شہرِ اقتدار کا ماند پڑتا حسن

جن قوموں کو اونچی عمارتوں‘ مہنگی گاڑیوں اور کارنر پلاٹس کا شوق ہوتا ہے ان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی سے بچاؤ اور ماحولیات کا تحفظ ترجیح نہیں ہوتی۔ پیسے کی دوڑ میں ترقی کے نام پر انسان سب سے پہلے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے۔ قدرت پہلے تو خاموشی سے یہ سب سہتی رہتی ہے پھر آہستہ آہستہ اس کا قانونِ توازن حرکت میں آتا ہے اور انسانی نظام میں بگاڑ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد میں گزشتہ کئی ماہ سے بارش نہیں ہوئی لیکن شہرِ اقتدار کے باسیوں اور یہاں کے کرتا دھرتائوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ماحول میں کتنا شدید بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ قدرت پہلے اپنے نظام کی آہستہ آہستہ مرمت کرتی رہتی ہے لیکن اگر ماحول کیلئے نقصان دہ انسانی سرگرمیاں مسلسل جاری رہیں تو قدرت کا ماحولیات کی از خود مرمت کرنے کا نظام انسانی بقا کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
آج کا اسلام آباد‘ ماضی کے شہر سے مکمل طور پر الگ ہے۔ ہم تقریباً پندرہ سال سے اس حوالے سے آواز اٹھا رہے ہیں لیکن کہیں کوئی شنوائی ہی نہیں۔ یہاں اب بہار اور خزاں کے موسم اپنا بھرپور جوبن نہیں دکھاتے اور گرمی کا دورانیہ مارچ سے نومبر تک پھیل چکا ہے۔ دسمبر سے فروری جو تھوڑی بہت سردی پڑتی ہے وہ بھی بنا بارش کے‘ جس سے موسمی امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ تاہم اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔ جب جس کا دل کرتا ہے ترقی کے نام پر درختوں کی کٹائی شروع کر دیتا ہے جس سے اس شہر کا حسن ماند پڑتا جا رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ ہر طرف ٹریفک کا شور اور دھواں ہے۔ شہر میں دو نئے ایونیو تعمیر ہو رہے ہیں اور وہاں کی ٹریفک کا سارا بوجھ ایف ٹین چوک اور مارگلہ روڈ پر منتقل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے جی نائن‘ ایف ایٹ‘ ایف سِکس اور جی سِکس جانے کیلئے گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسنا پڑتا ہے۔ لوگ روز روز کی اس خواری سے تنگ آ کر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس جگہ یہ سڑکیں اور انڈر پاس تعمیر ہورہے ہیں وہاں ٹریفک کو مینج کرنے کیلئے ٹریفک پولیس ہی موجود نہیں ہوتی۔ ٹریفک کا زیادہ مسئلہ انہی سائٹس کے اطراف میں ہے۔
بغیر منصوبہ بندی کے ایک ساتھ شہر میں کئی مقامات پر ترقیاتی کام شروع کر دینا شہریوں کیلئے اذیت کا باعث بنتا ہے۔ اسلام آباد کو اتنی سڑکوں کی ضرورت نہیں جتنی نئے رہائشی منصوبوں کی ہے۔ متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو شہر میں نئے رہائشی سیکٹرز بنانے چاہئیں۔ مکانات کی کمی کے باعث یہاں کرایوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ ہوشربا کرایوں سے تنگ آچکے ہیں۔ شہرِ اقتدار کے باسیوں کو صاف پانی اور حکومت کی طرف سے طے شدہ اوقاتِ کار میں بھی سوئی گیس میسر نہیں ہوتی۔ سرکاری پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بورنگ کرانے کا رجحان بڑھ رہا ہے جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح مزید نیچے جانے کا خدشہ ہے۔ اس شہر کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال بھی بدانتظامی کا شکار ہے۔ ناکافی سہولتوں کے علاوہ ہسپتال میں صفائی کا انتظام بھی نہایت ناقص ہے۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹرز اور عملہ تو موجود ہوتا ہے لیکن ایمرجنسی کی صورت میں بھی ادویات باہر سے خریدنا پڑتی ہیں۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کے پاس ضروری سامان تک موجود نہیں ہوتا۔ڈاکٹرز کے پاس اپنے لیے دستانے اور ماسک موجود نہیں‘ جو ان کی حفاظت کیلئے ازحد ضروری ہیں۔ تاہم یہ مسائل کسی کو نظر نہیں آتے‘ یہاں آنے والے ہر حکمران کی اولین ترجیح صرف سڑکوں کی تعمیر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا وژن سڑکوں‘ فلائی اوورز اور انڈر پاسز تک محدود ہو چکا ہے۔ مجھے ترقی کا یہ وژن سمجھ نہیں آتا جس میں قدرتی حسن کی حفاظت ہی یقینی نہیں بنائی جاتی۔ کیا کسی بھی شہر کو صرف سڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟ ایسا بالکل نہیں ہے! شہروں کو سبزے اور درختوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ شہریوں کو سانس لینے کیلئے صاف ہوا اور صحت بخش ماحول میسر آ سکے۔ اس کے بعد پینے کا صاف پانی‘ رہنے کیلئے پُرسکون رہائش‘ اچھی اور سستی تعلیم‘ عزت والاروزگار اور امن وامان والا معاشرہ چاہیے ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں سٹریٹ کرائمز قابو سے باہر ہیں اور صرف اسلام آباد ہی کیا‘ ملک بھر کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ جس ادارے کی اولین ذمہ داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے‘ اسے سیاستدانوں کو پروٹوکول دینے میں اُلجھا دیا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں جو انتقام کی سیاست چل رہی ہے‘ اس تناظر میں کسی سیاستدان کے پاس عوام کی فلاح بارے سوچنے کا وقت ہی کہاں ہے۔
ایک طرف عوام کے معاشی مسائل ہیں تو دوسری طرف ماحولیات کے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کی ایک ایڈوائزری کے مطابق رواں سیزن ملک میں معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں جس سے خشک سالی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے جہاں بارانی علاقوں میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے وہیں خشک سردی اور آلودگی کی وجہ سے بیماریاں بھی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔محکمہ صحت کی طرف سے ان موسمی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے حوالے سے کوئی آگاہی فراہم نہیں کی جا رہی۔ سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کی کمی کے پیشِ نظر جب لوگ نجی ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں معمولی بخار کے علاج کا بھی ہزاروں میں بل بن جاتا ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے ماحول کو صاف رکھنے کیلئے پہلے سے موجود درختوں کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ نئے درخت بھی لگائے جائیں تو آلودگی سے پھیلنے والی بیماریوں میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ شہرِ اقتدار سے جب بڑی تعداد میں پائن کے درخت کاٹے گئے تو ان کی جگہ پام ٹری لگادیے گئے جو شہر کی آب وہوا سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایک تن آور درخت کو کاٹنے میں چند منٹ لگتے ہیں لیکن ایک پودے کو درخت بننے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ درختوں کی کٹائی سے ماحولیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس وقت اسلام آباد کو نہ صرف صفائی کے بہترین نظام بلکہ نئے درختوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی شہر کو سیمنٹ اور کنکریٹ سے بنی عمارتیں یا برقی قمقمے نہیں بلکہ ہریالی خوبصورت بناتی ہے۔ اسلام آباد چونکہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے اس لیے یہاں تعمیرات میں اس حوالے سے خصوصی انتظامات ہونے چاہئیں تاکہ زلزلے کی صورت میں نقصان کی شرح کم سے کم رہے۔ موسموں کا توازن بگڑنے سے ہمارا طرزِمعاشرت بھی متاثر ہورہا ہے اور ماحولیات کو نقصان پہنچانے میں سب سے زیادہ حصہ ٹریفک کے کاربن اخراج کا ہے۔ ایک گھر میں اگر چار گاڑیاں موجود ہیں تو سبھی افراد ایک ہی گاڑی میں جانے کے بجائے الگ الگ گاڑی پر جانے کو ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے کاربن اخراج بہت بڑھ جاتا ہے۔ حکومت کو سب سے پہلے ٹریفک کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ لوگوں کو خود بھی ماحولیات کا خیال رکھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے آج شہرِ اقتدار کا حسن ماند پڑ چکا ہے اور انتظامیہ کو کوئی پروا نہیں ہے۔ فروری باغبانی اور شجرکاری کے لیے موزوں ترین مہینہ ہے۔ حکومت کو اس مہینے میں نہ صرف اسلام آباد بلکہ ملک بھر میں شجر کاری کی خصوصی مہم شروع کرنی چاہیے۔ اسلام آباد میں پائن‘ کچنار‘ زیتون‘ امرود‘ مالٹا‘ شیشم‘ پیپل‘ نیم‘ املتاس اور مورنگا کے پودے لگائے جائیں جواس شہر کے موسم سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں جتنے زیادہ پائن کے درخت لگائے جائیں گے اس شہر کے موسم میں اتنی ہی زیادہ خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ اگر اب بھی اسلام آباد میں ماحولیاتی بہتری کیلئے اقدامات نہ کیے گئے تو بہت جلد یہ شہر آلودگی کے حوالے سے لاہور کے برابر کھڑا ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں