مرد بھی ہراسانی کا شکار

کہنے کو تو پاکستان مردوں کا معاشرہ ہے لیکن کیا یہاں مردوں کو بھی مکمل حقوق حاصل ہیں؟ زیادہ تر گھروں میں یہی رواج ہے کہ ایک مرد کمائے گا اور باقی سب اہلِ خانہ اس کے زیرکفالت رہیں گے۔ وہ جیسے بھی کر کے پیسے لائے اور اہلِ خانہ کی ضروریات پوری کرے۔ یہ نظام بہت سی جوانیوں کو کھا جاتا ہے۔ پہلے ایک بیٹے کیلئے بیٹیوں کی لائن لگا دی جاتی ہے اور پھر وہ ایک بیٹا تمام عمر اپنی بہنوں کا جہیز بنانے کیلئے محنت کرتا رہتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں کتنے ہی مردوں کو استحصال کی اس چکی میں پستے دیکھا ہے۔ وہ اپنے کام کی جگہ پر ہر طرح کی زیادتی یہ سوچ کر برداشت کر لیتے ہیں کہ جب شام کو وہ واپس گھر جائیں گے تو امیدوں بھری بہت سی آنکھیں ان کی منتظر ہوں گی۔ مرد کام پر ہر طرح کی ذلت اور گالی گلوچ برداشت کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنا گھر چلانے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنے ہی جوان لڑکے اس لیے کنوارے بیٹھے ہیں کہ انہیں پہلے باقی بہن بھائیوں کی شادی کرنی ہے‘ گھر پکا بنوانا ہے۔ گھر بسانا انسان کی فطری خواہش ہے لیکن گھر والوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر نوجوان لڑکے کی بہنوں سے پہلے شادی کردی تو وہ ان کی ذمہ داریوں سے منحرف ہو جائے گا۔ اس غلط رویے کی وجہ سے بہت سے لڑکے ان راہوں کی طرف چل پڑتے ہیں جہاں انہیں نہیں جانا چاہیے۔ میں اس بے راہروی اور دوستی کلچر کے سخت خلاف ہوں۔ والدین کو چاہیے کہ جب ان کے بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو برضا و رغبت ان کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کردیں‘ یوں وہ بہت سی معاشرتی برائیوں سے بچ جائیں گے۔ نئے جوڑے کو ایک دوسرے کے خلاف مت اُکسائیں‘ ان کو پیار‘ محبت و اتفاق سکھائیں تاکہ یہ عادات آپ کی آئندہ آنے والی نسلوں میں نمو پا سکیں۔ اپنے بچوں کو حلال حرام میں تمیز سکھائیں۔ بہت سے لڑکے لڑکیاں شوقیہ برائی کی طرف جاتے ہیں لیکن کچھ افراد کو ان کے کمزور لمحات اس طرف لے جاتے ہیں۔ جب ان کو جذباتی مدد کی ضرورت ہوتی‘ وہ آسانی سے ٹریپ ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ ہنی ٹریپ اور بلیک میلنگ ان کیلئے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ سب کی نفسانی خواہشات ہوتی ہیں۔ انسان کا نفس اس کو مسلسل برائی کی طرف اُکساتا ہے‘ برائی میں کچھ دیر کا مزہ ہے مگر آگے چل کر یہ دائمی روگ بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے ایسے گروہ کام کررہے ہیں جو فون پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ٹریپ کرتے ہیں‘ پھر نشہ آور ادویات دے کران کی وڈیوز بنا لیتے ہیں۔ یہاں سے بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مجرمان یہ وڈیوز انٹرنیٹ پر ڈالنے کی دھمکی دیتے ہیں یوں وہ شخص مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ بلیک میلرز کو پیسہ دیتا رہے اور ان کے ساتھ تعلق میں بھی رہے‘ ورنہ اس کا راز فاش ہو جائے گا۔ اگر کوئی بلیک میلر کے خلاف آواز اٹھائے تو لوگ بلیک میلر کو برا بھلا کہنے کے بجائے اُسی کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں جس کی وڈیو بنی ہوتی ہے۔ بلا شبہ اس نے برا عمل کیا ہوتا ہے لیکن جو بھی کیا ہوتا ہے چھپ کر کیا ہوتا ہے اور ایک بار کیا ہوتا ہے لیکن وڈیو بنانے والا اس گناہ کی تشہیر کر کے اس کو دنیا بھر میں پھیلا دیتا ہے۔ میرے نزدیک اس گناہ کو ریکارڈ کرنے والا اور اسے پھیلانے والا زیادہ گنہگار ہیں۔ کسی کا وڈیو یا آڈیو لیک کرنا میرے نزدیک سخت ترین جرم اور شدید گناہ کا کام ہے۔ وڈیو لیک کوئی خبر نہیں ہے کہ اسے مین سٹریم یا سوشل میڈیا پر نشر کیا جائے۔ یہ جرم کو پروموٹ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے وڈیو لنک مانگ کر متاثرہ شخص کا ٹھٹھا اڑا رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی ہراسانی جب مرد کے ساتھ ہوتی ہے تو لوگ اس کا ساتھ دینے کے بجائے اس کی تضحیک شروع کر دیتے ہیں۔
زیادہ دور نہیں جاتے‘ چند سال قبل جب عامر لیاقت مرحوم اپنے اہلِ خانہ سے دور ہوئے تو ان کا برا دور شروع ہو گیا۔ انہوں نے اپنی وفادار پہلی شریک حیات کو طلاق دی اور بچوں سے دوری اختیار کر لی۔ بچے ان کیلئے تڑپتے رہے اور والد سے رابطے میں رہنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ ان کے دونوں بچے بہت لائق اور صابر ہیں۔ اس وقت بھی تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ انہوں نے تکالیف بہت خاموشی سے سہی ہیں اور اپنے والد کے عزت و احترام میں کبھی کمی نہیں آنے دی۔ بعد میں عامر لیاقت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا مگر وہ برے لوگ میں پھنس چکے تھے۔ انہی میں سے ایک نے ان کی ایک نامناسب وڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر لیک کر دی۔ وہ اس سانحے سے ٹوٹ گئے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے قریبی لوگ ان کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ گوشہ نشینی میں چلے گئے اور ایک دن ان کی ناگہانی موت کی خبر نے سب کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ میں ان کی موت کو قتل سمجھتی ہوں۔ ان کے قاتل وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے ان کو مالیاتی مفاد کیلئے استعمال کیا۔ ان کو خاندان سے دور کیا‘ ان کی عزت کو ٹھیس پہنچائی۔ اس قتل میں وہ سب بھی برابر کے شریک ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر ان کی وڈیو کو پھیلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔ وہ یہ سب ہراسانی سہہ نہیں سکے اور رنج و غم کے ساتھ دنیا سے چلے گئے۔ اب بھی ان کا مقدمہ ان کی سابقہ اہلیہ بشریٰ اقبال عدالت میں لڑ رہی ہیں۔ کیس سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن عامر لیاقت کے بچے اور ان کی سابقہ اہلیہ‘ جو ایک وکیل اور پی ایچ ڈی سکالر ہیں‘ ان کیلئے انصاف چاہتے ہیں۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر کو اُس وقت سوشل میڈیا پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی ایک نامناسب وڈیو منظر عام پر آئی۔ ان کے مخالفین نے بہت کوشش کی کہ ان کا مذاق بنایا جائے اور ان کو توڑا جائے۔ وہ کچھ عرصہ خاموش بھی ہوگئے۔ اس موقع پر ان کے اہلِ خانہ‘ فین اور ناظرین ان کی ہمت بن گئے۔ خلیل الرحمن نے قانونی چارہ جوئی کی اور مقدمے کی پیروی کی۔ جب کسی مرد کوہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں‘ اس کی کردار کشی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ کھڑا ہونے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ تاہم خلیل الرحمن قمر نے وکلا کی مدد سے قانونی جنگ لڑی اور گزشتہ دنوں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان کو سات سات سال کی قید سنائی ہے۔ اس سے پہلے مرکزی ملزمہ کی درخواستِ ضمانت لاہور ہائیکورٹ نے مسترد کر دی تھی۔ خلیل الرحمن قمر معاشرے کے جس طبقے پر تنقید کرتے تھے‘ اس واقعے نے ان کو اور ان کی بیٹی کو بہت تکلیف پہنچائی لیکن وہ خاموشی سے قانونی جنگ لڑتے رہے اور اس میں سرخرو ہوئے۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہی مرحوم عامر لیاقت حسین کو بھی انصاف ملے گا۔ یہ واقعات اس حقیقت کی نشاندہی ہیں کہ مرد بھی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد بھی گھریلو تشدد‘ جنسی استحصال‘ تنہائی‘ ڈپریشن‘ خوف اور گھریلو تنازعات کا شکار ہوتے ہیں۔ اگلی بار اگر کوئی مرد ہراسانی کے خلاف آواز اٹھائے تو اس کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کی بات سنیں‘ اس کی مدد کریں اور اس کی آواز بنیں۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ تم تو مرد ہو‘ مرد بنو‘ مسائل اور جرائم ختم نہیں ہوں گے۔ اس کے ساتھ مردوں کو بھی اخلاقیات کے دائرے میں رہنا چاہیے‘ ان کی زندگی پُرسکون رہے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں