ذیابیطس اور نیشنل ہیلتھ ایمرجنسی

سوشل میڈیا پر ایک پختون بزرگ کی وڈیو پر نظر پڑی۔ مجھے پشتو نہیں آتی تو میں ان کی بات سمجھنے سے قاصر تھی لیکن وڈیو میں یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ذیابیطس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں گینگرین ہو چکا ہے۔ میں نے دوست احباب سے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور پشتو زبان میں کیا کہہ رہے ہیں؟ میری دوست رابعہ خان‘ جو ماہرِ نفسیات ہیں‘ انہوں نے وڈیو دیکھ کر مجھے یہ بتایا کہ یہ پشتو کے مشہور کامیڈین میراوس ہیں اور ذیابیطس کا علاج نہ ہونے کے باعث ان کا پاؤں خراب ہو چکا ہے۔ بیماری اور تکلیف کی وجہ سے وہ اپنی فیملی کی کفالت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ گینگرین اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ یہ جسم کے جس حصے میں پھیل جائے اسے کاٹنا پڑتا ہے۔ یوں شوگر کا مریض معذور ہو جاتا ہے۔
میں نے ٹویٹر (ایکس) پر خیبر پختونخوا حکومت اور مختلف سیاسی شخصیات کو ٹیگ کرکے اپیل کی کہ اس بزرگ کا سرکاری سطح پر علاج کرایا جائے۔ عوام کی فلاح کیلئے کوئی مدد درکار ہو تو ٹویٹر ایک بہترین فورم ہے۔ میرے اس ٹویٹ کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے ترجمان نے بتایا کہ میراوس کو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے جہاں ان کی شوگر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے مالی حالات کو بہتر کرنے کے لیے ان کے بیٹے کو نوکری بھی دی جائے گی۔ میرے لیے یہ اقدامات باعثِ اطمینان تھے‘ لیکن یہاں پر جو اصل سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ پاکستان میں ہر تیسرا شخص ذیابیطس میں مبتلا ہے تو یہاں اس بیماری کو لے کر ہیلتھ ایمرجنسی کیوں نافذ نہیں کی جاتی۔ اس بیماری کا علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے غریب اس کا علاج کرانے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے پاس ڈاکٹروں کی فیس‘ ادویات اور انسولین کیلئے پیسے نہیں ہوتے‘ یوں وہ اس بیماری کی وجہ سے جلد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے شوگر کے بہت سے ایسے مریض بھی دیکھے ہیں جو علاج تو کراتے ہیں لیکن بدپرہیزی بہت کرتے ہیں اور اپنا مرض بگاڑ لیتے ہیں۔ بحیثیت قوم ہم سہل پسندی کے عادی ہیں۔ چہل قدمی اور ورزش سے ہماری جان جاتی ہے۔ بیٹھ کر باتیں کرنا اور طرح طرح کے پکوان کھانا ہم سب کا مرغوب مشغلہ ہے۔ہماری ضرورت سے زیادہ غذا‘ ورزش سے دوری‘ صحت کے معاملے میں غفلت‘ کھانے میں ملاوٹ اور سہل پسندی نے ذیابیطس کو وبائی مرض بنا دیا ہے۔ بالخصوص امرا میں سہل پسندی عام ہے‘ انہوں نے ہر کام کیلئے نوکر رکھے ہوئے ہیں‘ ایسے میں وزن بڑھنا اور بیماریاں پھیلنا فطری امر ہے۔ اسی طرح بہت سے افراد ذیابیطس کی تشخیص کے بعد دیسی ٹوٹکوں سے خود ہی اپنا علاج شروع کر دیتے ہیں اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے‘ یوں ان کا کیس بگڑ جاتا ہے۔
ذیابیطس کے پھیلاؤ کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں‘ اگر آپ کے خاندان میں کوئی ایک فرد اس بیماری میں مبتلا ہے تو آپ خطرے کی زد میں ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ سہل پسند ہیں‘ زیادہ دیر بیٹھے رہتے ہیں‘ واک نہیں کرتے‘ بیکری آئٹمز بہت شوق سے کھاتے ہیں‘ میٹھے کے شوقین ہیں یا آپ کا وزن زیادہ ہے تب بھی آپ اس بیماری کی زد میں آسکتے ہیں۔ٹینشن اور ڈپریشن بھی اس کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہیں۔ دراصل ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے جس میں خون میں گلوکوز کی مقدار ایک حد سے زیادہ تجاوز کرجاتی ہے‘ لبلبہ کم انسولین بناتا ہے۔ یہ انسولین ہی ہے جو انسانی جسم میں شوگر کو کنٹرول رکھتی ہے۔ اس بیماری کی دو اقسام ہیں‘ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ بچے اور حاملہ خواتین بھی اس بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ ٹائپ وَن عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتی ہے۔ اس کی علامات میں تھکاوٹ‘ پیشاب کا کثرت سے آنا‘ پیاس اور بھوک کا بار بار لگنا‘ نظر کی خرابی‘ پیروں اور ہاتھوں کا جلنا اور وزن میں نمایاں کمی ہونا ہے۔ ذیابیطس کی ٹائپ ٹو زیادہ تر عمر رسیدہ اور بالغ افراد کو ہوتی ہے۔ اس بیماری میں خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے اور انسولین بنانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اس کی علامات میں بہت زیادہ پیاس لگنا‘ رات کو بار بار پیشاب آنا‘ دھندلا نظر آنا‘ زخموں کا جلد نہ بھرنا‘ منہ کا خشک رہنا‘ ہاتھوں پیروں میں سوئیاں چبھنا اور ہر وقت تھکن محسوس ہونا شامل ہیں۔ ذیابیطس کا علاج موجود ہے اور اس میں مبتلا شخص پرہیز اور ادویات کے ساتھ صحتمند زندگی گزار سکتا ہے۔ ٹائپ وَن ذیابیطس میں انسولین کے انجکشن لگتے ہیں۔ بلڈ شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کیا جاتا ہے۔ ٹائپ ٹو میں دوا‘ غذا اور وزن کو کنٹرول کرکے علاج کیا جاتا ہے۔ اگر شوگر کے علاج پر توجہ نہ دی جائے تو یہ بیماری دل‘ آنکھوں‘ گردوں اور شریانوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے بانجھ پن‘ ہارٹ اٹیک‘ گردے فیل ہونا اور فالج کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ اس بیماری کے مریض موتیے کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے۔
یہ بیماری اپنے ساتھ بہت سی دیگر بیماریاں لاتی ہے جو انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ شوگر کی بیماری ترقی پذیر ممالک میں وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ تسلسل کے ساتھ پروسیسڈ غذا‘ بازاروں کا کھانا‘ میٹھے مشروبات اور بیکری آئٹم کھانے والے افراد کو یہ مرض زیادہ ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی آبادی اس مرض میں مبتلا ہے۔ گردن پر کالے نشان بننا‘ جلد پر ایسے دانے نکلنا جن کی جڑیں مضبوط اور جسم کے اندر ہوں اور آپ انہیں نکال نہ سکیں‘ زخموں کا دیر سے بھرنا اورآنکھوں کے امراض وغیرہ سے پتا چلتا ہے کہ آپ ذیابیطس کا شکار ہونے والے ہیں۔ جب آپ کو پری ڈائبیٹک علامت خود میں نظر آنے لگیں اور آپ نے اسی وقت اس مرض کو بڑھنے سے روک لیا تو آپ اس بیماری سے بچ سکتے ہیں۔ پری ڈائبیٹک صورتحال کو ریوریس کرنے کیلئے وزن کم کرنا اور متوازن غذا کا استعمال یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے۔
جب شوگر کا عارضہ لاحق ہو جائے تو بہت سے لوگ وزن کم کرکے اس بیماری کے اثرات کو کم کر لیتے ہیں۔ زیادہ وزنی افراد کوئی سخت ورزش نہیں کر پاتے‘ ان کا سانس پھولتا ہے اور وہ جلدی تھک جاتے ہیں۔ زیادہ وزن کی وجہ سے گھٹنے بھی جواب دے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہلکی واک سے اپنا وزن کم کر سکتے ہیں۔ شوگر میں مبتلا افراد اگر زیادہ دیر بھوکے رہیں تو ان کا شوگر لیول لو ہو جاتا ہے‘ جس سے غنودگی کی کیفیت طاری ہو سکتی ہے۔ اس لیے شوگر کے مریض ہائپرگلیسیما سے بچنے کیلئے دن میں تین سے چار مرتبہ کھانا ضرور کھائیں۔ پری ڈائبیٹک افراد کو بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شوگر کے مرض میں زخم جلد نہیں بھرتے اور اگر زخم خراب ہوجائے تو گینگرین ہوجاتا ہے‘ پھر وہ عضو جسم سے کاٹ کر الگ کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر افراد شوگر کی ٹائپ ٹو کا شکار ہیں جس کی وجہ محض وزن کی زیادتی اور ورزش نہ کرنا ہے۔اس لیے خود بھی اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ صحتمند طرزِ زندگی اپنائیں‘ متوازن غذا کھائیں اور ہلکی پھلکی واک ضرور کریں۔ غذا میں سبزی‘ پھل اور سلاد کو لازمی شامل کیا جائے۔پانی زیادہ سے زیادہ پیا جائے۔ چکنائی اورتمباکو نوشی سے پرہیز کیا جائے۔ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھا جائے۔باقاعدگی سے معائنہ کرایا جائے۔ اس بیماری سے ہونے والے نقصانات بہت شدید اور جان لیوا ہیں۔ حکومت کو قومی سطح پر تیزی سے بڑھتے اس مرض پر فوری متوجہ ہونا چاہیے اور ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرکے عوام کو ذیا بیطس کا مفت علاج فراہم کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں