مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد پاک بھارت تعلقات کشیدہ صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ اسے جواز بنا کر بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے سمیت کئی اقدامات کئے ہیں۔ بھارت ایک اعتبار سے اعلانِ جنگ کر چکا ہے۔ زہر اُگلتا بھارتی میڈیا منفی پروپیگنڈا کے ذریعے پاکستان مخالف بیانیہ تشکیل دے کر حالات کو مزید کشیدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جواباً پاکستان نے بھی اپنی فضائی حدود بھارت کیلئے بند کر دی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یکطرفہ طور پر اقدامات کئے ہیں جبکہ پاکستان کے اقدامات دفاعی حیثیت رکھتے ہیں جس کا ہمیں پورا حق حاصل ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کو سمجھنے کیلئے پہلگام کی جغرافیائی اور سیاحتی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ پہلگام وادیٔ کشمیر میں دریائے لیدر کے کنارے واقع ایک انتہائی خوبصورت علاقہ ہے جہاں 80 فیصد مسلمان آباد ہیں۔ یہ اننت ناگ ضلع کا ایک حصہ ہے اور اپنی دلکش وادیوں‘ سرسبز مرغزاروں‘ گھنے جنگلات اور برف پوش پہاڑوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ پہلگام کا مطلب کشمیری میں ''چرواہوں کا گاؤں‘‘ ہے۔ یہ نام اس علاقے کی روایتی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ دریائے لیدر یہاں دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ پہلگام نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی کیلئے مشہور ہے بلکہ یہ امرناتھ یاترا کا بنیادی کیمپ بھی ہے۔ امرناتھ کا غار جموں و کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں واقع ایک انتہائی اہم ہندو زیارت گاہ ہے۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ اس غار میں برف سے خود بخود ایک شِولنگ تشکیل پاتا ہے‘ جسے ہندو اپنے بھگوان شِو کی علامت مانتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی برف کے دو چھوٹے مجسمے بھی بنتے ہیں جو ہندوؤں کے بقول پارو وَتی اور گنیش کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق یہ غار شِو کا مسکن ہے جہاں انہوں نے اپنی اہلیہ پارو وَتی کو زندگی اور کائنات کے راز بتائے تھے۔ ہر سال گرمیوں کے موسم میں لاکھوں ہندو عقیدت مند امرناتھ غار کے مقام پر جاتے ہیں۔ پچھلے سال پانچ لاکھ سے زائد افراد نے امرناتھ غار کا سفر کیا تھا۔ اس سال بھی پانچ لاکھ سے زائد افراد کے امرناتھ جانے کی اطلاعات تھیں مگر پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد اس سفرکو منسوخ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
پہلگام میں ایک بین الاقوامی معیار کا 18ہول کا گالف کورس بھی موجود ہے جو گالف کے شوقین افراد کو قدرتی حسن کے درمیان کھیل سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پہلگام ٹریکنگ کرنے والوں کیلئے بھی جنت نظیر ہے جہاں متعدد دشوار گزار ٹریکنگ روٹس موجود ہیں۔ یہ دونوں خصوصیات پہلگام کو نہ صرف ایک پُرسکون مقام بناتی ہیں بلکہ ایڈونچر کے متلاشی افراد کیلئے بھی یکساں طور پر پُرکشش بناتی ہیں۔
کشمیر کے سیاحتی مقامات کو اگر نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر کشمیریوں کے روزگار اور معیشت پر پڑے گا اس لیے کہ کشمیر کی معیشت میں سیاحت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاحت کشمیر کی مجموعی آمدن اور روزگار کی فراہمی میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔ براہِ راست اور بالواسطہ طور پر لاکھوں کشمیریوں کا روزگار سیاحت سے جڑا ہوا ہے۔ ہوٹل‘ گیسٹ ہاؤس‘ ٹرانسپورٹ‘ دستکاری‘ ٹور گائیڈنگ‘ ریستوران اور دیگر متعلقہ کاروبار براہِ راست سیاحوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح زراعت اور باغبانی جیسے شعبے بھی سیاحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ مقامی مصنوعات سیاحوں کو فروخت کی جاتی ہیں۔ اگر کشمیر کا شعبۂ سیاحت کسی بھی وجہ سے متاثر ہوتا ہے‘ چاہے وہ سیاسی عدم استحکام ہو‘ قدرتی آفات ہوں یا کوئی اور ناخوشگوار واقعہ تو کشمیریوں کو شدید معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاحوں کی آمد میں کمی سے ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس خالی ہو جاتے ہیں‘ ٹرانسپورٹ کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے‘ دستکاریوں کی فروخت کم ہو جاتی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کا براہِ راست روزگار سیاحت سے وابستہ ہے وہ فوری طور پر آمدنی سے محروم ہو جاتے ہیں جبکہ بالواسطہ طور پر مقامی معیشت کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوتا ہے۔ کاروبار بند ہونے لگتے ہیں‘ سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق بھارت کی جانب سے زرعی مصنوعات کی ترسیل پر عائد پابندیوں سے معیشت کو 400ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح بھارتی پالیسیوں نے سیاحت کے شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچایا جس سے 100کروڑ روپے سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔ تجارتی سرگرمیوں پر پابندیوں کے باعث کشمیری تاجروں کی آمدنی میں 60فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ زرعی مصنوعات پر پابندیاں کسانوں کیلئے معاشی بربادی کا باعث بن گئی ہیں۔ وہ شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش نے لاکھوں کشمیری نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 2019ء کے بعد بے روزگاری کی شرح میں 20فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی فوج کی مسلسل موجودگی اور نگرانی مقبوضہ وادی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت کی جانب سے مقامی وسائل پر قبضہ اور معیشت پر سخت نگرانی نے وادی کو بدترین معاشی عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔
بھارت نے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کا الزام پاکستان پر لگایا ہے‘ اس واقعے کے تمام تر کمزور پہلو میڈیا پر آ چکے ہیں اس لیے انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں البتہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے جو الزامات بھارت بغیر شواہد کے پاکستان پر لگا رہا ہے‘ پاکستان شواہد اور ٹھوس حقائق کے ساتھ کئی بار بھارت اور عالمی برادری کے سامنے پیش کر چکا ہے۔ بھارتی جاسوس کا بلوچستان سے پکڑا جانا اور بلوچستان کے علیحدگی پسند رہنماؤں کی بھارت میں موجودگی کیا محض اتفاق ہے؟ بھارت ایک منصوبے کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے شدت پسند عناصر کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ سابق افغان صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں بھارت کو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں مداخلت اور سازش کرنے کا بھرپور موقع ملا‘ اس مقصد کیلئے افغانستان میں درجنوں بھارتی قونصل خانے قائم ہوئے‘ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھارت کیلئے افغان سرزمین سے پاکستان میں مداخلت کرنا عملی طور پر ممکن نہ رہا تو اس نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے شدت پسندوں کی سرپرستی شروع کر دی جس کے نتیجے میں پاکستان کا امن تباہ ہوا‘ سرمایہ کاروں کی توجہ کم ہو گئی‘ پاکستان میں معاشی بحران نے جنم لیا‘ سی پیک اور چینی منصوبوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے پیچھے اگرچہ بھارت تھا لیکن پاکستان نے ہمیشہ سفارت کاری کے ذریعے عالمی فورم پر آواز اٹھائی۔ بھارت کو آج جس دہشت گردی کا سامنا ہے وہ دراصل وہی فصل ہے بھارت برسوں سے جس کی آبیاری کر رہا تھا۔ 1960ء سے لی کر آج تک طے پانے والے ہر معاہدے کی پاکستان نے پاسداری کی لیکن بھارت نے ہمیشہ یکطرفہ اقدام کے ذریعے دوطرفہ معاہدوں کو سبوتاژ کیا۔ اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کی اگرچہ عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن مودی نے یکطرفہ اقدام کے ذریعے خطے کے امن کو غارت کرنے کی پوری کوشش کی۔ اس بار مگر بھارتی قیادت کو توقع کے برعکس جواب ملا ہے۔ بھارتی میڈیا اشتعال انگیزی پھیلا کر قوم کو جس سطح پر لے آیا ہے وہاں سے واپسی مشکل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت کا جنگی جنون خطے کو تباہی کی طرف دھکیل دے گا۔ ساحر لدھیانوی نے شاید ایسے ہی موقع کیلئے کہا تھا
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی