سالِ نو اور پاکستان

سال 2024ء ختم ہوا‘ اس دوران پاکستان میں ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ جن کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس سال وہ الیکشن ہو گئے‘ جن کو مسلسل دو سال سے لٹکایا جا رہا تھا۔ یہ الیکشن اتنے آسان نہیں تھے۔ تحریک انصاف کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ان کے ارکان کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے گئے تو ان سے کاغذات چھین لیے گئے۔ گرفتاریاں‘ گھروں پر چھاپے جبکہ بیشتر مرکزی قیادت جیل میں تھی۔ ان کے کارکنان اور لیڈران نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اور عوام کی بڑی تعداد ووٹ دینے کیلئے باہر نکلی‘ تاہم الیکشن کی رات یکدم سب کچھ بند ہوگیا۔ ابتدائی نتائج میں تحریک انصاف واضح اکثریت سے جیت رہی تھی لیکن پھر موبائل‘ انٹرنیٹ سب کچھ بند ہو گیا۔ جب موبائل کے سگنل واپس آئے اور انٹرنیٹ بحال ہوا تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سبقت لے جا رہی تھیں۔ بہت سے لوگ جو فارم 45 پر الیکشن ہار چکے تھے‘ ان کو فارم 47 پر فاتح قرار دے دیا گیا۔ بہت سے لوگ اپنے فارم 45 لے کر ٹربیونلز میں گئے لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کا خوب شور کیا گیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اب تک‘ عدالت عظمیٰ کے واضح فیصلے کے بعد بھی تحریک انصاف کو اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں مل سکی ہیں۔ یہ ایک آدھی ادھوری اسمبلی ہے کیونکہ اس میں ایک بڑی سیاسی جماعت کی نمائندگی ہی موجود نہیں۔
اس سال اسمبلی میں بھی بہت کچھ دیکھنے کو ملا‘ جس سرعت سے قانون سازی اور آئین میں ترمیم ہوئی‘ وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ پولیس بھی پارلیمان میں داخل ہوئی تاکہ ارکانِ اسمبلی کو گرفتار کیا جا سکے۔ دو ماہ کی کشمکش کے بعد چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی اور اس کے تحت سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 179 میں بھی ترمیم کی گئی اور چیف جسٹس کی عمر کی حد 65 سال اور مدتِ ملازمت تین سال کر دی گئی۔ سپریم کورٹ اور صوبائی ہائیکورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیے گئے۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات آئینی بینچ کو منتقل کر دیے گئے۔ چیف جسٹس کا تقرر سنیارٹی کے بجائے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ آرٹیکل 48میں ہونے والی ترمیم کے تحت وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر کو دی جانے والی تجویز پر کوئی سوال نہیں ہوسکتا۔ یکم جنوری 2028ء تک سود کا خاتمہ کرنے کا عزم کیا گیا جبکہ چیف الیکشن کمشنر ریٹائرمنٹ کے بعد‘ نئے تقرر تک کام جاری رکھیں گے۔ کُل ملا کر 25آئینی شقوں میں یکبارگی ترمیم کر لی گئی۔
اگر ہم سیاسی ماحول دیکھیں تو وہ پورا سال کافی کشیدہ رہا۔ اب بھی بہت سے سیاسی قیدی جیل میں ہیں اور کچھ افراد کو ملٹری کورٹس سے بھی سزا سنائی گئی ہے‘ جس پر امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین نے تشویش کا اظہار کیا۔ بشریٰ بی بی کو اس سال رہائی نصیب ہوئی لیکن یاسمین راشد اب تک پابندِ سلاسل ہیں۔ پورا سال دھرنے اور احتجاجی جلوس جاری رہے۔ دھرنوں اور جلسوں کے دوران اسلام آباد کا رابطہ پورے ملک سے عملی طور پر کاٹ دیا گیا جبکہ 26 نومبر کو جو کچھ ڈی چوک میں ہوا‘ وہ ملکی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ سیاست میں احتجاج سیاسی کارکنان کا حق ہے لیکن ان پر تشدد یا ملک بند کر دینا افسوسناک ہے۔ اسلام آباد احتجاج کے دوران جب کنٹینر پر سے نماز پڑھتے کارکن کو نیچے دھکا دیا گیا تو اس پر سخت ردِعمل آیا۔
اگر شعبۂ صحت کی طرف دیکھیں تو پاکستان 2024ء میں بھی پولیو فری نہیں ہو سکا اور پورے سال میں پولیو کے 68 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 2023ء میں پولیو کے صرف 6 کیسز سامنے آئے تھے۔ اس کے علاوہ سینے اور سانس کے امراض‘ ذیابیطس اور دل کے امراض میں بھی اضافہ ہوا۔ ادویات کی قیمتیں کئی گنا تک بڑھ گئیں اور غریب افراد اپنا علاج کرانے سے قاصر رہے۔ امن و امان کے حوالے سے بھی یہ سال کافی تلخ رہا۔ ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ اسلام آباد میں سٹریٹ کرائم اور چوری و ڈکیتی کے واقعات اس حد تک بڑھ گئے کہ وفاقی دارالحکومت میں دن دہاڑے بینک لوٹے گئے۔ لوگوں کی بڑی تعداد فون اور پرس چھینے جانے کی شکایت کر رہی ہے لیکن اسلام آباد پولیس کا زیادہ فوکس سیاسی کارکنان کی طرف رہا۔ اُدھر کرم میں دو قبائل کی لڑائی سینکڑوں بے گناہوں کی جان لے گئی۔ تقریباًڈیڑھ ماہ تک وہاں مرکزی شاہراہ بند رہنے سے ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو گئی۔ 2024ء میں معیشت کے حالات بھی زیادہ اچھے نہیں رہے۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضے پر چلتا رہا۔ اکتوبر تک حکومت کے مقامی قرضوں میں 4632ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ عوام مزید بدحال ہوئے اور بجلی کے ماہانہ بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ‘ لائن لاسز اور کپیسٹی پیمنٹ کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا گیا۔ گرمی میں وہ ہوشربا بل آئے کہ لوگوں نے اپنے زیور بیچ کر بل ادا کیے۔ مہنگائی کی وجہ سے متوسط طبقہ پس کر رہ گیا مگر حکومت دعویٰ کرتی رہی کہ مہنگائی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ یہ حکومتی حساب عوام کی سمجھ سے باہر ہے۔ کسانوں نے بھی اس سال شدید مشکلات دیکھیں اور اپنی پیداواری لاگت کی وصولی بھی نہ کر سکے۔ سب سے زیادہ نقصان گندم کے کاشتکاروں کو ہوا۔ تاجروں اور صنعتکاروں نے الگ سے نقصانات برداشت کیے۔ تنخواہ دار طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوشش کرتا رہا اور ان پر ٹیکسز مزید بڑھا دیے گئے۔
2024ء پاکستانی صحافیوں کیلئے بھی کڑا رہا اور 11 صحافی اس سال قتل ہوئے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم نے پاکستان کو جنگ زدہ غزہ کے بعد صحافیوں کیلئے دوسرا خطرناک خطہ قرار دیا۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو ٹرولنگ اور سنسر شپ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2024ء میں ٹویٹر (ایکس) کو پاکستان میں بین کر دیا گیا جبکہ انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی بھی جاری رہی اور فری لانسرز نے بھاری مالی نقصان برداشت کیا۔ پاکستان میں فائیو جی سروسز ابھی تک شروع نہیں ہو سکیں اور وی پی این بھی بین ہو گیا۔ فائر وال کی تنصیب اور انٹرنیٹ کی بندش سے ای کامرس بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس سال بھی پاکستان ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں رہا اور بدترین سموگ کا سامنا کیا۔
اگر سپورٹس کی بات کریں تو کرکٹ میں اتار چڑھائو دیکھنے کو ملا۔ ٹیم کی کارکردگی سال کے شروع میں متاثر کن نہیں تھی۔ T20 ورلڈ کپ کے پہلے مرحلے میں قومی ٹیم باہر ہوگئی اور پھر اپنے ہوم گرائونڈ پر بنگلہ دیش سے ٹیسٹ سیریز ہار گئی مگر پھر انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی اور کینگروز کو ہوم سیریز میں وائٹ واش کر کے ریکارڈ قائم کیا ‘ جس سے کرکٹ کے شائقین میں امید اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم 2024ء کی سب سے بڑی سپورٹس خوشخبری ارشد ندیم کا پیرس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنا تھا۔
اس سال دو ایسے واقعات ہوئے جن سے ملک میں بڑھتی عدم برداشت عیاں ہوتی ہے۔ ایک تو ڈسکہ میں زہرا کا سسرالیوں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل اور دوسرا ہجوم کے ہاتھوں ڈاکٹر شاہنواز کا قتل۔ حکومت کو اس وقت سفارتی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے‘ چین جیسا دوست خاموش ہے‘ امریکہ کے نامزد ایلچی رچرڈ گرینیل سے حکومتی ارکان بحث کر رہے ہیں‘ یہ سب ریاست کیلئے اچھا نہیں ہے۔ افغانستان کیساتھ سلگتا محاذ ملک میں کون سا طوفان اٹھا دے‘ اس بارے کسی نے نہیں سوچا۔ نائن الیون کے بعد جب ہم ایک پرائی جنگ کا حصہ بنے تھے تو پاکستان کے ہرکونے میں دھماکے ہونے لگے تھے‘ ہزاروں لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ موجودہ سیاسی و معاشی حالات اور سفارتی چیلنجز کیساتھ ہم کسی نئی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سالِ نو میں ہم ان تمام مسائل کیساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ محض ایک نیا سورج ان مسائل کو حل نہیں کرے گا‘ جب تک ملک میں اصل جمہوریت نہیں آئے گی‘ انصاف نہیں ہو گانہ تو کرپشن ختم ہو گی اور نہ ہی مسائل کا حل نکلے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں