کھیلوں کا فروغ ضروری

ایک وقت تھا جب ہمارے ملک میں کبڈی‘ پہلوانی‘ گھڑ سواری‘ پولو‘ سکواش‘ باکسنگ‘ ریسلنگ‘ سنوکر‘ کراٹے‘ تیراکی‘ تیر اندازی‘ بیڈ منٹن‘ والی بال‘ فٹ بال‘ ہاکی اور ٹیبل ٹینس سمیت بہت سے کھیل کھیلے جاتے تھے۔پہلوانی کا کھیل تو اپنی مثال آپ تھا۔ لاہور اور گوجرانوالہ اس کھیل میں خاصی اہمیت رکھتے تھے۔ یہاں سے بڑے بڑے پہلوان نکلے‘ جنہوں نے عالمی ٹائٹل جیتے اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ یہ پہلوان نہ صرف دولتِ مشترکہ کے مقابلوں میں تمغے جیت کر لائے بلکہ اولمپکس تک بھی پہنچے۔ پھر یہ فن پاکستان میں دم توڑنے لگا۔ وہ اکھاڑے جو کبھی پہلوانوں اور شائقین سے بھرے ہوتے تھے‘ اب کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ اب بھی کچھ لوگ اس فن کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن انہیں کوئی حکومتی سرپرستی حاصل نہیں۔ دوسری طرف بھارت میں فنِ پہلوانی آج بھی زندہ ہے‘ یہاں تک کہ اب وہاں لڑکیاں بھی کشتی لڑتی اور ویٹ لفٹنگ کرتی ہیں۔
اپنے ملک کی بات کریں تو یہاں کرکٹ ہی سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اسی کھیل کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ دوسرے کھیلوں اور ایتھلیٹس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ میں نے کچھ سال پہلے ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کے والد ان پر اتنی محنت کر رہے تھے کہ مجھے یقین تھا کہ وہ پاکستان کے لیے ضرور تمغے لائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا‘ پاکستان کا یہ ہونہار بیٹا جب میدان میں اُترا تو میدان مار لیا۔ ویٹ لفٹر نوح دستگیر نے 2022ء میں پاکستان کے لیے کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغہ حاصل کیا‘ یہ سب ان کے والد کی محنت کی وجہ سے ممکن ہوا‘ اس میں کھیلوں سے جڑے کسی محکمے یا حکام کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ نوح دستگیر میڈیا پر یہ بات بتا چکے کہ جب انہوں نے کامن ویلتھ گیمز میں تمغہ جیتا تو ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ اس کامیابی کا سہرا ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے سر سجایا جائے۔ ان کے انکار پر اولمپکس میں ان کی شرکت کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ ہماری ہاں کھیلوں میں ہونے والی سیاست‘ اقربا پروری اور سفارش کلچر کی وجہ سے ہی بہترین ایتھلیٹ عالمی سطح پر ملک کی بھرپور نمائندگی نہیں کر پاتے۔ نوح دستگیر پیرس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے لیکن کامن ویلتھ گیمز میں ملک کے لیے سونے کا تمغہ جیتنے والے اس کھلاڑی کو مناسب ٹریننگ اور سہولتیں مہیا کرنے کے بجائے فیڈریشن کی جانب سے اس کی راہ میں مزید مشکلات کھڑی کر دی گئیں۔ یہ صرف ایک کھیل اور ایتھلیٹ کا احوال ہے‘ باقی کھیلوں کی صورتحال بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں۔
ہاکی‘ جو کہنے کو ہمارا قومی کھیل ہے‘ اس میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستانی کا قومی کھیل کیوں اور کیسے زبوں حالی کا شکار ہوا‘ تاریخ دان‘ ہاکی فیڈریشن کے عہدیدار اور ہاکی کے کھلاڑی خود اس موضوع پر بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ میں فقط اتنا جانتی ہوں کہ کبھی پاکستانی ہاکی ٹیم دنیا کی نمبرون ٹیم تھی۔ اس ٹیم سے امید ہوتی تھی کہ یہ اولمپک میں بھی کم از کم ایک میڈل ضرور جیت لائے گی۔ ایشین گیمز میں ہاکی ٹیم نے آٹھ گولڈ میڈل جیت رکھے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان نے چار ہاکی ورلڈ کپ اور چیمپئن ٹرافی بھی جیت رکھی ہے۔ پاکستان نے آخری بار 1994ء میں ہاکی کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اب یہ کھیل اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے کہ ہماری ٹیم گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی اولمپکس گیمز کوالیفائی ہی نہیں کر سکی تھی۔ پرانے ہاکی کھلاڑی اس زبوں حالی کا ذمہ دار ہاکی فیڈریشن کو ٹھہراتے ہیں۔ ہاکی کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ کھلاڑیوں کی مالی مشکلات بھی ہیں۔ ہاکی کے کھلاڑیوں کی تنخواہیں کرکٹ کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں اور ان کے لیے سہولتوں کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ فیڈریشن کے عہدیداروں کی بات سنیں تو وہ سارا مدعا کھلاڑیوں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
پہلے حکومت خود کھیلوں میں دلچسپی لیا کرتی تھی۔ متعلقہ ادارے بھی کھلاڑیوں کو مکمل سپورٹ کرتے تھے۔ سپانسر شپ اس کے علاوہ ہوتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ پیرس اولمپکس میں پاکستانی کھلاڑیوں سے زیادہ سیاسی لوگ اور فیڈریشنز کے عہدیدار پہنچے ہوئے تھے۔ ارشد ندیم جب سہولتوں کی کمی کے باوجود اپنی محنت کے بل پر گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کی کامیابی کا کریڈٹ لینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ ماضی میں پاکستان سکواش کے میدانوں پر بھی راج کرتا رہا۔ جہانگیر خان پاکستان کے سکواش کے بہترین کھلاڑی تھے جنہوں نے چھ مرتبہ سکواش ورلڈ چمپئن شپ جیتی۔ وہ اس کھیل میں ساڑھے پانچ سال تک ناقابلِ شکست رہے۔ انہوں نے دس بار برٹش اوپن چیمپئن کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اسی طرح جان شیر خان نے سکواش میں آٹھ مرتبہ ورلڈ اوپن اور چھ مرتبہ برٹش اوپن چیمپئن کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ پاکستان نے دہائیوں تک اس کھیل پر راج کیا لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ سکواش کی عالمی رینکنگ میں کوئی پاکستانی کھلاڑی موجود نہیں۔ پاکستان میں اب بھی سکواش کا ٹیلنٹ موجود ہے‘ خاص طور پر خیبرپختونخوا سے بہت سے نوجوان اس کھیل کی طرف راغب ہوتے ہیں لیکن ان بچوں کو مناسب سرپرستی اور ضروری سہولتیں ہی نہیں ملتیں۔ اس وجہ سے نیا ٹیلنٹ ضائع اور بہت سے نوجوانوں کا کیریئر ختم ہوجاتا ہے۔ پاکستان 1994ء میں سنوکر کا بھی ورلڈ چیمپئن بنا۔ اب یہ کھیل بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
گالف کا کھیل پاکستان میں اشرافیہ کا کھیل بن چکا ہے۔ عام آدمی کو مہنگے گالف کلبز تک رسائی حاصل نہیں۔ بچوں کوسوئمنگ پولز‘ جمنازیم‘کھیلوں کے میدان میسر نہ ہونے کی وجہ سے بچے پب جی اور ٹک ٹاک پہ مصروف رہتے ہیں۔ کرکٹ کے سحر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دیگر سبھی کھیل تقریباً ختم ہوچکے ہیں اور کرکٹ کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ عوام صرف کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کرکٹ میں بھی مردوں کی ٹیم کو زیادہ سپورٹ کیا جاتا ہے‘ خواتین اس سپورٹ سے قدرے محروم ہیں۔ اتنی زیادہ حکومتی توجہ‘ عوام کی محبت‘ سپانسرشپس‘ کاؤنٹی معاہدوں اور کرکٹ لیگز کے باوجود پچھلے کچھ عالمی ٹورنامنٹس میں ہماری ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد حکومت اور کرکٹ بورڈ نے بہت کوششوں سے ملک میں عالمی کرکٹ بحال کی ہے‘ لیکن ہماری ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں ہوم گراؤنڈ کا فائدہ بھی نہیں اٹھا سکی اور ٹورنامنٹ کے پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گئی۔ 2017ء میں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم سرفراز احمد کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی تو کرکٹ کے شائقین کی خوشی دیدنی تھی۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کریڈٹ پر آخری بڑی کامیابی 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی ہے‘ اُس ٹورنامنٹ کے بعد پاکستانی ٹیم کسی ٹورنامنٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہے۔ بالخصوص بھارت کے خلاف میچوں میں اب بھارتی ٹیم کا پلڑا ہی بھاری رہتا ہے۔ بھارت کے خلاف میچ میں قومی ٹیم کی بیٹنگ‘ باؤلنگ اور فیلڈنگ‘ تینوں شعبوں میں کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔ اگر قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ایسی ہی مایوس کن رہی تو جلد ہی عوام میں کرکٹ کا جنون بھی ختم ہوجائے گا۔
حکومت کو صرف کرکٹ کے بجائے تمام کھیلوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ کھیلوں کے فروغ کے لیے ہر کالج میں کم از کم ایک کھیل کا میدان ضرور بنایا جانا چاہیے جہاں طلبہ کو تمام بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جانی چاہئیں۔ اگر حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی تو ہمارے سماج کے مخیر حضرات اور ملک کے بڑے کاروباری اداروں کو سکولوں کالجوں میں کھیلوں کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ بچوں کو سوشل میڈیا سے دور کرنے اور اُن میں تعمیری سوچ پیدا کرنے بھی کھیلوں کا فروغ بہت ضروری ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں