پھر شہر بند

ویسے تو مسئلہ فلسطین مدتوں سے حل طلب ہے اور وہاں صہیونیوں کے مظالم بھی جاری ہیں مگر گزشتہ دو سالوں میں غزہ میں جو کچھ ہوا ‘ وہ شاید ہی تاریخ میں پہلے کبھی ہوا ہو۔ اتنا ظلم کہ تاریخ کے اوراق بھی لہو سے تر ہوگئے۔ ہر ملک میں درد مند افراد اس ظلم کے خلاف باہر نکل آئے۔ پہلے یہ تعداد سینکڑوں میں تھی‘ پھر یہ ہزاروں اور لاکھوں میں پہنچ گئی۔ پاکستان میں بھی لوگ یہ صورتحال دیکھ کر اضطراب کا شکار ہوگئے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ زمینی احتجاج بھی شروع ہوگئے۔ سابق سینیٹر مشتاق احمدخان اور ان کی اہلیہ نے اسلام آباد کے عوام کو منظم کیا۔ ان کے دھرنوں‘ جلسوں اور مظاہروں میں سول سوسائٹی کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یہ پُرامن مظاہرے صرف غزہ کے مظلومین کے لیے تھے۔ تاہم یہ بات محسوس کی جانے لگی جو لوگ سوشل میڈیا مثلاً فیس بک اور انسٹاگرام پر فلسطین کی بات کرتے اُن کے اکائونٹس بند کر دیے جاتے۔ کچھ کی رِیچ کم ہوگئی اور کچھ پر شیڈو بین لگ گیا۔ یہ تو چلیں وہ کررہے تھے جو غیر ہیں‘ ان کے دلوں میں فلسطین کے لیے کوئی ہمدردی نہیں لیکن یہاں تو اپنے بھی بدل گئے۔ جو لوگ پاکستان میں آن گرائونڈ مظاہرے کررہے تھے ان کے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کوئی پاکستانی فلسطین کے لیے احتجاج کرنے نکلے اور دھر لیا جائے۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ اگر کوئی فلسطین کے لیے بھی باہر نکلے گا تو پولیس اسے مارے گی اور گرفتار بھی کرلے گی۔ ہر شریف انسان تھانے‘ کچہری اور مقدمے‘ گرفتاری سے بچتا ہے۔ اسلام آباد کے شہری سینیٹر ر مشتاق اور ان کی باپردہ اہلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ان کو متعدد بار گرفتار کیا گیا جس پر عوام بہت رنجیدہ ہوئے۔اس حکومتی جبر کے باوجود لوگوں نے فلسطین کے لیے آواز بلند کرنا نہ چھوڑی بلکہ یہ سب دیکھ کر مزید لوگوں میں ہمت آئی کہ فلسطین کے لیے آواز بلند کرنی ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں ایک عزیز کی شادی میں شرکت کیلئے پنڈی کے ایک معروف ہوٹل میں تھی‘ وہاں پاکستان کی معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کی کال آئی کہ جویریہ بلیو ایریا میں پہنچو‘ میں بھی لاہورسے آرہی ہوں۔ وہ ہر فورم پر فلسطین کے لیے بہت آواز اٹھا رہی ہیں اور خطیر رقم بھی غزہ متاثرین کے لیے عطیہ کی ہے۔ میں شش و پنج کا شکار تھی کہ اسلام آباد سے شادی کے لیے راولپنڈی آئی ہوں‘ ابھی مزید ایک دو دن شادی کی تقریبات ہیں‘ اگر میں واپس جاتی ہوں تو شادی میں شریک نہیں ہو سکوں گی۔ اب میں بہت زیادہ سوشل بھی نہیں رہی۔ ایسی تقریبات میں تھوڑی دیر شرکت کر کے سب سے مل لیتی ہوں اور گھر چلی جاتی ہوں۔ میرا دل تقریبات سے اُکتا چکا ہے۔ مگر جب ماریہ بی کا جذبہ دیکھا کہ وہ لاہور سے آرہی ہیں تو میں نے بھی ہمت پکڑی۔ شادی کی تقریب سے نکل کر واپس اسلام آباد اپنے گھر آئی‘ کپڑے چینج کیے اور پھر فلسطین ریلی میں شرکت کیلئے چلی گئی۔ میں نے ماریہ بی کو کہا: میں نے کوٹ شوز پہن رکھے ہیں‘ اگر پولیس نے ڈنڈے چلا دیے تو مجھ سے تو بھاگا بھی نہیں جائے گا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: اللہ مالک ہے۔ وہ بہت زندہ دل ہیں اور بہادر بھی۔ میں تو حوادثِ زمانہ کی وجہ سے ٹوٹ سی گئی ہوں‘ ہر آہٹ پر چونک جاتی ہوں۔ اس روز اسلام آباد میں گرمی اور حبس کے باوجود بہت سے لوگ ریلی میں شریک ہوئے۔ پانچ سے چھ ہزار لوگ تھے‘ جو سب فلسطین کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد اس ریلی میں موجود تھی۔ میں اُن دنوں علیل تھی۔ مشتاق بھائی اور ان کی اہلیہ بار بار میری طبیعت کا پوچھتے رہے۔ یہ ایک کامیاب ریلی تھی اور پُرامن طور پر ختم ہو گئی مگر اس کے بعد متعدد بار ایسا ہوا کہ پُرامن شہری فلسطین کیلئے باہر نکلے تو ان کو پولیس نے مارا بھی اور گرفتار بھی کیا۔ بچے‘ بزرگ‘ مرد اور باپردہ خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا۔ تاہم فلسطین سے محبت کرنے والوں نے ہمت نہیں ہاری۔ مظاہرین کی جدوجہد صمود فلوٹیلا تک پہنچ گئی۔ تمام دنیا جنگ بندی کا مطالبہ کرنے لگی۔ اب جنگ بندی کا اعلان ہو چکا‘ کل قیدیوں کا بھی تبادلہ ہوا مگر جب تک وہاں امداد کی رسائی میں رکاوٹوں کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ فلسطین کو مکمل آزادی نہیں ملتی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
ابھی جب غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا اعلان ہوا تو پاکستان کی ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت کو خیال آیا کہ انہوں نے فلسطین کیلئے لانگ مارچ کرنا ہے۔ کوئی اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا کہ اس جماعت کا پنجاب میں بڑا وجود ہے۔ اس کا کارکن جذباتی ہے۔ پنجاب حکومت اور وفاق کو یکایک خیال آیا کہ ان کو احتجاج نہ کرنے دیا جائے۔ بس پھر کیا تھا کہ ہم سب کی زندگیوں میں کنٹینرز واپس آ گئے۔ یہ بھدے‘ بدصورت کنٹینرز موٹروے‘ فیض آباد اور دیگر مقامات پر رکھ دیے گئے۔ شہری معمول کے مطابق گھروں سے کام کیلئے نکلے تو ہر طرف کنٹینرز ہی کنٹینرز تھے۔ تمام لوگ چھٹی افورڈ نہیں کرسکتے۔ اگر وہ کام پر نہ پہنچیں تو ان کی تنخواہ کٹ جاتی ہے۔ مریض اگر ہسپتال نہ جائیں تو ان کی جان میں خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ احتجاج کے سبب لوگوں کو مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے مگر ہمیں مظاہرین نہیں‘ انتظامیہ ستاتی ہے۔ غزہ مارچ ابھی لاہور سے نکلا بھی نہیں تھا کہ اسلام آباد کے تمام راستے بند کر دیے گئے‘ شہر میں موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ کو معطل کر دیا گیا۔اس وقت جب یہ کالم لکھ رہی ہوں‘ لاہور اسلام آباد موٹروے بند ہے۔ اس کے ساتھ لاہور‘ اسلام آباد اور راولپنڈی شہر بھی بند ہیں۔ شہر میں عملی زندگی مفلوج ہے۔ نہ کوئی اسلام آباد سے باہر جا سکتا ہے اور نہ ہی شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔ نواحی علاقوں کی اکثریت میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں اسلام آباد کے پمزہسپتال اور پولی کلینک کا رخ کرتی ہے۔ یہیں سب سے بڑا زچہ بچہ مرکز ہے۔ یہاں پر برن اور ڈائلیسز سنٹر ہے۔ اگر ان تک جانے کا راستہ بند ہو جائے تو انتظامیہ نے کبھی سوچا کہ اس سے کتنی جانیں خطرے میں آ جاتی ہیں؟ سارے راستے بند ہوں تو مریض ہسپتال کیسے جائیں گے؟ رہی سہی کسر کے لیے انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا۔ کیا ملک ایسے چلایا جاتا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ ہم کسی جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ مظاہرین ابھی جمع بھی نہیں ہوتے کہ انتظامیہ پورا شہر بند کر دیتی ہے۔ صاحبانِ مسند تو پہلے ہی فصیل کے پار‘ اپنے محلات میں رہتے ہیں۔ ان کو کیا فرق پڑتا ہے کہ سڑکوں‘ موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی بندش سے عوام پر کیا گزرتی ہے۔ ویسے ہمارے ملک میں عوام کو سڑکوں پر آنے سے کبھی کچھ ملا ہے؟ کیا اس سے مظاہرین کو روکا جا سکا؟ شہر بند کر دینے سے تکلیف صرف عوام کو ہوتی ہے۔ کسی نے بینک جانا ہوتا ہے‘ کسی نے بازار جانا ہوتا ہے‘ کسی نے میڈیکل سٹور جانا ہوتا ہے مگر وہ نہیں جا سکتا۔ جس نے انٹرنیٹ سے اپنی روزی کمانی ہے وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا ہوا ہے۔ سڑک بند‘ انٹرنیٹ بند مطلب معاشی سرگرمیاں بند۔ اس سے کتنا نقصان ہوتا ہے‘ کوئی اندازہ ہے؟ شہریوں کی اذیت کا اندازہ اشرافیہ اسی وقت لگا سکتی ہے جب وہ خود بھی وقت پر اپنے کام پر نہ پہنچ پائے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں! کیونکہ اشرافیہ کیلئے علیحدہ دستور‘ علیحدہ قانون ہے۔ اکتوبر کا مہینہ شادیوں کا سیزن ہوتا ہے لیکن سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے لوگ شادی ہال‘ مارکیز تک نہیں پہنچ پاتے۔ ماں باپ کی پوری جمع پونجی ان تقریبات پر لگی ہوتی ہے۔ حکومت فیصلہ کرتے وقت عوام کے بارے میں کچھ نہیں سوچتی۔ ملک ایسے نہیں چلتے۔ اگر فردِ واحد ہی نے فیصلے کرنے ہیں تو اتنے اداروں کا کیا فائدہ؟
ویسے جنگ بند ہونے کے بعد احتجاج کی منطق بھی سمجھ سے باہر ہے‘ اور پھر مظاہرین کو اشتعال دلانا حیرتناک ہے۔ حکومت کو ایسی صورتحال میں مذاکرات کرنے چاہئیں۔ شیلنگ اور لاٹھی گولی سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں اور عوامی غصہ بڑھتا ہے۔ ایسے معاملات بات چیت سے حل ہوتے ہیں‘ طاقت کا استعمال کسی کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں