ہمارے معاشرے میں کئی برسوں سے ایک ایسی برائی سرایت کر چکی ہے جس پر کوئی کھل کر بات نہیں کرتا۔ شرم‘ خوف اور بدنامی کے ڈر سے مظلومین چپ کر کے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں جس سے جرم کرنے والے مزید شہ پاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چاہے کچھ بھی کر لیں‘ ہمارے ظلم کا نشانہ بننے والے خاموش ہی رہیں گے۔ مجھے انتہائی شرمساری کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جنسی تشدد کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مجرمانہ خصلت کے مالک معصوم بچے اور بچیوں پر جنسی تشدد کرتے اور ان کی وڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ کچھ سانحات میں ظلم کا شکار ہونے والے بچے‘ بچیوں کو قتل تک کر دیا جاتا اور کچھ کو ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ آگے بھی جبر اور بلیک میلنگ کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہے۔ اس طرح کے روح فرسا واقعات کے بعد بچے بہت سہم جاتے ہیں اور کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ بہت عرصہ تک تو انہیں سمجھ ہی نہیں آتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ مستقل خوف اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اکثر والدین بچوں کی اس پریشانی سے لاعلم ہوتے ہیں۔ مائیں گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہیں اور باپ فکرِ معاش میں گھل رہے ہوتے ہیں۔ جب تک انہیں اپنے بچے کے ساتھ ہونے والے ظلم کا پتا چلتا ہے‘ تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ بچہ یا تو قتل ہو چکا ہوتا ہے اور اگر خوش قسمتی سے زندہ بچ جائے تو نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں ملک میں دو مزید ایسے کیس سامنے آئے ہیں۔ ایک کراچی میں ننھے صارم کا کیس اور دوسرا سرائے عالمگیر میں ننھی زہرہ کا کیس ہے۔ یہ دونوں قتل اتنے خوفناک طریقے سے ہوئے کہ ہر حساس شخص دہل کر رہ گیا ہے۔ صارم کی عمر سات سال تھی اور زہرہ کی عمر محض چار سال۔ اگر ہمارے معاشرے میں معصوم بچے بھی محفوظ نہیں تو کون محفوظ ہے؟ بچوں میں فطری طور پر تجسس بھرا ہوتا ہے‘ انہیں باہر کی دنیا اچھی لگتی ہے‘ وہ چاہتے ہیں کہ پڑھائی کے بعد ہم گھر سے باہر کھیلیں‘ بازار سے چیز لے کر کھائیں‘ پارک میں جھولے جھولیں۔ ہم بچوں کو گھروں میں قید نہیں کر سکتے مگر جس دور میں جی رہے ہیں‘ اس میں باہر کی دنیا بچوں کیلئے قطعاً محفوظ نہیں رہی اور کچھ کیلئے تو ان کے گھر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سرائے عالمگیر کی ننھی زہرہ جس سفاکیت کا شکار ہوئی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے میرے ہاتھ لرز رہے ہیں۔ وہ اپنے والدین کی شادی کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ زہرہ کی گلی ہر وقت بچوں سے بھری رہتی تھی۔ اُس علاقے کے زیادہ تر بچے گلیوں میں ہی کھیلتے ہیں۔ اُس روز‘ جب یہ دلخراش واقعہ پیش آیا‘ وہ اپنے گھر سے اُسی گلی میں واقع اپنی خالہ کے گھر جانے کیلئے نکلی لیکن وہاں کبھی نہ پہنچ سکی۔ اس کے والدین کو پہلے تو لگا کہ وہ اغوا ہو گئی ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ اسے درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ جب اس کی لاش ملی تو جسم زخموں سے چور تھا۔ قاتل نے اس کی لاش بوری میں بند کرکے اسی گلی کے ایک غیر آباد گھر میں پھینک دی تھی۔ اس بچی کا کیا قصور تھا؟ جس میڈیکل افسر نے بچی کی لاش وصول کی تو اس کے مطابق‘ بچی کا سر پھٹا ہوا تھا اور پورے جسم پر تشدد کے نشان تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے ایسا ظلم اور سفاکی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ بچی کو جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ بدترین جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا اور قتل کرکے لاش کو چھت سے نیچے پھینک دیا گیا۔ پولیس نے جب ڈی این اے‘ پولی گراف اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے مجرم کو تلاش کیا تو ایک محلہ دار ہی زہرا کا قاتل نکلا جو شادی شدہ اور دو کم سن بچوں کا باپ تھا۔ زہرہ کی والدہ نے قاتل کو چوک میں پھانسی دینے کا مطالبہ کیا مگر بعد ازاں یہ سفاک قاتل پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ جرم خواہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو‘ مجرم کا پولیس مقابلے میں مارا جانا درست نہیں ہے۔ ایک عرصے سے بالخصوص پنجاب میں یہ روش دیکھنے کو مل رہی کہ گرفتاری کے بعد ملزم پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں اور کیس کی فائل بند ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سخت سزا دینی چاہیے۔
بچوں سے اپنی ہوس پوری کرنے والوں کو انگریزی میں ''پیڈوفائل‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سفاک لوگ مجرمانہ ذہنیت کے مالک اور ذہنی بیمار ہوتے ہیں۔ مگر انہیں ذہنی مریض کہہ کر چھوڑا نہیں جا سکتا۔معاشرے کو بچوں کیلئے محفوظ بنانے کیلئے ایسے سفاک لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دینا بہت ضروری ہے‘ ورنہ مزید معصوم پھول ایسے ہی مسلے جاتے رہیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پیڈوفیلیا سرایت کرتا جا رہا ہے لیکن اس سنگین مسئلے کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ ایسے سفاک افراد نہ صرف معاشرتی اقدار بلکہ دینی تعلیمات سے بھی دور ہوتے ہیں۔ اکثر یہ لوگ فحش مواد دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور بچے ان کو آسان ٹارگٹ نظر آتے ہیں کہ وہ ان کی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد کسی کو کچھ بتائیں گے نہیں۔
کراچی اور سرائے عالمگیر میں پیش آئے یہ دلخراش واقعات تو رپورٹ ہو گئے لیکن اکثر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بچوں کے خلاف ان واقعات میں اکثر کوئی رشتہ دار یا جاننے والا ہی ملوث ہوتا ہے۔ کراچی کا صارم سات سال کا معصوم بچہ تھا۔ وہ اچانک غائب ہوا اور پھر اس کی لاش زیرِ زمین پانی کی ٹینکی سے ملی۔ پہلے تو لگا کہ شاید بچہ کسی حادثے کا شکار ہوا ہے لیکن جب صارم کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتا چلا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ صارم اپنے گھر سے مدرسے جا رہا تھا لیکن لاپتا ہو گیا۔ صارم کی گمشدگی کے دوران جعلی اغوا کار اس کے والدین سے تاوان کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ یہ ایک غیر ملکی نمبر تھا اور تاوان کی رقم کیلئے دیا گیا اکاؤنٹ نمبر بھی غیرملکی تھا۔ صارم کے جسم پر تشدد کے متعدد نشانات تھے‘ گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور اسے زیادتی کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس کے سارے جسم زخم کے نشان تھے اور اس کی موت دم گھٹنے سے ہوئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اب تک اس کے قاتل نہیں پکڑے گئے۔
ایسے سفاکانہ واقعات نہ صرف والدین بلکہ بچوں میں بھی خوف و ہراس پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں جبکہ اربابِ بست و کشاد اپنی سیاسی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔ نہ تو کوئی مظلومین کی داد رسی کر رہا ہے اور نہ ہی آئندہ ایسے واقعات روکنے کے حوالے سے اقدامات ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے والدین‘ اساتذہ اور سماجی تنظیموں کو بھی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ بچوں کو اچھے اور برے لمس (گڈ اینڈ بیڈ ٹچ) کے بارے میں بتائیں۔ ان کو اکیلا مت چھوڑیں۔ اگر وہ باہر کھیل رہے ہیں تو ان کی نگرانی کریں۔ بچوں کو اکیلے بازار نہ بھیجیں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ والدین اور بہن بھائیوں کے علاوہ کسی پر اعتماد نہ کریں۔ ان کو اس چیز کی آگاہی دیں کہ کوئی بھی ان کے جسم کونہیں چھو سکتا۔ ا گر کوئی ایسا کرے تو فوراً اپنے والدین کو بتائیں۔ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ان دلخراش واقعات کی وجہ کسی کا لباس یا طور اطوار نہیں‘ بلکہ وہ بے راہ روی ہے جو بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی مقصود ہے کہ صرف جنسی تشدد ہی قابلِ سزا جرم نہیں ہے بلکہ بچوں کو بری نیت سے چھونا‘ ان کی وڈیوز بناکر انہیں بلیک میل کرنا‘انہیں فحش مواد دکھانا‘ ان سے ذو معنی گفتگو کرنا بھی قابلِ تعزیر جرائم ہیں۔ بچوں کو سمجھانے کیلئے کہ یہ سب غلط حرکات ہیں‘ والدین کو خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح معاشرے میں دینی تعلیمات پھیلانے اور فوری انصاف فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بچوں پر ستم ڈھانے والے مجرم کسی رعایت کے مستحق نہیں‘ ان کو کو سخت شرعی سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کسی کی ہمت نہ ہو کہ وہ بچوں کی طرف میلی نظر بھی ڈال سکے۔