میں نے چار سال معاشیات پڑھی‘ ہمارے اساتذہ یہ محاورہ اکثر استعمال کرتے تھے کہ ''تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالے جائیں‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کاری ایک کے بجائے مختلف شعبوں میں کی جائے تاکہ اگر ایک جگہ نقصان ہو جائے تو دوسری جگہ سے فائدہ مل سکے۔ اگر تمام سرمایہ ایک ہی جگہ لگا دیا جائے تو نقصان کی صورت میں انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ یہ محاورہ کھیلوں کے حوالے سے پاکستان پر صادق آتا ہے۔ کبھی ہم ہر بڑے کھیل کے چمپئن ہوا کرتے تھے‘ پھر آہستہ آہستہ سب کچھ چھوڑ کر صرف کرکٹ کے ہو کر رہ گئے۔ کاش ہم نے اپنی نئی نسل کو موبائل اور سوشل میڈیا کے بجائے کھیلوں کی طرف راغب کیا ہوتا تو آج شاید ملک کا منظرنامہ ہی کچھ اور ہوتا‘ مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ کرکٹ کے سوا باقی تمام کھیلوں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا اور اب کرکٹ کا حال یہ ہے کہ ہم ایک بڑی سیریز جیتنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ کبھی قسمت کا ساتھ ہوا تو میچ جیت گئے اور جب قسمت نے منہ موڑ لیا تو ہار گئے۔ کارکردگی نام کی کوئی شے کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری قسمت میں ہار زیادہ اور جیت کم لکھی ہے۔
ایک ہی کھیل پر ساری توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے دیگر کھیل ملک سے تقریباً ختم ہی ہو گئے ہیں۔ میں ایک خاتون کھلاڑی کو جانتی ہوں جس نے لانگ جمپ صرف اس لیے چھوڑ دی کہ جب وہ تربیتی کیمپ پہنچی تو وہاں مناسب سامان موجود نہ تھا‘ پریکٹس کیلئے میٹ پرانے اور ریت گندی تھی‘ حتیٰ کہ پینے کا صاف پانی تک موجود نہ تھا۔ وہ اچھا کھیلنے کے باوجود آگے نہ بڑھ سکی۔ مقامی سطح پر کھیلنے کے بعد آخرکار وہ ہمت ہار کر گھر لوٹ گئی کیونکہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے سوا کسی کھیل کو سہولتیں دینے کا رواج ہی نہیں۔ لیکن اگر کرکٹ پر نظر ڈالیں تو تمام تر سہولتوں‘ بجٹ اور پیسے کے باوجود ٹیم کی کارکردگی میں کوئی تسلسل نہیں۔ نہ مڈل آرڈر سے کوئی امید ہے نہ باؤلرز سے۔ حالیہ ایشیا کپ میں پاک بھارت ٹاکرے میں شائقین کو زیادہ امید نہیں تھی لیکن کرشماتی طور پر جیسے ہم فائنل تک پہنچے تو اس سے ایک امید بندھی کہ شاید جیت بھی جائیں۔ دوسری طرف بھارتی ٹیم کی کارکردگی اچھی تھی لیکن رویہ ناقابلِ برداشت۔ بھارتی ٹیم نریندر مودی کے جنگی جنون‘ تعصب اور نفرت کو کھیل کے میدان تک لے آئی۔ بھارتی کھلاڑیوں نے پہلے پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ سے انکار کیا اور آخر میں ایشین کرکٹ کونسل کے صدر کے پاکستانی ہونے کی بنا پر ان سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔ کھیل کا میدان امن کی جگہ ہے‘ جنگ کا اکھاڑا نہیں۔ بھارتیوں میں سپورٹس مین سپرٹ کی شدید کمی ہے‘ انہیں اپنے اس رویے کی اصلاح کرنی چاہیے۔
ایشیا کپ میں ہماری ٹیم تسلسل کے ساتھ اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔ اگر یہی فنڈنگ‘ سپانسر شپ اور توجہ دیگر کھیلوں کو دی جائے تو آج پاکستان میں کئی ''ارشد ندیم‘‘ سامنے آچکے ہوتے۔ چند سال پہلے جب میں نے کئی ایتھلیٹس کے انٹرویوز کیے جس سے اندازہ ہوا کہ ان کی جدوجہد کتنی کٹھن ہے۔ عام میدانوں میں کھیل کر یہ کھلاڑی عالمی مقابلوں تک پہنچتے ہیں‘ اور جب کوئی عالمی مقابلہ جیت جائیں تر پھر پورا ملک ان کی کامیابی کا کریڈٹ لینے پہنچ جاتا ہے‘ حالانکہ یہ سب ان کی ذاتی محنت اور کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سپورٹس بورڈ یا وزارتِ کھیل کا کردار اس میں برائے نام ہوتا ہے۔ کچھ خوش نصیب کھلاڑیوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرپرستی مل جاتے تو ٹھیک ورنہ سفر شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے۔
گزشتہ برس کے پیرس اولمپکس دیکھ لیں‘ پیرس میں کھلاڑیوں سے زیادہ عہدیدار موجود تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ارشد ندیم کے پاس اولمپکس کی تیاری کیلئے عالمی معیار کا ایک بھی جیولن موجود نہیں تھا‘ کراچی کے ایک صحافی نے نشاندہی کی تو ارشد ندیم کو نیا جیولن ملا۔ اس کے مقابلے میں بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا کو اعلیٰ ترین سہولتیں میسر تھیں۔ دور کیا جانا‘ وفاقی دارالحکومت ہی کی مثال لے لیں۔ یہاں عام شہری کے بچوں کیلئے کھیلوں کی سہولتیں تک میسر نہیں جبکہ اشرافیہ کے بچوں کیلئے عالمی معیار کی سہولتوں سے آراستہ کلب موجود ہیں‘ جن کے دروازے عوام پر بند ہیں۔ سرکاری اداروں میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں‘ داخلے کا نظام بھی پیچیدہ ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب میں ہزاروں لوگ ڈوب گئے مگر کسی بھی سطح پر عوام کو تیراکی سکھانے کی بات نہیں کی گئی۔ سکولوں میں ابتدائی طبی امداد اور تیراکی کی تربیت لازمی ہونی چاہیے مگر سرکاری سکولوں کی حالت سب کے سامنے ہے۔
ایشیا کپ میں بھارتی ٹیم کے متعصبانہ رویے سے ہٹ کر اگر صرف قومی ٹیم کی کارکردگی کی بات کی جائے تو بھارت کے خلاف مایوس کن کارکردگی نے شائقین کو خون کے آنسو رلا دیا۔ بھارت کے خلاف تینوں میچوں میں ٹیم نے اپنی انتہائی ناقص کارکردگی سے عوام کو مایوس کیا۔ فائنل میں پاکستان نے بھارت کو صرف 147 رنز کا ہدف دیا جبکہ بیس اوور بھی مکمل نہیں کھیلے۔ اگرچہ بھارت کے خلاف باؤلنگ کا عمدہ آغاز کیا مگر بھارتی بیٹر تِلک ورما کی عمدہ بیٹنگ نے بھارت کو جتوا دیا۔ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی بیٹنگ میں غیرضروری رِسک اٹھانے‘ مڈل آرڈر کی ناکامی اور فیلڈنگ میں غفلت نے فتح ہمارے ہاتھ سے چھین لی۔ پاکستانی بیٹنگ لائن تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ فیلڈنگ کا یہ عالم تھا کہ پہلے طلعت حسین نے تِلک ورما کا کیچ چھوڑا‘ پھر محمد حارث نے رن آؤٹ کا عمدہ موقع ضائع کر دیا۔ سپنرز اچھی باؤلنگ کر رہے تھے لیکن فاسٹ باؤلر حارث رؤف کی ناقص باؤلنگ نے میچ بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ بھارت سے مسلسل تین شکستوں کے بعد شائقین نے ٹیم پر خوب تنقید کی اور بورڈ انتظامیہ کی تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا۔ پاکستان میں ٹیلنٹ تو ہے لیکن منصوبہ بندی اور عزم کی کمی ہے۔ یہاں غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جاتا۔ کمزوربیٹنگ ‘ فیلڈنگ میں لاپروائی‘ کیچ چھوڑنا اور ٹیم ورک کا فقدان اب سب پر واضح ہو چکا ہے۔
پرانے وقتوں میں کبڈی‘ فنِ پہلوانی‘ ہاکی‘ پولو‘ سکواش‘ گھڑسواری‘ باکسنگ‘ ریسلنگ‘ سنوکر‘ مارشل آرٹس‘ تیراکی‘ تیراندازی‘ بیڈمنٹن اور فٹ بال جیسے کھیل ہمارے ہاں بہت مقبول تھے۔ فن پہلوانی تو اپنی مثال آپ تھا۔ لاہور اور گوجرانوالہ کے اکھاڑوں میں تماشائیوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا مگر اب وہ اکھاڑے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ چند خاندان اس فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی کہیں نہیں۔ ہاکی‘ جو ہمارا قومی کھیل ہے‘ اس کی حالت سب پر عیاں ہے۔ کبھی ہم اولمپک میڈلز‘ ورلڈ کپ اور چیمپئن ٹرافی کے فاتح تھے۔ ہاکی میں ہمیں آخری بڑی فتح 1994ء میں ملی تھی‘ اس کے بعد سے یہ کھیل زوال پذیر ہے۔ اسی طرح سکواش میں جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے عظیم کھلاڑی پیدا ہوئے جنہوں نے دنیا پر راج کیا۔ جہانگیر خان چھ مرتبہ ورلڈ چیمپئن اور دس بار برٹش اوپن کے فاتح رہے‘ جبکہ جان شیر خان نے بھی کئی عالمی اعزاز اپنے نام کیے لیکن آج سکواش میں ہمارا کوئی کھلاڑی عالمی رینکنگ میں موجود نہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے دیگر کھیل ہمارے ہاں متروک ہو چکے‘ ویسے ہی کرکٹ بھی قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے۔ شائقین کو آخری بڑی خوشی 2017ء میں ملی تھی جب سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی جیتی۔ اس کے بعد سے شکستیں ہی شکستیں ہیں۔ ضروری ہے کہ صرف کرکٹ کے بجائے تمام کھیلوں کو فروغ دیا جائے۔ حکومت کھیلوں پر توجہ نہیں دیتی تو ملک کے مخیر حضرات‘ برانڈز‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور اہم شخصیات اپنے اپنے علاقوں میں سکولوں اور کالجوں کو سہولتیں فراہم کریں۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو صرف کرکٹ تک محدود رکھنے کے بجائے دیگر کھیلوں کی طرف بھی لانا ہوگا۔ والدین بچوں کا سکرین ٹائم کم کریں‘ خود بھی میدان میں جائیں اور بچوں کو بھی کھیلوں کی طرف راغب کریں۔ بصورت دیگر کھیل کے میدانوں میں شکست ہی ہمارا مقدر بنے گی۔