ جنگ میں نہیں رہ سکتے۔ بھارت کے ساتھ شاید فوری طور پر معاملات ٹھیک نہ ہو سکیں لیکن افغانستان کے ساتھ بات کرنا بہت ضروری ہے‘ اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ مزید بڑھ جائے‘ مذاکرات کے ذریعے یہ معاملہ حل کرنا چاہیے۔ ہم ایک پُرامن اور خوشحال پاکستان کے خواہشمند ہیں۔ مستقل جنگ کے بجائے مذاکرات ہی واحد حل ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ زخم کبھی نہیں بھرتے‘ لہٰذا عوام کے مفاد میں فیصلہ سازی بہت احتیاط سے کرنا ہو گی۔