اسلامی یا سیکولر؟ قائداعظم کا تصورِ پاکستان آج تک واضح نہیں ہو سکا۔ اس کے دو اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس باب میں قائد خودواضح نہیں تھے اور ان سے کوئی دو ٹوک مؤقف مروی نہیں ہے۔ دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ابہام‘ ہماری فکری پراگندگی کا شاخسانہ ہو۔
پہلا سبب قابلِ قبول نہیں۔ قائد کی شخصیت سے سرسری واقفیت رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ ابہام ان کو چھو کر نہیں گزرا۔ اپنی سوچ اور طرزِ عمل کے بارے میں وہ اتنے شفاف تھے کہ ان کی بات کو سمجھنے میں کبھی کسی کو دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گاندھی بڑے آدمی تھے۔ ان کی فکر اور نجی زندگی میں مگر اتنے تضادات ہیں کہ ان کے عشاق بھی ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔ قائداعظم کی سیاسی زندگی تضادات سے پاک تھی۔ اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ قائدکے تصورِ پاکستان کے بارے میں موجود انتشارِ فکر کا انتساب ان کے نام کیا جائے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ہم اس ابہام کی وجہ اپنے فہم میں تلاش کریں۔
اس ابہام کا سبب چند سوالات ہیں جو ہنوز جواب طلب ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ قائداعظم اگر پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے تو مذہبی سیاست کرنے والوں نے ان کی مخالفت کیوں کی؟ تحریکِ پاکستان کے وقت اپنے حجم سے قطع نظر‘ مذہبی سیاست کی نمائندہ قوتیں دو ہی تھیں۔ جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی بطور تنظیم 1941ء میں وجود میں آئی مگر بحیثیت نظریہ‘ مولانا مودودی کے افکار کی صورت میں 1930ء کی دہائی سے برصغیر کے مسلم منظر نامے کا حصہ تھی۔ جن مذہبی شخصیات یا تنظیموں نے تحریکِ پاکستان یا قائداعظم کا ساتھ دیا‘ ان کا تشخص سیاسی نہیں تھا۔ جیسے مولانا اشرف علی تھانوی‘ پیر صاحب مانکی شریف یا سنی کانفرنس۔ اگر قائداعظم پاکستان کواسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے تو اسلامی ریاست کے علمبرداروں نے ان کے تصورِ پاکستان کو 'ناپاکستان‘ کیوں قرار دیا یا ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
ایک نومولود ریاست کا سب سے اہم مسئلہ دستور سازی ہے۔ اس کا پہلا وظیفہ ایک عمرانی معاہدے کی تشکیل ہے جس کی بنیاد پر ریاست کا نظام قائم ہوتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قائد اعظم نے اگر اسلامی ریاست بنانا تھی تو ایک غیر مسلم کو قانون کی وزارت کیوں سونپی‘ دستور سازی میں جس کا کردار مرکزی ہوتا ہے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ قائداعظم اگر ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو علمِ سیاست سے بخوبی آگہی کے باوصف‘ انہوں نے موعود ریاست کو کبھی سیکولر کیوں نہیں کہا؟ قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد‘ انہوں نے بار بار اسلام کی تعلیمات اور شریعت کو نظمِ ریاست کا حوالہ کیوں بنایا؟ انہوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو کس بنیاد پر دو قومیں قراردیا؟ ان دو اقوام کے ہیرو ان کی نظر میں کیوں الگ الگ تھے؟ علامہ اقبال قائداعظم کے فکری راہنما تھے۔ ان کاخطبہ الہ آباد تصورِ پاکستان کی پہلی اینٹ ہے۔ اس خطبے کا آغاز ہی اسلام اور سیکولرازم کی بحث سے ہوتا ہے۔ اقبال سیکولرازم کو ردّ کرتے ہیں اور اجتماعیت کے باب میں اسلام کے متحرک کردارکو بیان کرتے ہیں۔ اگر سیکولر ریاست کا قیام ہی مقصود تھا تو علامہ اقبال کا یہ خطبہ آج تک تصورِ پاکستان کی بنیاد کیوں مانا جاتا ہے؟
ہماری دانش ان سوالات کے ایسے جواب تلاش نہیں کر سکی جو اس فکری گتھی کو سلجھا سکیں۔ یوں ایک ابہام ہے جو مسلسل چلا آتا ہے۔ بزمِ یار سے الگ الگ خبریں لائی جاتی ہیں۔ سب کو اپنے مؤقف کے حق میں کچھ نہ کچھ مواد مل جاتا ہے۔ رائی سے پہاڑ بنانا اہلِ قلم کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یوں یہ کھیل مسلسل کھیلا جا رہا ہے اور قوم تماشائی بن کر یہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ کس کی جیت پر تالیاں بجائے۔ ہر کھلاڑی تالیاں بجانے والے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ یوں کبھی ایک طرف سے تالیاں بجتی ہیں اور کبھی دوسری طرف سے تحسین کا شور بلند ہوتا ہے۔ کھیل کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا اور وہ جاری ہے۔
میرے نزدیک ایک تاویل ایسی ہے جس کی مدد سے ان سب باتوں میں تطبیق پیدا کی جا سکتی ہے جو ہمیں متضاد دکھائی دیتی ہیں۔ یہ کوئی دُور ازکار تاویل نہیں ہے۔ عقلِ عام اس کو قبول کرتی ہے۔ دانش بھی اسے مان سکتی ہے اگر وہ قائد کے افکار کو پہلے سے قائم شدہ نظریات کا پابند بنانے سے گریز کرے۔ عقلِ عام سادہ ہوتی ہے‘ اس لیے وہ فطری حقائق کا خیر مقدم کرتی ہے۔ دانش چالاک ہوتی ہے‘ اس کی یہ چالاکی حق کی قبولیت میں حجاب بن جاتی ہے۔ اقبال نے عقل کے اسی روپ کے بارے میں متنبہ کیا تھا کہ یہ عیار ہے‘ سو بھیس بدل لیتی ہے۔ اگر یہ سادہ رہے تو حقائق اس کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔
اب آئیے اس تاویل کی طرف۔ میں اسے ایک بیانیے کی صورت میں بیان کرتا ہوں۔ ''قائداعظم قومی ریاست کے ماڈل پر ایک ایسی مملکت کی تشکیل چاہتے تھے جہاں ریاستی مقاصد کے حصول کیلئے اسلامی تعلیمات سے روشنی لی جائے۔ اسلام‘ ان کے نزدیک وہ نہیں ہے جو فقہ کی کسی کتاب میں درج ہے بلکہ یہ ان اصولوں کا نام ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ یہ اسلام اس باب میں مانع نہیں ہے کہ کوئی غیر مسلم‘ مسلم اکثریت پر مشتمل ایک قومی ریاست کا وزیرِ قانون ہو یا اس کے شہریوں کو مذہبی وابستگی سے ماورا مساوی حقوق حاصل ہوں۔ یہ تصور نہ پاپائیت کو قبول کرتا ہے جس میں حقِ حکمرانی مذہبی طبقے کیلئے خاص ہے اور نہ سیکولرازم کو جو مذہب کو اجتماعی نظم سے لاتعلق رکھتا ہے‘‘۔
اگر اس تاویل کو مان لیا جائے تو 11 اگست کی تقریر اور قائد کے ان فرمودات میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا جن میں انہوں نے اسلام اور نفاذِ شریعت کی بات کی ہے۔ اس سے یہ گتھی بھی سلجھ جاتی ہے کہ مذہبی سیاست کے پرچم برداروں نے کیوں ان کی مخالفت کی۔ قائداعظم کا تصورِ ریاست دراصل اسلامی ریاست کے اُس تصور سے مختلف ہے جو یہ لوگ پیش کر رہے تھے اور جس میں کوئی غیر مسلم ریاست کے کلیدی عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے اور نہ ہی مسلم اور غیر مسلم شہریوں کی حیثیت مساوی ہو سکتی ہے۔ ان کے خیال میں ایسی ریاست 'ناپاکستان‘ تو ہو سکتی ہے 'پاکستان‘ نہیں۔ اسی طر ح قائداعظم کا پاکستان سیکولر بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں مذہب کو قانون سازی کی ایک بنیاد تسلیم کیا گیا ہے۔
قائداعظم کے اس تصورِ اسلامی ریاست کی تفہیم‘ ابلاغ‘ حفاظت اور اس کے مطابق نظمِ ریاست کی تشکیل کا فریضہ مسلم لیگ نے سر انجام دینا تھا۔ بدقسمتی سے اس کے پاس کوئی فکری اثاثہ موجود نہیں تھا جو قائد کے تصور کو مجسم کر سکتا۔ اس سے ایک خلا واقع ہوا۔ اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیکولر طبقے نے 11 اگست کی تقریر کا عَلم اٹھا لیا اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ وہ ایک سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ مذہبی سیاست کے نمائندوں نے قائد کے فرمودات سے اسلام کے ذکر کو اڑا لیا اور عوام کو یہ باور کرانا چاہا کہ قائداعظم بھی اسلامی ریاست کے اسی تصور کو مانتے تھے جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ قائداعظم کا فکری جانشین کوئی تھا نہیں جو عوام کو بتاتا کہ قائد کے فکری ورثے کے دونوں دعویدار اپنے دعوے میں سچے نہیں۔ یوں قائداعظم کے تصورِ پاکستان کے ساتھ وہی ہوا جو لاوارث جائداد کے ساتھ ہوتا ہے۔ کہنے کو آج بھی مسلم لیگ موجود ہے لیکن قائدکی فکری وراثت سے لاتعلق۔ اسے ایک وراثت سے غرض ہے اور وہ ہے 'ریاست‘ جس میں ایک حکومت ہوتی ہے۔ اس کی ساری تگ ودو اس کے حصول کیلئے ہے۔